رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے قومی نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کے اعلی عہدیداروں اور اس ادارے کی نگراں کونسل کے ارکان سے ملاقات میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف استکبار کی جانب سے منصوبہ بند اور وسیع تشہیراتی جنگ کے اہداف پر روشنی ڈالی اور عوام کے افکار و عقائد کی تبدیلی کو اس جنگ کا سب سے اہم ہدف قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس اہم کارزار میں قومی میڈیا کے منفرد کردار پر زور دیتے ہوئے قومی نشریاتی ادارے کے فرائض کی انجام دہی کے لئے صحیح اور ماہرانہ منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں اسلامی جمہوری نظام میں قومی میڈیا کی اہمیت کے موضوع سے بحث کی اور نئے شروع ہونے والے تشہیراتی اداروں کی مدد سے جاری عظیم تشہیراتی مہم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قومی میڈیا اتنی عجیب اور وسیع جنگ کے میدان میں اور ناخواستہ و ناگزیر ٹکراؤ کی زد پر ہے اور یہی تشہیراتی جنگ کا حد درجہ پیچیدہ اور انتہائی اہم میدان ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے صاحب نظر، دردمند اور گہرا جذبہ و احساس رکھنے والے افراد کو تشہیراتی جنگ کے پہلوؤں کا باریکی سے جائزہ لینے اور مطالعہ کرنے کی دعوت دی اور کہا کہ تشہیراتی جنگ میں، فوجی جنگ کے مقاصد کی ہی تکمیل کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہ کوشش زیادہ وسیع اور زیادہ عمیق پیمانے پر ہوتی ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فوجی جنگ کے مقابلے میں تشہیراتی جنگ کی زیادہ پیچیدگیوں اور خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فوجی تصادم کے برخلاف تشہیراتی جنگ آشکارا، آسانی سے دکھائی دینے اور سمجھ میں آنے والی نہیں ہوتی، یہاں تک کہ بسا اوقات فریق مقابل اپنا وار کر جاتا ہے اور نشانہ بننے والا معاشرہ غفلت کی نیند سوتا رہ جاتا ہے اور اسے حملے کا احساس تک نہیں ہوتا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ فوجی جنگ میں عام طور پر عوام کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں اور قومی اتحاد و یکجہتی کا ماحول بنتا ہے، لیکن تشہیراتی جنگ، مقابلہ کرنے کے جذبے کو ہی ختم کر دیتی ہے بلکہ داخلی اختلافات کی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فوجی جنگ کے مقابلے میں تشہیراتی جنگ کے زیادہ تشویش ناک خطرات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: تشہیراتی جنگ صرف ایران تک محدود نہیں ہے، تاہم ایران کے سلسلے میں اس منصوبہ بند جنگ کا اصلی ہدف ظاہری تصویر باقی رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کی ماہیت کو 'منقلب کرنا' اور اس کے باطن اور اس کی سیرت کی مکمل تبدیلی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ باطن اور سیرت کی تبدیلی کا مطلب جذبات، نعروں، انقلابی تعلیمات اور اعلی اہداف سب کی تبدیلی ہے۔ آپ نے فرمایا: دشمن کی تشہیراتی جنگ میں اسلامی جمہوریہ کا صرف نام اگر باقی رہے یا اس کی اعلی قیادت میں ایک 'عمامہ پوش' موجود رہے تو یہ کچھ زیادہ حرج کی بات نہیں ہے، اس میں اہمیت اس بات کو دی جاتی ہے کہ ایران امریکا، صیہونزم اور عالمی طاقتوں کے نیٹ ورک کا خدمت گزار بن جائے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حکام اور عوام کو تشہیراتی کے حملوں کی آماجگاہ قرار دیا اور اور فرمایا کہ (ملک کے اعلی) حکام کے لئے تشہیراتی جنگ میں جو منصوبہ بندی کی گئی ہے اس کے بارے میں ان حکام سے میں بات کر چکا ہوں اور آئندہ بھی گفتگو کروں گا، لیکن تشہیراتی جنگ میں اصلی نشانہ عوام بالخصوص ممتاز شخصیات، اساتذہ، طلبا، نوجوان اور سرگرم عناصر ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمن عوام اور خاص طور پر نوجوانوں اور دانشور طبقے پر اثر انداز ہونے اور ان کے افکار و نظریات کو بڑے پیمانے پر دگرگوں کر دینے کے در پے ہیں، ان میں دینی، سیاسی اور ثقافتی نظریات بھی شامل ہیں۔ آپ نے مزید فرمایا: ہمارے عوام دین کے سلسلے میں، خاندان، مرد و زن، خود مختاری، اغیار سے مقابلے، اسلامی جمہوریت اور گوناگوں ثقافتی مسائل کے بارے میں خاص نظریہ و عقیدہ رکھتے ہیں اور فریق مقابل ان نظریات میں تحریف یا انھیں یکسر تبدیل کر دینے کی کوشش میں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ماضی سے متعلق عقیدے اور نظریئے کی تبدیلی بھی تشہیراتی جنگ کے اہم اہداف میں شامل ہے، آپ نے زور دیکر کہا کہ ماضی کی مستبد اور بدعنوان (شاہی) حکومت کے بارے میں ہمارے عوام کے خاص نظریات ہیں اور تشہیراتی جنگ میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ اس نفرت انگیز، سیاہ اور پستیوں میں گرے ہوئے ماضی کو درخشاں اور پرکشش بنا کر پیش کیا جائے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ماضی کے بارے میں نظریات کو بدل کر یہ نتیجہ پیش کریں کہ اس ماضی کو ختم کر دینے والا اسلامی انقلاب غیر ضروری تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ زمانہ حال اور مستقبل کے بارے میں نظریات کی تبدیلی بھی تشہیراتی جنگ کے اہم مقاصد میں شامل ہے۔ آپ نے فرمایا: وہ آج کے نوجوان کے ذہن میں یہ بات ڈالنا چاہتے ہیں کہ ملک کی موجودہ حالت باعث شرمندگی ہے اور مستقبل میں پیشرفت و ترقی کی منزلیں طے کرنا ناممکن ہے تاکہ نوجوان نسل سے نشاط و تحرک اور تعلیم و تحقیق کا جذبہ اور مستقبل کے تئیں امید سلب کر لیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دنیا اور خاص طور پر امریکا اور یورپ کے بارے میں نوجوانوں کے اندر حقیقت سے پرے تصویر قائم کرنے اور انھیں انتہائی پیشرفتہ، امن و سکون کا گہوارا اور ہر طرح کی مشکل سے دور ملکوں کی شکل میں پیش کرنے کو بھی تشہیراتی جنگ کے اہم اہداف میں قرار دیا اور اس موضوع پر اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: منصوبہ بند تشہیراتی جنگ کا اصلی اور آخری ہدف عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کے افکار کو بدل کر اور ان کے جذبہ ایمانی کو کمزور کرکے اسلامی جمہوریہ کو اندرونی طور پر منحل اور اس کی ماہیت کو تبدیل کر دینا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تشہیراتی جنگ کے میدان میں دشمن کے پاس موجود وسائل و امکانات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سائبر اسپیس کی روز افزوں ترقی تشہیراتی جنگ کے اہداف پورے کرنے کا وسیلہ ہے، تاہم ان وسائل و امکانات سے بڑھ کر فکری، سیاسی، ادبی اور سماجی شخصیات اور مواصلات اور فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا عظیم لشکر ہے جو تشہیراتی جنگ کے اہداف کی تکمیل کے لئے مستحکم کمک فراہم کرتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے منصوبہ بندی اور منظم سعی و کوشش کو تشہیراتی جنگ کے منصوبہ سازوں اور کارکنوں کی نمایاں خصوصیات قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران کے مد مقابل فریق کے تمام صوتی و بصری نیز مکتوب پروڈکٹس میں تشہیراتی جنگ کے اہداف و مقاصد کی، البتہ عموما بالواسطہ طور پر، تلقین کی جاتی ہے۔
اس ضمن میں رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ 'سیکولر دین' کی ترویج جو ہر طرح کے شخصی اور سماجی عمل و اقدام کی اجازت دیتا ہو، بیرونی ذرائع ابلاغ عامہ کے اکثر سماجی پروگراموں کے پنہاں اہداف میں سے ایک ہدف ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا: وہ اپنے اہداف کے لئے انجام پانے والی پیچیدہ کوششوں میں پوری طرح سنجیدہ ہیں اور منصوبے کے مطابق عمل کرتے ہیں، جبکہ ہم اس میدان میں پیچھے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قومی نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کی کاوشوں کو قابل قدر قرار دیا تاہم یہ بھی فرمایا کہ ان کوششوں میں عمق اور گہرائی آنی چاہئے اور مطلوبہ اہداف و مقاصد کی نشریاتی ادارے کے تمام پروگراموں میں ان کی گنجائش کے اعتبار سے فنکارانہ طریقے سے اور نام لئے بغیر پیشکش ہونی چاہئے تاکہ سامعین مطمئین ہوں اور انھیں قبول کریں۔ رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق دشمنوں کی تشہیراتی جنگ کے مقابلے میں قومی نشریاتی ادارے کے اہداف کی نمایاں تکمیل کے لئے سب سے اہم کام اسلامی جمہوریہ کے داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے سلسلے میں ذہن میں صحیح، حقیقت پسندانہ اور بنیادی تجزئے کا موجود ہونا ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ تجزئے مختلف انتظامی سطحوں پر ذہنوں اور فیصلوں کو نیز ادارے کے پورے قالب کو منظم اور ہم آہنگ کر دیں گے اور تمام سرگرمیوں کی بنیاد قرار پائيں گے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے توانائیوں کے بارے میں مبالغہ آرائی سے پرہیز، مشکلات پر توجہ، اغیار کے گمراہ کن پروپیگنڈو‎ں سے متاثر نہ ہونے، سطحی سوچ سے اجتناب، موجودہ اور ممکن الحصول توانائیوں پر توجہ کو آئی آر آئی بی کی بنیادی تجزیوں تک رسائی میں موثر قرار دیا اور فرمایا: ملک کی پوزیشن کا دنیا کے اہم انقلابوں کی اتنی ہی مدت کے بعد کی پوزیشن سے موازنہ، ملکی حالات کے حقیقت پسندانہ ادراک میں مددگار واقع ہو سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دنیا کے بعض معاصر انقلابوں کو پیش آنے والی بے شمار مشکلات، خانہ جنگی اور یہاں تک کہ انقلاب کے پلٹ جانے اور پہلے والی حکومتوں کے پھر بحال ہو جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران کی موجودہ صورت حال کا موازنہ اعلان آزادی کے چالیس سال بعد امریکا کی پوزیشن سے اور انقلاب فرانس کے چار عشرے کے بعد اس ملک کی پوزیشن سے کرنا چاہئے تاکہ ایران کی آج کی صورت حال اور قابل دید ترقی کا بہتر طریقے سے ادراک ہو۔
قومی نشریاتی ادارے میں بنیادی اور جامع تجزئے موجود ہونے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اس تناظر میں اغیار کی جانب سے خراب تصویر پیش کرنے کی کوششوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے اور اس بات پر توجہ رہنی چاہئے کہ وہ اپنے تشہیراتی اہداف کی تکمیل کی خاطر ایران کو دنیا کے سامنے اور خود ایرانیوں کی نگاہ میں بالکل برعکس شکل میں پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے میڈیا کے ذریعے پیش کی جانے والی دنیا کی تصویر بھی خاص اغراض و مقاصد سے متاثر رہتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قومی نشریاتی ادارے کے عہدیداروں کو یہ تجویز دی کہ صحیح تصویر اور حقیقت پسندانہ تجزیہ حاصل کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ کی پوزیشن کا موازنہ علاقے کے بعض ملکوں سے کریں جو گزشتہ چار عشرے سے امریکا کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس تقابلی جائزے سے ثابت ہو جائے گا کہ خود سپردگی کے کیا عواقب ہوتے ہیں اور استقامت کیسی برکتوں اور پیشرفت کا راستہ ہموار کرتی ہے۔
آئی آر آئی بی کی سطح پر بنیادی تجزیئے کی ضرورت اور اس تجزئے کو تمام پروگراموں کی بنیاد قرار دینے کی ضرورت کی تشریح کرنے کے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے ایک اصولی اور اساسی طرز فکر کے تعین کو بھی لازمی قرار دیا اور اسے فرائض کی فنکارانہ اور نمایاں انجام دہی کے لئے جو قومی نشریاتی ادارے کا دوسرا اہم کام ہے، ضروری بتایا۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ان اسٹریٹیجیوں کا ذکر کیا جن کی نشاندہی ڈاکٹر سرافراز کو آئی آر آئی بی کا چیف مقرر کرتے وقت متعلقہ حکمنامے میں کی گئی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ ان تمام اسٹریٹیجیوں پر عمل ہونا چاہئے اور ان پر عمل آوری کے لئے ماہرانہ اور صحیح منصوبہ بندی ہونی چاہئے، بیشک بعض جگہوں پر اس سلسلے میں بہت اچھے اقدامات انجام دئے گئے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قومی نشریاتی ادارے کو اسلامی نظام، ملک اور انقلاب کا میڈیا قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ تشہیراتی یلغار کے مقابلے میں نشریاتی ادارہ صف اول کی سرگرم چھاونی ہے اور قومی نشریاتی ادارے کے عہدیداران اور کارکنان تشہیراتی جنگ کے کمانڈر اور سپاہی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے قومی نشریاتی ادارے کے عہدیداروں، کارکنوں اور خاص طور پر آئی آر آئی بی کے سربراہ محمد سرافراز کی پرمشقت خدمات کا شکریہ ادا کیا اور ڈاکٹر سرافراز کو محنتی، سخت کوش، بلند ہمت، منظم، اشرافیہ کلچر سے دور سادہ زندگی بسر کرنے والا، پاکدامن، بیت المال کے سلسلے میں بہت حساس، شجاع، فیصلوں کے سلسلے میں ضروری ہمت کا مالک، خلاقانہ صلاحیتوں اور جدت عملی کا حامل انسان قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ خصوصیات بہت اہم اور قابل تعریف ہیں، جو اسی طرح قائم رہنی چاہئیں اور یہ آئی آر آئی بی جیسے آزاد ادارے کے لئے بہت ضروری ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے آئی آر آئی بی کے سربراہ ڈاکٹر محمد سرافراز نے ادارے کے اقدامات اور پروگراموں کی رپورٹ پیش کی۔
ڈاکٹر سرافراز نے قومی نشریاتی ادارے کی مشکلات اور در پیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دفتری ڈھانچے کی اصلاح، قوانین و ضوابط کی اصلاح، دو طرفہ ابلاغیاتی رابطے کے لئے مقدمات کی فراہمی، موبائل پر سوشل میڈیا اور ویب سائٹوں کے میدان میں شراکت بڑھانے کے لئے منصوبہ بندی اور قومی نشریاتی ادارے کے پروگراموں کے معیار کو بلند کرنا آئی آر آئی بی کی اہم سرگرمیاں اور اقدامات ہیں۔
ڈاکٹر سرافراز نے کہا کہ اسلامی انقلاب، مزاحمتی معیشت، ایرانی و اسلامی طرز زندگی، علمی نمو جیسے اسٹریٹیجک موضوعات پر کام، اسکرپٹ رائٹنگ اور ری پروڈیوسنگ کے فروغ کے مرکز کا قیام، بچوں کے لئے خصوصی ٹی وی چینل، مختلف انتظامی امور کے لئے نوجوان اور دیندار افراد کی خدمات کا حصول، قومی میڈیا کے مخاطب افراد کی تعداد میں اضافہ، العالم اور پریس ٹی وی کو زیادہ اثر انداز بنانا، آئی آر آئی بی کی نیوز ایجنسی کا قیام، 'خبر چینل' کو زیادہ پیشہ ورانہ بنانا اور اس کی جدید کاری، واقعات و تغیرات کے تجزیہ و تحلیل پر زور، خارجہ سرویسز کے شعبے میں آذری، کردی، اور اردو زبانوں میں چینلوں کا آغاز، آرکائیو کی جدید کاری، دینی و انقلابی موسیقی پر توجہ اور عوام کی فکری آسودگی کا خیال قومی میڈیا کے دوسرے اہم پروگرام اور اقدامات ہیں۔