سوال: ایرانی قوم کا عظیم کارنامہ کیا تھا؟
جواب: جو کچھ بارہ روزہ جنگ کے دوران ہوا، اسے ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان ایک معمولی ٹکراؤ نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ جنگ، ایران اور اسرائيل کی جنگ نہیں تھی، بلکہ امریکا کے مرکزی کردار کے ساتھ مغرب اور صیہونیوں کی تیار کردہ ایک کثیر جہتی سازش تھی۔ ایرانی قوم نے جو عظیم کارنامہ انجام دیا ہے اگر ہم اسے بیان کرنا چاہیں تو ہمیں اسے صرف ایک جعلی اور چھوٹی حکومت کے ساتھ ٹکراؤ نہیں سمجھنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا، جنگ سے کئی مہینے پہلے سے، جب ٹرمپ اقتدار میں نہیں لوٹے تھے اور بائیڈن ہی امریکا کے صدر تھے، آپریشن کی تیاری کر رہا تھا اور اس حملے کی زمینی مشقیں بھی انجام پا چکی تھیں۔
صیہونی حکومت بنیادی طور پر اکیلے ہی مسلم اقوام سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ جغرافیا، آبادی، انفراسٹرکچر، وسعت، تمدنی اور تاریخی خصوصیات کے لحاظ سے ایران کے ساتھ اس کے موازنے سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل، طویل مدتی جنگ کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس کی ملٹری اسٹریٹیجی شروع سے ہی برق رفتار حملوں اور چونکا دینے والی جنگوں کی بنیاد پر تیار ہوئی ہے، یہ وہی چیز ہے جو مصر، اردن اور شام کے ساتھ جنگ میں بھی سامنے آئی تھی۔ تاہم ایران کے خلاف اس طرح کی جنگ کے لیے اسے بنیادی اور عالمی مدد کی ضرورت تھی جو اسے ملی، منجملہ امریکا اور بعض یورپی ملکوں کی جانب سے آپریشنل اور انٹیلی جنس کے میدان میں پشت پناہی۔
ایرانی قوم کا کارنامہ صرف اسرائیل کے مقابلے میں ڈٹ جانا نہیں تھا بلکہ ایک بہت ہی وسیع اور پیچیدہ سازش کا مقابلہ کرنا تھا۔ مغرب والوں نے برسوں کوشش کی تھی کہ میڈیا کے پروپیگنڈوں کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو ایران پر حملے کے لیے تیار کریں اور ایٹم بم تک رسائی روکنے کے نعرے کے ساتھ اس حملے کا جواز فراہم کریں۔ تاہم عملی طور پر ہم نے دیکھا کہ بمباری صرف ایٹمی تنصیبات تک محدود نہیں تھی۔ غیر فوجی علاقے، ہلال احمر، پولیس اور رفاہ عامہ کے مراکز اور اسی طرح شہر کے چوراہوں پر بھی حملے کیے گئے جن میں قریب ایک ہزار لوگ شہید ہوئے۔ شہید ہونے والوں میں نومولود اور چھوٹے بچوں سے لے کر جوان اور بوڑھے تک شامل تھے جو عام شہری تھی۔ فوردو کی ایٹمی سائٹ پر، جو ان کے حملوں کا اصل ہدف تھا، جنگ کے آخری دنوں میں حملہ کیا گيا۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ صیہونی حکومت کی جانب سے صدر، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور عدلیہ کے سربراہ سمیت ملک کے اعلیٰ سیاسی رہنماؤں کے قتل کی کوشش تھی۔ بنابریں یہ جنگ، صرف ایٹمی مسئلے کے بارے میں نہیں تھی۔ اس کا مقصد، ایران میں عدم استحکام پیدا کرنا، لوگوں کو نفسیاتی چوٹ پہنچانا، اعلیٰ عہدیداروں کو قتل کرنا، اس کے سیاسی ڈھانچے کو تباہ کرنا اور ایران کے حصے بخرے کرنا تھا۔ جو کچھ ہوا وہ فوجی آپریشن، سائبر اٹیک، نفسیاتی جنگ، ڈرونز اور مائیکرو ڈرونز کا استعمال اور الیکٹرانک جنگ تھی، یہ ایک ایسا ماڈل ہے جو عصر جدید کی جنگی تاریخ میں کم نظیر یا شاید بے نظیر ہے۔
اگر یہ ماڈل کامیاب ہو جاتا اور مغرب اپنے ہدف کو حاصل کر لیتا یعنی ایران کی حکومت گر جاتی، ملک میں بدامنی پیدا ہو جاتی اور وہ ٹکڑوں میں بٹ جاتا تو یہ دوسری خود مختار اقوام پر حملے کے لیے ایک آئيڈیل میں بدل جاتا، جیسا کہ ہم نے لیبیا اور شام میں دیکھا۔ تاہم جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ ایرانی قوم، خبیث اور سامراجی ارادے کے سامنے ڈٹ گئی۔ یہ استقامت نہ صرف اپنی خود مختاری کی حفاظت کے لیے تھی بلکہ دیگر اقوام کی آزادی و خود مختاری کے دفاع کے لیے بھی تھی۔ اس طرح یہ کام، ایک بڑا کارنامہ تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ مغرب والوں اور امریکیوں کا یہ معاندانہ رویہ، ایک دو دن کا نتیجہ نہیں ہے۔ امریکا کے ایران مخالف اقدامات کا ماضی قریب پچاس سال کا ہے۔ خلیج فارس میں ایران کے مسافر بردار طیارے کو نشانہ بنانا، مسلط کردہ جنگ میں عراق کی حمایت اور ایران کے خلاف بے تحاشا پابندیاں اس کی کچھ معمولی مثالیں ہیں۔ بنابریں بارہ روزہ جنگ، کوئی اتفاق نہیں بلکہ اسی معاندانہ پالیسی کا تسلسل تھی۔
اگر آج ایرانی قوم ڈٹ گئي ہے، اگر یہ سازش ناکام ہو گئی ہے تو یہ ایرانی قوم کے سماجی استحکام، قومی یکجہتی اور سیاسی بصیرت کی علامت ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس اہم واقعے کو بالکل صحیح انداز میں سب تک پہنچائيں اور اسے ایران اور اسرائيل کے جھگڑے یا ایک ایٹمی بحران تک محدود کرنے سے پرہیز کریں۔ یہ جنگ ایرانی قوم کی مزاحمت کی تاریخ کا ایک اہم موڑ اور ماڈرن سامراج کی سازشوں کی شکست کا مظہر تھی۔
سوال: آيت اللہ خامنہ ای نے اس ٹکراؤ میں اور اسرائيل اور امریکا پر فتحیابی میں ایرانی قوم کے عزم و ارادے کے کردار کو بہت اہم قرار دیا ہے۔ آپ کے خیال میں اس زمانے میں ایران کے مسلمان عوام کا عزم و ارادہ اس جنگ میں اتنا اہم کیوں ہے اور اس پر کن پہلوؤں سے توجہ دی جانی چاہیے؟
جواب: کلاسیکل تعریف میں جنگ کا مطلب ہوتا ہے کسی دوسرے پر طاقت کے بل پر اپنا ارادہ تھوپ دینا۔ حیات انسانی کے آغاز سے ہی جنگ، انسان کی ہمزاد رہی ہے اور تاریخ کے ہر دور میں متضاد ارادوں کے درمیان مسلحانہ ٹکراؤ دیکھا جاتا رہا ہے۔ جنگ میں جو چیز فیصلہ کن ہے وہ ہتھیار اور آلات نہیں بلکہ ارادے ہیں۔ حقیقی جنگ، اقوام کے ارادوں کے ٹکراؤ کا میدان ہے۔
حالیہ جنگ میں جو کچھ ہوا وہ صرف آلات اور ہتھیاروں کی جنگ نہیں تھی بلکہ دو ارادوں کا ٹکراؤ تھا: بمشکل 77 سال عمر والی صیہونی حکومت کے نام کی ایک جعلی اور خبیث حکومت کے ارادے کے مقابلے میں ایرانی قوم کا ارادہ۔ دشمن کا پلان یہ تھا کہ ایک بڑا حملہ کر کے اور ملک کے اعلیٰ حکام کو قتل کر کے لوگوں کو اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دی جائے گی تاکہ شام اور لیبیا کا شکست خوردہ ماڈل، ایران میں بھی نافذ کر دیا جائے۔ نظام کی تبدیلی کے لیے نیتن یاہو اور ٹرمپ کی دعوت اور سڑکوں پر آشوب پھیلانے کی کال، اسی سازش سے پردہ اٹھاتی ہے۔
انھوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ عوام، نظام سے دور ہو چکے ہیں اور حکمراں نظام کے کمزور پڑتے ہی سڑکیں معترض عوام سے بھر جائیں گی اور داخلی دباؤ، نظام کا شیرازہ بکھیر دے گا۔ اسی لیے منافقین جیسے مسلح گروہوں سے لے کر رضا پہلوی جیسے تشہیراتی افراد تک کو استعمال کر کے وسیع پیمانے پر میڈیا میں پروپیگنڈا کیا گيا اور نفسیاتی جنگ چھیڑ دی گئی تاہم اس مرحلے میں میزائیل اور ڈرون نہیں لڑتے، یہاں ایرانیوں کا "قومی شعور" میدان میں آ جاتا ہے۔
ایرانی قوم نے اندازوں کے برخلاف ایک ایسا رویہ اختیار کیا جس کی جڑیں اس کے تاریخی تشخص میں پیوست ہیں۔ ایرانی، نئی قوم نہیں ہیں، ایسی قوم نہیں ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سامنے آئی ہو بلکہ وہ ایک قدیم تمدن، عمیق ثقافت اور عظیم تاریخ کے مالک ہیں۔ یہ قوم سامراج کی سازشوں سے پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ تاریخ میں بارہا لڑی ہے، شکست بھی کھائي ہے اور فتحیاب بھی ہوئی ہے لیکن ہر بار بحران کے بعد اس میں زیادہ یکجہتی آئی ہے۔
دشمن کو توقع تھی کہ خطے کے بعض ممالک کی طرح لوگ فرار ہونے لگیں گے، دکانوں کو لوٹیں گے یا ملک چھوڑ کر بھاگ جائيں گے تاہم فضائی حدود بند ہونے کے باوجود، پندرہ زمینی اور بحری ہمسائے ہونے کے بعد بھی ایرانی اپنے ملک سے نہیں بھاگے، انھوں نے خوف و وحشت اور آشفتگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ان کا رویہ، قومی بلوغ کی نشاندہی کر رہا تھا۔ یہ چیز، ایرانیوں کے قومی تشخص میں نہاں طاقت کی گواہ ہے۔
البتہ صرف قومیت نے اس عزم و ارادے کو وجود نہیں عطا کیا۔ دین خاص کر مذہب تشیع، حالیہ جنگ میں ایرانیوں کی طاقت کا دوسرا بازو تھا۔ شہادت، جہاد، مزاحمت اور ایثار کے ذریعے سعادت جیسی مذہبی اقدار نے ایرانی قوم کی شجاعت اور استقامت کو جلا بخشی۔ تکفیری گروہوں کے ذریعے جہاد کے مفہوم میں تحریف کی مغرب کی کوششوں کے باوجود، ایران میں یہ اقدار، مذہب کی حیات بخش ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہیں۔
عصر حاضر میں ولایت فقیہ کے سائے میں اور اسلامی جمہوری نظام کے تحت اقوام اور مذاہب پوری طرح سے یکجہتی تک پہنچ چکی ہیں۔ یہ یکجہتی، اسلامی جمہوریہ کی طاقت کا راز ہے۔ اگر ایرانی، ماضی میں ان عناصر کے باوجود لیکن قاجاری اور پہلوی جیسے کمزور نظاموں کے ساتھ شکست کھا چکے ہیں تو اس کا سبب، حکومت کے سیاسی ارادے اور قومی عزم کے درمیان ہماہنگی کا فقدان تھا۔
اسلامی جمہوریہ نے سنہ 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں لگاتار بڑھتے جا رہے قوم اور حکومت کے درمیان تضاد کو ختم کر دیا اور طاقت پیدا کر دی۔
بارہ روزہ جنگ کی سازش تیار کرنے والے، اسی طاقت کو ختم کرنے کے در پے تھے۔ اسی لیے انھوں نے برسوں دین و قومیت اور حکومت و ملت میں ٹکراؤ اور تضاد کے لیے کام کیا تھا تاہم جنگ کے حساس موقع پر ایرانی قوم نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ تاریخ، مذہب اور سیاسی ڈھانچے کے درمیان یکجہتی نے ایک عظیم سول ڈیفنس پیدا کر دیا جو کسی بھی ملٹری ڈیفنس سے زیادہ مؤثر تھا۔ ایرانی قوم نہ صرف فوجی حملے کے مقابلے میں ڈٹ گئي بلکہ اس نے دشمن کے منصوبوں کو بھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اس بات نے دکھا دیا کہ ایرانی قوم کی طاقت کا سرچشمہ تاريخ، مذہب اور سیاسی اتحاد ہے اور کوئی بھی طاقت اپنے غلط اندازوں کے ساتھ، اس قوم کو جھکا نہیں سکتی۔
سوال: تاریخ میں دیکھا گيا ہے کہ امریکا جیسی سامراجی طاقتیں صرف اپنے بیڑوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا کر خطے کی کچھ حکومتوں کو بدل دیتی تھیں لیکن ایران کے سلسلے میں ایسا نہیں ہوا جبکہ خطرے کی سطح بہت اونچی اور وسیع تھی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: مغربی تمدن اپنی پوری تاریخ میں ہمیشہ طاقت اور پیداوار کی اجارہ داری پر مبنی رہا ہے، پرتگال سے لے کر اسپین تک اور فرانس سے لے کر برطانیہ تک، ہر ایک نے عالمی سطح پر کسی نہ کسی طرح سامراجی ملک کا کردار ادا کیا ہے۔ انیسویں صدی میں برطانیہ کی نوآبادیات اتنی زیادہ پھیلی ہوئی تھیں کہ اس کا سورج کبھی غروب ہی نہیں ہوتا تھا۔ جن طاقتوں کے ہاتھ میں دنیا کا انتظام تھا، وہ نہ صرف اشیاء کی پیداوار کی راہ سے بلکہ سوچ، ثقافت اور طرز زندگی کو مسلط کر کے ورلڈ آرڈر کو اپنی مرضی کے حساب سے تبدیل کرنے کے در پے تھیں۔
اس سامراجی سوچ میں دنیا، مغرب کے کچھ پروڈکشن مالکان اور دنیا میں بے شمار صارفین کے درمیان تقسیم ہوتی ہے۔ پہلی اور تیسری دنیا، شمال اور جنوب، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ جیسی ساری اصطلاحات، اسی اجارہ داری کی غمازی کرتی ہیں۔ اس اجارہ داری کی حفاظت، سامراج کے پھلنے پھولنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ سامراج کی پہلی نسل، ملکوں پر زمینی اور فوجی لحاظ سے قبضہ کرنے پر مبنی تھی لیکن اس پر آنے والے بھاری خرچے نے مغرب کو، سامراج کی نئی شکلیں تلاش کرنے پر مجبور کیا۔
آج ہمیں سامراج کی نئی نسل کا سامنا ہے، نیا سامراج لشکر کشی کے بجائے پٹھو حکمرانوں کو اقتدار میں لاتا ہے اور حکومتوں کے سیاسی عزم کو اندر سے ہی منجمد کر دیتا ہے۔ خود مختاری سے عاری اور مغربی مفادات کی تابع فرمان حکومتیں، سامراج کے لیے غیر فوجی حربے کے طور پر کام کرتی ہیں۔ پہلوی دور کا ایران، ایسی ہے پٹھو کی ایک مثال تھا جو اپنے سیاسی امور میں برطانیہ یا امریکا کے ارادے کے تابع تھا۔
لہذا سامراج کی ایک دوسری قسم جس پر مغرب والوں نے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے، سوچ اور فکر پر قبضہ کرنا ہے۔ یعنی وہ ملکوں کی اہم شخصیات، دانشوروں اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کے ذہنوں کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں، انھیں اپنے مفادات کے دائرے کے اندر لے آتے ہیں، انھیں مختلف طریقوں سے، مختلف روشوں سے، مختلف نظریات سے ٹریننگ دیتے ہیں اور ملکوں کے اکیڈمک میدانوں کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں اور پھر وہ لوگ اپنی اقوام کو مغرب کی ذہنی اور فکری نوآبادی بنا دیتے ہیں۔
تاہم ایرانی قوم اپنی تاریخ میں سامراج سے جدوجہد کا ایک طویل ماضی رکھتی ہے۔ گلستان اور ترکمنچائے معاہدوں سے لے کر تمباکو کی تحریک اور تیل کو قومیائے جانے کی تحریک تک ہمیشہ ہی ایران کی دینی اور قومی شخصیات، اس استقامت کے ہراول دستے میں رہی ہیں جس کی آخری مثال امریکا اور اسرائیل کے خلاف امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا قیام ہے جو ایرانیوں کے ہمیشہ خود مختار رہنے کی عکاسی کرتا ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب میں آزادی و خود مختاری کا نعرہ، کوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ سامراج کے خلاف ایرانی عوام کی لگاتار جدوجہد اور تاریخی تجربات کا نتیجہ تھا۔ ایرانی قوم کو صدیوں تک جنگ، ناامیدی، حقارت اور سامراج کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے ہمیشہ استقامت کا مظاہرہ کیا اور ایک ایسی طاقت پیدا کی جو آج نئے سامراج کے مقابلے میں پوری شجاعت اور عزت نفس کے ساٹھ ڈٹ گئی ہے۔ یہ استقامت، ایرانی قوم کے ایمان، تاریخی تشخص، اور دینداری کا نتیجہ ہے۔
سوال: اسلامی انقلاب سے پہلے تاریخ کے زیادہ تر ادوار میں ایران سامراج کے سلسلے میں مرعوب دکھائي دیتا ہے تاہم اسلامی انقلاب کے بعد اس لحاظ سے ایک بنیادی تبدیلی آ گئي ہے۔ آپ اس سلسلے میں کیا سوچتے ہیں۔
جواب: دیکھیے جیسا کہ میں نے عرض کیا اسلامی انقلاب سے پہلے بھی سامراج کے خلاف تحریکیں رہی ہیں جن کی قیادت مذہبی اور قومی شخصیات نے کی۔ یہ تحریکیں کبھی ناکام رہی اور کبھی کامیاب ہوئیں اور قلیل مدت کی فتوحات بھی حاصل ہوئيں تاہم سنہ 1979 میں امام خمینی کی تحریک کو کامیابی حاصل ہوئی جو انھوں نے پندرہ سال پہلے شروع کی تھی۔ بنابریں ایرانی قوم کبھی بھی سامراج کے مقابلے میں خاموش تماشائی بن کر نہیں رہی ہے۔ جہاں تک امام خمینی کی بات ہے تو انھوں نے جو کام کیا، اس میں ان سے پہلے کی تحریکوں میں دو فرق تھے۔ ایک یہ کہ انھوں نے اپنی تحریک کو حتمی کامیابی تک پہنچایا، اس میں انھوں نے ماضی کے رہنماؤں کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا لیکن جو دوسرا فرق ہے وہ سب سے اہم ہے اور وہ یہ کہ انھوں نے ایک سیاسی نظام تیار کیا۔ ایک ایسا سیاسی نظام جس کا محور، اسلام تھا۔ امام خمینی کا ماننا تھا کہ چونکہ اسلام، سامراج کے مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے، اس لیے اسلامی احکام، شیعی احکام میں اور شیعی فقہ میں سامراج، غیر ملکی استعمار اور جارحیت کے مقابلے میں استقامت، ایک فقہی اصول ہے۔ فرق یہ تھا کہ امام خمینی کا نظریہ، صرف ایک اعتراض نہیں تھا۔
امام خمینی کا نظریہ یہ تھا کہ اسلام کا ایک سیاسی نظام تشکیل پانا چاہیے تاکہ ہمیشہ کے لیے خود مختاری یقینی ہو جائے، طاقت پیدا ہوتی رہے۔ ایسا نہیں تھا کہ ان کا نظریہ یہ ہو کہ جب بھی مغرب والے ہمارے ملک میں کچھ کرنے کے لیے آئيں، ہم پر کوئي معاہدہ مسلط کرنا چاہیں تو ہم احتجاج کریں یا کوئی فتویٰ دیں تاکہ وہ معاہدہ ختم ہو جائے۔ پھر جب کبھی دوبارہ ایسا ہو تو اسی طرح جواب دیا جائے، نہیں، فرق یہیں پر ہے۔ یہاں اسلامی انقلاب کے ساتھ ایک عوامی سیاسی نظام تشکیل پایا۔
ایران کی تاریخ میں عوام نے ایک قوم کے معنی میں کبھی بھی حکومت کی تشکیل میں کردار ادا نہیں کیا تھا۔ ایران کی تاریخ میں جو حکومتیں رہی ہیں وہ خاندانی و قبائلی رہی ہیں۔ قاجار ایک قبیلہ تھا جو صفویوں کی خدمت کرتا تھا۔ صفوی سلسلہ اس وقت کامیاب ہوا جب اس نے کئی قبائل کو متحد کیا اور پھر دوسرے قبائل کو شکست دے دی اور اس طرح اپنی حکومت قائم کی۔ المختصر یہ کہ ایران میں حکومتیں، عوام کے ووٹوں یا عوامی مشارکت سے نہیں بنتی تھیں۔ البتہ یہی صورتحال ہمارے آس پاس کی اقوام کی بھی تھی۔ تاہم امام خمینی نے اسلامی انقلاب کے ذریعے، عوام کو انقلاب بپا کرنے، سیاسی نظام کی تشکیل اور سیاسی نظام کی بقا میں شریک کر دیا۔ انھوں نے شروع سے ہی الیکشن کروایا۔ یہاں تک کہ خود انقلاب پر ریفرنڈم کرایا۔ صدر، پارلیمنٹ اور خود اعلیٰ قیادت کا انتخاب عوامی ووٹوں سے عمل میں آیا۔ اور بنابریں پچھلی تحریکوں اور اسلامی انقلاب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ امام خمینی اس بات کے قائل نہیں تھے کہ جب کچھ ہو تو احتجاج کر دیا جائے بلکہ انھوں نے ہر طرح کے خطروں اور چیلنجوں سے مقابلے کے لیے اسلامی نظام تشکیل دیا۔
سوال: ایرانی قوم نے اسلامی انقلاب کے بعد "سامراج مخالف جرئت" کا کافی مظاہرہ کیا ہے۔ کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ سامراج اور استعمار کے لیے، سامراج مخالف اقوام کی تمدنی پیشرفت سے زیادہ سامراج مخالف جرئت، خطرناک ہے؟ اگر ہاں تو اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: رضا خان برطانیہ اور امریکا کی براہ راست مداخلت سے اقتدار میں آیا تھا۔ اس کے بعد سنہ 1953 میں مصدق کی قومی حکومت کے خلاف امریکی حمایت سے ہونے والی بغاوت نے اقتدار میں محمد رضا پہلوی کی پوزیشن مضبوط کر دی۔ یہ ایران میں سامراج اور آمریت کے رشتوں کا ایک واضح نمونہ ہے۔ مغرب نے ایرانیوں کی خود مختاری سلب کرنے کی کوشش کی اور پہلوی آمریت نے لوگوں کی آزادی کو محدود کر دیا۔
ایران کی جیو پولیٹکل پوزیشن نے ہمیشہ اسے عالمی طاقتوں کے مفادات کے مرکز میں رکھا ہے۔ ماضی میں جب وہ شاہراہ ریشم پر واقع تھا، تب سے لے کر آج تک جب اس کے پاس تیل اور گيس کے بیش بہا ذخائر ہیں۔ یہی اسٹریٹیجک اہمیت اس بات کا سبب بنی کہ نکسن کی ڈاکٹرائن میں پہلوی حکومت علاقائی تھانیدار کا کردار ادا کرے کہ جو خطے میں امریکا کی جگہ حکم چلاتا تھا لیکن واشنگٹن کے مفادات پورے کرتا تھا۔ انقلاب سے پہلے ایران پوری طرح سے مغرب کے مفادات کے دائرے میں کام کر رہا تھا، کیپیچولیشن قانون کی منظوری سے لے کر، جو ایران میں امریکیوں کو عدالتی تحفظ فراہم کرتا تھا، عربوں کی جانب سے پابندی کے حالات میں اسرائيل کو تیل کی فراہمی تک۔ اسی طرح عمان میں سلطان قابوس کی حکومت کی فوجی حمایت، کم ترین وقت میں جنگي طیارے ویتنام بھیجنا اور امریکا کے جنگي ساز و سامان کا سب سے بڑا خریدار بننا، یہ بھی اس وقت کے ایران کی جانب سے مغربی مفادات کے تحفظ کی کچھ مثالیں ہیں۔ پہلوی فوج ڈھانچے، ٹریننگ اور جنگي آلات کے لحاظ سے پوری طرح امریکی تھی اور ایران، خطے میں امریکی ہتھیاروں کے ایک اڈے میں تبدیل ہو چکا تھا۔
ایسے حالات میں اسلامی انقلاب نے نہ صرف سیاسی ڈھانچے کو بدل دیا بلکہ ایرانی قوم میں سامراج مخالف جرئت و عزم کو بھی نمایاں کر دیا۔ ایران، دوسروں پر انحصار سے آزاد ہو گیا اور اس نے ایک ایسا ماڈل بنایا جو ایک طرف تو سامراج کی مخالفت پر زور دیتا تھا اور دوسری طرف سامراج کے خلاف مسلسل استقامت کے مظہر میں بھی تبدیل ہو گیا۔ ایران اور سامراج مخالف دیگر ملکوں میں فرق یہ ہے کہ ایران نے نہ صرف یہ کہ قیام کیا بلکہ اس نے مغربی بالادستی والے ورلڈ آرڈر میں بھی شمولیت اختیار نہیں کی اور یہ ماڈل پچھلے 47 برسوں سے جاری ہے۔
ایشیا، افریقا اور جنوبی امریکا میں بہت ساری اقوام نے برطانوی، فرانسیسی اور امریکی سامراج کے خلاف قیام کیا ہے لیکن ان میں سے زیادہ تر کچھ ہی برسوں میں مغربی ورلڈ آرڈر میں ضم ہو گئيں۔ لیکن ایران میں مزاحمت ایک طرز زندگي میں بدل گئي اور وہ بھی وقتی اور جذباتی مزاحمت نہیں بلکہ ٹھوس، تمدن سے جڑی ہوئی اور پائيدار مزاحمت۔ یہ تسلسل ایک علاقائی ماڈل میں تبدیل ہو گیا جس نے دوسری حریت پسند اقوام اور حکومتوں پر بھی گہرا اثر ڈالا۔
ایرانیوں نے قیام کی جرئت حاصل کرنے اور سامراج مخالف اقدامات کرنے کے ساتھ ہی اسے مسلسل جاری رکھا یعنی ایک ماڈل اور آئيڈیل تیار کر دیا۔ پچھلے 47 برسوں سے یہ ماڈل خطے میں پھل پھول رہا ہے۔ اس حالیہ جنگ کا ایک مقصد، اس ماڈل کو، مزاحمت کے ماڈل کو ختم کرنا بھی تھا، وہ مزاحمت جو عارضی نہیں ہے بلکہ ایک اصول اور طرز زندگي ہے۔ ان برسوں میں خود ایران کے اندر بھی بہت سے مغرب نوازوں نے کوشش کی کہ ایران بھی عالمی سامراج کے کھیل میں شامل ہو جائے لیکن ولی فقیہ کی قیادت نے، جس کی ذمہ داری اسلامی انقلاب کی حفاظت ہے، کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دیا۔