انھوں نے اس ملاقات میں، جو تیرہویں کابینہ کے اراکین سے ان کی آخری ملاقات تھی، تیرہویں حکومت کو "کام، امید اور اقدام" کی حکومت بتایا اور کہا کہ شہید رئیسی حقیقت میں حق اور مستقبل کے بارے میں پرامید تھے اور طے شدہ اہداف کے حصول کا ٹھوس عزم رکھتے تھے۔
رہبر انقلاب نے شہید رئیسی کی خصوصیات کی تشریح کرتے ہوئے ان کے عوام سے جڑے ہونے کو ان کی بہت اہم اور تمام عہدیداران کے لیے ایک آئيڈیل خصوصیت بتایا اور کہا کہ عزیز رئیسی عوام کے درمیان پہنچ کر حقائق اور ضروریات کو قریب سے محسوس کرتے تھے اور انھوں نے عوام کی مشکلات کی برطرفی اور ان کی ضروریات کی تکمیل کو اپنے پروگراموں اور اقدامات کا محور قرار دے رکھا تھا۔
انھوں نے عوام سے جڑے ہونے کی خصوصیت کو حکام اور عہدیداران سے اسلام کا مطالبہ بتایا اور مالک اشتر کے نام امیر المومنین علیہ السلام کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امیر المومنین مالک اشتر سے زور دے کر کہتے ہیں کہ تمھاری نظر میں سب سے پسندیدہ کام وہ ہونا چاہیے جو عوام الناس کی مرضی اور خوشی حاصل کرے۔ شہید رئیسی، امیر المومنین کی اسی روش پر چل رہے تھے اور اسے بھی سبھی کے لیے نمونۂ عمل ہونا چاہیے۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ملکی صلاحیتوں پر گہرے یقین کو شہید رئيسی کی ایک اور نمایاں خصوصیت بتایا اور کہا کہ رئیسی دل کی گہرائیوں سے ملک کے مسائل کے حل کے لیے ملکی صلاحیتوں اور توانائيوں کو بروئے کار لانے پر یقین رکھتے تھے۔
انھوں نے دینی اور انقلابی موقف کے کھل کر اعلان، ذو معنی باتیں کرنے اور دوسروں کی خوشنودی کا لحاظ کرنے سے پرہیز کو شہید صدر مملکت کی ایک اور خصوصیت بتایا اور کہا کہ رئيسی جو بات صراحت کے ساتھ کہتے تھے اس کی عملی طور پر پابندی بھی کرتے تھے، مثال کے طور پر صدر بننے کے بعد جب ان کے پہلے انٹرویو میں ان سے سوال کیا گيا کہ کیا آپ فلاں ملک سے تعلقات قائم کریں گے تو انھوں نے جواب دیا تھا: "نہیں" اور وہ آخر تک اسی صریح اور واضح موقف پر ڈٹے رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کام سے نہ تھکنے کو شہید رئيسی کی ایک اور خصوصیت بتاتے ہوئے کہا کہ میں بغیر مشکل کے کام جاری رکھنے کے لیے ان سے بارہا کہتا تھا کہ وہ تھوڑا آرام کریں لیکن وہ کہتے تھے کہ مجھے کام سے تھکن نہیں ہوتی اور واقعی وہ تھکتے نہیں تھے۔
انھوں نے مزید کہا کہ صدر رئیسی میں ایک اور نمایاں خصوصیت تھی اور وہ یہ کہ وہ خارجہ پالیسی میں دو خصوصیات کی ایک ساتھ پابندی کرتے تھے، ایک تعاون اور دوسرے عزت و سربلندی۔ وہ تعاون کرنے والے تھے لیکن عزت و سربلندی کی پوزیشن سے، نہ وہ اتنی تند بحث کرتے تھے کہ رابطہ ٹوٹ جائے اور نہ ہی فضول میں اپنے آپ کو کمتر ظاہر کرتے تھے۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اس سلسلے میں یاد دہانی کرائي کہ عزت و سربلندی کی پوزیشن سے دیگر ملکوں خاص طور پر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ ہمارے شہید صدر کا تعاون اس بات کا سبب بنا کہ ان کی شہادت کے بعد دنیا کے کئي بڑے سربراہان مملکت نے اپنے تعزیتی پیغاموں میں انھیں ایک معمولی سیاستداں نہیں بلکہ ایک نمایاں ہستی کے طور پر یاد کیا۔
انھوں نے شہید رئيسی کی معنویت، ذکر، توسل اور دعا کو سراہتے ہوئے اسے ان کی ایک اور نمایاں خصوصیت کے طور پر پیش کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ یہ خصوصیات ایک آئيڈیل اور نمونۂ عمل کی تشریح اور تاریخ میں درج کیے جانے کے لیے بیان کی گئيں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ایک صدر، بے شمار فکری، قلبی اور عملی فضائل کا حامل ہو سکتا ہے اور اپنی حکومتی اور انفرادی کارکردگي کے دوران بھی ان کی پابندی کر سکتا ہے۔
انھوں نے اپنے خطاب کے آخر میں ایک بار پھر ایک اچھے اور بغیر تلخی کے انتخابات کے انعقاد کے لیے عوام، حکومتی عہدیداروں، وزارت داخلہ، قومی میڈیا، پولیس فورس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ دنیا کے بعض ممالک میں الیکشن مارپیٹ اور ایک دوسرے کا کالر پکڑے بغیر نہیں ہوتا جبکہ ہمارے ملک میں الیکشن بہترین طریقے سے منعقد ہوا۔