قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تہران کے دورے پر آنے والے افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی سے ملاقات میں دونوں ملکوں کے تاریخی و ثقافتی اشتراکات اور روابط کا حوالہ دیتے ہوئے اسلامی تعلیمات اور زبان فارسی کی ترویج اور فروغ میں افغانستان کے علماء اور ادباء کے نمایاں کردار کی قدردانی کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: افغانستان انسانی وسائل اور مالامال ثقافت کے علاوہ وسیع قدرتی ذخائر کا بھی مالک ہے اور یہ تمام صلاحیتیں اور اشتراکات دونوں ملکوں کے باہمی تعاون کے فروغ کے لئے استعمال ہونی چاہئیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اتوار کی شام ہونے والی اس ملاقات میں ایران اور افغانستان کے درمیان ہمدلی اور تعاون کے فروغ کے لئے عزم و ارادے اور ٹھوس فیصلے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکا اور علاقے کے بعض ممالک افغانستان کی صلاحیتوں اور توانائیوں سے واقف نہیں ہیں اور دونوں ملکوں کے تعاون اور ہمدلی کو بھی پسند نہیں کرتے لیکن ایران اپنے ہمسایہ ملک افغانستان کی سیکورٹی اور پیشرفت کو اپنی سیکورٹی اور پیشرفت مانتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے علم و دانش، سائنس و ٹکنالوجی، ثقافت و سفارت کاری جیسے گوناگوں میدانوں میں ایران کی نمایاں پیشرفت کو دونوں ملکوں کے باہمی تعاون کی اچھی زمین قرار دیا اور فرمایا: دونوں ملکوں کے درمیان مہاجرین، پانی، نقل و حمل اور سیکورٹی سے متعلق تمام مسائل قابل تصفیہ ہیں اور ان تمام مسائل کا تندہی کے ساتھ اور طے شدہ شیڈول کے تحت جائزہ لیا جانا چاہئے اور انھیں حل کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے افغان مہاجرین کے مسئلے کے حل کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے ایران میں مختلف سطح پر تحصیل علم میں مصروف لاکھوں افغان شہریوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: افغانستان کے عوام بہت باہوش اور با صلاحیت ہیں، لہذا اس استعداد کو کسب دانش کے لئے بنحو احسن استعمال کیا جانا چاہئے، کیونکہ آپ کے ملک کی تعمیر نو کے لئے تعلیم یافتہ افغان شہریوں کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تہران کو برادران افغانی کا آشیانہ قرار دیا اور ہمسایہ ملک کی حکومت سے دیرینہ اور پائیدار دوستانہ تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ افغانستان کے عوام اور حکومت کی داخلی توانائیوں اور کامیابیوں میں روز بروز اضافہ ہوگا۔
اس ملاقات میں افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے اپنے دورہ تہران پر اظہار مسرت کیا اور ایران و افغانستان کے درمیان دیرینہ گہرے ثقافتی و تاریخی رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ افغانستان علاقے میں باہمی روابط کا مرکز بن جائے اور علاقے میں رابطہ پل کی اپنی سابقہ حیثیت کو بحال کرے۔ افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے کہا کہ اس وقت ایران اور افغانستان کے سامنے یکساں قسم کے خطرات اور مشترکہ مواقع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا سیاسی عزم یہ ہے کہ دوطرفہ تعلقات کو فروغ دیا جائے اور دونوں ملکوں کے اشتراکات اور مثبت امور کو تقویت پہنچانے کے لئے کوشش کی جائے۔
افغان صدر نے کہا کہ افغان حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ داخلی تصادم اور تضادات کو تعاون میں تبدیل کیا جائے۔ انہوں نے دو طرفہ روابط میں دہشت گردی کے مسئلے، منشیات، افغان مہاجرین اور سرحد پر مشترکہ پانی جیسے مسائل کی شکل میں موجود رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے مسائل دونوں حکومتوں کے سیاسی عزم کی بنیاد پر اور اس سفر میں طے پانے والے نظام الاوقات کے تحت حل کئے جائیں گے۔
افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ منشیات کی اسمگلنگ کے معاملے میں ایران کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے اور کسی بھی ہمسایہ ملک نے منشیات کے مسئلے کو ایران جیسی سنجیدگی سے نہیں لیا ہے اور کسی بھی ملک نے منشیات کے مسئلے کے حلاف ایران جیسی جدوجہد بھی نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایران کی مدد سے اس خانماں سوز آفت سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لئے پوری طرح آمادہ ہیں۔
افغان صدر نے نقل و حمل، سرمایہ کاری اور اقتصادی و ثقافتی تعاون کے میدانوں میں دونوں ملکوں کے روابط کے فروغ کا ذکر کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ کی خردمندانہ سرپرستی میں ایران اپنا تاریخی تشخص مستحکم کر چکا ہے اور امید کرتے ہیں کہ اسی دانشمندانہ قیادت کی اساس پر دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعاون کے فروغ کا بھی ہم مشاہدہ کریں گے۔