قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا ہے کہ دشمن اسلامي بيداري سے خوفزدہ ہے اور اس کي کوشش ہے کہ يہ اصطلاح بروئے کار نہ لائی جائے۔
تہران ميں منعقدہ اساتذہ اور اسلامي بيداري کے زير عنوان عالمي کانفرنس کے شرکا نے منگل کو قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي سے ملاقات کي۔ قائد انقلاب اسلامي نے کانفرنس کے مہمانوں اور شرکا سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا کہ اسلامي بيداري اور امت اسلاميہ ميں اس کا اثر و رسوخ آج کي دنيا کی ایک عظیم حقیقت ہے۔
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ اسلامي بيداري کے نتيجے ميں بعض ملکوں ميں انقلابات رونما ہوئے اور بد عنوان حکومتوں کا خاتمہ ہو گيا ہے۔
آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے فرمايا کہ اسلامي بيداري کي جڑيں گہري اور مضبوط ہيں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامي بيداري کي اصطلاح سے دشمنوں کے خوف و ہراس کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا کہ دشمنوں کي کوشش ہے کہ علاقے ميں جاري تحريکوں کو اسلامي بيداري کا نام نہ ديا جائے کيونکہ دشمنوں پر حقيقي اور اصلي اسلام کے پھيل جانے سے سخت خوف و وحشت طاری ہے۔
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ دشمن کو ايسے اسلام سے کوئي خوف نہيں ہے جو ڈالر کا غلام ہو جو برائيوں اور رئیسانہ تعیش ميں غرق ہو اور جس کي عوام ميں کوئي جڑ نہ ہو، ليکن وہ ايسے اسلام سے سخت خائف ہيں جو عملي زندگي ميں نافذ ہو اور عوام کي زندگي ميں بسا ہو اور جو اللہ پر توکل کرنے والا اسلام ہو۔
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ دشمن اس اسلام سے لرزہ براندام ہے جو وعدہ الہي پر يقين رکھتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ ہميں يقين ہے کہ موجودہ تحريکيں حقيقي معنی ميں اسلامي بيداري کي تحريکيں ہيں اور ان ميں تسلسل اور استحکام پايا جا رہا ہے، اسي لئے وہ آساني سے منحرف نہيں ہوں گي۔
قائد انقلاب اسلامي نے ان تحريکوں کو اسلامي کہنے کي اصل وجہ بيان کرتے ہوئے فرمايا کہ علاقے کے انقلابات کے دوران عوام کے اسلامي نعرے اور عظيم اجتماعات کے انعقاد ميں ديندار لوگوں کا کردار اور نتيجے ميں فاسد حکومتوں کی سرنگونی يہ سب باتيں اس خیال کي تائيد کرتي ہيں کہ يہ تحريکيں اسلامي تحريکيں ہيں۔
قائد انقلاب اسلامي نے مزید فرمايا کہ اس کے علاوہ ان تحريکوں کے اسلامي ہونے کي ايک دليل يہ بھي ہے کہ ان ملکوں ميں جہاں انقلاب کي کاميابي کے بعد انتخابات ہوئے ہيں عوام نے اسلام پسند اميدواروں اور جماعتوں کو ہي ووٹ ديئے ہيں۔
آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے فرمايا کہ اگر بيشتر اسلامي ملکوں ميں آزادانہ اور صحیح طريقے سے انتخابات ہوں اور ديني سياسي رہنما بھي ميدان ميں ہوں تو عوام اسلام پسندوں کو ہي ووٹ ديں گے۔
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ جہاں بھي اسلام اور اسلام پسند ہوں گے امريکا وہاں پوري قوت کے ساتھ کوشش کرے گا کہ ان کا صفايا کرے البتہ وہ ظاہري طور پر ان سے خندہ پیشانی سے پيش آتا رہے گا۔
آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا کہ عوامي حمايت کو محفوظ رکھنا خطے ميں آنے والے انقلابات کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔
آپ نے فرمايا کہ حقيقي طاقت عوام کي طاقت ہے اور جب بھي عوام ہمدل اور ہم آواز ہوکر اپنے قائدين کے پيچھے کھڑے ہو جائيں تو پھر امريکہ تو کيا، امريکہ سے بڑي طاقتيں بھي اس قوم کا کچھ نہيں بگاڑ سکتيں۔

قائد انقلاب اسلامي نے اس بات پر تاکيد فرمائي کہ عالمي سامراجي طاقتوں کي تمام تر سازشوں کے باوجود اسلامي دنيا ترقي کر رہي ہے۔ آپ نے فرمايا کہ غزہ کي آٹھ روزہ جنگ اسلامي دنيا کي اس ترقي کي واضح مثال ہے، جس ميں ايک جانب غزہ نامي چھوٹے سے علاقے کے لوگ تھے اور دوسري طرف دنيا کي طاقتور فوج رکھنے کي دعويدار صيہوني حکومت تھي ليکن جنگ بندي حماس کی شرطوں پر ہوئی۔ قائد انقلاب اسلامي نے استفسار کيا کہ آج سے دس سال پہلے تک کيا ايسا ہونا مکمن تھا؟ آپ نے فرمايا کہ اپني طرف سے تمام فلسطيني مجاہدين کا شکريہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس قدر جانثاري اور صبر کا مظاہرہ کيا۔
قائد انقلاب اسلامي نے غزہ کي آٹھ روز جنگ کو فلسطيني عوام اور پوري دنيا کے مسلمانوں کے لئے سبق آموز قرار ديا اور فرمايا کہ غزہ کي جنگ نے ثابت کر ديا ہے کہ اگر ہم سب متحدہ ہو جائيں اور سختيوں کو برداشت کريں تو سختيوں کے بعد آسانيوں کا الہي وعدہ پورا ہوکے رہےگا۔
آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے بحرين کي صورتحال کی جانب بھي اشارہ کيا اور فرمايا کہ افسوس يہ ہے کہ بحرين کے حوالے سے عالم اسلام نے خاموشي اختيار کر رکھي ہے۔
قائد انقلاب اسلامي نے شام کي صورتحال کا حوالہ ديتے ہوئے فرمايا کہ ايران کسي بھي مسلمان کے خون کا ايک قطرہ بھي بہائے جانے کا مخالف ہے۔ ليکن شام کي موجودہ صورتحال کے ذمہ دار وہ لوگ ہيں جنہوں نے اس ملک کو خانہ جنگي اور برادر کشي کي جانب دھکيل ديا ہے۔ آپ نے فرمايا کہ تمام قوموں کے مطالبات کو رائج طريقوں سے اور تشدد سے دور رہتے ہوئے پورا کيا جانا چاہيے۔