قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ اسلام کي نگاہ ميں مردوں اور خواتين ميں انساني حقوق اور معنوی اقدار کے لحاظ سے کوئی فرق نہيں ہے۔

ماہ رجب کے بابرکت مہينے کي آمد کي مناسبت سے مختلف سرکاري ومذہبي اداروں،

يونيورسٹيوں اور ثقافتي مراکز ميں سرگرم خواتين کي بڑی تعداد نے سنيچر کو قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي سے ملاقات کي- قائد انقلاب اسلامي نے اس ملاقات ميں خواتين کے بارے ميں اسلامي نقطہ نگاہ

پر زور ديتے ہوئے عورت کے بارے ميں مغرب کے نقطہ نگاہ کو سوچی سمجھی سازش اور منصوبے کے تحت اختیار کیا جانے والا سیاسی نقطہ نگاہ قرار ديا اور فرمايا کہ اگرچہ عورت کے بارے ميں يہ نظريہ اس وقت بظاہر اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے ليکن امر واقعہ یہ ہے کہ عورت کے بارے ميں مغرب کی فکر اور سوچ

انحطاط اور سقوط کي سمت جا رہي ہے- قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ عورت کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ کو عالمی سطح پر فخریہ انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کنبے کی بنیادوں کی تقویت اور خاندانی ماحول میں عورت کا احترام معاشرے کی دو اہم اور فوری ضرورتیں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے محاذ میں نتیجہ خیز اور سرگرم کردار ادا کرنے والی خواتین کو آج انقلاب کی حفاظت اور دفاع کے میدان میں بھی اپنی شراکت اور تعاون مزید بڑھانا چاہئے۔

قائد انقلاب اسلامی نے عورت کے سلسلے میں اسلامی افکار کی بین الاقوامی سطح پر منتقلی اور تشہیر میں پائی جانے والی تساہلی پر تنقید کی اور فرمایا کہ اسلامی جمہوری نظام کی برکت سے اور امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے نام کی برکت سے عورت ک سلسلے میں بڑے اہم اقدامات انجام پائے تاہم ابھی اور کام کرنے اور مضبوط محاذ کی شکل میں سامنے آنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عورتوں کے درمیان بیداری کی تحریک کے سلسلے میں ہرگز کوئی تعطل یا تساہلی نہیں ہونا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ عورت کے سلسلے میں اسلام کے کامل اور اطمینان بخش موقف کے باوجود مغرب کے نقطہ نگاہ سے کیوں مرعوب ہوا جائے؟ آپ نے عورت کے سلسلے میں مغرب کے روئے کو دو پہلوؤں پر استوار بتایا، ایک ہے عورت کو جنسی لذت کا آلہ سمجھنا اور دوسرے اس سے مردوں جیسا برتاؤ کرنا۔ آپ نے فرمایا کہ مغرب والے اس کوشش میں ہیں کہ ان پیشوں کو جو جسمانی و فکری محنت کے اعتبار سے مردوں کے لئے سازگار ہوتے ہیں، عورتوں میں بھی عام کر دیں اور اسے باعث افتخار قرار دیں۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اجرائی شعبے اور جسمانی محنت کے کاموں میں عورتوں کے سرگرم عمل ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن مضائقہ مغربی نقطہ نگاہ کی ترویج اور اجرائی شعبے میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی کثرت پر افتخار کرنے میں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ اجرائی امور میں عورتوں کی کثرت پر فخر کرنا غلط اور مغربی نقطہ نگاہ سے مرعوب ہو جانے کے معنی میں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں فخر دانشور اور مفکر خواتین کی کثرت اور سیاسی و ثقافتی شعبے میں عورتوں کی بڑی تعداد پر ہونا چاہئے۔

قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے انساني لحاظ سے مرد اور عورت

کے سلسلے ميں اسلام کے مساوات پر مبنی نظريئے کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا کہ جسمانی ساخت کے اعتبار سے اسلام کي نظر ميں مرد اور عورت ميں فرق پايا جاتا ہے ليکن انساني اور سماجي حقوق اور معنوي اقدار و معنوي کمال کے لحاظ سے عورت اور مرد ميں کوئي فرق نہيں ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عورت کے سلسلے میں صحیح طرز فکر یہ ہے کہ ہم اسے اس کی نازک صنف اور اس کی کمال بخش قدروں کے تناظر میں پہچانیں۔ عورت کو جنسی لذت کے حصول کا سامان تصور کئے جانے کو بہت بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج بہت سے مغربی مفکرین بھی اس چیز کو خطرے کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیونکہ ہم جنس بازی اسی نقطہ نگاہ اور سوچ کا نتیجہ ہے جو مغربی تہذیب و ثقافت کے سقوط کا ایک یقینی سبب قرار

پائیگی۔ قائد انقلاب اسلامی نے عورتوں اور مردوں کی جنسی کشش کے مسئلے میں معاشرے کے اندر خاص ہوشیاری و احتیاط پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے ملک میں حجاب کی وجہ سے ایک طرح کا تحفظ پایا جاتا ہے، تاہم حجاب اور مردوں اور عورتوں کی معاشرت کی حدود پر اور سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ نے کہا عورت کے بارے میں مغرب کے طرز فکر سے ہرگز مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عورت کے بارے میں اسلام کے نقطہ نگاہ کو بھرپور خود اعتمادی کے ساتھ اور فخریہ انداز میں پیش کرنا چاہئے۔ آپ نے کہا کہ مغربی ممالک کی دھمکیوں سے گھبرانا بھی نہیں چاہئے۔

قائد انقلاب اسلامي نے عورت کے شرف، اس کي قدر و منزلت، اس کي فطري ظرافت اور

کارکردگي پر توجہ کو اسلام ميں عورت کے بارے ميں پائے جانے والے نظريئے کي خصوصيات قرار ديا اور فرمايا کہ خداوند عالم نے صنف نسواں کو کچھ اس انداز ميں خلق کيا ہے کہ بعض حساس،

جذباتي، تربيتي اور حتي گھر کے اندر انتظامي امور صرف خواتين کے ظريف جذبات اور ان کی مستقل مزاجی کے ذريعے ہي انجام پا سکتے ہيں۔

قائد انقلاب اسلامی نے گھروں میں عورت کے لئے محترمانہ ماحول پیدا کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ قوانین، آداب و رسوم اور اخلاقیات کی سطح پر ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ معاشرتی، فکری اور خاندانی کسی بھی سطح پرعورتیں مظلوم نہ رہیں۔ آپ نے اسی سلسلے میں مزید فرمایا کہ خاندان کے تمام ارکان کو چاہئے کہ عورتوں کو خاص احترام کی نگاہ سے دیکھیں اور ان سے ادب کے ساتھ پیش آئيں، ایسا ماحول ہو کہ بچے ماں کے ہاتھ چومیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عورتوں کا احترام اگر رائج ہو جائے تو ہمارے معاشرے کی بہت سی مشکلات خود بخود حل ہو جائیں گی اور پھر عورتیں مظلوم نہیں رہیں گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں شادی، لباس، طرز معاشرت، عورتوں کی مالیاتی و قانونی مدد، عورتوں کے روزگار اور اس کی حدود جیسے موضوعات پر بھی توجہ مرکوز کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے ملک کے اندر عورتوں کے مسائل کے تعلق سے وسیع پیمانے پر مختلف پہلؤوں سے انجام دی جانے والی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایک اہم تجویز پیش کی۔ آپ نے فرمایا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام سرگرمیوں اور کوششوں کو ایک درست نظام اور سسٹم کے مطابق ڈھالا جائے اور مضبوط کیڈر اور دراز مدتی نظر کے ساتھ کام کرنے والا ایک مرکز تیار کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ اس اعلی مرکز کے تحت متعدد ذیلی ادارے اور تنظیمیں قائم کی جا سکتی ہیں اور ایک مضبوط اطلاعاتی ادارہ بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اسلامی انقلاب کے دفاع کے محاذ میں سرگرم خواتین کی توجہ ایک خاص نکتے پر مبذول کراتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے دفاع کے محاذ میں موجود دانشور، مفکر اور مصنف خواتین کو چاہئے کہ میدان عمل میں زیادہ سنجیدہ اور نمایاں تعاون کریں۔

قائد انقلاب اسلامی نے صاحب ایمان، فعال، مجاہد اور با حجاب خاتون کا رول ماڈل پیش کرنے کے سلسلے میں قومی نشریاتی ادارے کے اہم کردار کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ قومی نشریاتی ادارے کو چاہئے کہ اس میدان میں بھرپور کردار ادا کرے۔ آپ نے فرمایا کہ قومی نشریاتی ادارے کو چاہئے کہ عورت کے سلسلے میں اسلامی طرز فکر کی ترویج اور اسلامی عورت کی خصوصیات کے تعارف پر خاص توجہ دے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوری نظام میں عورتوں کے مسائل کے تعلق سے ہم نے کافی پیشرفت کی لیکن یہ

پیشرفت ضرورتوں اور احتیاجات اور اسلام کی توقعات کے مطابق نہیں ہے لہاذا پہلے سے زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔