بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپ جیسے مومن اور عزیز نوجوانوں کے وجود کی نعمت پر میں خداوند عالم کا شکرگزار ہوں اور شکر ادا کرتا ہوں۔ کسی بھی ملک کا ایک سب سے گرانقدر سرمایہ، مومن، پرنشاط اور کارآمد انسان ہوتے ہیں۔ آج پروردگار عالم کے فضل و کرم سے ہم اسی قسم کے انسانوں کے ایک اجتماع میں ہیں۔ آپ تمام عزیز نوجوانوں، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ کے افسروں اور فضائیہ کے تمام اہلکاروں کا ممنون ہوں اور آپ کی کوششوں اور جد و جہد کے لیے آپ سب کا شکرگزار ہوں۔
بحمد اللہ سپاہ کی فضائیہ، کئي برسوں سے ایک قابل تحسین فورس میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس فورس نے بڑی اچھی استعداد پیدا کر لی ہے، اس میں بڑے اچھے لوگ اکٹھا ہو گئے ہیں اور بہت ہی گرانقدر کام انجام دیئے گئے ہیں۔ یہ فورس ہماری قوم کی طاقت کا ایک حصہ ہے جو فضائیہ سے متعلق شعبوں میں اپنے آپ کو نمایاں کر رہی ہے۔
اعلی اہداف کے دفاع کے لیے ہر قوم کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو مضبوط اور طاقتور بنائے۔ البتہ منطق، دین اور معنویت کی نظر میں جو طاقت کی تعریف ہے وہ مادی منطق کی تعریف سے بہت زیادہ الگ ہے۔ مادی منطق، طاقت کو وسائل اور آلات کی نظروں سے دیکھتی ہے؛ ایٹم، کیمیاوی اسلحوں، جراثیمی ہتھیاروں اور دوسرے گوناگوں پیشرفتہ مادی وسائل کی نظروں سے دیکھتی ہے۔ یہ ساری طاقت نہیں ہے۔ طاقت کا بڑا حصہ ان انسانوں کے وجود میں ہے جو اس طاقت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ جب لوگوں کا کوئي گروہ حق پر ہوتا ہے اور اعلی اہداف و اقدار کے لیے سعی و کوشش اور جد و جہد کرتا ہے اور اپنی اس جد و جہد کے لیے اپنے وجود، تمام وسائل اور توانائي کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے تو یہ ہوتی ہے حقیقی طاقت۔
وہ لوگ جو حق اور حقانی اقدار کے لیے جد و جہد کرتے ہیں وہ حیوانوں کی طرح طاقت کا استعمال نہیں کرتے؛ ظلم و ستم نہیں کرتے، زیادتی نہیں کرتے، انسانوں کی تذلیل نہیں کرتے، دوسروں کی سرزمینوں پر جارحیت نہیں کرتے، اقوام اور ان کے مفادات و وسائل کو لوٹ کر اپنا نہیں سمجھتے۔ یہ اخلاق اور یہ رویہ، معنوی طاقت ہے۔ مادی طاقت میں اخلاقیات کا شامہ تک نہیں ہوتا اور اسے اخلاقیات کے بارے میں کوئي خبر نہیں ہوتی۔ مادی طاقت کو حق اور حقانی اقدار کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ مادی طاقت رکھنے والے افراد کی منطق، جنگل کی منطق ہوتی ہے۔ چونکہ ان کے پاس مادی طاقت ہوتی ہے لہذا وہ سمجھتے ہیں کہ جو وہ کر رہے ہیں وہی صحیح ہے جبکہ یہ غلط ہے اور یہ باطل سوچ ہے۔
آج آپ دیکھیے کہ امریکی سامراج، جس کی پیشانی پر اسلامی انقلاب نے شروع سے ہی مہر باطل ثبت کر دی تھی اور آج دنیا میں اس کا چہرہ کھل کر سب کے سامنے آ گيا ہے، عالمی سطح پر کس طرح کا کام کر رہا ہے۔ وہ جس چیز کے بارے میں بالکل بھی نہیں سوچتا، وہ انسانوں اور اقوام کے حقوق، انسانی اخلاق اور دنیا کے مظلوموں کے حقوق کی رعایت ہے۔اس کے لیے جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ سامراجی مفادات کی تکمیل ہے۔ جب اس سمت میں مادی طاقت کا استعمال کیا جائے تو اس کا کر و فر تو ہوتا ہے لیکن اس کی حتمی کامیابی اور فتح کی امید نہیں کی جا سکتی۔
طاقت جب الہی معنی کے ساتھ ہوتی ہے تو مادی وسائل کو معنوی پشت پناہی کے ساتھ اس طرح سے استعمال کرتی ہے کہ انسانوں کے حقوق پامال نہیں ہوتے؛ کسی کے حقوق پر ڈاکا نہیں ڈالا جاتا؛ وہ حق کے محاذ میں رہتی ہے، حق کے لیے کوشاں رہتی ہے اور حتمی کامیابی اسی کی ہوتی ہے۔ طاقت یہ معنی اور مفہوم جس کا اصلی عنصر؛ عوامی عزم و ارادہ اور اعلی اقدار کے دفاع کے لیے حکومت ہے، گزشتہ چوبیس برسوں میں اپنی افادیت کو بخوبی ثابت کر چکا ہے۔ مادی طاقتیں، حق کی معنوی طاقت کے مقابلے میں ایران میں، لبنان میں، فلسطین میں اور ہر اس جگہ جہاں حق کی طاقت میدان میں آ گئي، استقامت نہیں کر سکی ہیں اسے جھکا نہیں سکیں اور نہ ہی میدان سے باہر نکال سکیں۔ یہ حقیقت ہمیشہ سے رہی ہے، اس وقت بھی ہے اور آگے بھی رہے گی۔
امریکیوں کو عراق میں صدام حکومت کا سامنا کرنے میں اپنے ہی جیسی لیکن کہیں زیادہ کمزور ایک مادی طاقت سے مقابلہ تھا لہذا وہ آگے بڑھتے چلے گئے اور کامیاب ہو گئے تاہم آج جب وہ ظاہری طور پر فوجی فتح حاصل کر چکے ہیں، عراقی عوام کے عزم اور خواہشات کا مقابلہ کرنے میں کمزوری، شکست اور پسپائي کا احساس کر رہے ہیں۔ آج عراق پر قابض طاقتوں کے سامنے جو کچھ ہے وہ ایک فوجی طاقت اور ایک پیشرفتہ فوجی نظام نہیں ہے بلکہ ایک مضبوط عوامی عزم ہے؛ وہ عوام جو نہیں چاہتے کہ قابض کو اپنے گھر میں اپنے اوپر اور اپنے اہم ذخائر پر قابض دیکھیں؛ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے اسلامی اور قومی تشخص کی قابضوں کے ہاتھوں تذلیل ہو۔ یہ وہی چیز ہے جو ایک حقانی طاقت کو معرض وجود میں لاتی ہے اور اگر میدان میں موجود رہے اور استقاقت کا جذبہ انسانوں کے دل میں باقی رہے تو کوئي بھی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ فلسطین اور لبنان اس کے دوسرے نمونے ہیں۔
اسلامی جمہوری نظام؛ حق کے اہداف، انسانی حقوق، اپنی قوم کے قومی و اسلامی تشخص اور اس قوم کی سرفرازی کا دفاع کر رہا ہے جو سربلندی کے لائق ہے، یہ نظام ظلم کے مقابل پسپائي اختیار نہیں کرے گا۔ اسلامی جمہوریہ نے ابتدا میں ہی کہہ دیا تھا اور اس نے ثابت بھی کر دیا کہ وہ نہ تو دنیا بھر کے ظالموں اور مستکبروں کی منہ زوری، ظلم و ستم، دباؤ، خواہشات مسلط کرنے اور متکبرانہ توقعات کے مقابل پسپائي اختیار کرے گا اور نہ ہی اپنے اعلی اہداف سے دست بردار ہوگا۔ یہ ایک صحیح، انسانی، حقانی اور معنوی طاقت پر مبنی منطق ہے۔ ایرانی قوم نے گزشتہ چوبیس برسوں میں اپنی یہ معنوی طاقت دنیا کو دکھا دی ہے۔ مسلط کردہ جنگ میں، مسلح افواج اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے انہیں مومن نوجوانوں نے یہ طاقت دکھا دی۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فاو اور شلمچے کے معجزے آتشیں اسلحوں اور جنگی وسائل کی طاقت سے رقم کیے گئے تھے بلکہ ان معجزوں کو شہادت کے جذبے، عزم مصمم، انسانی ارادے کی طاقت، خدا پر توکل، ایمان اور ان تمام باتوں کو مجاہدین کے پاس موجود وسائل میں مدغم کرکے وجود عطا کیا گيا۔ آج ایرانی قوم اور اس کی مسلح افواج؛ چاہے وہ فوج ہو، رضا کار فورس بسیج ہو یا سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ہو، اپنے مادی وسائل کو اس معنوی طاقت، اس ایمان اور اس عزم کی پشتپناہی کے ساتھ جہاں کہیں بھی ضروری ہو اور ہر اس دشمن کے سامنے جو اسلامی جمہوری نظام کے خلاف جارحیت کا ارادہ رکھتا ہو، استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔ فتح اس طرح کی معنوی طاقت اور معنوی اقتدار کی ہی ہوگی۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ کے عزیز نوجوانوں کو، دنیا کی نئي صورتحال میں اپنے انتہائي حساس کردار کے پیش نظر اپنی تیاریوں کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہیے۔ آج بحمد اللہ اس فورس کے ظاہر اور باطن میں آمادگی کی علامتیں دکھائي دے رہی ہیں اور اس بات کو میں، مجھے ملنے والی رپورٹوں اور معلومات کی بنا پر جانتا ہوں؛ تاہم کوشش، جد و جہد اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے؛ معنوی لحاظ سے اور اہداف و محرکات کو مضبوط بنانے کے لیے بھی اور مادی تیاریوں کے لیے بھی۔ اپنی تمام تر کوششوں، جدت عمل، خلاقیت، علم، مہارت، ایمان، قلبی پاکیزگی اور معنویت کو استعمال کیجیے تاکہ آپ اپنے تاریخی کردار کو، جو نہ صرف ایران اسلامی کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے فیصلہ کن ہے، ادا کر سکیں۔خداوند عالم کو شہیدوں کے پاکیزہ لہو اور اس کے برگزیدہ بندوں کے حق کی قسم دیتے ہیں کہ وہ ہمیں ان شہیدوں کی راہ پر مضبوطی سے قائم رکھے اور شہیدوں کے نیک انجام کو ہمارے لیے بھی مقرر فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ