قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے بدھ کے روز وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور بیرون ملک متعین ایران کے سفیروں اور نمائندوں سے خطاب میں ملک کے سفارتی شعبے کو ایرانیوں کے قومی اہداف، مفادات اور ملی سرمائے کی حفاظت کا ہراول دستہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایرانی سفارت کاری کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے ایسے دور میں جب دنیا نئے ورلڈ آرڈر کی جانب بڑھ رہی ہے فعال اور مدبرانہ سفارت کاری کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں امریکا کے ساتھ تعاون اور تعلقات کے بے سود ہونے پر دلالت کرنے والے اہم ترین نکات بیان کئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سفارت کاری کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: مدبرانہ اور فعال سفارت کاری، سیاسی، اقتصادی، انسانی اور سماجی میدانوں میں انتہائی اہم کامیابیاں اور ثمرات فراہم کر سکتی ہے جو انتہائی مہنگی اور خطرناک جنگوں سے بھی حاصل نہیں ہوتے اور یہ حقیقت ملک کے انتظامی شعبوں مں سفارتی کاری کے شعبے کے مقام و منزلت کو ثابت کرتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے گزشتہ چند سال کے دوران رونما ہونے والے واقعات کو مذکورہ حقیقت کی دلیل قرار دیتے ہوئے فرمایا: کچھ طاقتوں نے اسلحے اور فوجی وسائل کے ذریعے مفادات کی تکمیل کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہو گئیں جبکہ کچھ دوسرے لوگوں نے دانشمندی، ظرافت اور سعی و کوشش سے اپنے مفادات بنحو احسن حاصل کئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے وزارت خارجہ کو ملک کے سفارتی شعبے کی انتہائی منظم فوج سے تعبیر کیا اور فرمایا: خارجہ سیاست کے مسئلے میں دوسرے محکمے بھی موثر واقع ہوتے ہیں لیکن وزارت خارجہ اس سلسلے میں ذمہ دار ادارے اور منظم فوج کی طرح فرائض کا بوجھ اپنے دوش پر اٹھاتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے کامیاب سفارت کاری کے شرائط اور لازمی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے اہداف کی پوری درستگی اور باریک بینی کے ساتھ نشاندہی کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: بعض اہداف عظیم قومی آرزوؤں کا درجہ رکھتے ہیں، بعض اہداف اسٹریٹیجک اور علاقائی اہداف شمار ہوتے ہیں، بعض اہداف وقتی اور عارضی اہداف ہیں، ان اہداف کو درجہ بندی کے ساتھ واضح کیا جانا چاہئے تاکہ سفارتی شعبے میں سرگرم تمام افراد کو اپنے فرائض کا بخوبی علم رہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مناسب نظم و ڈسپلن کو کامیاب سفارت کاری کی ایک اور اہم خصوصیت قرار دیا۔ آپ نے سفارتی صلاحیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے سفارتی ذہانت اور مہارت، برمحل لچک، ضروری مواقع پر زبردست استحکام اور اہداف کے تئیں سچی وفاداری اور التزام کا ذکر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے سفارتی ذہانت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: یہ خصوصیت انسان کو اس بات کی توانائی عطا کرتی ہے کہ مذاکرات اور گفتگو میں دوسرے فریق کے اہداف و اقدامات کا پہلے سے اندازہ کر لے اور اسی کے پیش نظر منصوبہ بنائے اور اس منصوبے کے مطابق عمل کرے۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ سفارتی مہارت کا مطلب ہے لچک اور قوت کا بروقت اور برمحل استعمال کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ اس خصوصیت کا ایک اور مطلب ہے فاتحانہ لچک اور حضرت امام حسن علیہ السلام کی صلح اس کا سب سے پرشکوہ تاریخی نمونہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق فاتحانہ لچک کی جو گوناگوں تفسیریں کی جاتی ہیں، ان کے برخلاف اس کا بالکل واضح مفہوم ہے اور کشتی کے مقابلوں میں اس کے نمونے بالکل نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں، ان مقابلوں میں جہاں ہدف مد مقابل حریف کو شکست دینا ہوتا ہے، اگر کسی پہلوان کے پاس طاقت تو ہو لیکن مناسب وقت پر لچک سے کام نہ لے تو یقینا شکست کھا جائے گا، جبکہ اگر لچک اور طاقت کو صحیح وقت پر استعمال کیا جائے تو حریف کو دھول چٹائي جا سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اہداف اور اعلی مقاصد کے تئیں صادقانہ اور عمیق التزام کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اہداف پر مکمل یقین و ایمان کے بغیر سفارتی میدان میں کام کرے تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سفارت کاری کے میدان کی مثال میدان جنگ سے دیتے ہوئے فرمایا : حقیقت یہ ہے کہ سفارتی میدان زور آزمائی کا میدان ہے اور اگر کوئی شخص ہدف پر مکمل یقین کے بغیر یہ کام انجام دیتا ہے تو شروع میں ہی یا پھر آخری وقت میں شکست کا ہی سامنا ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق مسلسل سعی اور ہرگز کوئی وقفہ نہ آنے دینا بھی کامیاب سفارت کاری کی ایک اہم شرط ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں فرمایا کہ بہت زیادہ محنت اور مربوط مساعی سفارت کاری کا اٹوٹ حصہ ہے جس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے وزیر خارجہ اور ملک کے سفارتی شعبے کے افراد سے اپنے اس خطاب میں موجودہ دور کو ایک نئے عالمی نظام کی جانب پیش قدمی کا عبوری دور قرار دیا اور فرمایا: روایتی کھلاڑیوں کے ساتھ ہی ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں کچھ نئے کھلاڑی بھی میدان میں وارد ہو گئے ہیں اور نئے عالمی نظام میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ایسے دور میں مضبوط اور کارساز سفارت کاری کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، لہذا اس وقت وزارت خارجہ کی ذمہ داری ماضی سے کہیں زیادہ حساس اور اہم ہو گئی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر در پیش حالات میں سفارتی محکمہ فعال، دانشمندانہ اور مقتدرانہ انداز میں عمل کرے تو آئندہ دسیوں سال کے لئے اور نئے عالمی نظام میں اسلامی جمہوریہ ایران کا مقام اور استحکام نمایاں اور پائیدار ہو جائے گا ورنہ دوسری صورت میں مستقبل کی دنیا میں ہم مناسب پوزیشن سے محروم رہیں گے۔
مواقع کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے کے نکتے کو بھی قائد انقلاب اسلامی نے بہت اہم قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: علاقائی و عالمی تغیرات کی رفتار بہت زیادہ ہے، لہذا ہر آن ان پر نظر رکھنے اور سرعت عمل کے ساتھ ہر واقعے کا صحیح تجزیہ کرنے اور اپنے اہداف و مقاصد سے اس کی نسبت اور تعلق کا اندازہ کرکے اس کے بارے میں اپنا موقف طے کرنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں دراز مدتی اہداف اور پالیسیوں پر دائمی طور پر توجہ دئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے اسلامی جمہوریہ کی منطق یعنی دینی جمہوریت کی ترویج کو بڑا ہدف قرار دیا اور فرمایا کہ اس مسئلے میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کام کیجئے، کیونکہ یہ ہدف خاص طور پر اسلامی خطوں میں کامیابی کے ساتھ عملی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایرانی سفارت کاری کی منفرد خصوصیات اور اوصاف کو دنیا میں نمایاں کرنے اور متعارف کرانے کو بھی خارجہ پالیسی کے میدان میں سرگرم افراد کی اہم ذمہ داری قرار دیا اور فرمایا: شخصی و سماجی سرگرمیوں میں اور سفارتی حلقوں کے اندر شرعی اصولوں کی پابندی کرنا اور امریکا سمیت بڑی طاقتوں کی ہیبت اور رعب و دبدبے سے نہ گھبرانا ایرانی سفارت کاری کی خصوصیت ہے، جس پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی جانی چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: سامراجی طاقتوں سے بے خوفی، انقلاب کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کی نمایاں خصوصیت بن گئی ہے اور اس پالیسی کو عوام کے اندر بھی مقبولیت ملی ہے اور دنیا کے سیاستدانوں میں بھی اسے پسند کیا جاتا ہے، اب چاہے وہ اس بات کو بیان کریں یا پنہاں رکھیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ مظلوم کا صریحی، قطعیت کے ساتھ اور حقیقی معنی میں دفاع بھی ایرانی سفارت کاری کی دوسری اہم خصوصیت ہے اور اسلامی انقلاب کے بعد کے ان تمام برسوں کے دوران، فلسطینی و لبنانی اقوام اور مجاہدین کے دفاع نیز اس جیسے دیگر معاملات میں ہمیشہ یہ خصوصیت نمایاں طور پر نظر آتی رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق سامراجی نظام کی سنجیدگی کے ساتھ مخالفت بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کی نمایاں خصوصیت رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ہمارے حکام شجاعت کے ساتھ اور بغیر کسی تکلف کے دنیا میں ہر جگہ سامراجی طاقتوں اور خاص طور پر امریکا کی موجودگی کی کھل کر مخالفت کرتے آئے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ قومی مفادات کی حفاظت دنیا کے تمام سفارتی محکموں کی مشترکہ خصوصیت اور ہدف ہے۔ آپ نے فرمایا: ایرانی سفارت کاری میں قومی مفادات کی حفاظت کے ساتھ ہی قومی سرمائے کی حفاظت بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ اگر قومی سرمایہ ہاتھ سے نکل گیا تو سفارت کاری کی پشت پناہی ختم ہو جائے گی اور پھر قومی مفادات کی حفاظت بھی ممکن نہیں رہے گی۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق ملی، اسلامی، انقلابی اور تاریخی تشخص ایرانیوں کا قومی سرمایہ ہے۔ آپ نے فرمایا: اسلامی انقلاب کے نتیجے میں حاصل ہونے والی خودمختاری، دین، باایمان ملت، انقلابی نوجوان نسل، تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے میں دو ٹوک موقف، دانشوروں اور ممتاز علمی ہستیوں کی بڑی تعداد اور وسیع علمی و سائنسی سرگرمیاں ایران کے قومی سرمائے کے عناصر ہیں، جن کی سفارتی میدان میں حفاظت کی جانی چاہئے، تاکہ قومی مفادات بھی محفوظ رہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں دنیا کے ملکوں کے ساتھ تعاون اور تعلقات کے بارے میں گفتگو کی۔ آپ نے دو روز قبل ایران کے سفارت کاروں کے درمیان صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی کی تقریر میں دنیا سے تعلقات اور تعاون کے سلسلے میں کہی گئی باتوں کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مسئلے میں امریکا اور صیہونی حکومت مستثنی ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کے ساتھ کام نہ کرنے کے حق میں دلائل پیش کرتے ہوئے فرمایا: امریکا سے رابطہ اور اس ملک سے مذاکرات اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے کچھ خاص مواقع کو چھوڑ کر نہ فقط یہ کہ بے سود ہیں بلکہ اس کے نقصانات بھی ہیں، لہذا کون عقلمند انسان ایسا کام کرے گا جس میں کوئی منفعت نہ ہو؟! قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: کچھ لوگ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر ہم امریکیوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں تو بہت سی مشکلات حل ہو جائیں گی، البتہ ہم کو پہلے سے معلوم تھا کہ ایسا نہیں ہے، مگر گزشتہ ایک سال کے اندر جو واقعات ہوئے ان سے یہ حقیقت ایک بار پھر پایہ ثبوت کو پہنچ گئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: ماضی میں امریکی حکام سے ہمارے حکام کا کوئی رابطہ نہیں تھا لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران حساس ایٹمی مسائل کی وجہ سے اور اس تجربہ کے لئے جو ہمیں مقصود تھا، یہ فیصلہ کیا گیا کہ وزیر خارجہ کی سطح پر رابطہ، اجلاس اور مذاکرات انجام پائیں لیکن اس رابطے سے ہمیں فائدہ حاصل ہونا تو در کنار امریکیوں کا لہجہ اور بھی تند اور توہین آمیز ہو گیا اور انہوں نے مذاکرات کی میز اور عمومی پلیٹ فارموں پر توسیع پسندانہ توقعات اور مطالبات پیش کرنا شروع کر دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بیشک ہمارے حکام نے اجلاسوں میں ان کے توسیع پسندانہ مطالبات پر بڑا مستحکم اور بسا اوقات دنداں شکن جواب دیا لیکن مجموعی طور پر یہ ثابت ہوا کہ کچھ لوگ جو خیال کرتے ہیں اس کے برخلاف مذاکرات سے کوئی مدد ملنے والی نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی سلسلے میں پابندیوں میں ہونے والے اضافے کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ امریکیوں نے نہ فقط یہ کہ اپنا عناد کم نہیں کیا بلکہ پابندیاں اور بھی بڑھا دیں! البتہ وہ کہتے ہیں کہ یہ پابندیاں نئی نہیں ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ نئی پابندیاں ہیں اور پابندیوں کے سلسلے میں مذاکرات کا کوئي فائدہ نہیں ملا۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: البتہ نیوکلیائی مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کی ہم ممانعت نہیں کریں گے اور جناب ڈاکٹر ظریف اور ان کے رفقائے کار نے جو کام شروع کیا ہے اور اب تک بہت اچھے انداز میں آگے بڑھے ہیں، وہ جاری رہنا چاہئے، مگر یہ سب کے لئے ایک اور قیمتی تجربہ رہا، جس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ امریکیوں کے ساتھ نشست و برخاست اور گفت و شنید سے ان کی دشمنی میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکیوں سے مذاکرات کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصانات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس سے اقوام کی رائے عامہ اور حکومتوں کے درمیان ہمیں تذبذب کا شکار سمجھا جائے گا اور مغربی حکومتیں اپنے وسیع تشہیراتی وسائل کی مدد سے یہ تاثر دیں گی کہ اسلامی جمہوریہ ایران دوہری پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ امریکیوں کے ساتھ نشست و برخاست کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ وہ نئے نئے مطالبات شروع کر دیتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے اس حصے میں صیہونی حکومت سے تعاون اور تعلقات کو ناممکن قرار دیا اور امریکیوں کے بارے میں کہا کہ جب تک موجودہ صورت حال یعنی ایران کے بارے میں امریکا کی دشمنی، امریکی حکام اور کانگریس کے معاندانہ بیانوں کا سلسلہ جاری رہے گا ان سے رابطے کا کوئی معنی و مفہوم نہیں ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے غزہ میں صیہونیوں کے جرائم کی حمایت کی وجہ سے امریکا کے خلاف بڑھتی عمومی نفرت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ساری دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو غزہ میں غاصب، درندہ صفت، قاتل، کافر اور ظالم صیہونی حکومت کے جرائم اور نسل کشی سے امریکا کو لا تعلق تسلیم کر لے، بنابریں اس وقت امریکی اور بھی کمزور پوزیشن میں پہنچ گئے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے غزہ کے عوام کی تازہ صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: جنگ بندی کے سلسلے میں فلسطینیوں کا موقف بالکل بجا ہے، ان کا کہنا ہے کہ جنگ بندی پر تیار ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ خونخوار اور درندہ صیہونی حکومت جیسا چاہئے المیہ رقم کرے اور پھر بغیر کسی تلافی کے حالات حملے سے پہلے والی صورت یعنی شدید محاصرے اور بھاری دباؤ کی طرف لوٹ جائیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جیسا کہ فلسطینی کہہ رہے ہیں ان مجرمانہ اقدامات کی تلافی ضروری ہے اور وہ تلافی غزہ کے محاصرے کا خاتمہ ہے اور کوئی بھی منصف مزاج انسان اس مانگ کی نفی نہیں کر سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں عراق کے حالات کے بارے میں گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا: ان شاء اللہ عراق کے نئے وزیر اعظم کے منصوب ہو جانے کے بعد مشکلات کا ازالہ ہوگا اور حکومت تشکیل پائے گی جو کام کرے اور ملک میں فتنہ انگیزی کرنے والوں کو اچھی طرح سے سبق سکھائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے سفارتی شعبے کے عہدیداروں اور کارکنوں کی کامیابی کی دعا کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم عزیز وزیر خارجہ اور ان کے رفقائے کار لئے ہمیشہ کامیابیوں کی دعا کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے ملک سے باہر متعین سفراء اور نمائندوں کے سیمینار کی رپورٹ پیش کی اور اس سیمینار کے انعقاد کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد تبادلہ خیال کرنا، ہم فکری قائم کرنا، رہبر انقلاب کی رہنمائی اور ہدایات سے استفادہ کرنا اور مضبوط پوزیشن کی بنیاد پر خارجہ سیاست کی تدوین ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کی جانب سے مسلسل حمایت و پشت پناہی کی قدردانی کرتے ہوئے وزیر خارجہ ظریف نے موجودہ دور کو خاص تاریخی موڑ قرار دیا اور کہا کہ بین الاقوامی میدان میں تیزی سے تغیرات، طاقت کے ذرائع میں پیدا ہونے والا تنوع اور نئے کھلاڑیوں کے لئے اپنے اثرات مرتب کرنے کے امکانات کی فراہمی موجودہ دنیا اور علاقے کی اہم خصوصیات ہیں۔
وزیر خارجہ ظریف نے داخلی اور خارجی سطح پر پیش آنے والے استثنائی مواقع سے بھرپور استفادے کو سفارتی محکمے کی اہم ذمہ داری قرار دیا اور کہا کہ امام خمینی اور قائد انقلاب اسلامی کی ہدایات، دینی جمہوریت اور حقیقت پسندانہ اعلی مقاصد کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ کی روحانی طاقت کی وجہ سے ایران داخلی سطح پر مستحکم ہو چکا ہے اور اس خصوصیت نے اسلامی جمہوریہ کو علاقائی طاقت میں تبدیل کرکے علاقے میں استقامت و اسلام نوازی کی ترویج کے امکانات سے بہرہ مند کر دیا ہے۔
وزیر خارجہ ظریف نے اسلامی نظام کے محافظ کا درجہ رکھنے والی وزارت خارجہ کے فرائض پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم قائد انقلاب اسلامی کے ذریعے وضع کی جانے والی خارجہ پالیسی کو بنحو احسن عملی جامہ پہنانے کا عزم رکھتے ہیں اور اس عمل میں ہم اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت پر توکل کرتے ہیں اور دنیا میں کسی بھی طاقت کو سپرپاور نہیں مانتے۔
محمد جواد ظریف نے کہا کہ قومی طاقت اور اپنی ماہرانہ توانائی پر یقین رکھتے ہیں اور اسی یقین کی وجہ سے دنیا کی ظاہری طاقتوں سے ہم کبھی بھی مغلوم نہیں ہوں گے۔