قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے علاقے کے حالات اور تیونس، مصر، بحرین، یمن اور لیبیا کے عوامی انقلابات کو انتہائی اہم تغیرات سے تعبیر کیا۔
نئے ہجری شمسی سال سنہ تیرہ سو نوے کے آغاز پر قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیر کے روز فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اہم ترین ملکی امور اور علاقائی تغیرات پر روشنی ڈالی۔
خطے کی عوامی تحریکوں کے محرکات
آپ نے علاقے کی عوامی تحریک کو بہت اہم اور عرب و اسلامی خطے میں بنیادی تبدیلی اور امت اسلامیہ کی بیداری کی نوید سے قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ان تحریکوں کی دو اہم ترین خصوصیتیں ہیں، ایک ہے عوام کا پوری طرح میدان میں آ جانا اور دوسرے ان کی دینی و معنوی شناخت۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق علاقے میں ان تحریکوں کے وجود میں آنے کی اصلی وجہ ظالم حکام کے غلط روئے کے باعث خطے کے عوام کے وقار اور غیرت و حمیت کا مجروح ہونا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مثال کے طور پر مصر میں حسنی مبارک کا طرز عمل اور صہیونی حکومت کی نمائندگی میں خاص طور پر غزہ کے سلسلے میں انتہائی مجرمانہ اقدامات کی انجام دہی، لیبیا میں قذافی کی کارکردگی اور مغرب کی کھوکھلی دھمکیوں اور معمولی وعدوں کے بدلے میں ملک کے ایٹمی وسائل کو امریکہ کے سپرد کر دینا، ایسے اقدامات تھے جن سے عوام کی غیرت اور حمیت کو ٹھیس پہنچی۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ ایران کے خلاف بھی امریکہ کی سرکردگی میں مغرب کی جانب سے شدید دھمکیاں اور دباؤ تھے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن ان دھمکیوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کے ارادوں میں نہ صرف یہ کہ تزلزل پیدا نہیں ہوا بلکہ انہوں نے اپنے ایٹمی وسائل میں ہر سال اضافہ ہی کیا۔
عوامی تحریکوں کے سلسلے میں امریکی موقف کی حقیقت
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کے واقعات کے سلسلے میں امریکیوں کے موقف اور کارکردگی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ان واقعات پر پہلے تو امریکی حکام دم بخود اور خالی الذہن نظر آئے اسی لئے انہوں نے متضاد بیانات بھی دئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ڈکٹیٹروں کی حمایت امریکیوں کی دیرینہ روش رہی ہے اور انہوں نے حسنی مبارک کا بھی آخری لمحے تک دفاع کیا لیکن جب انہیں اندازہ ہو گیا کہ مبارک کی حکومت اب جاری نہیں رہ سکتی تو اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا۔ یہ چیز امریکہ کی کاسہ لیسی کرنے والے تمام حکام کے لئے درس عبرت ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر کے آمر کے سقوط کو امریکہ کی مشرق وسطی پالیسی کے لئے بہت بڑا دھچکا قرار دیا اور فرمایا کہ امریکہ جب بن علی اور حسنی مبارک کو بچانے کے سلسلے میں مایوس ہو گیا تو اس نے خباثت آمیز، موذیانہ اور سطحی حرکتیں شروع کر دیں تاکہ تیونس اور مصر کے آمرانہ نظاموں کے اسی ڈھانچے کو برقرار رکھ سکے لیکن عوام کا قیام مسلسل جاری رہنے کی وجہ سے یہ حربہ بھی ناکام ہو گیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس حربے کی ناکامی کے بعد امریکہ نے موقع پرستی اور نظیر تراشی کے دو حربے اپنائے۔ موقع پرستی اور انقلابوں کو ہائی جیک کرنے کی کوشش بھی ناکامی سے دوچار ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی نے نظیر تراشی کی امریکی سازش کے سلسلے میں علاقے کے واقعات کے لئے، دینی جمہوریت والے ایران اور قوم کے ذریعے چلنے والے ایران میں ایک نظیر تراشنے کی امریکہ کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ پست اور خواہشات نفسانی کے اسیر کچھ عناصر کو استعمال کرکے ایران میں (علاقے کی تحریک کا) ایک مضحکہ خیز کارٹون سامنے لائیں لیکن انہیں ملت ایران کے ہاتھوں منہ کی کھانی پڑی اور ان کا یہ حربہ بھی شکست سے دوچار ہوا۔ قائد انقلاب اسلامی نے خطے کی عوامی تحریکوں کے سلسلے میں امریکہ کے موقف اور قوموں کی حمایت کے اس کے دعوؤں کو منافقانہ قرار دیا اور ملت ایران کی حمایت سے متعلق امریکی صدر کے تازہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ موجودہ امریکی صدر جو کچھ بول رہے ہیں خود اس کا مطلب سمجھتے بھی ہیں یا ناواقفیت اور بوکھلاہٹ کے شکار ہیں؟! وہ کہتے ہیں کہ (تہران کے) آزادی اسکوائر پر جمع ہونے والے عوام (قاہرہ کے) التحریر اسکوائر پر جمع ہونے والے مصری عوام کی مانند ہیں جبکہ تہران کے آزادی اسکوائر پر گیارہ فروری ( ایران کے اسلامی انقلاب کی سالگرہ) کے دن ایرانی عوام ہر سال جمع ہوتے ہیں اور امریکہ مردہ باد ان کا سب سے اصلی نعرہ ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ قوموں کی حمایت کا امریکیوں کا نعرہ ہمیشہ جھوٹا نعرہ رہا ہے، وہ نہ صرف یہ کہ علاقے کے عوام پر رحم نہیں کرتے بلکہ اپنی قوم کے لئے بھی ان کے اندر کوئی جذبہ ترحم نہیں ہے۔ چنانجہ موجودہ امریکی صدر ملکی معیشت کی انتہائی بحرانی صورت حال میں بھی امریکی عوام سے حاصل کی جانے والی ہزاروں ارب ڈالر کی رقم اسلحہ سازی اور تیل کی کمپنیوں کی جیب میں ڈال رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کی عوامی تحریکوں کا جائزہ لیتے ہوئے لیبیا کے واقعات کی جانب بھی اشارہ کیا اور فرمایا کہ لیبیا کے مسئلے میں اسلامی جمہوریہ ایران حکومت کے ہاتھوں عوام کے قتل عام کی بھی مذمت کرتا ہے اور امریکہ سمیت مغربی ممالک کے حملوں کو بھی قابل مذمت جانتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے لیبیا کے عوام کی حمایت میں فوجی کارروائی شروع کرنے کے امریکہ اور مغربی ممالک کے دعوے کو بالکل ناقابل اعتبار قرار دیا اور فرمایا کہ اگر وہ واقعی لیبیا کے عوام کے خیر خواہ ہیں تو کیوں ایک مہینے تک بے گناہ عوام کے قتل عام پر مہر بلب بیٹھے رہے اور کوئی اقدام انجام نہیں دیا؟!
آپ نے فرمایا کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک لیبیا کے تیل اور اس ملک میں ایک ٹھکانے کے حصول کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں تاکہ تیونس اور مصر کی آئندہ کی حکومتوں پر بھی نظر رکھ سکیں۔
لیبیا کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی کارکرگی
قائد انقلاب اسلامی نے لیبیا کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی کارکردگی کی بھی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اس ادارے کے لئے کلنک کا ٹیکا قرار دیا اور فرمایا کہ اقوام متحدہ قوموں کی مدد کرنے کے بجائے امریکہ سمیت مغربی ممالک کا آلہ کار بن کر رہ گئی ہے۔
بحرین کی عوامی تحریک کے سلسلے میں امتیازی رویہ
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں بحرین کے مسئلے کا بھی ذکر کیا اور فرمایا کہ بحرین کے عوامی قیام کی ماہیت اور مصر، تیونس، لیبیا اور یمن کے عوامی انقلابات میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ بحرین کےعوام بھی آزادانہ انتخابات میں اپنے حق رائے دہی کے استعمال کے طالب ہیں اور یہ کوئی بہت بڑا مطالبہ نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بحرین کے مسئلے میں امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے شیعہ سنی مسئلہ اٹھائے جانے کو علاقے کے امور میں مداخلت کے لئے بہانہ تراشنے کی کوشش سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ امریکی، بحرین میں شعہ سنی مسئلہ چھیڑ کر بحرین کی عوامی تحریک کے سلسلے میں رائے عامہ کی حمایت اور مدد کا راستہ بند کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے امریکیوں کے اس جال میں بعض لوگوں کے گرفتار ہو جانے پر افسوس ظاہر کیا اور فرمایا کہ بحرین کے مسئلے میں شیعہ اور سنی کا مسئلہ اٹھانا امریکہ اور دشمنان اسلام کی بہت بڑی خدمت کرنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے فلسطینی کاز کی حمایت اور خاص طور پر بائیس روزہ جنگ میں فلسطینیوں کی پر زور حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے فلسطینی قوم اور تیونس، مصر، لیبیا اور یمن کے انقلابات کی حمایت کی جبکہ ان ممالک کے عوام شیعہ نہیں ہیں کیونکہ ان امور میں شیعہ سنی کی کوئی بات ہی نہیں ہے لہذا بحرین کے مسئلے میں بھی صرف اس وجہ سے کہ وہاں کے عوام شیعہ ہیں سکوت اختیار کرنا مناسب نہیں ہے۔ آپ نے بحرین کے مسئلے میں سعودی عرب کی مداخلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکیوں اور علاقے میں ان کے مہروں کی بے شرمی کی یہ انتہا ہے کہ بحرین میں سعودی عرب کے ٹینکوں کی موجودگی کو مداخلت ماننے پر تیار نہیں ہیں لیکن بحرین کے عوام کے قتل عام پر علمائے کرام اور خیر خواہ افراد کے احتجاج کو ایران کی مداخلت قرار دے رہے ہیں۔
بحرین کے مسئلے میں سعودی عرب کی اہم غلطی
قائد انقلاب اسلامی نے بحرین میں سعودی عرب کی فوجی مداخلت کو بہت بڑی غلطی قرار دیا اور فرمایا کہ اس اقدام سے علاقے میں سعودی عرب کی حکومت کے خلاف نفرت پھیلے گی اور یقینی طور پر سعودی عرب کو سنگین قسم کے نقصانات ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے علاقے کے حالات کے سلسلے میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خطے میں جو نئی لہر پیدا ہوئی ہے وہ امت اسلامیہ کی لہر اور اسلامی اہداف و مقاصد والی تحریک ہے جسے وعدہ الہی کے مطابق یقینی طور پر فتح حاصل ہوگی اور علاقے میں امریکہ کی شکستوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ آپ نے فرمایا کہ علاقے کے واقعات کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف قوموں اور ان کے حقوق کا دفاع اور آمروں اور سامراجی طاقتوں کی مخالفت کرنا ہے۔
گزشتہ سال میں ایران کی پیشرفت کا جائزہ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گزشتہ ہجری شمسی سال سنہ تیرہ سو نواسی میں ملک کی مجموعی پیشرفت کا بھی جائزہ لیا۔ آپ نے سائنس و ٹکنالوجی، سبسیڈی کی با مقصد اور منصفانہ تقسیم کے منصوبے پر عملدرآمد اور مغرب کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا دانشمندی اور مضبوطی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے سلسلے میں گزشتہ سال کے نعرے بلند ہمتی اور دگنی محنت پر عمل آوری کی مثال پیش کی۔ قابل ذکر ہے کہ ایران میں قائد انقلاب اسلامی کی جانب سے ہر آنے والے سال کے لئے ایک نعرے کا تعین کیا جاتا ہے اور وہ سال اسی نعرے سے موسوم کیا جاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نئے سال سنہ تیرہ سو نوے ہجری شمسی (دو ہزار گيارہ-بارہ عیسوی) کے نعرے معاشی جہاد کے مختلف پہلوؤں اور ان کے تقاضوں اور لوازمات کا ذکر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں عید سعید نوروز کی ملت ایران اور یہ عید منانے والی دیگر قوموں کو مبارک باد پیش کی اور گزشتہ ہجری شمسی سال سنہ تیرہ سو نواسی (سنہ دو ہزار دس-گیارہ عیسوی) میں ملک کی مجموعی پیشرفت اور بلند ہمتی اور دگنی محنت کے نعرے پر عمل آوری کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ گزشتہ سال کے دوران عوام الناس اور حکام نے حقیقتا بلند ہمتی کا ثبوت پیش کیا اور بہت زیادہ کام انجام پائے، البتہ ان کے ثمرات دراز مدت میں سامنے آئیں گے تاہم اس کوتاہ مدت اور حالیہ چند مہینوں میں بھی مختلف شعبوں میں اس کے نتائج با قاعدہ نظر آنے لگے ہیں۔ آپ نے سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے کو بلند ہمتی اور دگنی محنت کی واضح مثال قرار دیا اور فرمایا کہ ملک میں چند سال قبل شروع ہونے والی علمی تحریک اب رفتار پکڑ چکی ہے اور روز بروز تیز سے تیزتر ہوتی جا رہی یہ تحریک دنیا کی جدید ترین اور اعلی ٹکنالوجی کے حصول پر مرکوز ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حیاتیات، ایر و اسپیس، نینو ٹکنالوجی، اسٹم سیلز، انتہائی اہم اور حساس نیوکلیئر میڈیسن کی پیداوار، کینسر کی دواؤں کی پیداوار، بادی ٹربائن انجن کی ساخت، سپر کمپیوٹر کی ساخت اور متبادل انرجی کی ٹکنالوجی کو دنیا کی جدید اور اعلی ٹکنالوجی قرار دیا اور فرمایا کہ ایرانی نوجوان تیز رفتاری کے ساتھ ان میدانوں میں آگے بڑھ رہے ہیں اور معتبر عالمی مراکز کی رپورٹوں کے مطابق ایران کی سائنسی پیشرفت کی رفتار دنیا کی رفتار سے زیادہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے علم و دانش کے شعبے میں ایران کی پیشرفت کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اوسطا 35 سال کی عمر کے جوانوں کی موجودگی، تیقن اور خود اعتمادی کا قوی جذبہ، علمی سرگرمیوں اور قومی سرمائے کی پیداوار کے درمیان تجارتی رابطہ اس علمی تحریک کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ آپ نے سائنسی سرگرمیوں کو تجارتی سطح تک لے جانے کے سلسلے میں فرمایا کہ اگر نئی سائنسی دریافت، اس دریافت کو ایک ٹکنالوجی میں تبدیل کرنے، پیداوار شروع کرنے اور سرانجام اسے تجارت کے میدان تک پہنچانے کے مربوط سلسلے کو مکمل کر لیا جائے تو نئی سائنسی دریافت کا سفر قومی ثروت کی پیداوار اور قوم کی ضروریات کی تکمیل پر منتج ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے سبسیڈی کی با مقصد اور منصفانہ تقسیم کے منصوبے کو بلند ہمتی اور دگنی محنت کے نعرے پر عملدرآمد کی ایک واضح مثال قرار دیا اور فرمایا کہ سبسیڈی کی با مقصد تقسیم کا منصوبہ جس پر تمام اہل نظر حضرات متفق ہیں برسوں پرانی آرزو تھی جس پر لطف خدا سے سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی میں عملدرآمد شروع ہوا اور اس پر عمل آوری میں حکومت اور عوام کے درمیان بہترین باہمی تعاون دیکھنے میں آیا۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ سبسیڈی کی با مقصد تقسیم کے منصوبے کے نتائج بلند مدت میں سامنے آئیں گے تاہم اس کوتاہ مدت میں بھی سبسیڈی کی با مقصد تقسیم کے منصوبے کے کچھ نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ آپ نے اس منصوبے کا مقصد سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم اور سماجی انصاف قائم کرنے کی سمت قدم بڑھانا قرار دیا اور فرمایا کہ اس منصوبے کے دوسرے اہداف میں انرجی کے استعمال کا صحیح مینیجمنٹ، معیار صرف کی حقیقی معنی میں اصلاح اور ملک کے اقتصادی ڈھانچے کی اصلاح کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے تیل کے علاوہ دیگر اشیاء کی برآمد کے فروغ اور تیل پر ملک کے قومی بجٹ کا انحصار ختم کئے جانے کے نصب العین کے قریب رسائی کو سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی میں بلند ہمتی اور دگنی محنت کی ایک اور مثال قرار دیا اور مزید فرمایا کہ اس کی ایک اور مثال امریکہ کی سرکردگی میں مغربی ممالک کی جانب سے عائدہ کردہ پابندیوں کا عوام اور حکام کی طرف سے دانشمندانہ اور مقتدرانہ مقابلہ ہے۔ خوش قسمتی سے مختلف شعبوں میں حکام کی مربوط اور بے تکان مساعی کی وجہ سے دشمن بے دست و پا ہو گیا اور اب خود مغربی ممالک یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پابندیاں بے اثر ہو چکی ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے روزگار کے مواقع ایجاد کرنے، شہری اور دیہی علاقوں میں مکانات کی تعمیر، سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر اور مواصلاتی شعبے کے اقدامات کو بھی اقتصادی میدان میں بلند ہمتی اور دگنی محنت کے نعرے پر عمل آوری کی اہم مثالوں سے تعبیر کیا اور گزشتہ سال کی ملکی پیشرفت کا اجمالی نتیجہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ سنہ نواسی حقیقی معنی میں بلند ہمتی اور دگنی محنت کا سال ثابت ہوا البتہ یہ چیز سنہ نواسی ہجری شمسی سے ہی مختص نہیں ہے بلکہ اس سال اور آئندہ برسوں میں بھی یہ سلسلہ بدستور جاری رہنا چاہئے تاکہ ملت ایران اپنے شایان شان مقام تک پہنچ جائے۔
معاشی جہاد کے تقاضے
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں نئے ہجری شمسی سال کو معاشی جہاد کا سال قرار دینے کے سلسلے میں بھی اہم نکات بیان کئے۔ آپ نے سب سے پہلے اس سال کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک میں بہت سے بنیادی اور انتہائی اہم کام انجام دینا ہے تاہم ارباب نظر کا ماننا ہے کہ موجودہ دور میں جن امور کو خاص ترجیج اور فوریت دی جانی چاہئے وہ اقتصادی مسائل ہیں اور اس سلسلے میں مجاہدانہ پیشرفت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر اسلامی نظام پوری دنیا اور تمام اقوام کو اقتصادی مشکلات حل کرنے کی اپنی توانائی سے روشناس کرائے تو اس سے ملک کی پیشرفت اور ملت ایران کے عز و وقار کو چار چاند لگ جائیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اقتصادی شعبے کے سلسلے میں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے میں طے شدہ اقتصادی ترقی کی شرح کو بنیادی معیار قرار دیا اور فرمایا کہ پانچ سالہ منصوبے میں اقتصادی ترقی کی کمترین شرح آٹھ فیصدی قرار دی گئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اقتصادی شعبے میں جو اہم کام انجام دئے جانے ہیں ان میں بے روزگاری کی شرح میں کمی ، روزگار کے نئے مواقع کی ایجاد، نجی سیکٹر کی سرمایہ کاری کا فروغ، کوآپریٹیو یونٹیں قائم کرکے نجی سیکٹر کی تقویت، قانونی لحاظ سے زمین ہموار کرنا، کام کی پیشرفت کی حمایت، زراعت کے شعبے میں بنیادی چیزوں خاص طور پر پانی کے استعمال میں کفایت شعاری اور معیشت میں عوام کو براہ راست شراکت دلانا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے معاشی شعبے میں عوام کو مکمل اطلاعات کی فراہمی اور معیشت میں شراکت کے لئے ان کو تقویت پہنچانے پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سلسلے میں میڈیا اور خاص طور پر ریڈیو اور ٹیلی ویزن چینلوں کا کردار بہت اہم ہے۔ انہیں چاہئے کہ عوام الناس کو اقتصادی اطلاعات اور معلومات سے آگاہ کریں جبکہ حکومت کو بھی چاہئے کہ اس سلسلے میں زیادہ فعال کردار ادا کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سنہ تیرہ سو نوے ہجری شمسی میں عظیم اقتصادی پیشرفت کے تقاضوں اور لوازمات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اقتصادی جہاد، معاشرے کے اندر اور خاص طور پر نوجوانوں کی سطح پر مجاہدانہ جذبے، گہری روحانیت و معنویت اور دینداری، ملک کے اندر فروعی اور غیر اہم باتوں پر ہنگامے سے اجتناب، عوام کے اندر، عوام اور حکام کے مابین اور اسی طرح آپس میں حکام کے درمیان قومی اتحاد و یکجہتی کے جذبے کی تقویت کا متقاضی ہے۔
ملکی حکام کو انتباہ
قائد انقلاب اسلامی نے مقننہ، عدلیہ اور مجریہ تینوں شعبوں کے حکام کو منظر عام پر آکر ایک دوسرے سے گلے شکوے کرنے کے سلسلے میں خبردار کیا اور فرمایا کہ ابتدائے انقلاب میں بھی حکام کے درمیان ایک دوسرے سے کچھ گلے شکوے ہوتے تھے اور یہ فطری بھی ہے لیکن گلوں اور شکوؤں کو عوام کے درمیان بیان کرکے انہیں پریشان اور مایوس نہیں کرنا چاہئے بلکہ آپس میں مل کر اسے حل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سال کے نام اور نعرے کے سلسلے میں بھی ایک انتباہ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ بعض اوقات تہران اور دیگر شہروں میں سال کے نام اور نعرے کو خاصا بجٹ صرف کرکے ہورڈنگ اور بینروں کی شکل میں سڑکوں کے کنارے نصب اور آویزاں کیا جاتا ہے، یہ کام بے سود اور قابل اعتراض ہے اور اس کے علاوہ ہر سال کے نام اور نعرے کے تعین کے اصلی ہدف کے منافی بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سال کے نام اور نعرے کا مقصد عملی اقدامات کا انجام دیا جانا ہے، اس نعرہ یا متعلقہ تصاویر کا ہورڈنگ اور بینروں کی شکل میں نصب کیا جانا نہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے یہ تاکید بھی فرمائی کہ سنہ تیرہ سو نوے ہجری شمسی میں معیشت کے علاوہ دیگر شعبوں بالخصوص سائنس و ٹکنالوجی کی جانب سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں عید نوروز کو اسلامی احکام پر عمل آوری کے لئے موقعہ غنیمت قرار دیا اور فرمایا کہ برسوں سے اور خاص طور پر اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد سے ایرانی عوام عید نوروز سے روحانیت اور قربت و معرفت الہی کے لئے استفادہ کرتے آئے ہیں جس کی ایک مثال تحویل سال کے موقع پر زیارت گاہوں اور دینی مقامات پر لوگوں کا جمع ہوکر دعا و مناجات میں مصروف نظر آنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران نے اس روایتی جشن کو دین و معنویت اور اسلامی اخلاقیات کی ترویج کے لئے استعمال کیا ہے۔