رہبر انقلاب اسلامی نے امیر المومنین علیہ السلام کی بعض فضیلتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی نظام کو عوامی نظام بنانے اور ملک کے مستقبل کی تعمیر میں عوام کی ہر فرد کی گہری تاثیر کا عقیدہ ہم نے اپنے مولا سے لیا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس ملاقات میں قریب آ چکے صدارتی انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے اور صدر رئیسی کی رحلت اور دسیوں لاکھ لوگوں کی شرکت سے ان کی آخری رسومات کے چالیس دن بعد صدارتی انتخابات کے انعقاد کا حوالہ دیا اور کہا کہ ہم امید کرتے ہوئے کہ اللہ تعالی انتخابات میں ملت ایران کو سرفراز فرمائے گا۔
آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ملت ایران کی سرفرازی کا لازمہ انتخابات میں ملت ایران کی بھرپور شرکت اور سب سے اہل اور موزوں امیدوار کا انتخاب ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات میں وسیع عوامی شرکت پر میری تاکید کی وجہ یہ ہے کہ عوام کی بھرپور شرکت کا نتیجہ اسلامی جمہوریہ کی سرفرازی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے وقت سے ہی اس کے خلاف دشمنی و عناد کا سلسلہ چلا آ رہا ہے اور انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت دشمن پر غلبہ حاصل کرنے کے عوامل میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی شراکت اسلامی جمہوریہ کی ماہیت کا حصہ ہے اور اس کا سب سے اہم مظہر اور نمونہ انتخابات اور عہدیداران کا تعین ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ملک کے بعض سیاسی رہنماؤں کے اس تصور پر تنقید کی کہ ملک کی ترقی کے لئے بڑی طاقتوں کے پیچھے لگنا ضروری ہے اور اس توہم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ ترقی کے سارے راستے امریکہ سے ہوکر گزرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ سرحدوں کے پار اغیار سے آس لگائے بیٹھے ہیں، وہ انتہائی اہم داخلی توانائیوں کو دیکھنے اور پہچاننے پر قادر نہیں ہیں اور نتیجتا انہیں بروئے کار لانے کے لئے منصوبہ بندی بھی نہیں کر سکتے۔
آپ نے زور دیکر کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اغیار پر تکیہ کئے بغیر بلکہ ان کی موذیانہ کوششوں اور مشکلات پیدا کرنے والی حرکتوں کے باوجود پیشرفت کے راستے پر آگے بڑھتا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ آئندہ بھی ملت ایران یہ اجازت نہیں دے گی کہ دوسرے اس کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی کا یہ کہنا تھا کہ اغیار سے آس نہ لگانا شجاعت اور قومی خود مختاری سے عبارت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں خصوصیات کو قائم رکھتے ہوئے ملت ایران اپنی توانائی اور اپنا تشخص پیش کر سکتی ہے اور اس سے دنیا میں اس کا وقار بڑھے گا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں عید غدیر کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے فرمان کے مطابق پیغمبر کی طرف سے جانشین کے تعین اور امیر المومنین کی امامت کے سائے میں اسلام کی سیاسی حکمرانی کا سفر آگے بڑھنے کی وجہ سے کفار پر مایوسی طاری ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی حاکمیت اور سیاست کا تسلسل و استمرار جو امامت کی شکل میں سامنے آیا در حقیقت روح اسلام کا تسلسل و استمرار ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ امامت و ولایت کے زیر سایہ اسلامی حاکمیت کا تسلسل اسلامی زیست کے ماڈل کے تسلسل کا سبب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ائمہ کی ڈھائی سو سالہ جدوجہد کا مقصد جسے بعد کے ادوار میں بعض عمائدین تشیع نے بھی انجام دیا اور عصر حاضر میں امام خمینی اور ملت ایران کی جدوجہد کی صورت میں وہ جہاد جاری ہے، اسلام کی حکمرانی قائم کرنا تھا جس کے نتیجے میں معاشرے میں اسلامی طرز زںدگی رواج پاتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی طرز زندگی کے اصلی خطوط بیان کرتے ہوئے عدل و انصاف، 'اشدّاء علی الکفّار رحماء بینھم'، سماج کے حاکم کو عوام کے درد و رنج کا بخوبی احساس ہونا، عوام کی طرف سے اسلامی حاکمیت کی اطاعت، تعاون اور مدد کا ذکر کیا اور کہا کہ غدیر اسلامی زیست کے ارتقاء بخش خطوط کو عملی جامہ پہنانے کی تمہید ہے اور اس پہلو سے یہ واقعہ سارے اسلامی فرقوں کے اتحاد کا باعث بن سکتا ہے، اسے شیعہ سنی اختلاف کا موضوع نہیں قرار دینا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ امیر المومنین علیہ السلام ان صفات میں نقطہ اوج پر ہیں۔ انہوں نے نہج البلاغ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گہرا یقین اور ہر طرح کے شک و تردد سے دور ہونا، سماج میں ہر دین و مسلک کے ہر فرد کے سلسلے میں حساس ہونا، ناقابل بیان انصاف پسندی، دشمن کی ظاہری لچک کے فریب میں نہ آنا اور اس کی طرف سے پوری طرح ہوشیار رہنا امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی نمایاں صفات ہیں۔
آيت اللہ خامنہ ای نے حکومت کے عوامی ہونے اور حاکم و عوام کے ما بین دو طرفہ حقوق کے نظرئے کو امیر المومنین کی فضیلتوں میں شمار کیا اور کہا کہ اسلامی نظام کو مکمل عوامی نظام بنانے کی تعلیم ہمیں اپنے مولا اور قرآنی آیات سے ملی ہے، کچھ لوگ غلط بیانی کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ نے انتخابات، ڈیموکریسی و جمہوریت کو مغرب سے سیکھا ہے۔