قائد انقلاب اسلامی نے انیس سو بیاسی میں انجام دئے جانے والے اس اہم ترین فوجی آپریشن کے شہیدوں کو یاد کرتے ہوئے ان کے لئے بلندی درجات کی دعا کی۔ حسب معمول ملک کے مختلف حصوں سے اس علاقے کی زیارت کے لئے جانے والے قافلوں کے لوگ بھی اس موقع پر موجود تھے جن سے قائد انقلاب اسلامی نے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں مقدس دفاع کے دور کی نوجوان نسل کے عزم و ارادے، فہم و فراست، پامردی و استقامت اور ایثار و فداکاری کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران کی دنیا و آخرت کی خوشبختی کا واحد راستہ جذبہ ایمانی پر استوار شجاعت و بصیرت اور مستحکم عزم و ارادے کے ساتھ اسی راہ پر آگے بڑھتے رہنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مقدس دفاع کے فوجی آپریشن کے علاقے کے اپنے اس دورے کا ہدف جانبازان اسلام اور شہدائے عالی مقام کی استقامت و فداکاری اور نازک اور دشوار ترین حالات میں جنوبی علاقے خوزستان کے عوام کی جانفشانی اور ایثار و قربانی کی قدردانی کرنا قرار دیا اور فرمایا کہ مقدس دفاع کے دوران خوزستان کے عوام صف اول کے مجاہدین میں شامل تھے اور اسلامی مملکت ایران سے ان کی قلبی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ بعثی دشمن کے نسلی اور لسانی وسوسے بھی اس مستحکم رابطے کو کمزور نہیں کر سکے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مقدس دفاع کے فوجی آپریشنوں کے مقامات کو زیارت گاہوں سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ اس مقام پر ان کی آمد کا ایک اور مقصد ان زیارت گاہوں کے زائرین کی حوصلہ افزائی کرنا بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ (مقدس دفاع کے فوجی آپریشنوں کے مقامات کی زیارت کے لئے جانے کا) یہ قابل قدر اور با برکت سلسلہ راہیان نور سے موسوم قافلوں کی شکل میں کئی سال قبل سے شروع ہوا ہے جسے آگے بھی جاری رہنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ ملت ایران کو مقدس دفاع کے حساس، نازک، تاریخی اور مایہ ناز دور کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر آج کی نوجوان نسل بھی مقدس دفاع کے دور میں ہوتی تو اسی عزم و ارادے کے ساتھ میدان میں اترتی، آج بھی یہی نوجوان علم و دانش، سیاست، محنت و عمل، قومی یکجہتی اور بصیرت و دور اندیشی کے میدان میں اپنی شجاعت و پامردی ثابت کر چکے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

الحمدللَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين.

اس تاریخی جگہ پر آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کے درمیان میر حاضر ہونے کا سب سے پہلا مقصد ان عزیز و فداکار شہیدوں کی ارواح کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے کہ یہ سرزمین مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کے دوران جن کی دلاوری و فداکاری اور عظیم اقدامات کی گواہ ہے۔ اس کے علاوہ (میرا مقصد) صوبہ خوزستان کے عوام اور ان بھائیوں اور بہنوں کی قدردانی کرنا ہے جنہوں نے اس علاقے میں نازک ترین دور میں اور دشوار ترین حالات میں بڑی کامیابی کے ساتھ اپنا امتحان پورا کیا۔ ملت ایران کے دشمن خوزستان کے عوام کے سلسلے میں کچھ اور ہی خواب دیکھنے میں مصروف تھے لیکن جو کچھ سامنے آیا وہ ان کی خام خیالی کے بالکل بر خلاف تھا۔ جانباز و شجاع مجاہدین کی پہلی صف میں وہ ایثار پیشہ نوجوان تھے جو اسی خطے کے پروردہ اور اسی سرزمین کی پیداوار تھے۔ خوزستان کے عزیز عوام، ان کی عورتیں اور ان کے مرد (پیش پیش رہے)۔ مقدس دفاع کے زمانے میں میں بعض ایسے گاؤوں میں گیا جو بعثی دشمن کے مظالم کا نشانہ بنے تھے، میں نے لوگوں کو نزدیک سے دیکھا اور ان کے جذبات کو محسوس کیا۔ ان لوگوں نے اسلامی انقلاب، مجاہد ملت ایران اور دین اسلام سے جس کا پرچم ایران میں بلند کیا جا چکا تھا اس طرح قلبی طور پر اپنا رشتہ قائم کر رکھا تھا کہ بعثی دشمن لسانی اور نسلی بنیادوں پر مبنی وسوسوں سے انہیں ورغلانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ لہذا اس علاقے کا میرا یہ دورہ ایک طرح سے خوزستان کے عوام کی قدردانی کے لئے بھی ہے۔
تیسرا مقصد ملک کے دور اور نزدیک کے علاقوں سے سفر کرکے یہاں آنے والے مسافرین کی قدردانی کرنا ہے۔ آپ نے اپنے اس قدم سے ان جوانوں اور ان شجاع جیالوں سے اپنی قلبی و روحانی وابستگی کا اظہار کیا ہے کہ یہ سرزمین جن کی جاں نثاری کی گواہ ہے، یہ جگہ بھی جو فتح المبین ( نامی فوجی آپریشن) کا علاقہ ہے اور خوزستان کے دیگر علاقے بلکہ دوسرے صوبے بھی جیسے صوبہ ایلام، صوبہ کرمان شاہ، صوبہ کردستان۔ عوام نے، ملک کے لوگوں نے کئي سال سے یہ قابل تعریف سلسلہ شروع کیا ہے۔ وہ ہر سال خاص طور پر سال نو کے آغاز پر ان علاقوں میں آتے ہیں اور زیارت کرتے ہیں، یہ جگہ زیارت گاہ ہے۔
عزیز نوجوانو! میرے عزیز بچو! آپ میں اکثر لوگ ان دنوں نہیں تھے۔ آپ نے ان پر محن و دشوار ایام کو نہیں دیکھا۔ یہ خوبصورت میدان، یہ دلکش منظر، یہ زرخیز زمین ایک دن دشمنوں کے پیروں تلے روندی جا رہی تھی۔ (عراق کی) بعثی حکومت کے فوجیوں نے اسی سرزمین کو جو آپ کی ہے، جس پر آپ کا حق ہے، اس طرح جہنم میں تبدیل کر دیا تھا کہ دیکھنے والے کا دل کٹ کے رہ جاتا تھا۔ اس لحاظ سے کہ کس طرح یہ پرکشش زمین اور یہ دلکش نظارہ دوزخ کی تصویر بن گیا تھا؟! جنگ کے دشوار ایام میں فتح المبین آپریشن کے آغاز سے قبل میں نے اس دشت سے ملحقہ شمالی علاقے سے اس وسیع علاقے کا جائزہ لیا تھا۔ میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا کہ اس وسیع علاقے میں کس طرح دشمن کی کئی بٹالینیں پھیلی ہوئي تھیں۔ آپ کی سرزمین کو اور آپ کے علاقے کو اپنے بوٹوں تلے روند رہی تھیں اور ملت ایران کی توہین کر رہی تھیں۔ آپ کے ملک کو اس سے نجات دلانے والے یہی جانباز و فداکار نوجوان تھے۔ یہی بسیج (رضاکار فورس) یہی فوج، یہی سپاہ (سپاہ پاسداران انقلاب) یہی جیالے مجاہدین، جن میں بہت سے آج بھی ملک کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں جبکہ بہت سے شہید ہو گئے۔ فمنھم من قضی نحبہ و منھم من ینتظر و ما بدلوا تبدیلا (1)
میرے عزیزو! اس اجتماع میں اور اس میدان میں موجود نوجوانو اور اسی طرح ملک بھر کے نوجوانو! یاد رکھو کہ مقدس دفاع کے دوران نوجوان نسل نے اپنے عزم و ارادے، فہم و فراست اور فداکاری و جاں نثاری کے ذریعے ملک کو دشمن سے نجات دلائی۔ اسلامی جمہوری نظام کے دشمن کا ہدف یہ تھا کہ وطن عزیز کے ایک ٹکڑے کو اس سے علاحدہ کرکے ملت ایران کی تحقیر و توہین کرے۔ وہ ملت ایران پر اپنا رعب و دبدبہ بٹھانا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ قوم کو ذلیل و رسوا کر دیں اور خود کو ہماری قوم کی جان و مال اور عزت و آبرو کا مالک بنا دیں۔ کون ان کے آڑے آیا؟ ہمارے مجاہد و فداکار نوجوان، ان کا عزم راسخ، ان کا پختہ ایمان۔ وہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ دشمن کے مد مقابل آ گئے۔ امریکا ہمارے دشمن کی مدد کر رہا تھا۔ اس وقت کا سویت یونین بھی مدد کر رہا تھا، آج انسانی حقوق کا دم بھرنے والے یورپی ممالک ان دنوں اس خبیث دشمن کی مدد کر رہے تھے کہ وہ قتل و غارت کا بازار گرم کرے، سب کچھ نیست و نابود کر دے، اس علاقے اور اس پر آباد لوگوں کو جلا کر راکھ کر دے۔ یہ (خبیث دشمن) آزادانہ یہ کام کر رہا تھا۔ لیکن آپ کے نوجوانوں نے اس قوم کے جیالوں نے اسے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اسی دشت عباس کے علاقے میں اسی وسیع و عریض میدان میں وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر آئے اور انہوں نے اپنے عزم راسخ سے دشمن کو مغلوب کیا، ذلیل و خوار کیا اور ان سازشوں کو نقش پر آب کر دیا جنہیں تیار کرنے میں سامراجی طاقتیں شریک و دخیل تھیں۔
میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میرے عزیزو! یہ چیز دائمی ہے۔ ہمیشہ آپ کا عزم محکم، آپ کی دانشمندی و بصیرت، آپ کی ثابت قدمی و استقامت اور آپ کی دلاوری و شجاعت بظاہر بڑے اور طاقتور نظر آنے والے آپ کے دشمن کو شکست سے دوچار کر سکتی ہے۔ آج بھی یہ چیز ہے اور کل بھی رہے گی۔ اگر ملت ایران دنیا و آخرت کی خوشبختی و سعادت کے اوج پر خود کو پہنچانا چاہتی ہے تو اس کا راستہ ہے عورتوں اور مردوں کی شجاعت، بصیرت، تدبر اور عزم محکم، اور ان سب کا سرچشمہ ہو ایمان، اسلامی ایمان۔ ہمارے مجاہدین میں جس چیز نے عزم و حوصلے کو یقینی بنایا وہ ان کا قلبی ایمان تھا۔ دین پر، اللہ تعالی پر، قیامت پر اور اللہ تعالی کے سامنے انسانوں کے فرائض پر ان کا ایمان و ایقان تھا۔ جس قوم میں بھی اور جس معاشرے میں بھی یہ عقیدہ و یقین ہوگا وہ اسے مضبوط بنا دے گا، اس میں پائیداری و استقامت پیدا ہو جائے گی۔
عزیز بھائیو اور بہنو! مقدس دفاع اور مسلط کردہ جنگ کے زمانے کی بنسبت آج ہم بہت آگے پہنچ چکے ہیں، کئی گنا زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں اور عالم اسلام میں ملت ایران کا اثر و رسوخ کئی گنا عمیق تر ہو گيا ہے۔ اب ہماری طاقت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ملت ایران نے اپنی پائیداری و استقامت کی برکت سے یہ طاقت حاصل کی ہے۔ سازشیں آج بھی رچی جا رہی ہیں لیکن ملت ایران اپنی استقامت کے ذریعے دشمن کی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے اپنی راہ پر بدستور گامزن ہے۔
یہ ضروری ہے کہ ملت ایران اس تقدیر ساز اور نازک دور کو مقدس دفاع کے زمانے کو ہرگز فراموش نہ کرے۔ آزمائش و امتحان کے برسوں کو مسلط کردہ جنگ کے ان مایہ ناز ادوار کو کبھی اپنے ذہن سے مٹنے نہ دے۔ ان جگہوں پر آنا، اظہار عقیدت کرنا اور پرانی یادوں کو تازہ کرنا (ضروری ہے)۔ ان چیزوں سے یہ یادیں ذہن میں ہمیشہ باقی رہیں گی۔ میں راہیان نور ( سے موسوم قافلوں) کے سلسلے کو جو کئي سال سے شروع ہوا اور بحمد اللہ روز بروز ملک میں بڑھتا ہی جا رہا ہے بہت مستحسن عمل سمجھتا ہوں اور اسے بابرکت اقدام مانتا ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ وہ نازک دور ہمارے لئے گراں قدر تجربہ ہے۔ آپ نوجوان اگر ان دنوں ہوتے تے آپ بھی اس میدان میں عزم راسخ کے ساتھ اترتے۔
عصر حاضر میں آپ نوجوانوں نے علم و دانش کے میدان میں، سیاست کے میدان میں، سعی و کوشش کے میدان میں، قومی یکجہتی کے میدان میں اور بصیرت و آگہی کے میدان میں اپنی پامردی کا لوہا منوایا ہے، اپنی استقامت کو ثابت کیا ہے۔ بسا اوقات فوجی جنگ فکری جنگ سے آسان ہوتی ہے، سیاسی جنگ سے آسان ہوتی ہے۔ ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ سیاسی میدان میں اس کی استقامت و بصیرت فوجی میدان کی پائیداری و حکمت سے کم نہیں ہے۔ ہمارے نوجوان بحمد اللہ قابل اور بالیاقت نوجوان ہیں تاہم انہیں اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے، بلند ہمتی اور کثرت عمل ( اب بھی لازمی ہے)۔ آپ اپنے حوصلے بلند رکھئے۔ ملت ایران کو چاہئے کہ ملک میں استبدادی دور اور غیر ملکیوں کی مداخلتوں کے زمانے کی پسماندگیوں کی تلافی کرے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارے ملک کی موجودہ نوجوان نسل عالمی سطح پر کم نظیر یا پھر بے نظیر ہے۔ یہ ملک کے مستقبل کے لئے ایک نوید ہے۔ انشاء اللہ آپ نوجوان وہ دن دیکھیں گے جب آپ کا ملک علم و دانش کے لحاظ سے، سائنس و ٹکنالوجی کے لحاظ سے اور سیاسی و عالمی اثر و رسوخ کے لحاظ سے اس مقام پر پہنچ جائے گا جو عظیم ملت ایران اور اسلامی مملکت ایران کے شایان شان ہے۔
ہماری دعا ہے کہ حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کی عنایتیں آپ کے شامل حال رہیں۔ عزیز شہدا کی ارواح، مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کے شہدا بالخصوص فتح المبین کے علاقے کے شہداء کی ارواح پر الطاف الہی کا نزول ہو، ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہرہ ہم سب سے راضی و خوشنود رہے۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

(1) احزاب، 23 ان میں سے بعض نے جام شہادت نوش کیا اور ان میں بعض اسی انتظار میں ہیں انہوں نے اپنے یقین و عقیدے کو ہرگز نہیں بدلنے دیا۔