قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر اور ارکان سے ملاقات میں فرمایا کہ عالمی سامراج کے انسانیت مخالف محاذ کے مقابلے میں پائیداری کا واحد راستہ اس محاذ کے خلاف جہاد و پیکار کے نظرئے کا تسلسل ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے چھٹے ترقیاتی منصوبے کی تدوین کے سلسلے میں حکومت اور پارلیمنٹ کی جانب سے تین بنیادی ترجیحات خود کفیل معیشت، دینی و انقلابی کلچر اور علمی پیشرفت پر تیز رفتاری کے ساتھ عملدرآمد پر توجہ دئے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ ملک کی اقتصادی و سیاسی مشکلات کا حل ملکی سرحدوں کے باہر تلاش نہیں کیا جا سکتا، مشکلات کا حقیقی حل ملک کے اندر اور داخلی صلاحیتوں اور توانائیوں کی مدد سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں فرزند رسول حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے یوم شہادت کی تعزیت پیش کی اور اسلامی نظام کی تشکیل اور مجاہدت و پائیداری کی بنیاد پر اس کی بقا کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت اور گزشتہ پینتیس سال کے دوران فیصلہ کن اور انتہائی اہم مراحل سے اس کی کامیاب پیش قدمی، ملت ایران کی صادقانہ اور دانشمندانہ مجاہدت کا ثمرہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس روش کے تمام خصوصیات کے ساتھ جاری رہنے پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ استکباری محاذ سے پیکار کے نظریئے کے بغیر اسلامی نظام کے اعلی اہداف تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ مجاہدت جاری رکھنے پر اس تاکید کا مطلب یہ نہیں کہ اسلامی نظام جنگ پسندانہ ماہیت رکھتا ہے بلکہ عقل و خرد کا تقاضا یہی ہے کہ انسان بحری قزاقوں سے بھرے ہوئے علاقے سے گزرتے وقت خود کو پوری طرح لیس کرے اور دفاع نفس کا بھرپور جذبہ اور ارادہ بھی رکھتا ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج کی دنیا بشریت کی عزت و وقار اور اخلاقیات کو غارت کرنے والے قزاقوں سے پر ہے جو جدید علوم اور دولت و ثروت کی مدد سے انسان دوستانہ شکل و صورت میں بڑی آسانی سے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، انسانیت کی اعلی امنگوں کے سلسلے میں خیانت اور دنیا کے مختلف خطوں میں جنگ کی آگ شعلہ ور کرتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ان حالات میں جدوجہد کو جاری رکھنے اور تمام امور مملکت میں خارجہ و داخلی سطح پر مجاہدانہ نظریئے کی روش کو اپنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ساز باز کرنے اور ہتھیار ڈال دینے کے طریقے کو ایک تھیوری کے طور پر متعارف کرانے کی کچھ لوگوں کی کوشش پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ استبدادی طاقتوں کے سامنے سر جھکا دینے کی بات کرتے ہیں اور اسلامی نظام کو جنگ پسند قرار دیتے ہیں، وہ در حقیقت خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی نظام، انسان دوستانہ، با شرف، بشریت کے وقار کے احترام اور آشتی و نیکوکاری کا نظام ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملک کے اندر اقتصادی، علمی، ثقافتی، سیاسی، قانون سازی، غیر ممالک سے مذاکرات سمیت مختلف میدانوں کے حکام کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ عالم پیکار میں ہیں اور اسلامی نظام کی تشکیل و بقاء کے لئے جہاد کر رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ یہ موضوع ایک ہمہ گیر نظریئے کی حیثیت سے ملک کے تمام امور میں عام کر دیا جانا چاہئے اور خود کو استکباری محاذ کے مقابلے میں مستحکم اور طاقتور بنانا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی بحث کو جاری رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ یہ مقابلہ آرائی کب تک چلے گی؟ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ جہاد اور پیکار ختم ہونے والا نہیں ہے کیونکہ شیطان اور شیطانی محاذ ہمیشہ موجود رہنے والا ہے البتہ یہ ممکن ہے کہ الگ الگ حالات میں اس جہاد اور مقابلہ آرائی کی شکل اور روش تبدیل ہو جائے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ یہ مقابلہ آرائی تب ختم ہوگی جب انسانی معاشرہ خود کو استکباری محاذ اور اس میں سر فہرست امریکا کے چنگل سے جس نے انسانی فکر و روح و جسم کو جکڑ رکھا ہے، آزاد کرا لے، مگر اس کے لئے سخت اور طولانی مقابلہ آرائی اور بڑے قدم اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں اسلامی نظام کے قیام کو اس مقابلہ آرائی کے میدان کا سنگ میل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ گزشتہ پینتیس سال میں پے در پے پارلیمنٹ کی تشکیل اور دینی جمہوریت کے مظہر کا درجہ رکھنے والی اس پارلیمنٹ میں عوامی نمائندوں کی موجودگی بھی ایک طرح کا پیکار ہے جس کی قدر و قیمت سمجھنا اور اس جہاد کو آگے بڑھانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نئے سال کے نعرے میں مجاہدانہ انتظام و انصرام پر خصوصی تاکید کے سلسلے میں فرمایا کہ مجاہدانہ انتظام و انصرام کا تعلق صرف حکومت سے نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ اگر قانون سازی اور نگرانی کے اپنے فرائض کو صرف عوامی خدمت کے جذبے کے تحت انجام دے تو اس نے در حقیقت عظیم مجاہدانہ عمل انجام دیا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ملک کی مشکلات کی واحد راہ حل غیر ممالک سے آس لگانے سے اجتناب اور خود کفیل معیشت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ میں مختلف شعبوں میں جدت عملی اور اختراعی کاوشوں کے ساتھ کام کرنے والے تمام افراد کا دفاع کرتا ہوں تاہم میرا نظریہ یہی ہے کہ مشکلات کا علاج ملک کے اندر ہی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مشکلات کے حل کے لئے درست راستے کی شناخت اور دلیری و شجاعت کے ساتھ اس راستے پر پیش قدمی ہے اور اس سلسلے میں خود کفیل معیشت ایک شجاعانہ اقدام ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ مہینوں کے دوران خود کفیل معیشت کی زبانی تعریفوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ خود کفیل معیشت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے زبانی تعریف کافی نہیں ہے، اس کے لئے عمل اور اقدام کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزاحمتی معیشت کے سلسلے میں حکومت اور پارلیمنٹ کے اقدامات پر اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ ان اقدامات کا جو انجام دیئے گئے ہیں، نظارتی اور قانون سازی کے پہلو سے جائزہ لے۔
قائد انقلاب اسلامی نے خود کفیل معیشت کے لئے سازگار قوانین وضع کئے جانے اور رکاوٹ یا ٹکراؤ پیدا کرنے والے قوانین کو ختم کرنے اور حکومت کی کارکردگی کی نگرانی کو پارلیمنٹ کی اہم ذمہ داری قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ پارلیمنٹ خود کفیل معیشت کے لئے قانون سازی کے سلسلے میں صرف قراردادوں تک محدود نہ رہے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت خود پارلیمنٹ میں اپنے بل پیش کرے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے چھٹے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کی تدوین کے لئے پارلیمنٹ کی تیاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس پرگرام میں بھی خود کفیل معیشت، ثقافت اور علم و دانش کو تین بنیادی ترجیحات کے طور پر شامل کیا جانا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافت کے سلسلے میں اپنی تشریح میں فرمایا کہ ثقافت سے مراد دینی و انقلابی ثقافت، اسلام اور اسلامی اقدار کی بنیاد پر ثقافتی مہم کا آغاز اور معاشرے میں اسلامی اخلاقیات، آداب و اطوار اور عقائد کی ترویج ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پارلیمنٹ کے ارکان سے مجھے یہ توقع ہے کہ انقلاب کے سپاہیوں کی حیثیت سےمعاشرے میں اسلامی و انقلابی ثقافت کی ترویج میں مددگار بنیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے علم و دانش کو چھٹے پانچ سالہ منصوبے کی تیسری اہم ترجیح قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بارہ سال قبل شروع ہونے والی تیز رفتار علمی تحریک ہرگز سست روی کا شکار نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کی رفتار میں اور بھی اضافہ کیا جانا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملک کے لئے علم و سائنس کا مسئلہ بہت اہم ہے کیونکہ قومی افتخارات، قومی وقار اور ثروت کا انحصار علم و دانش پر ہی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنی اس گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے پارلیمنٹ کی نظارتی ذمہ داریوں کے ضمن میں کرپشن کے خلاف اقدام کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ کرپشن کے خلاف کارروائی کے مسئلے میں اس بات کی ضرورت ہے کہ شروع ہی سے اداروں کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھا جائے کیونکہ اداروں کے آلودہ ہو جانے کی صورت میں کرپشن کا مقابلہ ناممکن یا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آبادی سے متعلق کلی پالیسیوں کے نوٹیفکیشن کا حوالہ دیا اور آبادی میں اضافے کے سلسلے میں پارلیمنٹ کی قرارداد کا خیر مقدم کرتے ہوئے فرمایا کہ آبادی کے سلسلے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں گزشتہ برسوں والی غلطیوں کا اعادہ نہ ہو کیونکہ دشمن کی نظر میں بہترین صورت حال یہ ہوگی کہ ایران کی آبادی بہت کم ہو اور اس کم آبادی کی اکثریت سن رسیدہ افراد پر مشتمل ہو۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آبادی میں اضافے کے سلسلے میں منصوبے بالکل درست، منطقی اور ماہرانہ انداز میں تیار کئے جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاری جانی نے اپنی تقریر میں ساتویں امام حضرت موسی کاظم علیہ السلام کے یوم شہادت کی تعزیت پیش کی اور بعثت پیغمبر اور خرم شہر کی آزادی کی سالگرہ کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین، شام اور ایٹمی پروگرام جیسے مسائل میں پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کا موقف بڑا مستحکم اور مقتدرانہ رہا ہے۔ ڈاکٹر لاری جانی نے پانچویں پارلیمنٹ میں دو سال کے اندر ساڑھے چار سو بل اور قراردادیں پیش کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو سال کے دوران پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے بل اور قراردادوں میں سے 80 کو منظوری اور قانون کا درجہ ملا۔
پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر لاری جانی نے مقننہ کے بنیادی رخ کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دینا، خود کفیل معیشت کی کلی پالیسیوں کے اجراء کی نظارت، متعلقہ کمیشنوں کے ذریعے پارلیمنٹ کے نظارتی کردار کو مستحکم اور زیادہ فعال بنانا پارلیمنٹ کی ترجیحات ہیں۔