قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ پہلی اکتوبر دو ہزار آٹھ کوعید فطر کے دن ملک کے اعلی حکام کے اجتماع سے خطاب میں عید کی مبارکباد پیش کی اور اہم سیاسی، سماجی اور معنوی امور پر روشنی ڈالی۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے؛

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏

میں امت مسلمہ، پوری دنیا کے مسلمانوں، عزیز و قابل احترام ملت ایران اور آپ حاضرین کرام کو اس عظیم اسلامی عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خدا وند عالم کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ عید فطر کو امت مسلمہ کے لئے حقیقی عید قرار دے اور مسلمانوں کو اس درخشاں مستقبل سے جو اس کے انتظار میں ہے اور جس کا اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے قریب کرے۔
آپ حضرات، ہمارے ملک کے عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے ماہ رمضان میں الہی دسترخوان سے بھرپور استفادہ کیا۔ اس مہینے میں ذکر و تسبیح، دعا و مناجات ، توبہ و استغفار، خضوع و خشوع اور تقرب الہی کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ روزے کے عالم میں ضبط نفس سے بندگان خدا کے لئے الہی نعمتوں سے فیضیاب ہونے کی زمین ہموار ہوتی ہے۔ یہ ضیافت الہی ہے جس میں مسلمانوں کا وجود ذکر الہی اور مناجات کی لذتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ لوگ اپنی حقیقی فطرت سے نزدیک ہوتے ہیں، قوت ارادی بڑھتی ہے اور لوگوں کے تقوی میں اضافہ ہوتا ہے جو ان کا سب سے اہم اور ضروری توشہ راہ ہے۔
میں عرض کروں کہ اس وقت مسلمانوں اور امت مسلمہ کو تقوے کے ذخیرے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب امت مسلمہ مستقبل سے نا امید تھی۔ عالم اسلام کے مفکرین بیٹھ کر مسلمانوں کے تاریک مستقبل اور بد بختی کا مرثیہ پڑھتے تھے۔ سید جمال الدین اور دیگر برجستہ مفکرین اور علمی شخصیات کی تصنیفات میں صاف نظر آتا ہے کہ یہ افراد بیدار ہو چکے تھے اور مسلمانوں کی حالت زار پر حقیقی معنی میں مرثیہ پڑھ رہے تھے۔ عالم اسلام کے افق پر تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ کہیں سے کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی تھی۔ تازہ دم سامراجی طاقتیں مسلمانوں کی سرزمین پرقدم جما چکی تھیں اور اسلامی حکومتوں کی نکیل ان کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ ان طاقتوں نے ہم مسلمانوں کی غفلتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کا مستقبل روز بروز تاریک سے تاریک تر ہوتا گیا۔ تو ایک ایسے دور سے امت مسلمہ گزری ہے۔ لیکن آج حالات بدل چکے ہیں۔ وہ تاریک افق اس وقت روشنی میں نہائے ہوئے ہیں۔ دنیا کے جس گوشے میں بھی مسلمان آباد ہیں خواہ ایک قوم کی حیثیت سے یا مذہبی اقلیت کی شکل میں، اپنے مستقبل کو پر امید نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان میں یہ خیال تقویت پا رہا ہے کہ وہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ عالم اسلام کے دشمن یعنی وہی سامراجی طاقتیں، تسلط پسند عناصر اور خود غرض حکومتیں یعنی وہ لوگ جو پرکشش اور گمراہ کن نعروں کے ذریعے مسلم ممالک میں پیر جمائے ہوئے ہیں عالم اسلام کی بد بختی کے لئے شب و روز سازشوں میں مصرورف ہیں۔ یہ عناصر اور یہ طاقتیں یوں تو تکنیکی اور دفاعی ترقی، تباہ کن ہتھیاروں، تشہیراتی وسائل اور مواصلاتی نظام کے لحاظ سے بہت آگے ہیں لیکن امت مسلمہ میں اٹھنے والی بیداری کی عظیم لہر نے انہیں سراسیمہ کر دیا ہے اور انہیں اپنی شکست صاف نظر آنے لگی ہے۔ عالم اسلام کی اس وقت یہ صورت حال ہے۔ اگر کوئی اسے نہیں مانتا تو در حقیقت وہ اظہر من الشمس حقائق کا انکار کر رہا ہے۔
اس وقت امت مسلمہ کے سامنے تابناک مستقبل ہے۔ دشمن عناصر اور سامراجی طاقتیں جو پوری دنیا کو اپنی جاگیر سمجھتی ہیں اس وقت امت مسلمہ میں پیدا ہونے والی حرکت اور نظر آنے والی بیداری سے بوکھلا گئی ہیں۔ ان کے راستے بند ہو گئے ہیں اور یہ صورت حال اس وعدہ الہی کے پورا ہونے کی نوید دیتی ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے؛ لينصرنّ اللَّه من ينصره انّ اللَّه لقوىّ عزيز» اسی طرح ارشاد ہوتا ہے و نريد ان نمنّ على الّذين استضعفوا فى الأرض و نجعلهم ائمة و نجعلهم الوارثين. تو یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے اور و اللَّه غالب على أمره
یہ وعدہ الہی ہے جو مسلمانوں کی بیداری اور پیش قدمی کی برکت سے بتدریج عملی جامہ پہن رہا ہے۔ ایک عظیم جہاد امت مسلمہ کا انتظار کر رہا ہے۔ یہ فوجی جہاد نہیں ہے۔ یہ سیاسی جہاد ہو سکتا ہے، فکری جہاد ہو سکتا ہے، علمی جہاد ہو سکتا ہے سماجی و اخلاقی جہاد ہو سکتا ہے۔ امت مسلمہ اس جہاد کے مختلف پہلؤوں سے رفتہ رفتہ آشنا ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔ آج آپ مشرق وسطی کے نہایت حساس علاقے میں دیکھیں۔ آپ کو امت مسلمہ کی پیش رفت نظر آئے گی۔
مسئلہ فلسطین عالم اسلام کے لئے ایک غمناک مسئلہ تھا لیکن آج فلسطینیوں کے خلاف صیہونیوں کے وحشی پن میں کئی گنا اضافے کے باوجود ملت فلسطین کی پیشانی سے امید کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ آج عالم یہ ہے کہ فلسطین کے غاصب اپنی سازشوں کی جانب سے مایوسی کا شکار ہیں۔ اب وہ خود اعتراف کرنے لگے ہیں کہ بند گلی میں پہنچ گئے ہیں اور آگے بڑھنے کا کوئی راستہ ان کے پاس نہیں ہے۔ سابق سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد خود کو دنیا کا داروغہ اور بلا شرکت غیرے مالک تصور کرنے والی امریکی حکومت آج جگہ جگہ مشکلات سے دوچار ہے۔ ایسی پیچیدگیوں میں پھنس گئی ہے کہ ان سے نکلنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے وہ اس حساس علاقے میں آئے لیکن وہ افغانستان ہو کہ عراق، لبنان ہو کہ فلسطین جہاں بھی آپ دیکھئے امریکیوں کے منصوبے ایک ایک کرکے نقش بر آب ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی کامیابی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ نا امیدی کا اعلان اب وہ خود بھی کرنے لگے ہیں۔ خود اپنے منہ سے اعتراف کر رہے ہیں۔
گزشتہ سال عید فطر ہی کا موقع تھا جب میں نے امت مسلمہ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ یہ لوگ جو ایناپولیس کانفرنس منعقدہ کرنا چاہتے ہیں جس میں علاقے پر زیادہ سے زیادہ تسلط اور غلبہ حاصل کرنے کے منصوبے زیر غور ہیں، شکست سے دوچار ہوگی، آج آپ خود دیکھ لیں کہ فلسطین، لبنان اور مشرق وسطی کے علاقے میں اس کانفرنس کا جو نشستند و گفتند و برخاستند کا مصداق تھی کہیں کوئی اثر دکھائی دیتا ہے؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اور امت مسلمہ کی دشمنی کا سودا سر میں پالنے والی طاقتیں جو اس حساس علاقے پر غلبہ حاصل کرنے کے در پے تھیں اب خود محسوس کر رہی ہیں کہ ان میں ایک قدم بھی آگے بڑھنے کی سکت نہیں ہے۔
میں کسی حوش فہمی میں آپ کو مبتلا نہیں کرنا چاہتا، ان کے سامنے اس وقت واقعی دشوارترین اور سخت ترین حالات ہیں جس کا سب مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ طاقتیں قوموں کے ارادوں کے سامنے نہیں ٹک سکی ہیں اور آئندہ بھی قوموں کے آہنیں ارادوں کے سامنے ان کی ایک نہ چلے گی۔ عراق کی دلدل میں وہ پھنسی ہوئي ہیں، افغانستان میں مشکلات سے دوچار ہیں۔ اور اب پاکستان میں بھی ان کی دخل اندازی شروع ہوئي ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ہمارے اس ہمسایہ ملک میں ان کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں لیکن یہاں بھی ہزیمت ہی ان کا مقدر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ قوموں میں بیداری آ چکی ہے۔ انہیں اپنے اسلامی حقوق کا علم ہے، قوموں میں استقامت کا جذبہ جوش مار رہا ہے اور انشاء اللہ یہ ارادہ اور یہ جذبہ روز بروز قوی سے قوی تر ہوگا۔
ان حالات میں امت مسلمہ کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ التفات پروردگار، امداد الہی اور تقرب الہی ہے۔ جو دل، قدرت لا یزال سے وابستہ ہو جاتا ہے وہ دشمن کی گرج اور چمک سے مرعوب نہیں ہوتا۔ اس میں کبھی بھی ضعف کا احساس پیدا نہیں ہوتا۔ وہ کبھی بھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ تو آزمائي ہوئی چیزیں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران تیس سال تک طاقتور سامراج کی سازشوں اور دشمنیوں کا سامنا کرتا رہا ہے اور ایران کی مسلم قوم پوری ہمت اور قوی ارادے کے ساتھ مختلف میدانوں میں ڈٹ کر کھڑی ہوئی ہے اور روز بروز آگے بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالی کا لطف و کرم ہے کہ یہ پیش روی جاری ہے اور روز بروز اس میں سرعت پیدا ہو رہی ہے۔ انشاء اللہ جلد ہی وہ دن آئے گا جب دنیا امت مسلمہ کی عظمت و وقار کی شاہد ہوگی۔
ہمیں چاہئے کہ الہی رہنمائی کی قدر کریں، الہی نعمتوں کا شکریہ ادا کریں۔ عید فطر کی اہمیت کو سمجھیں، اس عظیم عوامی اجتماع کے مقام کو پہچانیں جس میں شریک افراد کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھے ہوئے ہیں اور وہ ایک مقررہ وقت پر اپنے پروردگار سے اپنے قلوب کا رشتہ برقرار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو مناجات کی لذتوں سے آگاہ ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے اتحاد کی حفاظت کریں، اپنی ہمت و حوصلے کو برقرار رکھیں۔
دعا کرتا ہوں کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ہم سب کے شامل حال ہوں اور امت مسلمہ کا ہر آنے والا دن گزرے ہوئے کل سے بدرجہا بہتر ہو۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‏