قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے منگل کی صبح معاشی شعبے کے عہدیداروں، صنعت کاروں، علمی، ابلاغیاتی اور نظارتی مراکز کے حکام سے ملاقات میں مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں کے اہم عوامل اور فیکٹرز، ان پالیسیوں کی تدوین کے اسباب و مضمرات اور اس سلسلے میں حکام سے وابستہ توقعات اور لازمی اقدامات کی تشریح کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حکام کا پختہ عزم، پالیسیوں کو ٹائم فریم کے مطابق اجرائی منصوبوں میں تبدیل کرنا، گہری نگرانی، معاشی شعبے میں عوام الناس اور سرگرم افراد کی شراکت کی رکاوٹوں کو دور کرنا اور اس پورے عمل کے لئے ماحول سازی سے اس بات کے امکانات فراہم ہوں گے کہ اس مقامی علمی ماڈل کے شیریں اور قابل لحاظ ثمرات مناسب مدت کے اندر لوگوں کی زندگی میں نمایاں ہوں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آغاز میں اسلامی نظام مختلف شعبوں کے حکام کے اس اجلاس کے انعقاد کے اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لئے ہم خیالی و ہم فکری پیدا کرنے، ملکی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے اور اسلامی نظام کے اعلی اہداف کو عملی جامہ پہنانے پر تاکید کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ برسوں کے دوران مختلف اقتصادی پالیسیوں کے نوٹیفکیشن جاری کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ان پالیسیوں کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا مقصد ہر شعبے کے لئے روڈ میپ پیش کرنا تھا لیکن مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں کے معاملے میں صرف روڈ میپ پیش کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ راستہ طے کرنے کے لئے لازمی اور درست معیارات کا تعین بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں کا پورا پیکیج در حقیقت مقامی علمی ماڈل ہے جو اسلامی و انقلابی ثقافت سے ماخوذ ہے اور جو وطن عزیز کی موجودہ اور آئندہ صورت حال سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مزاحمتی معیشت کی پالیسیاں صرف موجودہ حالات کے لئے نہیں ہیں بلکہ یہ ملکی معیشت اور اسلامی نظام کے اعلی اقتصادی مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک دراز مدتی پروگرام ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ پالیسیاں گوناگوں حالات کے لئے سازگار ہیں اور یہ پالیسیاں ملکی معیشت کو ہر طرح کی صورت حال میں مستحکم رکھنے میں مددگار ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں کی ایک اور خوبی ان کے بارے میں تمام اداروں اور شعبوں کا اتفاق رائے ہے کیونکہ یہ ماڈل اہل نظر افراد کی بحث و تحقیق اور سعی و ہم فکری کی بنیاد پر تشخیص مصلحت نظام کونسل میں تیار کیا گيا ہے جس میں مجریہ، مقننہ اور عدلیہ تینوں شعبوں کے سربراہ موجود ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں کو باریک بینی کے ساتھ تیار کیا جانے والا مضبوط پیکیج قرار دیا اور فرمایا کہ مزاحمتی معیشت کی جانب پیش قدمی صرف ہمارے ملک ایران سے ہی مختص نہیں ہے، کیونکہ حالیہ برسوں کے دوران عالمی اقتصادی بحران کے پیش نظر بہت سے ممالک اپنے داخلی حالات اور ڈھانچے کو مد نظر رکھتے ہوئے معیشت کو مستحکم اور مضبوط بنانے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں مزاحمتی معیشت کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ دیگر ممالک کی طرح ہمارا ملک بھی عالمی معیشت سے وابستہ اور اس رابطے کو جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہے لہذا ہمارے ملک پر دنیا کے اقتصادی مسائل کے اثرات کا مرتب ہونا فطری امر ہے جبکہ دوسری طرف اسلامی نظام اپنی حریت پسندی، وقار کی حفاظت اور عالمی طاقتوں کے دباؤ میں نہ آنے پر اپنے اصرار کی وجہ سے حملوں، رخنہ اندازیوں اور سازشوں کی آماجگاہ بھی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ان نکات اور وجوہات کی بنیاد پر ہمیں ملکی معیشت کے ستونوں کو مستحکم بنانا چاہئے اور اس بات کے امکانات کو ختم کر دینا چاہئے کہ وہ جھٹکے جن کا سامنا ہر حال میں ہونا ہے، جیسے بڑی طاقتوں کی رخنہ اندازیاں اور سازشیں، ہمارے ملک کی معیشت کو متاثر کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملکی معیشت کو مستحکم بنانے اور مزاحمتی پوزیشن تک پہنچانے کے منطقی اسباب و علل پر روشنی ڈالنے کے بعد مزاحمتی معیشت کے دس اہم عوامل اور فیکٹرز کو بیان کیا۔
مزید تفصیلات کے لئے قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کے اردو ترجمے سے رجوع ہوا جا سکتا ہے!