خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی اس عظیم عید کی دنیا کے تمام مسلمانوں، حق پسندوں، باشرف اور عظیم الشان ایرانی قوم اور آپ بہنوں اور بھائیوں کو جو یہاں تشریف لائے ہیں، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خداوند عالم اس دن اوراس کے ذریعے جو سبق ہمیں دیتا ہے ان کی برکات سے ہمیں بہرہ مند کرے۔
غدیر کے دن متواتر روایات کے مطابق ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو عظیم کام انجام دیا ہے، اس کے کئی پہلو ہیں۔ ایک پہلو فضیلت امیرالمومنین علیہ السلام تھی۔ لوگ امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل سے واقف تھے اور نزدیک سے ان کا مشاہدہ کرتے تھے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور درحقیقت ارادہ الہی نے بھی انہی فضائل کو معتبر سمجھا اور انہی کی اساس پر پیغمبر کے بعد کی حاکمیت و ولایت کا تعین کیا جس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر حکومت کے مرتبے پر وہی فائز ہو سکتا ہے جس کے اندر یہ فضائل موجود ہوں ورنہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل کو بیان کرنا ضروری نہیں تھا ، لوگ ان سے واقف تھے۔
ابن ابی الحدید کہتا ہے کہ فضائل علی بن ابیطالب اس زمانے میں لوگوں پر اس طرح واضح تھے کہ رحلت پیغمبر کے بعد مہاجرین میں سے کسی کو بھی اور انصار میں سے اکثر کو اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ خلافت علی کے پاس جائے گی۔ یعنی ان کی نظر میں یہ بات مسلمات میں سے تھی۔ دوسرے مواقع پر خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین کے بارے میں بہت کچھ فرماچکے ہیں۔
آپ کے فضائل کے بارے میں شیعوں اور اہلسنت دونوں میں متواتر روایات ہیں۔ آپ کے بہت سے فضائل کے بارے میں شیعوں نے بھی اور سنیوں نے بھی تواتر کے ساتھ روایات نقل کی ہیں۔ یہ روایات صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہیں۔ حتی مشہور قدیمی مورخ اور سیرت نویس، ابن اسحاق کہتا ہے کہ پیغمبر نے امیر المومنین سے فرمایا کہ اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ لوگ تمہارے بارے میں بھی وہی باتیں کریں گے جو حواریان حضرت عیسی کے کے بارے میں کہتے ہیں تو وہ بات بتاتا کہ تم جہاں سے بھی گزرتے لوگ تمہارے قدموں کی خاک کو تبرک کے طور پر اٹھا لیتے۔ یہ روایت شاید شیعہ راویوں نے بھی نقل کی ہو، میں نے نہیں دیکھی ہے۔ ابن ابی الحدید ابن اسحاق سے نقل کرتا ہے۔ یعنی جو لوگ امیرالمومنین کے منصوب ہونے کے قائل نہیں ہیں وہ بھی آپ کے فضائل میں یہ باتیں کرتے ہیں۔
یہ واقعہ غدیر کا ایک پہلو ہے۔ یعنی ان فضائل اور اس بات کا اثبات کہ یہ فضائل اور صفات اسلامی معاشرے میں حکومت پر جاکر منتج ہوتے ہیں۔ یہ بہت اہم پہلو ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں پیغمبر اور وحی الہی کے مطابق حکومت فضیلتوں اور اقدار کی تابع ہوتی ہے دوسری چیزوں کی تابع نہیں ہے۔ یہ خود ایک اسلامی اصول ہے۔
واقعہ غدیر کا ایک اور پہلو، یہی مسئلہ ولایت ہے۔ یعنی حکومت سے ولایت کی تعبیر ۔ من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ (1) جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کسی کے حق حاکمیت کا تعین کرتے ہیں تو اس کے لئے مولا کی اصطلاح سے کام لیتے ہیں اور اس کی ولایت کو اپنی ولایت سے منسلک کرتے ہیں۔ خود یہ مفہوم جو ولایت میں ہے، بہت اہم ہے۔ یعنی اسلام مفہوم ولایت کے بغیر، جو عوامی مفہوم ہے اور لوگوں کے حقوق نیز ان حقوق کی پابندی اور انسانیت کے تحفظ سے تعلق رکھتا ہے، کسی کو دوسروں پر حکومت کا حق دینے کا قائل نہیں ہے۔ اسلام ولایت سے عاری حکومت تسلیم نہیں کرتا۔
عوام کا حاکم و ولی، سلطان نہیں ہے۔ یعنی حکومت کے عنوان میں، اس کے اقتدار اور اختیار کی قوت ملحوظ نہیں ہوتی، یہ پہلو کہ جو چاہے کر سکتا ہے، مد نظر نہیں ہے بلکہ اس کی ولایت و سرپرستی اور یہ بات مدنظر ہے کہ امور مسلمین و مومنین کا ولی ہے۔ یہ حق، یہ عنوان اور یہ مرتبہ مد نظر ہوتا ہے۔ اسلام میں حکومت کے مسئلے کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
اگر اس ولایت اور اسلام نے ولی اور والی کے لئے جو فرائض معین کئے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے--- آئمہ معصومین (علیہم السلام ) کے ارشادات میں سبق آموز باتیں بہت ہیں ، مالک اشتر کے نام امیر المومنین کے خط میں اور آپ کی قابل قدر سفارشات میں اہم مفاہیم بہت زیادہ ہیں --- تو دیکھیں گے کہ عوامی ترین حکومت یہی ہے۔ انسانی لغت، یعنی تاریخ میں ، دنیا کے حریت پسندوں کے لغت میں حکومت کے بارے میں جتنی باتیں بھی بری ہو سکتی ہیں، وہ ولایت کے مفہوم میں نہیں پائی جاتیں۔ استبداد، خودسری اور اپنی خواہش کے مطابق یا عوام کے نقصان میں فیصلہ کرنا ولایت میں ہرگز نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی ولایت کے نام پر یہ سب کام نہیں کر سکتا۔ نہیں' ایسے شیاطین ہیں جنہوں نے دنیا میں ہر اچھے نام سے تمام برے کام کئے ہیں۔ مقصد اسلامی راستے کی تعلیم ہے۔ البتہ جو لوگ مغربی اور غیروں کی ثقافت کے دلدادہ و شیدا ہیں وہ ممکن ہے کہ باتیں بنائیں یا بعض تصورات قائم کریں، لیکن یہ سب ولایت کے مفہوم کی شناخت نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔
اسلام میں ولایت کا دارومدار فضیلتوں پر ہے، ایسی فضلتوں پر جن کا وجود صاحب منصب اور عوام دونوں کو تحفظ عطا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر عدل اپنے خاص معنی میں، نفسانی ملکہ کے معنی میں، ولایت کی شرائط میں شامل ہے۔ اگر یہ شرط پوری ہو گئی تو ولایت ایسی ہو جائے گی کہ کوئی اس کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا کیونکہ جیسے ہی معمولی ترین خلاف ورزی بھی جو اسلامی اوامر اور نواہی کے منافی ہو، ولی یا والی سے سرزد ہوئی عدل کی صفت ختم ہو جائےگی ۔ معمولی ترین ظلم، معمولی ترین کجروی جو خلاف شرع ہو، عدل کو ختم کر دیتی ہے۔ ہرامتیازی رویہ، ہر خلاف ورزی، ہر گناہ، ہر ترک واجب، والی کے عدل کو ختم کر دیتا ہے۔ عدل ختم ہوا تو اس سے منصب سلب ہوجائےگا۔
دنیا کے کس حکومتی نظام میں یہ بات پائی جاتی ہے؟ کس عوامی نگرانی کے سسٹم میں یہ روش پائی جاتی ہے کہ جس میں انسانیت، معاشرے اور بشریت کی بھلائی اور فضلیتیں ہوں؟ البتہ معیاروں کی خلاف ورزی ہر شکل میں ممکن ہے۔ معیاروں کو ملحوظ رکھے جانے کی صورت میں آپ فرض کیجئے کہ یہ کتنی متین شکل ہے جو اسلام نے معین کی ہے۔
ہم مسلمانوں کو ولایت کا تجربہ کرنا چاہئے۔ طویل صدیوں تک ایسا نہیں ہونے دیا گیا۔ کس نے نہیں ہونے دیا؟ انہی لوگوں نے جنہیں ولایت کے طرز کی حکومت، مسند اقتدار اور حکومت سے ہٹا دیتی ہے۔ ورنہ یہ طرز حکومت عوام کے فائدے میں ہے۔ کون سے ممالک ہیں کہ اگر ان کی حکومتوں کی باگ ڈورکسی پرہیزگار، پارسا، مومن، اوامر و نواہی الہی کی پابندی کرنے والے اور صالحات و حسنات پر عمل کرنے والے کے ہاتھ میں ہو تو ان کے لئے اس سے بہتر نہیں ہوگا کہ ایک شرابی ، شہوت پرست، دولت کا لالچی اور دنیا پرست اقتدار میں ہو؟ ان ملکوں میں جو قوم بھی ہو اور جس مذہب کے بھی پیروکار ہوں۔
ولایت یعنی پارسا انسانوں کی حاکمیت۔ شہوت پرستی اور اپنے نفس کے مخالف اور نیکیوں پر عمل کرنے والے انسانوں کی حکومت۔ اسلامی ولایت کے یہ معنی ہیں۔ کون سا ملک اور کون سی قوم یہ نہیں چاہے گی اور یہ بات اس کے فائدے میں نہیں ہوگی؟ کون ہے جو اس کے مفہوم کو سمجھے اور اس کی تائید نہ کرے؟ اس اصول اور اس روش کی کون مخالفت کرے گا؟ ظاہر ہے کہ وہ اقتدار پرست جو اپنے نفس میں، ان معیاروں، پارسائی، شہوت پرستی کی مخالفت اور دنیاوی مال و دولت سے بے اعتنائی کے وجود کو ممکن نہیں پاتے۔ آج جن طاقتوروں کے پاس دنیا میں زمام امور ہے کون ایسی حکومت اور ولایت کے لئے تیار ہے جس کی نشاندہی اسلام نے کی ہے؟
ہم نے ہمیشہ یہ کہا ہے اور یہ ہمارے انقلاب کے مسلمات میں سے ہے کہ انقلاب اور اسلامی نظام، ان غیر اسلامی اور اسلام مخالف ثقافت سے روگردانی ہے جو آج عالمی طاقتوں پر حکمفرما ہے اور جس کی اساس پر عالمی طاقت کے ارکان وجود میں آئے ہیں۔ اسی لئے وہ اسلام، اسلامی انقلاب اور اس نظام کے مخالف ہیں کیونکہ اس نے دنیا کے طاقتوروں کے درمیان رائج سیاسی روش اور ثقافت کے ستونوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ہماری ثقافت ان کی ثقافتوں سے مختلف ہے۔ جیسا کہ اس حکومت، اس کی سیاسی طاقت، عوام سے اس طاقت کے رابطے اور ان کے اور عوام کے درمیان جو رشتے اور تعلقات پائے جاتے ہیں ، انہیں آپ دیکھ رہے ہیں۔
یہ چیزیں جو اسلام میں اصول ولایت کی دین ہیں، انسانوں کے لئے کتنی مفید ہیں، کتنی درخشاں، کتنی خوبصورت اور کتنی پر کشش ہیں۔ جو بھی جہاں سے بھی ہمارے ملک کو دیکھے ، انہی چیزوں کو دیکھے گا جو ہمارے عظیم امام کی زندگی میں تھیں اور جن کی یہ قوم دس بارہ برسوں میں عادی ہو گئی ہے۔ یہ ولایت کے معنی ہیں۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ اگر اقوام ان ادیان و مذاہب سے قطع نظر جو ان پر حکمفرما ہیں، راہ سعادت کو تلاش کرنا چاہیں تو انہیں اسلامی ولایت کی طرف آنا چاہئے۔
البتہ یہ اسلامی ولایت اپنی مکمل شکل میں ایک اسلامی معاشرے میں ہی عملی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ولایت اسلامی اقدار پر استوار ہے۔ یعنی، عدل اسلامی ، دین اسلامی اور علم اسلامی پر استوار ہے لیکن بہرحال ایک حد تک تو تمام اقوام میں اور تمام معاشروں میں اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی کو رہبر اور حاکم کی حیثیت سے منتخب کرنا چاہیں تو اس کو نہ منتخب کریں جس کو سرمایہ دار متعارف کرائیں بلکہ اس کو منتخب کریں جو سب سے زیادہ پارسا، سب سے زیادہ پاک و صاف اور دنیا سے سب سے زیادہ بے اعتنا ہو، جو اقتدار کو اپنی ذاتی ملکیت نہ سمجھے اور اس سے اپنے ذاتی فائدے میں کام نہ لے۔
یہ اسلام میں ولایت کی برکتیں ہیں جن سے دنیا کے موجودہ جمہوری نظام محروم ہیں۔ یہ اسلام کی برکات میں سے ہے۔ بنابریں ابتدائے انقلاب سے ہی یہی ولایت اور ولایت فقیہ - دو مفہوم ہے ، ایک خود ولایت کا مفہوم اور دوسرے یہ کہ ولایت، فقیہ سے دین کے ماہر سے اور عالم دین سے تعلق رکھتی ہے - ان لوگوں کی طرف سے جو اس مکمل اصولی نظام کو برداشت نہیں کر سکتے تھے اور برداشت نہیں کر سکتے ہیں، حملوں کا نشانہ بنی ہے۔ آج بھی ایسا ہی۔ خوش قسمتی سے عوام نے اس راہ کو پہچان لیا ہے۔ یہ اسلام، غدیر اور امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی اور آپ کی مختصر مدت کی حکومت کی برکت سے ہے۔
امید ہے کہ خداوند عالم ہمیں اس راہ اور اس اسلامی فکر کا اہل اور لائق بنائےگا اور ہم سب کو مفہوم ولایت کا قدردان قرار دے گا اور انشاء اللہ ہم ملت اہل ولایت کہلانے کے لائق ہوں گے۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- بحار الانوار ج 35 ص 282