سوال: ایرانی قوم کا عظیم کارنامہ کیا تھا؟
جواب: جو کچھ بارہ روزہ جنگ کے دوران ہوا، اسے ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان ایک معمولی ٹکراؤ نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ جنگ، ایران اور اسرائيل کی جنگ نہیں تھی، بلکہ امریکا کے مرکزی کردار کے ساتھ مغرب اور صیہونیوں کی تیار کردہ ایک کثیر جہتی سازش تھی۔ ایرانی قوم نے جو عظیم کارنامہ انجام دیا ہے اگر ہم اسے بیان کرنا چاہیں تو ہمیں اسے صرف ایک جعلی اور چھوٹی حکومت کے ساتھ ٹکراؤ نہیں سمجھنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا، جنگ سے کئی مہینے پہلے سے، جب ٹرمپ اقتدار میں نہیں لوٹے تھے اور بائیڈن ہی امریکا کے صدر تھے، آپریشن کی تیاری کر رہا تھا اور اس حملے کی زمینی مشقیں بھی انجام پا چکی تھیں۔
صیہونی حکومت بنیادی طور پر اکیلے ہی مسلم اقوام سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ جغرافیا، آبادی، انفراسٹرکچر، وسعت، تمدنی اور تاریخی خصوصیات کے لحاظ سے ایران کے ساتھ اس کے موازنے سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل، طویل مدتی جنگ کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس کی ملٹری اسٹریٹیجی شروع سے ہی برق رفتار حملوں اور چونکا دینے والی جنگوں کی بنیاد پر تیار ہوئی ہے، یہ وہی چیز ہے جو مصر، اردن اور شام کے ساتھ جنگ میں بھی سامنے آئی تھی۔ تاہم ایران کے خلاف اس طرح کی جنگ کے لیے اسے بنیادی اور عالمی مدد کی ضرورت تھی جو اسے ملی، منجملہ امریکا اور بعض یورپی ملکوں کی جانب سے آپریشنل اور انٹیلی جنس کے میدان میں پشت پناہی۔
ایرانی قوم کا کارنامہ صرف اسرائیل کے مقابلے میں ڈٹ جانا نہیں تھا بلکہ ایک بہت ہی وسیع اور پیچیدہ سازش کا مقابلہ کرنا تھا۔ مغرب والوں نے برسوں کوشش کی تھی کہ میڈیا کے پروپیگنڈوں کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو ایران پر حملے کے لیے تیار کریں اور ایٹم بم تک رسائی روکنے کے نعرے کے ساتھ اس حملے کا جواز فراہم کریں۔ تاہم عملی طور پر ہم نے دیکھا کہ بمباری صرف ایٹمی تنصیبات تک محدود نہیں تھی۔ غیر فوجی علاقے، ہلال احمر، پولیس اور رفاہ عامہ کے مراکز اور اسی طرح شہر کے چوراہوں پر بھی حملے کیے گئے جن میں قریب ایک ہزار لوگ شہید ہوئے۔ شہید ہونے والوں میں نومولود اور چھوٹے بچوں سے لے کر جوان اور بوڑھے تک شامل تھے جو عام شہری تھی۔ فوردو کی ایٹمی سائٹ پر، جو ان کے حملوں کا اصل ہدف تھا، جنگ کے آخری دنوں میں حملہ کیا گيا۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ صیہونی حکومت کی جانب سے صدر، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور عدلیہ کے سربراہ سمیت ملک کے اعلیٰ سیاسی رہنماؤں کے قتل کی کوشش تھی۔ بنابریں یہ جنگ، صرف ایٹمی مسئلے کے بارے میں نہیں تھی۔ اس کا مقصد، ایران میں عدم استحکام پیدا کرنا، لوگوں کو نفسیاتی چوٹ پہنچانا، اعلیٰ عہدیداروں کو قتل کرنا، اس کے سیاسی ڈھانچے کو تباہ کرنا اور ایران کے حصے بخرے کرنا تھا۔ جو کچھ ہوا وہ فوجی آپریشن، سائبر اٹیک، نفسیاتی جنگ، ڈرونز اور مائیکرو ڈرونز کا استعمال اور الیکٹرانک جنگ تھی، یہ ایک ایسا ماڈل ہے جو عصر جدید کی جنگی تاریخ میں کم نظیر یا شاید بے نظیر ہے۔
اگر یہ ماڈل کامیاب ہو جاتا اور مغرب اپنے ہدف کو حاصل کر لیتا یعنی ایران کی حکومت گر جاتی، ملک میں بدامنی پیدا ہو جاتی اور وہ ٹکڑوں میں بٹ جاتا تو یہ دوسری خود مختار اقوام پر حملے کے لیے ایک آئيڈیل میں بدل جاتا، جیسا کہ ہم نے لیبیا اور شام میں دیکھا۔ تاہم جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ ایرانی قوم، خبیث اور سامراجی ارادے کے سامنے ڈٹ گئی۔ یہ استقامت نہ صرف اپنی خود مختاری کی حفاظت کے لیے تھی بلکہ دیگر اقوام کی آزادی و خود مختاری کے دفاع کے لیے بھی تھی۔ اس طرح یہ کام، ایک بڑا کارنامہ تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ مغرب والوں اور امریکیوں کا یہ معاندانہ رویہ، ایک دو دن کا نتیجہ نہیں ہے۔ امریکا کے ایران مخالف اقدامات کا ماضی قریب پچاس سال کا ہے۔ خلیج فارس میں ایران کے مسافر بردار طیارے کو نشانہ بنانا، مسلط کردہ جنگ میں عراق کی حمایت اور ایران کے خلاف بے تحاشا پابندیاں اس کی کچھ معمولی مثالیں ہیں۔ بنابریں بارہ روز جنگ، کوئی اتفاق نہیں بلکہ اسی معاندانہ پالیسی کا تسلسل تھی۔
اگر آج ایرانی قوم ڈٹ گئي ہے، اگر یہ سازش ناکام ہو گئی ہے تو یہ ایرانی قوم کے سماجی استحکام، قومی یکجہتی اور سیاسی بصیرت کی علامت ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس اہم واقعے کو بالکل صحیح انداز میں سب تک پہنچائيں اور اسے ایران اور اسرائيل کے جھگڑے یا ایک ایٹمی بحران تک محدود کرنے سے پرہیز کریں۔ یہ جنگ ایرانی قوم کی مزاحمت کی تاریخ کا ایک اہم موڑ اور ماڈرن سامراج کی سازشوں کی شکست کا مظہر تھی۔
سوال: آيت اللہ خامنہ ای نے اس ٹکراؤ میں اور اسرائيل اور امریکا پر فتحیابی میں ایرانی قوم کے عزم و ارادے کے کردار کو بہت اہم قرار دیا ہے۔ آپ کے خیال میں اس زمانے میں ایران کے مسلمان عوام کا عزم و ارادہ اس جنگ میں اتنا اہم کیوں ہے اور اس پر کن پہلوؤں سے توجہ دی جانی چاہیے؟
جواب: کلاسیکل تعریف میں جنگ کا مطلب ہوتا ہے کسی دوسرے پر طاقت کے بل پر اپنا ارادہ تھوپ دینا۔ حیات انسانی کے آغاز سے ہی جنگ، انسان کی ہمزاد رہی ہے اور تاریخ کے ہر دور میں متضاد ارادوں کے درمیان مسلحانہ ٹکراؤ دیکھا جاتا رہا ہے۔ جنگ میں جو چیز فیصلہ کن ہے وہ ہتھیار اور آلات نہیں بلکہ ارادے ہیں۔ حقیقی جنگ، اقوام کے ارادوں کے ٹکراؤ کا میدان ہے۔
حالیہ جنگ میں جو کچھ ہوا وہ صرف آلات اور ہتھیاروں کی جنگ نہیں تھی بلکہ دو ارادوں کا ٹکراؤ تھا: بمشکل 77 سال عمر والی صیہونی حکومت کے نام کی ایک جعلی اور خبیث حکومت کے ارادے کے مقابلے میں ایرانی قوم کا ارادہ۔ دشمن کا پلان یہ تھا کہ ایک بڑا حملہ کر کے اور ملک کے اعلیٰ حکام کو قتل کر کے لوگوں کو اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دی جائے گی تاکہ شام اور لیبیا کا شکست خوردہ ماڈل، ایران میں بھی نافذ کر دیا جائے۔ نظام کی تبدیلی کے لیے نیتن یاہو اور ٹرمپ کی دعوت اور سڑکوں پر آشوب پھیلانے کی کال، اسی سازش سے پردہ اٹھاتی ہے۔
انھوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ عوام، نظام سے دور ہو چکے ہیں اور حکمراں نظام کے کمزور پڑتے ہی سڑکوں لوگوں سے بھر جائیں گی اور داخلی دباؤ، نظام کا شیرازہ بکھیر دے گا۔ اسی لیے منافقین جیسے مسلح گروہوں سے لے کر رضا پہلوی جیسے تشہیراتی افراد تک کو استعمال کر کے وسیع پیمانے میڈیا میں پروپیگنڈا کیا گيا اور نفسیاتی جنگ چھیڑ دی گئی تاہم اس مرحلے میں میزائیل اور ڈرون نہیں لڑتے، یہاں ایرانیوں کا "قومی شعور" میدان میں آ جاتا ہے۔
ایرانی قوم نے اندازوں کے برخلاف ایک ایسا رویہ اختیار کیا جس کی جڑیں اس کے تاریخی تشخص میں پیوست ہیں۔ ایرانی، نئی قوم نہیں ہیں، ایسی قوم نہیں ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سامنے آئی ہو بلکہ وہ ایک قدیم تمدن، عمیق ثقافت اور عظیم تاریخ کے مالک ہیں۔ یہ قوم سامراج کی سازشوں سے پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ تاریخ میں بارہا لڑی ہے، شکست بھی کھائي ہے اور فتحیاب بھی ہوئی ہے لیکن ہر بار بحران کے بعد اس میں زیادہ یکجہتی آئی ہے۔
دشمن کو توقع تھی کہ خطے کے بعض ممالک کی طرح لوگ فرار ہونے لگیں گے، دکانوں کو لوٹیں گے یا ملک چھوڑ کر بھاگ جائيں گے تاہم فضائی حدود بند ہونے کے باوجود، پندرہ زمینی اور بحری ہمسائے ہونے کے بعد بھی ایرانی اپنے ملک سے نہیں بھاگے، انھوں نے خوف و وحشت اور آشفتگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ان کا رویہ، قومی بلوغ کی نشاندہی کر رہا تھا۔ یہ چیز، ایرانیوں کے قومی تشخص میں نہاں طاقت کی گواہ ہے۔
البتہ صرف قومیت نے اس عزم و ارادے کو وجود نہیں عطا کیا۔ دین خاص کر مذہب تشیع، حالیہ جنگ میں ایرانیوں کی طاقت کا دوسرا بازو تھا۔ شہادت، جہاد، مزاحمت اور ایثار کے ذریعے سعادت جیسی مذہبی اقدار نے ایرانی قوم کی شجاعت اور استقامت کو جلا بخشی۔ تکفیری گروہوں کے ذریعے جہاد کے مفہوم میں تحریف کی مغرب کی کوششوں کے باوجود، ایران میں یہ اقدار، مذہب کی حیات بخش ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہیں۔
عصر حاضر میں ولایت فقیہ کے سائے میں اور اسلامی جمہوری نظام کے تحت اقوام اور مذاہب پوری طرح سے یکجہتی تک پہنچ چکی ہیں۔ یہ یکجہتی، اسلامی جمہوریہ کی طاقت کا راز ہے۔ اگر ایرانی، ماضی میں انہی عناصر کے ساتھ لیکن قاجاری اور پہلوی جیسے کمزور نظاموں کے ساتھ شکست کھا چکے ہیں تو اس کا سبب، حکومت کے سیاسی ارادے اور قومی عزم کے درمیان ہماہنگی کا فقدان تھا۔
اسلامی جمہوریہ نے سنہ 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں لگاتار بڑھتے جا رہے قوم اور حکومت کے درمیان تضاد کو ختم کر دیا اور طاقت پیدا کردی۔
بارہ روز جنگ کی سازش تیار کرنے والے، اسی طاقت کو ختم کرنے کے درپے تھے۔ اسی لیے انھوں نے برسوں تک دین و قومیت اور حکومت و ملت میں ٹکراؤ اور تضاد کے لیے کام کیا تھا تاہم جنگ کے حساس موقع پر ایرانی قوم نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ تاریخ، مذہب اور سیاسی ڈھانچے کے درمیان یکجہتی نے ایک عظیم سول ڈیفنس پیدا کر دیا جو کسی بھی ملٹری ڈیفنس سے زیادہ مؤثر تھا۔ ایرانی قوم نہ صرف فوجی حملے کے مقابلے میں ڈٹ گئي بلکہ اس نے دشمن کے منصوبوں کو بھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اس بات نے دکھا دیا کہ ایرانی قوم کی طاقت کا سرچشمہ تاريخ، مذہب اور سیاسی اتحاد ہے اور کوئی بھی طاقت اپنے غلط اندازوں کے ساتھ، اس قوم کو جھکا نہیں سکتی۔