بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

والحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

برادران عزیز خوش آمدید! آپ عدلیہ کے  سربراہ اور معزز و محترم عہدیداروں کے کندھوں پر اہم ترین ذمہ داریاں ہیں۔

میں آپ لوگوں کی  خدمت میں عظیم ترین عید، عید غدیر اور اسی طرح حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت کی جو آج ہے، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اس موقع پر عدلیہ کے شہدائےعزیز، شہید بہشتی اور دیگر شہدا بالخصوص مرحوم آقائے رئیسی (رضوان اللہ علیہ) جن کا ریکارڈ عدلیہ میں بہت اچھا رہا ہے، ان سبھی عزیزوں کو یاد کریں! خداوند عالم ان شاء اللہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی زحمتوں کا اجر عنایت فرمائے۔

عدلیہ کے سبھی کارکنوں کا، جج صاحبان، اعلی عہدیداروں اور انتظامی کارکنوں، سبھی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ سبھی محنت کر رہے ہیں۔

جیسا کہ جناب محسنی نے فرمایا ہے اور مجھے بھی علم ہے، الحمد للہ، عدلیہ میں بہت اچھی کوششیں ہو رہی ہیں۔ میں آپ کی کوششوں اور زحمتوں کا شکرگزار ہوں۔ بالخصوص عدلیہ کے محترم سربراہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ہم ان کے بارے میں سنتے ہیں، مٹنگوں میں ان سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، عدلیہ میں جو کام کئے گئے ہیں۔ (ان کی اطلاع  ہے) اور میں انہیں ضروری یاد دہانیاں بھی کراتا ہوں، رپورٹیں بھی سنتا ہوں۔ اچھی کوشش ہو رہی ہے۔ الحمد للہ اچھا کام ہو رہا ہے۔

جناب آقائے محسنی میں جو مثبت باتیں پائی جاتی ہیں، ان کے علاوہ الحمد للہ ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ وہ  عدلیہ میں طویل عرصے سے کام کرنے کی بنا پر اس کو اچھی طرح  پہچانتے ہیں، اس کے سبھی شعبوں، پہلوؤں اور خصوصیات سے واقف ہیں۔ یہ ان کا ایک نمایاں امتیاز ہے۔ بہرحال ہم آپ سب کے شکرگزار ہیں۔

 چند جملے عدلیہ کے بارے میں عرض کریں گے۔ انھوں نے جو رپورٹ دی ہے،  وہ بہت اچھی ہے۔ جو کام ہوئے ہیں وہ بہت اچھے اور اہم ہیں۔ عدلیہ کا اصلی کام ، صرف ہمارے ہی ملک میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں، عدل کی بنیاد پر عوام کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ یہ ایک فریضہ ہے اور دوسرا قانونی حدود پار کرنے پر روک لگانا ہے۔ عدلیہ کے کام کی بنیاد یہ ہے۔ اسی بنا پر آپ  ملاحظہ فرمائيں کہ شروع سے ہی اس کا نام "عدلیہ" اور " داد گستری" ہے۔ عدلیہ کا اصل مسئلہ، "عدل" ہے۔ یہ عدلیہ کی بنیاد ہے۔ عوام کے تنازعات میں یا جو ظلم و زیادتیاں ہوں، ان کے تدارک میں پہلے درجے میں عدل و انصاف پر توجہ مرکوز رہنی چاہئے۔  مقدمات کی بہتات کا جو ذکر کیا ہے، یہ دراصل نا انصافیاں ہیں، ان کے تدارک میں عدل و انصاف پر توجہ ضروری ہے۔  

اسلام میں، الحمد للہ آپ سبھی حضرات واقف ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ عدل و انصاف کا پہلو بہت نمایاں اور ممتاز ہے۔ اسلامی تعلیمات میں، قرآن کریم میں، نہج البلاغہ میں، احادیث میں قرآن کریم کی آیات میں، کہا گیا ہے کہ "ان حکمت فاحکم بینھم بالقسط" (2) دوسری جگہ فرمایا گیا ہے  کہ "واذا قلتم فاعدلوا" (3) ایک ور جگہ کہا گیا ہے کہ "انّ اللہ یامر بالعدل۔" (4) دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ "قل امر ربی بالقسط" (5) "و امرت لاعدل بینکم"(6) ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے کہ "کونوا قوّامین بالقسط شہداء للہ و لو علی انفسکم اوالوالدین و الاقربین" (7) دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ "لایجرمنّکم شنئان قوم علی الّا تعدلوا۔" (8) اور بہت سی  دیگر آیات ہیں جن میں عدل و انصاف کی تاکید کی گئی ہے۔ یعنی قران کریم اور دیگر اسلامی متون میں  عدل  و انصاف کی جتنی تاکید کی گئی ہے اتنی بہت کم امور کے بارے میں کی گئی ہے۔ اس کا نچوڑ یہ ہے کہ عدلیہ کی ساری کوششیں، پوری شجاعت کے ساتھ عدل و انصاف فراہم کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔

 جیسا کہ ہم نے عرض کیا یہ کام آسان نہیں ہے۔ اس کے لئے شجاعت کی ضرورت ہے۔ شجاعت کے ساتھ  اور کسی طرح کی رو رعایت کے بغیر عدل نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ مقدمات کا فیصلہ غیر جانبدرانہ اور منصفانہ ہونا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام صحیفہ سجادیہ کی بائيسویں دعا میں فرماتے ہیں کہ اس طرح عمل  کریں کہ "حتّی یامن عدوّی من ظلمی و جوری وییاس ولیّی من میلی و انحطاط ھوای" (9) عدلیہ، جج اور عدلیہ کے اعلی عہدیداروں کو اس طرح کام کرنا چاہئے کہ دشمن بھی خود کو ظلم و جور سے محفوظ سمجھے اور اس کا دوست اور قریبی فرد بھی اس سے طرفداری کی آس نہ لگائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو معاشرے میں، عدالتی صحتمندی اور ذہنی نیز نفسیاتی احساس تحفظ پیدا ہوگا۔ یعنی لوگ خود کو محفوظ محسوس کریں گے۔ یہ بہت اہم ہے کہ لوگ یہ احساس کریں کہ عدلیہ کے ہوتے ہوئے، ان پر ظلم نہیں ہوگا اور اگر ظلم ہو گیا تو مظلوم کو انصاف ملے گا۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ عدل قائم ہو۔ میں نے اس تعلق سے دو تین باتیں یاد نوٹ کی ہیں جنہیں عرض کروں گا۔  

پہلی بات یہ ہے کہ عدلیہ کو منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنا چاہئے۔ طے شدہ پروگرام کے ساتھ کام شروع کرے۔ الحمد للہ بتایا گیا کہ بہت اچھے منصوبے ہیں۔

تبدیلی کی دستاویز، وہ دستاویز بھی جو پہلے تیار کی گئی تھی اور وہ بھی جس پر بعد میں نظر ثانی کی گئی، میں نے حال ہی میں سنا ہے کہ اس دستاویز کو اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ جن لوگوں نے اس کو دیکھا ہے اور اس سے واقف ہیں، وہ تعریف کرتے ہیں۔ دستاویزات بہت خوب ہیں لیکن جو چیز میرے لئے باعث تشویش ہے،  وہ یہ ہے کہ ان اچھی دستاویزات کی عدلیہ کے اشاریوں پر کوئی خاص تاثیر نظر نہ آئے۔

 یہ دستاویزات بہت اچھی دستاویزات ہیں۔ چند نکات میں عرض کروں گا جو میں نے عدلیہ کی مکتوب رپورٹ سے یادداشت کئے ہیں۔

مثال کے طور پرمقدمات نمٹانے کی مدت ہے۔ مقدمات کو نمٹانے کی مدت کم کی جائے۔

 ایک اور مسئلہ نچلی عدالتوں کے فیصلوں کی منسوخی ہے۔ ایک عدالت بیٹھتی ہے، مقدمے کا فیصلہ صادر کرتی ہے اور اس کے بعد اپیل کورٹ میں وہ فیصلہ منسوخ ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ نچلی عدالت کا فیصلہ کمزور تھا۔ اتنی محنت ہوئی، افرادی قوت صرف ہوئی اور وقت اور پیسہ خرچ ہوا لیکن نتیجہ اچھا نہیں نکلا۔ میں نے بارہا تاکید کی ہے کہ نچلی عدالتوں کے فیصلوں کی منسوخی کم ہونی چاہئے۔ لیکن اس کے باوجود کہ یہ دستاویزات اچھی اور محکم ہیں (ابتدائی فیصلوں کی منسوخی)  کم نہیں ہوئی۔

 اسی طرح ملک کے تفتیشی ادارے میں ارسال کی جانے والی رپورٹوں اور شکایات کا مسئلہ ہے۔ یہ رپورٹیں اور شکایات بھی کم نہیں ہوئی ہیں بلکہ بڑھی ہیں۔  یعنی یہ باتیں موجود ہیں۔ دستاویز کو اس طرح مدون اور نافذ کریں کہ مذکورہ نکات پر اس کا اثر محسوس کیا جائے۔

 اب دیکھنا یہ ہے کہ کمی دستاویز میں رہی ہے یا نہیں، دستاویز اچھی تھی، اس کو اچھی طرح نافذ نہیں کیا گیا۔ اس کی تحقیق کریں۔ میری نظر میں یہ اہم امور میں سے ہے اور خود عدلیہ کے محترم سربراہ کو چاہئے کہ کچھ لوگوں کو یہ کام سونپیں کہ وہ پتہ لگائيں کہ کمی کہاں ہے؟ دستاویز قابل اجرا نہیں تھی یا مشکل عمل درآمد میں تھی؟

عدلیہ کے اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچنے میں ایک بڑی رکاوٹ مقدمات کی بہتات ہے جس سے جج پر دباؤ بڑھتا ہے اور وقت کم پڑ جاتا ہے۔ بعض اوقات مہینے کے آخر میں جو اعداد و شمار جاری ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ وہ بھی بے تاثیر نہ ہوں۔ یہ اس بات کا باعث بنتے ہیں کہ مقدمات کے فیصلے زيادہ محکم اور ٹھوس نہ ہوں۔ مقدمات کی کثرت کے تعلق سے بھی صحیح اور بنیادی فکر کی ضرورت ہے اور یہ کام بھی خود آپ کے ذمے ہے۔  

ایک اور کام میری نظر میں جس کی انجام دہی عدلیہ میں ضروری  ہے، وہ جج  صاحبان کے علم و دانش میں اضافہ ہے۔  الحمد للہ عدلیہ ميں ہمیں ججوں کی کمی کا مسئلہ درپیش نہیں ہے لیکن یہ ایک بہت بڑا اور وسیع ادارہ ہے۔ سبھی جج صاحبان کی علمی سطح بلند ہونی چاہئے۔  میں نے سنا ہے کہ عدالتی علوم کی یونیورسٹی میں اس سلسلے میں کافی گنجائش اور توانائی موجود ہے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عدالتی علم و دانش کی سطح بلند ہونے سے بہت سی مشکلات کم ہو جائيں گی۔ یعنی عدالتی  و قانونی علوم میں تبحر مقدمات کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اور صحیح طور پر تیزرفتاری سے  نمٹانے میں مدد کرے گا۔

 ایک اور کام جو ضروری ہے، یہ ہے کہ الحمد للہ جج صاحبان میں اور اسی طرح عدلیہ کے  زحمت کش کارکنوں میں، جن کی تعداد کم نہیں ہے، الحمد للہ یہ ادارہ بہت وسیع ہے اور اس میں بڑی تعداد میں اچھے جج صاحبان اور کارکن موجود ہیں، ایسے لوگ ہیں جو واقعی جہادی جذبے کے ساتھ کام کرتے ہیں، جہادی جذبے کے ساتھ کام کرنے والوں کی تقویت کی جائے۔

بہرحال میرا مطمح  نظر یہ ہے کہ اس طرح کام کیا جائے کہ عوام عدلیہ کو عدل و انصاف کا مرکز سمجھیں۔ عدلیہ سے کسی چیز کا بھی کوئی لحاظ کئے بغیر، سب کو انصاف ملے۔

اصل کام یہ ہے۔ البتہ ان مسائل کے ذیل میں جو کام انجام پاتے ہیں، وہ بھی قابل قدر ہیں۔ جن کاموں کا ذکر کیا گیا، وہ بھی اہم ہیں لیکن بنیادی کام یہ ہے کہ عدالتوں کے اجلاس اور ان کے فیصلے منصفانہ ہوں۔ عدالتی اجلاسوں کا نتیجہ عدل اور انصاف ہونا چاہئے۔ عدالت ایسی ہونی چاہئے کہ سب محسوس کریں کہ یہ عدالت ہے۔ حتی وہ بھی اس کو عدالت سمجھے جس کے خلاف فیصلہ صادر ہو۔ البتہ ظاہر ہے کہ جس کے خلاف فیصلہ ہوگا وہ خوش نہیں ہوگا، ممکن ہے کہ فیصلے کے خلاف اپیل بھی کرے، اس پر اعتراض بھی کرے لیکن دل میں وہ بھی یہ محسوس کرے کہ فیصلے میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے ہیں۔

میری ایک اور تاکید جو میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں (10) ان مقدمات کو تیز رفتاری سے نمٹانے کی ہے جن میں کوئی زیر حراست ہو اور جیل میں بند ہو۔

بعض اوقات ہمارے دفتر کے شعبہ رابطہ عامہ کو ایسی رپورٹیں ملتی ہیں جو تشویشناک ہوتی ہیں۔ کوئی جیل میں بند ہے، مقدمہ چل رہا ہے لیکن اس میں وہ ضروری تیزرفتاری نہیں ہے جو ہونی چاہئے۔ جوجیل میں بند ہے ، وہ مشکل میں ہے، اس کے بارے میں جلد فیصلہ ہونا چاہئے۔ یہ بہت اہم ہے۔

بعض لوگ جیل میں بند ہوتے ہیں اور ان کی مشکل لا ینحل ہوتی ہے۔ اگر کوئی مالی مسئلے میں جیل میں بند ہو گیا اور قرض ادا کرنے پر قادر نہ ہونے کی بنا پر اس کے قرض کی رقم روز بروز بڑھتی جاتی ہے تو نتیجے میں اس کی قید کی مدت بھی زیادہ طولانی ہو جاتی ہے۔

 اس طرح کے بعض ایسے  قیدی بھی نظر آتے ہیں، جو پوری عمر جیل میں گزارنے کے بعد بھی قرض ادا نہیں کر سکتے۔ اس کا کوئی حل نکالنا چاہئے۔  میں نے اس سے پہلے ایک بارعدلیہ سے کہا ہے کہ بعض معاملات میں شرعی رقوم  سے بھی جیل میں بند مقروض کا قرض ادا کر سکتے ہیں۔

میں سہم امام کے تعلق سے بہت محتاط ہوں، یعنی میں (خمس کے) سہم امام سے مسجد وغیرہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا ہوں لیکن میرا نظریہ ہے کہ یہ رقم اس طرح کے مسائل حل کرنے پر خرچ کی جا سکتی ہے۔ اس کی کوئی راہ حل ہونا چاہئے۔

ایک اور سفارش جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ سنا ہے کہ بعض جج صاحبان اپنے فیصلوں میں، انسانی حقوق کے مغربی اصولوں کا حوالہ دیتے ہیں! یہ غلط ہے۔ یہ اصول صحیح نہیں ہیں،غلط ہیں۔ وہ خود بھی ان پر عمل نہیں کرتے۔  پوری دنیا کے سامنے واضح علامتیں موجود ہیں کہ وہ خود ان پر عمل نہیں کرتے، یہ الگ بات ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ اصول سرے سے غلط ہیں۔ کسی بھی جج کو اپنے ملک کے  قوانین کے علاوہ کسی اور قانون کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔

میری آخری سفارش، ان مفید دوروں کے بارے میں ہے جو موصوف (11) انجام دے رہے ہیں۔ یہ دورے مفید اور ضروری ہیں اور انہیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ دورے عدلیہ کے عوام دوست ہونے کی علامت ہیں۔ ان دوروں سے نقائص کی اطلاع ملتی ہے۔ یہ دورے بہت اہم ہیں۔ لیکن اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ ان دوروں کے نتائج اور جو کچھ ان دوروں سے حاصل ہو ان پر توجہ دی جائے اور ان کو ثمربخش بنایا جائے۔ مثال کے طور پر عدلیہ کے سربراہ کے کسی کسٹم پوسٹ پر جانے سے یا کسی ادارے میں جانے سے لوگوں کے دلوں میں یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ عدلیہ کے سربراہ گئے ہیں، نقائص اور مسائل معلوم اور دور کریں گے۔ اگر وہ مشکلات دور نہ ہوئيں تو لوگوں کی امید پلٹ جائے گی، وہ نا امید ہو جائیں گے اور حالت پہلے سے بد تر ہو جائے گی۔ بنابریں اس پر کام کیا جائے اور مشکلات و مسائل حل کئے جائيں۔  یہ عدلیہ کے بارے میں میری کچھ گزارشات تھیں۔

 چند جملے صدارتی انتخابات کے بارے میں بھی عرض کروں گا۔  الحمد للہ صدارتی الیکشن کے تعلق سے ٹی وی کے پروگرام بہت اچھے جا رہے ہیں۔ ان سے امیدواروں اور ان کے  نظریات کے بارے میں لوگوں کو معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔ میری سفارش یہ ہے کہ ٹی وی پر صدارتی امیدواروں کے درمیان جو مباحثے ہو رہے ہیں، یا ان میں سے ہر امیدوار الگ الگ جو باتیں کر رہا ہے، یا اجتماعات میں امیدوار جو بولتے ہیں، ان میں اپنے حریف کو مغلوب کرنے کے لئے ایسی بات نہ کی جائے جو دشمن کو خوش کرے۔ وہ باتیں نہ کی جائيں جو دشمن کو پسند ہیں۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔

 ممکن ہے کہ کبھی کوئی ایسی بات کہہ دی جائے جو ملک، قوم اور اسلامی جمہوری نظام کے دشمنوں کو خوش کر دے۔ یہ جائز نہیں ہے۔ ایسی باتیں نہ کی جائیں جو ملک کے دشمن کو، نظام کے دشمن اور عوام کے دشمن کو خوش کر دیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ سبھی حضرات ایران  اور اسلامی جہموری نظام کو چاہتے ہیں۔ فرض یہ کیا گیا ہے۔ یہ اس ملک اور اس نظام کے صدر بننا چاہتے ہیں تاکہ اس ملک کے عوام کے لئے کام کریں۔ وہ  بات کریں کہ جو دشمن کو خوش نہ کرے۔

 امید ہے کہ ان شاء اللہ ہماری عدلیہ اس مطلوبہ منزل سے نزدیک تر ہوگی  جس کی طرف جناب محسنی نے اشارہ کیا ہے اور وہاں تک پہنچ جائے گی ۔ ان شاء اللہ خداوند عالم مدد  کرے، توفیق عنایت فرمائے کہ سبھی امور مملکت رضائے الہی کے مطابق آگے بڑھیں۔ امید ہے کہ شہیدوں کی ارواح طیبہ ہم سے راضی ہوں گی، امام بزرگوار(امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح ہم سے راضی ہوگی اور ان شاء اللہ توفیقات الہی ہم سب کے شامل حال ہوں گی۔

 والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

1۔ اس ملاقات کے شروع میں عدلیہ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین غلام حسین محسنی اژہ ای نے ایک رپورٹ پیش کی

2۔  سورہ مائدہ آیت نمبر 42"۔۔۔۔۔ اور اگر فیصلہ کرو تو پھر ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔۔۔'

3۔ سورہ انعام، آیت نمبر 152 ۔" اور جب  فیصلہ کرنے یا گواہی کی بات کرو تو انصاف کرو۔۔۔۔۔۔۔ "

4۔ سورہ نحل ، آیت نمبر 90۔"۔۔۔۔ ۔۔۔۔ درحقیقت خدا وند عالم انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے۔۔۔ "

5۔ سورہ اعراف، آیت نمبر 29۔"کہہ دو کہ میرے پروردگار نے انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔۔"

6۔ سورہ شوری، آیت نمبر 15"۔۔۔ مجھے تمہارے درمیان انصاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔۔"

7۔ سورہ نساء، آیت نمبر 135"۔۔۔ ہمیشہ انصاف کے لئے اٹھو اور خدا کے لئے گواہی دو، چاہے وہ خود تمھارے یا تمھارے ماں باپ اور عزیزوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔۔۔"

8۔ سورہ مائدہ آیت نمبر 8 "۔۔۔ ایسا نہ ہو کہ کسی گروہ کی دشمنی اس بات کا سبب بن جائے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو۔۔۔"

9۔ تاکہ میرا دشمن میرے ظلم سے محفوظ رہے اور میرا دوست میری توجہ اور نفسانی خواہش کی طرف سے نا امید ہو جائے۔

10۔ 26 جولائی 2019 کو عدلیہ کے سربراہ اور کارکنوں سے رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب

11۔ عدلیہ کے سربراہ