قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران کی مرکزی نماز جمعہ میں باایمان و انقلابی عوام کے عظیم الشان اجتماع میں اس سال اسلامی انقلاب کی سالگرہ کو ایک الگ ہی جوش و جذبے سے سرشار قرار دیا اور اسلامی انقلاب کے نتیجے میں انجام پانے والی بنیادی اور گہری تبدیلیوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ قوم کی پائيداری کی برکت سے یہ تبدیلیاں ان پورے بتیس برسوں کے دوران جاری رہیں اور ایرانی عوام برسوں کی جد و جہد کے بعد اب اپنی مظلومانہ لیکن مقتدرانہ آواز کی بازگشت کا، شمالی افریقہ کے تازہ واقعات اور خاص طور پر مصر اور تیونس کے عوام میں اسلامی بیداری کی شکل میں، مشاہدہ کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے پہلے خطبے میں تہران یونیورسٹی میں اور تمام ملحقہ سڑکوں پر صف نماز میں بیٹھے بے شمار نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے اسلامی انقلاب سے قبل کے حالات اور دنیا کے سیاسی امور پر اس انقلاب کے اثرات کا تجزیہ کیا اور فرمایا کہ دنیا کی استبدادی اور استکباری طاقتوں نے مشرق وسطی کے انتہائی اہم اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل علاقے میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے بڑی باریک بینی سے منصوبے تیار کئے تھے اور برسوں انہوں نے اس منصوبے پر کامیابی سے عملدرآمد بھی کیا لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی نے ان کے سارے منصوبوں کو درہم برہم کر دیا۔
نماز جمعہ کے خطبوں کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للَّه ربّ العالمين نحمده و نستعينه و نستغفره و نتوكّل عليه و نصلّى و نسلّم على حبيبه و نجيبه و خيرته فى خلقه حافظ سرّه و مبلّغ رسالاته‌ بشير رحمته و نذير نقمته سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين المكرّمين‌ سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين‌. و نصلّى و نسلّم على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين‌. اوصيكم عباد اللَّه بتقوى اللَّه‌.

آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں، محترم نمازیوں اور خود کو تقوائے الہی کے پاس و لحاظ کی نصیحت کرتا ہوں۔ آج (فرزند رسول) حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کی شہادت کا دن ہے۔ اس سے قبل ہمارے عوام نے نبی اکرم حضرت محمد ابن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانسوز رحلت اور آپ کے سبط اکبر حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی روح فرسا شہادت کا غم منایا۔ ان عظیم مصیبتوں اور تاریخ کے ان المناک اور ناگوار واقعات پر آپ تمام نمازیوں، پوری ملت ایران اور دنیا بھر کے تمام مومنین اور تمام مسلمانوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ خداوند عالم نے خود اپنے پیغمبر سے بھی فرمایا ہے کہ یا ایھا النبی اتق اللہ (1) تقوا و پرہیزگاری، تقوے کا پاس و لحاظ اتنا ضروری ولازمی ہے کہ خود پیغمبر اسلام کی ذات مبارک کو بھی اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کو پیش نظر رکھیں، اپنے اعمال، اپنی رفتار و گفتار، حتی اپنے تصورات و افکار میں بھی بہت محتاط رہیں۔ تقوے کا یہی مطلب ہے۔ اگر یہ چیز حاصل ہو گئی تو تمام بند دروازے کھل جائیں گے اور خداوند عالم تمام مراحل میں اس قوم و ملت کی جو متقی و پرہیزگار ہو مدد و نصرت کرے گا۔
اس سال عشرہ فجر ( پہلی فروری کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جلا وطنی سے وطن واپسی سے لیکر گيارہ فروری کو اسلامی انقلاب کی فتح تک کے دس دن) ایک الگ ہی جوش و جذبے سے سرشار ہے کیونکہ لوگ اپنی برسوں کی جد و جہد کے بعد مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ان کی مظلومانہ تاہم مقتدرانہ آواز کی بازگشت آج دنیائے اسلام کے دیگر حصوں میں بالکل صاف سنائی دے رہی ہے۔
آج شمالی افریقہ کے ممالک مصر اور تیونس اسی طرح کچھ دوسرے ملکوں میں رونما ہونے والے واقعات ملت ایران کے لئے خاص معنی و مفہوم رکھتے ہیں۔ یہ وہی چیز ہے جسے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اسلامی بیداری کا نام دیا جاتا رہا ہے۔ آج یہ بالکل نمایاں ہو گئی ہے۔ لہذا یہ عشرہ فجر بہت اہم ہے۔
آج (نماز جمعہ کے) پہلے خطبے میں کچھ باتیں اپنے انقلاب کے بارے میں عرض کرنا ہیں اور دوسرے خطبے میں کچھ باتیں مصر اور تیونس کے واقعات کے تعلق سے پیش کروں گا اور آخر میں محترم نمازیوں کی اجازت سے اس پورے علاقے کے عرب مسلمانوں سے کچھ دیر عربی زبان میں خطاب کروں گا، انشاء اللہ۔
اپنے انقلاب کے بارے میں، ملت ایران کے اس عظیم الشان کارنامے کے بارے میں جو باتیں عرض کرنی ہیں اور جو بہت سبق آموز اور عبرت انگیز ہیں، ان میں سب سے پہلے عالمی حقائق کی ایک تصویر پیش کروں گا تاکہ یہ معلوم ہو کہ عالمی استکباری اور سامراجی طاقتیں، تسلط پسند اور توسیع پسند طاقتیں کیا چاہتی تھیں اور کیا پیش آیا؟! کس چیز کی فکر میں تھیں اور عملی طور پر کیا رونما ہوا؟! اس کے بعد اسلامی انقلاب کی خصوصیات میں سے دو خصوصیتوں کا ذکر کروں گا جن کا تعلق اسی عصر حاضر سے ہے۔
تو بہلے موجودہ حالات کی تصویر کشی کرتا ہوں اور اس کا موازنہ اس صورت حال سے کروں گا جو دنیا کے تسلط پسند اور جابر عناصر پیدا کرنا چاہتے تھے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے فاتح ممالک نے جن میں بنیادی طور پر یورپی ممالک اور امریکہ شامل ہیں، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے سلسلے میں دائمی بنیاد پر ایک پالیسی اختیار کی تھی۔ اس علاقے کی سوق الجیشی اہمیت بھی ہے کیونکہ یہ ایشیا، یورپ اور افریقہ کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے اور دوسری طرف یہ دنیا کے تیل کے سب سے بڑے ذخائر سے مالامال بھی ہے اور تیل ظاہر ہے کہ دنیا پر قابض صنعتی طاقتوں کی رگ حیات کا درجہ رکھتا ہے۔ قوموں کے لحاظ سے دیکھیں تو یہاں قدیم تاریخ رکھنے والی قومیں آباد ہیں۔ لہذا انہوں نے یہاں کے لئے ایک بنیادی پالیسی وضع کی تھی۔ وہ پالیسی یہ تھی کہ اس علاقے میں ایسے ممالک موجود رہیں جو سب سے پہلے تو یہ کہ کمزور ہوں، دوسرے یہ کہ آپس باہمی دشمنی رکھتے ہوئے، ایک دوسرے کے قریب نہ آئیں، متحد نہ ہو سکیں۔ چنانچہ آپ نے دیکھا کہ عرب قوم پرستی، ترک قوم پرستی، ایرانی قوم پرستی کو ہوا دینے والی پالیسیاں سالہا سال سے جاری ہیں۔ تیسرے یہ کہ ان ملکوں کے حکام انہی کے مامور کردہ اور انہی کے مطیع و فرماں بردار ہوں، مغربی طاقتوں کے اشاروں پر چلیں، ان کے سامنے ہمہ تن گوش رہیں۔ چوتھے یہ کہ اقتصادی میدان میں صرف صارف کی حیثیت رکھتے ہوں یعنی سستے داموں تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو (ضرورت کی اشیاء کی) درآمد پر خرچ کر دیں اور مغربی صنعتیں ( یہ اشیاء انہیں فروخت کرکے) فروغ پائیں۔ پانچویں یہ کہ علمی و سائنسی میدان میں پسماندہ ہوں، انہیں ترقی نہ کرنے دیا جائے۔ یہ باتیں جو میں عرض کر رہا ہوں یہ در حقیقت عناوین ہیں جن میں کسی بھی عنوان کی مکمل تشریح کی جائے تو با قاعدہ ایک کتاب تیار ہو جائے گی۔ کس طرح ہمارے ملک ایران اور بعض دوسرے ملکوں میں علمی ترقی اور سائنس کی گہرائی و گیرائی کو روکنے کے لئے گوناگوں رکاوٹیں کھڑی کی گئيں؟! کوشش یہ تھی کہ اس علاقے کی قومیں تہذیب و ترقی کے سلسلے میں یورپیوں کا اتباع کریں، فوجی لحاظ سے کمزور اور ناتواں ہوں، اخلاقی لحاظ سے بد عنوان اور بے راہرو ہوں، مختلف طرح کی اخلاقی برائیوں میں گرفتار ہوں۔ مذہبی اعتبار سے بالکل سطحی فکر والی اور مذہب کو صرف ذاتی زندگی تک محدود رکھنے والی ہوں، بس کبھی کبھار مذہب کا ذکر آ جایا کرے۔ انہوں نے اس علاقے کے لئے یہ تصویر طے کی تھی اور اسی تناظر میں اپنی پالیسیاں مرتب کی تھیں۔ شاید مغربی حکمت عملی تیار کرنے والے دماغوں نے ہزاروں گھنٹے صرف کرکے ان امور کا جائزہ لیا تھا، غور و خوض کیا تھا، منصوبے بنائے تھے، اپنے افراد ان ممالک میں متعین کئے تھے اور ان کے توسط سے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا تھا۔
اسی تجزئے کے پس منظر میں (ایران کے پہلوی آمر) رضاخان کی حرکتوں کو صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے، (ایران کے دوسرے پہلوی آمر) محمد رضا کی روش اور ترکی کے مصطفی کمال اور دوسرے چہروں کی روش کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کا منصوبہ یہ تھا۔ وہ کامیاب بھی ہوئے، اسلامی انقلاب کی فتح سے قبل کے ادوار میں کچھ مختصر ایام کے لئے وہ بھی ان کے بعض منصوبوں میں ہی رکاوٹیں آئیں۔ تو کچھ تھوڑے وقفوں کے علاوہ وہ کامیاب رہے۔ مثال کے طور پر مصر کو ہی لے لیجئے۔ چند برسوں کے لئے ایک قومی حکومت بر سر اقتدار آئی۔ ایران میں کسی انداز سے اور دوسرے ممالک میں کسی اور انداز سے لیکن مجموعی طور پر دیکھیں تو ان مغربی طاقتوں کو اسلامی انقلاب سے قبل تک تمام منصوبوں میں کامیابی ملی۔ اچانک ایک عظیم واقعہ اور ایک عظیم دھماکہ ہوا جس نے ان کے تانے بانے کو درہم برہم کر دیا۔ ایک عدیم المثال عالم دین، مجاہد و شجاع فقیہ اور جوکھم اٹھانے والا حکیم جس کی باتیں دلوں میں گھر کر جاتی ہیں امام خمینی کے نام سے ایرانی قوم کے اندر ظاہر ہوا۔ واقعی ملت ایران میں اس عظیم انسان کا ظہور اور جلوہ افروزی فعل خدا تھا، یہ ایک الہی فیصلہ تھا جو اس انداز سے نظروں کے سامنے آیا۔ ایران کے عوام بھی آمادہ تھے، انہوں نے استقبال کیا اور ہر طرح کے خطرات مول لیکر میدان میں اتر پڑے۔ اپنی جانیں دیں، اپنا مال قربان کیا، امتحان کی منزلیں بحسن و خوبی طے کیں اور نتیجتا اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ (مغرب کے) تمام منصوبے خاک میں مل گئے، وہ حواس باختہ ہو گئے۔ ایران میں اسلامی انقلاب پوری قدرت و توانائی کے ساتھ معرض ظہور میں آیا اور اسی مضبوطی سے آگے بڑھتا رہا۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ پہلے، دوسرے اور تیسرے برسوں میں جوش و جذبے کی کیفیت رہی ہو اور بعد میں جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا ہو۔ ایسا نہیں ہوا، انقلاب آگے بڑھتا گيا۔ میں بعد میں اس تسلسل کے بارے میں کچھ باتیں بیان کروں گا۔
امام خمینی رحمت اللہ علیہ کسی کہسار کی مانند کھڑے ہو گئے اور ایرانی قوم بھی ان کی پشت پر ثابت قدمی سے ڈٹ گئی۔ دشمن محاذ نے بھی، ظاہر ہے دشمن ایک نہیں تھا بلکہ ایک پورا مورچہ تھا، جو بن پڑا اسے انجام دیا، اپنی پوری توانائی صرف کر دی۔ سڑکوں اور گلی کوچوں کی جھڑپوں سے لیکر باقاعدہ فوجی بغاوت تک، آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ تک، اقتصادی پابندیوں تک اور اس بتیس سال کے عرصے میں وسیع پیمانے پر تشہیراتی مہم اور نفسیاتی جنگ تک۔ بتیس سال ہو رہے ہیں کہ ایران کے خلاف، اسلامی انقلاب کے خلاف اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے خلاف نفسیاتی جنگ جاری ہے۔ دروغ گوئی کی، تہمتیں لگائیں، افواہیں پھیلائیں، اختلافات پیدا کرنے کی کوششیں کیں اور ملک کے اندر گمراہ کن اقدامات انجام دئے۔
وہ جن مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں تھے ان میں سب سے پہلا مقصد تھا انقلاب کا خاتمہ اور اسلامی جمہوری نظام کا زوال، پہلا ہدف یہ تھا کہ اس نظام کا تحتہ پلٹ دیا جائے۔ اسلامی جمہوری نظام کا تختہ پلٹنے میں کامیابی نہ ملنے کی صورت میں ان کا دوسرا ہدف یہ تھا کہ انقلاب کو ہی منقلب کر دیں، یعنی انقلاب کی ظاہری شکل باقی رہے، انقلاب کا باطن، اس کی حقیقت، انقلاب کی روش اور انقلاب کا جذبہ ختم ہو جائے۔ اس سمت میں انہوں نے بہت کوششیں کیں۔ چنانچہ اس کا تازہ ترین منظرنامہ یہی سنہ دو ہزار نو کا فتنہ تھا۔ یہ بہت بڑی سازش تھی اور کچھ لوگ حب نفس کی خاطر، حب جاہ کی خاطر اور اسی طرح کے وسوسوں کے باعث اس سازش کا حصہ بن گئے۔ میں کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ اس سازش کی منصوبہ بندی اور ہدایت کا عمل سرحد پار سے انجام پا رہا تھا اور انجام پا رہا ہے۔ اندرون ملک بعض عناصر ان کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔ بعض دانستہ طور پر اور بعض نادانستہ طور پر۔ تو یہ تھا ان کا دوسرا ہدف۔
تیسرا ہدف یہ تھا اور ہے کہ اگر (فتنے کے بعد بھی) اسلامی نظام باقی رہتا ہے تو ایسے کمزور لوگوں کو استعمال کیا جائے جن کو شیشے میں اتارا جا سکتا ہے، انہیں ملک کے بنیادی امور میں ایک فریق کے طور پر پیش کیا جائے اور انہی کی مدد سے ایک نظام وجود میں آئے اور آگے بڑھے، جس کے پاس بقدر کافی قوت و توانائی نہ ہو اور جو پیروی کرنے پر مجبور ہو، امریکہ کے مقابل کبھی کھڑا نہ ہو سکے۔ یہ تھا ان کا مقصد۔
تمام مراحل میں وہ ناکام ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ آج تک وہ اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل میں ناکام ہی رہے ہیں۔ انہوں نے کوششیں تو بہت کیں۔ طرح طرح کی روشیں اختیار کیں۔ میں ان میں بعض روشوں کی جانب اشارہ بھی کروں گا۔ انہوں نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ کیونکہ ہمارے عوام بیدار ہیں، ہمارے معاشرے میں غیر معمولی شخصیتیں کثیر تعداد میں موجود ہیں، یہ قوم ایک اچھی قوم ہے، حکام بھی اچھے ہیں۔ الحمد للہ آج تک ہمارے دشمن اپنے ان مقاصد کو پورا نہیں کر سکے اور انقلاب اپنے راستے پر گامزن ہے اور ترقی کر رہا ہے۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ اس انقلاب سے کیا تغیرات رونما ہوئے؟ یہ بہت اہم ہے۔ یہ انقلاب جو ایران میں رونما ہوا، ایسے تغیرات کا باعث بنا ہے جو اپنی گہرائی و گیرائي اور ندرت کے لحاظ سے بہت ہی اہم ہیں، بنیادی قسم کی تبدیلیاں ہیں، ان تغیرات کی بنیادوں پر ہی معاشرے کو آگے لے جایا جا سکتا ہے، وسیع سطح پر تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں، یہ بنیادی ستون بڑے استحکام کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔ ان تبدیلیوں میں سے میں چند کا ذکر کروں گا۔ بے شک یہ چیزیں سب جانتے ہیں، یہ ہم سب کے سامنے ہیں اور ہم سب کو ان کا علم ہے تاہم جیسے اللہ تعالی نے قرآن میں ہم کو سورج کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ہے والشمس و ضحیھا(2) سورج ہماری نگاہوں کے سامنے ہے لیکن اس کی قسم کھائی جا رہی ہے تاکہ ہم اس کی طرف توجہ دیں کہ اس کا وجود، اس کا معرض وجود میں آنا، اس کا طلوع، اس قدر عظمت کا حامل ہے۔ اسی طرح ہم کو اپنے گرد و پیش اس عظیم حقیقت (انقلاب) پر بھی توجہ دینی چاہئے اور اسی لئے ان تغیرات کا بیان کرنا لازمی ہے تاکہ خود ہم لوگ ان پر توجہ دیں۔
انقلاب سے قبل ملک پر حمکفرما نظام گہرائیوں تک اسلام دشمنی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ظواہر سے اسے کچھ خاص مطلب نہیں تھا لیکن وہ گہرائی میں جاکر لوگوں کے ایمان کی جڑیں کاٹ دینے کی فکر میں تھا۔ اس سلسلے میں متعدد مثالیں، شواہد اور یادیں میرے ذہن میں موجود ہیں لیکن اس وقت ان کے بیان کا موقع نہیں ہے۔ انقلاب ٹھیک ایک سو اسی ڈگری ان کے خلاف رونما ہوا اور اس نے اسلام کو ملک کے نظام و انتظام کا محور قرار دیا، نظم و نسق کی نگرانی کا محور قرار دیا۔ ملکی قوانین کو قبول یا مسترد کرنے کے سلسلے میں اسلامی ضوابط اور اصولوں کو معیار قرار دیا گیا اور اسی کو حکام کے سلسلے میں بھی کسوٹی کا درجہ دیا گيا۔
انقلاب سے قبل سیاسی لحاظ سے ملک میں خود انحصاری نہیں تھی۔ یعنی پورا نظام خواہ محمد رضا (پہلوی) ہو یا دوسرے افراد و محکمے، سب امریکہ کے مطیع تھے، امریکہ کے اشاروں کے منتظر رہتے تھے۔ اس کے بھی بے شمار ثبوت موجود ہیں۔ ایک آدمی یہاں سے اٹھ کر جاتا ہے اور امریکیوں کو مناتا ہے کہ وہ وزیر اعظم بننے کے لائق ہے۔ واپس آتا ہے اور وزیر اعظم بن جاتا ہے! ایک دو سال بعد شاہ جو امین ( امریکہ کی خوشآمد کرکے وزیر اعظم بننے والا شخص) کا مخالف تھا امریکہ جاکر امریکیوں کو اس بات پر رضامند کرتا ہے کہ وزیر اعظم کو عہدے سے برطرف کیا جائے۔ واپس آکر وزیر اعظم کو عہدے سے ہٹا دیتا ہے۔ یہ حالت تھی ہمارے ملک کی کہ وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے ملک کا بادشاہ، سربراہ مملکت امریکہ کی رضامندی کا محتاج تھا! بہت سے مسائل میں شاہ امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں کو اپنے محل میں بلاتا تھا اور فیصلے سے قبل ان سے مشاورت کرتا تھا۔ اگر انہوں نے مخالفت کر دی تو شاہ اپنا فیصلہ بدل دیتا تھا۔ اسی کو کہتے ہیں سیاسی انحصار۔ امریکہ کے مطیع و فرماں بردار تھے، امریکہ کے سامراجی دور سے قبل برطانیہ کے اطاعت شعار تھے۔ رضاخان کو برطانوی حکومت ہی اقتدار میں لائی تھی لیکن جب اس نے دیکھا کہ یہ اس کے کام کا نہیں رہا تو اسے معزول کر دیا، اسے ملک سے باہر نکال دیا اور اس کے بیٹے کو اقتدار سونپ دیا۔ یہ تھی انقلاب سے پہلے کی حالت۔
انقلاب آيا تو اس نے ملک کو پوری طرح سیاسی خود مختاری عطا کی۔ آج اس وسیع وعریض دنیا میں ان بڑی طاقتوں کے درمیان کوئی ایک طاقت بھی ایسی نہیں ہے جو دعوی کر سکے کہ اس کی مرضی اور اس کا فیصلہ ملت ایران کے ارادوں اور حکام کے فیصلوں پر ذرہ برابر بھی اثر ڈال سکا ہے۔ یہ خود مختاری، استقامت اور سیاسی عز و وقار قوموں کے لئے بہت زیادہ اہم اور پرکشش ہے۔ یہ جو آپ دیکھ رہیں کہ دنیا کی قومیں عظیم ملت ایران کو احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، اس ایک بنیادی وجہ یہی سیاسی خود مختاری ہے۔
اسلامی انقلاب سے قبل، سلطنتی حکومت تھی۔ اس کے ٹھیک مقابل میں جمہوریت ہے۔ سلطنتی حکومت میں عوام کچھ نہیں ہیں جبکہ جمہوری حکومت میں عوام ہی سب کچھ ہیں۔ اسلامی انقلاب سے قبل حکومت موروثی تھی؛ کوئی مرتا تھا تو اپنی جگہ کسی دوسرے کو متعین کر جاتا تھا۔ یعنی عوام کا کوئي کردار نہیں تھا؛ طوعا و کرہا انہیں قبول کرنا ہی ہوتا تھا۔ اسلامی انقلاب کی برکت سے اسلامی جمہوریہ میں حکومت، منتخب ہے؛ عوام منتخب کرتے ہیں۔ عوام کی پسند، عوام کی خواہش فیصلہ کن ہے۔ اسلامی انقلاب سے قبل حکومت، سیکورٹی ڈکٹیٹر شپ، سختگير اور سیاہ ڈکٹیٹرشپ تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارا ایک دوست پاکستان سے آیا، وہ خفیہ طریقے سے چھپ کر مشہد آيا تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے فلاں بیان اپنے دوستوں کے ساتھ پارک میں پڑھا ہے۔ مجھے تعجب ہوا۔ پارک میں؟! بیان؟! کیا یہ بات ممکن ہے؟! یہ بات ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ کسی کی جیب میں اس طرح کا کوئي بیان ہو جس میں اس وقت کی حکومت پر تنقید ہو اور وہ گلی کوچوں میں گھوم سکتا ہو؟ یہ اس وقت کی آمرانہ حکومت کی صورتحال تھی۔ اسلامی انقلاب آیا اور اس نے آزاد ماحول، تنقید کے ماحول، اصلاح کے ماحول، نصیحت کے ماحول حتی مخالفت اور اعتراض کے ماحول کو لوگوں کے لیے فراہم کر دیا۔ ان بتیس برسوں میں ایسا ہی رہا ہے، انقلاب کے ابتدائی برسوں میں بھی۔
اسلامی انقلاب سے قبل ملک سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پوری طرح سے مغرب پر منحصر تھا۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ہمارے فوجی طیاروں کے بعض کل پرزے جو خراب ہو گئے تھے، فرسودہ ہو گئے تھے، ان کی مرمت کی جانی تھی تو وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ ایرانی انجینیئر اس کو کھولیں اور دیکھیں کہ کیا ہے؟ اس کی مرمت کرنے کے بارے میں سوچنے کی تو بات ہی الگ ہے۔ اس پرزے کو ہوائي جہاز میں رکھا جاتا، امریکہ لے جایا جاتا اور اس کی جگہ ایک دوسرا پرزہ لایا جاتا، یا اگر اس کی مرمت کرنی ہوتی تو وہیں اس کی مرمت کی جاتی تھی۔ یہاں جو صنعت تھی وہ کسی بھی قسم کی جدت عمل سے عاری، صرف کل پرزوں کو جوڑنے اور اسیمبلنگ کی صنعت تھی۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد علمی و سائنسی سطح پر خود اعتمادی پیدا ہوئي، قومی سطح پر خود اعتمادی وجود میں آئي۔ مختلف شعبوں میں اتنی کثیر تعداد میں دانشور اور سائنسداں اور وہ بھی بڑے عظیم اور اہم دانشور اور سائنسداں دیکھنے میں آئے۔ آج ہمارے ملک میں ایسے ایسے دانشور اور سائنسداں ہیں جن کی طرح کے لوگ پوری دنیا میں گنے چنے ہیں، بہت کم ہیں۔ یوں ہمارے سائنسداں اور دانشور آگے بڑھے اور ان میں بھی اکثریت نوجوانوں کی تھی۔
اسلامی انقلاب سے قبل عالمی بلکہ علاقائی مسائل میں بھی ایران کا کوئي اثر نہیں تھا، وہ ایک حقیر بنایا جا چکا ملک تھا؛ مسائل پر کسی بھی قسم سے اثر انداز نہیں ہو سکتا تھا۔ اسلامی انقلاب کے بعد دنیا کی اقوام کی نظروں میں ایرانی قوم کی عزت و عظمت اور علاقائی مسائل میں اس کے مؤثر کردار نے دشمنوں کو مبہوت کر دیا؛ دشمن اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے۔ آج آپ دیکھئے کہ ان سائٹوں میں جہاں غیر ملکی خبروں کو رکھا جاتا ہے، ہمیشہ ایران کے اثر و رسوخ، ایران کی طاقت اور علاقائی مسائل میں ایران کی موجودگی کا ذکر کیا جاتا ہے، چاہے معاندانہ محرکات کے سبب ہی کیوں نہ ہو تاہم دشمن اعتراف کرتے ہیں۔
اسلامی انقلاب سے قبل، ثقافتی میدانوں میں ہم پوری طرح سے اندھی تقلید کر رہے تھے؛ لیکن اسلامی انقلاب کے بعد ثقافتی یلغار کو ایک خطرے کے طور پر پہچانا گیا، اس قسم کے ذیلی عنوانات بہت ہیں، یہ سب بہت اہم باتیں ہیں۔
جب کسی ملک میں اس طرح کی بنیادیں رکھ دی جائیں تو پھر یہ قوم امید رکھ سکتی ہے کہ ان بنیادوں پر ایک نئے اور عظیم تمدن کی عمارت قائم کی جا سکتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک خصوصیت کسی نہ کسی شکل میں اپنی طرف توجہ مبذول کراتی ہے۔ دوسری اقوام دیکھتی ہیں، مائل ہوتی ہیں، سراہتی ہیں، البتہ ان میں سب سے زیادہ اہم وہی سیاسی خودمختاری اور دشمنوں کی منہ زوری کے مقابلے میں استقامت ہے۔
یہاں میں ایک اعلی مغربی عہدیدار کے حوالے سے ایک جملہ نقل کرنا چاہتا ہوں۔ میرا شیوہ نہیں ہے کہ میں ان مغربی سیاستدانوں اور شخصیات کے حوالے سے کچھ کہوں؛ تاہم یہ ایک دلچسپ جملہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دو ایسی چیزیں ہیں جو اگر ایک دوسرے کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئي تمام مسلمانوں تک پہنچ جائیں اور مختلف مسلم اقوام ان سے آگاہ ہو جائیں تو مغرب کے تمام بنیادی اصول ٹوٹ جائیں گے اور باطل قرار پائیں گے۔ یہ دو چیزیں کیا ہیں؟ یہ مغربی مفکر کہتا ہے کہ ایک اسلامی جمہوریۂ ایران کا آئین ہے؛ یہ آئین ایک عوامی اور آج کی پیشرفتہ اور ساتھ ہی مذہبی حکومت کو دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظروں میں ممکن بناتا ہے۔ یہ آئين ظاہر کرتا ہے کہ ایک ایسی حکومت ہو سکتی ہے جو ترقی پسند ہو، ماڈرن ہو، پیشرفتہ ہو اور اسی کے ساتھ پوری طرح سے مذہبی بھی ہو۔ آئین اس کی تصویر کشی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ یہ ہوئي پہلی چیز۔ دوسری چیز اسلامی جمہوریۂ ایران کی سائنسی، علمی، اقتصادی، سیاسی اور فوجی کامیابیوں کا ریکارڈ ہے جو اگر مسلمانوں کے ہاتھوں تک پہنچ گيا تو وہ یہ دیکھیں گے کہ وہ ممکن چیز، عملی جامہ پہن چکی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر مسلمان اقوام اس امکان اور ایران میں اس کے کسی حد تک عملی جامہ پہننے کے بارے میں مطلع ہو جائيں اور اس نظام کی تیاری کو اپنے مدنظر رکھیں تو پھر انقلابوں کے سلسلے کو نہیں روکا جا سکے گا۔
یہ بات آج عملی جامہ پہن چکی ہے۔ البتہ یہ کام آج نہیں ہوا ہے؛ بلکہ اسے ہوئے تیس سال گزر چکے ہیں۔ دھیرے دھیرے اور بتدریج کوئي بات اقوام کے ذہن میں اترتی ہے، پروان چڑھتی ہے، ٹھوس بنتی ہے اور پھر اس طرح سے سامنے آتی ہے جیسا کہ آپ آج شمالی افریقہ اور دیگر علاقوں میں دیکھ رہے ہیں۔
البتہ خود مغرب والوں نے سیاسی غلطیاں کی ہیں؛ ان سیاسی غلطیوں نے اسلامی جمہوریۂ ایران کی مدد کی ہے۔ دیکھئے، اسی ایٹمی مسئلے میں مغرب والوں نے غلطی کی۔ انہوں نے ایران کے ایٹمی مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، ہنگامہ مچایا اور دباؤ ڈالا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو ایٹمی مسئلے میں پسپائی اختیار کرنی چاہئے۔ تو ان سات برسوں میں، وہ سات برسوں سے اس سلسلے میں کوشش کر رہے ہیں، دو باتیں دنیا کے لوگوں کے لئے واضح ہو گئيں: ایک یہ کہ ایران نے ایٹمی شعبے میں غیر متوقع پیشرفت حاصل کی ہے۔دوسرے یہ کہ ایران اتنے زیادہ دباؤ کے سامنے بھی ڈٹا ہوا ہے اور پسپائی اختیار نہیں کر رہا ہے۔ تو یہ بات ایرانی قوم کے فائدے میں رہی۔ اب ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ، یورپ، ان کے حواری اور ان کے پٹھو اپنے تمام تر دباؤ کے باوجود اسلامی جمہوریۂ ایران سے اپنی بات نہیں منوا سکے اور اسے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکے۔ یہ بات خود ایرانی قوم کے دشمنوں کی وجہ سے سامنے آئی؛ یعنی ایرانی قوم کے تعارف میں مددگار ثابت ہوئي۔
دوسرے معاملوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ انہوں نے ہنگامہ مچایا کہ ہم پیٹرول پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایران کو پیٹرول برآمد نہ کیا جا سکے۔ ہم پیٹرول درآمد کرنے والے ملکوں میں شامل تھے اور اب بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پیٹرول کی برآمد کو روکنا چاہتے ہیں۔ بڑا شوروغل مچایا اور ہنگامہ کیا۔ ان کے تجزیہ نگاروں نے پیشگوئي کی کہ ملک میں ہنگامہ مچ جائے گا اور لوگ ایسا کریں گے، ویسا کریں گے۔ یہ اس بات کا سبب بنا کہ ملک کے حکام، پیٹرول کی پیداوار میں اضافے کے بارے میں سوچنے لگے۔ آج میرے پاس جو رپورٹ ہے اس کے مطابق بائیس بہمن مطابق گيارہ فروری تک ملک، پیٹرول کی درآمد سے پوری طرح بے نیاز ہو جائے گا۔ مجھے جو رپورٹ دی گئي ہے اس کے مطابق اس کے بعد ہم پیٹرول کو برآمد بھی کر سکیں گے اور اس کا حکم دے بھی دیا گيا ہے۔ تو ان کا یہ ہنگامہ اور شوروغل، ایرانی قوم کے حق میں رہا۔ عالمی مبصرین نے بھی اس بات کو دیکھا۔ تمام معاملوں میں ایسا ہی ہے۔ جنگ کے دوران ہتھیاروں پر پابندی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا، شدت پسند اسلامی گروہوں کو وجود میں لانے کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ان لوگوں نے ہمارے پڑوس میں ایک شدت پسند اسلامی گروہ کو وجود بخشا، یہ کام اسلامی جمہوریۂ ایران کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا گيا تھا۔ اب وہ گروہ خود انہی کے لئے وبال جان بن گیا ہے، یہ اسے روک نہیں پا رہے ہیں، ان کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا ہے کہ کس طرح اس کا مقابلہ کیا جائے؟ مذہبی اختلافات پیدا کرنے کے معاملے میں بھی ایسا ہی تھا۔ گزشتہ سال ملک میں جو فتنہ پیدا کیا گيا، اس میں بھی ایسا ہی تھا۔ ان لوگوں نے شوروغل کیا، ہنگامہ مچایا اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ ہو گیا، اختلافات پیدا ہو گئے ہیں، ایسا ہو گيا ہے، ویسا ہو گيا ہے۔ بعد میں انہوں نے دیکھا تو پایا کہ ایرانی قوم کامیاب رہی ہے۔ گزشتہ سال کی نو دی مطاب‍ق تیس دسمبر اور بائيس بہمن مطابق گیارہ فروری، صحیح معنی میں ایام اللہ کا جز تھی۔ دل، خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ خداوند متعال ان دلوں کو میدان میں لے آيا اور ایرانی قوم نے اپنی عظمت دنیا کو دکھا دی۔ دشمن جو بھی کام کرتا ہے، وہ خود اسی کے خلاف ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔ تو یہ وہ حقیقت ہے جو آج دنیا میں موجود ہے۔ انہوں نے کیا چاہا تھا اور ہوا کیا!
اور اب وہ دوسری بات جس کے بارے میں میں نے عرض کیا کہ مجھے کہنا ہے۔ اگر ہم کسی بات یا چیز کی اہمیت کو جاننا چاہیں یا اس کی کامیابی کے بارے میں معلوم کرنا چاہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ چیز یا بات آئیڈیل بننے میں کتنی کامیاب رہی ہے اور اسے کس قدر نمونۂ عمل بنایا گيا ہے، اس نے کتنے ثبات و استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنی باتوں پر کس حد تک ڈٹی رہی ہے۔ انقلاب بھی اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ اگر کوئي انقلاب، دوسروں کے ذہن اور عمل پر اثرانداز ہونا چاہے اور آئيڈیل بننا چاہے تو اس میں کچھ خصوصیات ہونی چاہئے۔ ان میں سب سے اہم خصوصیت، یہی ثبات و استحکام اور استقامت ہے۔ اگر یہ ہو گیا تو انقلاب دوسروں کے لیے نمونۂ عمل بن جائے گا ورنہ جو بجلیاں ایک بار چمک کر خاموش ہو جائیں، وہ بہت زیادہ آئیڈیل نہیں بن سکتیں، دوسروں کو اپنی پیروی کی ترغیب نہیں دلا سکتیں۔ ہمارا انقلاب ایسا رہا ہے۔ ہمارا انقلاب دوسروں کا آئيڈیل بننے اور انہیں الہام عطا کرنے میں کامیاب رہا ہے؛ اور یہ ان اصولوں اور بنیادوں پر استقامت، پامردی اور ثبات کا نتیجہ جن کا اعلان امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے توسط سے ہوا۔
اس انقلاب نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ میں اس سلسلے میں بھی کچھ نمونے پیش کرتا ہوں۔ ایک نمونہ اس کا اسلامی ہونا ہے۔ امام خمینی نے ابتدا ہی سے کہا کہ ہمارا انقلاب اسلامی ہے اور اسلام پر مبنی ہے۔ دنیا میں بہت زیادہ جنجال اور ہنگامہ ہوا؛ کہا گیا کہ انقلاب کا اسلامی ہونا، جمہوریت کے مطابق نہیں ہے، اسلامی ہونا رجعت پرستی ہے، اسلامی ہونا پیچھے کی جانب لوٹنا ہے، اسلام کے احکام کو نافذ کرنا ممکن نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کچھ لوگوں نے ملک کے اندر بھی ان کی باتوں کو پھیلایا؛ کتابیں لکھیں؛ مضامین لکھے، افواہیں پھیلائيں تاکہ اسلامی جمہوریہ کو اسلام کی پابندی سے پسپائي پر مجبور کر دیں۔ اسلامی جمہوریہ ڈٹا رہا اور اس نے اس طرح کے شوروغل کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ جی ہاں، ہم اسلامی ہیں، ہمیں اس پر فخر ہے اور ہم یہ ثابت کر دیں گے کہ انسان کی نجات کا راستہ یہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے ببانگ دہل اس کا اعلان دنیا کے سامنے کیا۔
آج بتیس برسوں کے بعد آپ ہمارے معاشرے کودیکھئے کہ اگر طرزعمل، پہلے دن سے زیادہ اسلامی نہ ہو تو کم از کم اس انقلاب کی کامیابی کے پہلے دن کی مانند ضرور ہے۔ جن نوجوانوں نے امام خمینی کو نہیں دیکھا ہے، جنگ کے ایام کو نہیں دیکھا ہے، انقلاب کے ایام کے بارے میں انہیں کوئي چیز یاد نہیں ہے، اسلام کی بنیادی تعلیمات کے تعلق سے انہی نوجوانوں کی پابندی، ہم میں سے بعض بوڑھوں سے کہیں بہتر ہے؛ وہ زیادہ مضبوط ہیں۔ ملک کے حکام کو اسلامی ہونے پر فخر ہے۔ البتہ ان بتیس برسوں میں بہت زیادہ کوششیں کی گئيں اور حکومت تک میں ایسے لوگ تھے جنہوں نے کوشش کی کہ راستوں میں کجی پیدا کر دیں اور بتدریج انہیں دور کر دیں تاہم وہ ایسا نہیں کر سکے۔ اسلامی جمہوریۂ ایران اپنے اصولوں پر، اسلامی ہونے کے اصول پر ڈٹا رہا۔ یہ ایک نمونہ تھا۔
ایک دوسرا نمونہ، جمہوریت کا ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ابتدا ہی میں اعلان کر دیا تھا کہ لوگوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے؛ خواہ خود اسلامی جمہوریہ کے انتخاب کا مرحلہ، خواہ اسلامی قانون کی تدوین ہو، چاہے اس قانون کو قبول کرنے کا مرحلہ ہو جو ماہرین کی کونسل میں منظور ہو چکا تھا، چاہے صدر کے انتخاب کا معاملہہو اور چاہے پارلیمنٹ کے انتخابات ہوں۔ امام خمینی ڈٹے رہے۔ دیکھیے، اسلامی انقلاب کی کامیابی کو بتیس سال گزر رہے ہیں اور جو ریفرنڈم ہوئے ہیں ان کے حساب سے دیکھا جائے تو ملک میں عوام نے بتیس بار اپنی موجودگی ظاہر کی ہے۔ یعنی اوسطا ہر سال ایک بار، لوگوں نے جا کر ووٹ ڈالے، انتخاب کیا۔ لوگوں کا انتخاب بہت اہم ہے۔ جنگ کے دوران، تہران پر بموں کی بارش ہو رہی تھی لیکن انتخابات نہیں رکے۔ جنگ کے دوران ان شہروں میں، جہاں صدام حکومت کی جانب سے میزائلوں کی بارش ہو رہی تھی، انتخابات نہیں رکے۔ ایک پارلیمنٹ کے زمانے میں بہت زیادہ دباؤ ڈالا گيا کہ شاید ان (بعض ارکان پارلیمنٹ) کے مدنظر سیاسی وجوہات کی وجہ سے انتخابات کو مؤخر کر دیا جائے، تاہم وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ آج تک اسلامی جمہوریۂ ایران کے انتخابات اور عوامی موجودگی میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوئي ہے؛ یہ ہے جمہوریت۔ امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) نے پہلے ہی دن کہہ دیا اور اسلامی جمہوریہ ایران اس جمہوریت کے سلسلے میں ثابت قدمی سے کھڑا ہو گیا، امام خمینی نے جمہوریت سے ہٹنے کی بات کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ آج ملک کے حکام، ماہرین کی کونسل کے ارکان سے لے کر جو قائد انقلاب اسلامی کو منصوب اور معزول کرتے ہیں، صدر مملکت تک، پارلیمنٹ تک اور بلدیاتی کونسلوں تک سب کے سب عوام کے منتخب کردہ ہیں۔ مختلف دھڑے اقتدار میں آتے رہے ہیں۔ ایسا نہیں رہا کہ کوئي یہ کہے کہ صرف ایک ہی دھڑا ہے؛ نہیں، ابتدا سے لے کر اب تک؛ جتنے بھی صدر مملکت آئے ہیں ان میں سے ہر ایک کے کسی نہ کسی شکل میں اپنے سیاسی نظریات تھے؛ تاہم سب کے سب عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں پہنچے۔
اگلا نمونہ، سماجی انصاف کا نمونہ ہے۔ امام خمینی نے آغاز میں ہی انصاف کا اعلان کیا۔ سماجی انصاف ان تمام کاموں میں زیادہ دشوار ہے؛ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ جمہوریت کے تحفظ سے لے کر اسلامی جمہوریہ میں ہونے والے بقیہ کاموں تک کی نسبت سماجی انصاف کو قائم کرنا زیادہ سخت کام ہے؛ بہت زیادہ دشوار کام ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ہم سماجی انصاف کو مکمل طور پر قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ نہیں، ابھی منزل کافی دور ہے؛ تاہم سماجی انصاف کی جانب بڑھنے کا سلسلہ رکا نہیں ہے، بلکہ یہ عمل جاری رہا ہے اور روز بروز منزل کی جانب بڑھنے کی رفتار تیزتر ہوتی جا رہی ہے۔ آج سماجی انصاف کی جانب بڑھنے کا عمل گزشتہ برسوں کی نسبت کافی تیز ہے، ماضی کی حکومتوں سے زیادہ تیز ہے۔ سماجی انصاف کے اہم نمونوں میں سے ایک، ملک میں مواقع کی تناسب کے ساتھ تقسیم ہے۔ سماجی انصاف کی حقیقیت سے غافل نظاموں میں، کسی خاص طبقے کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے، کچھ خاص علاقوں کو زیادہ مدنظر رکھا جاتا ہے؛ تاہم اسلامی جمہوریہ میں ہم جتنا بھی آگے بڑھتے جائيں، کہ آج انقلاب کو کامیاب ہوئے بتیس برس گزر چکے ہیں، یہ بات زیادہ مستحکم دکھائي دیتی ہے کہ دیہی علاقوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، دور دراز کے شہروں پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ دیہی علاقوں میں اتنے زیادہ گھروں کی تعمیر، ملک کے دور دراز کے شہروں اور دیہاتوں کی جانب سڑکوں کی اتنی زیادہ تعمیر، اتنے مواصلاتی راستے، مختلف قسم کے مواصلاتی ذرائع، بجلی، مناسب پانی، ٹیلی فون، زندگی کے وسائل، ان سب کو پورے ملک میں تقسیم کیا گيا ہے۔
یہ جو ملک کے حکام (صدر جمہوریہ مع ارکان کابینہ) مختلف صوبوں میں جاتے ہيں، مختلف شہروں میں جاتے ہیں ان میں سے تو بعض ایسے شہر ہیں جہاں کے لوگ یہ تصور بھی نہیں کرتے تھے کہ وہ دوسرے درجے کے کسی عہدے دار کو بھی دیکھ پائيں گے؛ لیکن اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے اعلی حکام (صدر اور وزراء) ان لوگوں سے جاکر ملتے ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے، اس کی بہت قدر و قیمت ہے۔ جب انسان جاتا ہے، مسائل دیکھتا ہے، تو مسائل کے حل کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے اور اسی کا نام، سماجی انصاف کا قیام ہے۔ ہم سماجی انصاف کی سمت گامزن ہيں۔
دنیا میں انسان حکام کی رئیسانہ زندگی دیکھتا ہے۔ جو بھی حکومت تک پہنچتا ہے، صدر بنتا ہے یا کسی اعلی عہدے تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تو اس کی دنیا ہی بدل جاتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔ یقینا ہم جیسے لوگوں (ملک کے حکام) کو سماج کے سب سے نچلے طبقے کی زندگی کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہئے۔ ہم نے ایسا نہیں کیا، ہمیں اس میں کامیابی نہيں ملی، ابھی تک ایسا نہیں ہو پایا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے سماج میں حکام کی زندگی الحمد للہ سماج کے متوسط طبقے کی سطح کی ہے بلکہ کبھی کبھی تو متوسط طبقے کی سطح سے بھی نیچے نظر آتی ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔
یہ جو انصاف شیئرز، دیہی رہائشی مکانات کی تعمیر کا منصوبہ یا پھر سبسیڈی کو منصوبہ بند کرنے کا کام ہے، یہ سب بہت بڑے کام ہيں۔ اگر ملک کے حکام ان منصوبوں پر بخوبی عمل در آمد میں کامیاب ہو گئے تو یہ بہت اہمیت کی حامل بات ہوگی۔ حکومت بجلی کے لئے جو سبسیٹی دیتی تھی وہ پوری قوم کے لئے ہوتی تھی۔ جس کے گھر میں دسیوں بلب جلتے ہوں، فانوس کی سجاوٹ ہو اور بجلی کا زيادہ استعمال ہوتا ہے وہ کہاں؟ اور جس کے گھر میں ایک یا دو بلب جل رہے ہوں وہ کہاں؟ جس کے پاس زيادہ دولت ہے وہ سبسیڈی سے زیادہ فائدہ اٹھاتا تھا۔ یہ ظلم تھا، حکام اس ظلم کو ختم کرنا چاہتے ہيں۔ یہی معاملہ روٹی، پیٹرول وغیرہ کے سلسلے میں بھی ہے۔ ہم ڈٹ گئے اور نظام بھی سماجی انصاف کے اپنے نعرے پر قائم ہے ۔
دوسری بات سامراج کے خلاف جد وجہد اور دباؤ کے سامنے نہ جھکنے کی ہے۔ اس سلسلے میں بھی ہم ڈٹے رہے، یہ بہت سخت کام تھا لیکن اسلامی جمہوریہ ایران یہ سخت کام کرنے میں کامیاب رہا۔ بہت سے ایسے لوگ تھے جو انقلاب کے شروعاتی دور میں کہتے تھے کہ جناب اب تو انقلاب کامیاب ہو گیا، بس اب بہت ہو گیا، چلیں امریکہ کے ساتھ ہم اپنے مسائل حل کر لیں! اس کا مطلب یہ تھا کہ انقلاب کے ظلم مخالف نعروں کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ اس کی ترغیب دی جاتی تھی۔ اس پورے دور میں ایسے کچھ لوگ تھے جو اس مقصد کے لئے کوشاں رہے؛ یعنی چلیں امریکہ کے ساتھ ہو جائيں، جو دراصل ہمارا اصلی دشمن ہے۔ ہم اس کے زیر سایہ ہو جائيں، اس کا دامن تھام لیں۔ اس بات کا مطلب، فلسطین کے معاملے کا سودا تھا، اس بات کا مطلب ان تمام مظالم سے آنکھیں بند کر لینا تھا جو امریکہ عراق، افغانستان اور دوسرے علاقوں میں وہ کر رہا ہے، اس بات کا مطلب ان تمام مظالم کو نظر انداز کر دینا تھا جو امریکہ پوری دنیا میں مختلف قوموں پر ڈھا رہا ہے۔ اس بات کا مطلب یہ تھا کہ ہم ان مسائل پر اعتراض کرنا چھوڑ دیں۔ جی ہاں تعلقات کو معمول پر لانے کے معنی یہ ہيں کہ اس کے بعد سے ایرانی قوم اور حکام، کھل کر اعتراض نہ کر سکیں اور نہ ہی اپنی بات کھل کر کہہ سکیں، پھر اس کے بعد کے مراحل میں دھیرے دھیرے ان کی باتیں قبول کرنے پر بھی مجبور ہو جائيں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں اپنے موقف پر ڈٹا رہنا کافی جفاکشی کا کام تھا، لیکن با برکت کام تھا، خدا کی رحمت کا باعث بھی بنا اور اقوام عالم کی توجہ کا مرکز بھی قرار پایا۔ انقلاب کے اصلی نعروں پر ان بتیس برسوں کے دوران آپ ایرانی عوام کی استقامت کی بہت سی برکتیں ظاہر ہوئي ہیں کہ جنہیں آج عالم اسلام احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔ جب آپ کے حکام دیگر ممالک کے دورے پر جاتے ہيں تو ان کا کس طرح سے استقبال ہوتا ہے ؟ جب دنیا کے سیاسی حکام کی مقبولیت کا جائزہ لیا جاتا ہے تو آپ کے ملک کے حکام سر فہرست رہتے ہيں۔ ایرانی قوم کا کارنامہ مثالی بن گيا۔ آج آپ اس کی علامتوں کا مشاہدہ کر رہے ہيں۔ یہ برکت اور یہ خاصیت ایسی ہے جس کا اندازہ لگا پانا وقت گزرنے کے ساتھ ہی ممکن ہوتا ہے۔
آج مصر میں آپ کی آواز کی بازگشت سنی جا رہی ہے۔ امریکہ کے وہ صدر جو ہمارے انقلاب کے زمانے میں برسر اقتدار تھے، انہوں نے ابھی چند دن قبل ایک انٹرویو دیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مصر میں جو آوازیں سنائي دے رہی ہیں وہ میری صدارت کے زمانے میں ایران میں بھی سنائي دے رہی تھیں۔ یہ آوازيں میرے لئے جانی پہچانی ہيں! یعنی آج جو قاہرہ میں سنا جا رہا ہے وہی سب کچھ ان کی صدارت کے زمانے میں ایران میں سنا جا رہا تھا۔ دنیا اب اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے۔ اس لئے اس برس ہمارا عشرہ فجر (اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے دس دن) اہم ہے، حساس ہے اور زیادہ پر جوش ہے۔ انشاء اللہ گیارہ فروری کے جلوس، آپ لوگوں کی مدد سے ہمارے قابل فخر کارناموں میں اضافے کا باعث ہوں گے۔

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرحيم‌
انّا اعطيناك الكوثر. فصلّ لربّك و انحر. انّ شانئك هو الأبتر

دوسرا خطبہ
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
و الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما علىّ اميرالمؤمنين و الصّدّيقة الطّاهرة سيّدة نساء العالمين‌ و الحسن و الحسين سبطى الرّحمة و امامى الهدى و علىّ‌بن‌الحسين و محمّدبن‌علىّ‌ و جعفربن‌محمّد و موسى‌بن‌جعفر و علىّ‌بن‌موسى و محمّدبن‌علىّ و علىّ‌بن‌محمّد و الحسن‌بن‌علىّ و الخلف القائم الحجّة حججك على عبادك و امنائك فى بلادك‌. و صلّ على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين و استغفر اللَّه لى و لكم‌.
اوصيكم عباد اللَّه بتقوى اللَّه‌.

ایک بار پھر میں آپ سب بھائیوں اور بہنوں کو تقوے کی نصیحت کرتا ہوں۔ میں چند منٹ مصر اور تیونس کے واقعات پر کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ واقعات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور حقیقت میں یہ ایک زلزلہ ہے۔ اگر مصری قوم خدا کی مدد اور توفیق سے اس مہم کو آگے بڑھانے میں کامیاب رہی تو علاقے میں امریکی پالیسیوں کو ایک ایسی شکست ہوگی جس کی تلافی ممکن نہیں۔ آج شاید تیونس و مصر کے بھگوڑے حکام سے زيادہ اسرائیلوں کو ان واقعات سے تشویش لاحق ہے۔صیہونی دشمن سب سے زیادہ فکرمند ہیں۔انہیں علم ہے کہ اگر مصر ان کے اتحاد سے نکل گیا اور اپنا حقیقی کردار ادا کرنے لگا تو اس علاقے میں کتنے بڑے واقعات رونما ہوں گے؟! وہ پیش گوئياں جو امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے کی تھیں، عملی شکل اختیار کر لیں گی۔اس لئے یہ واقعات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہيں۔ عالمی سطح پر کئے جانے والے تجزیوں میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ان تحریکوں کے اصلی محرک کو نظرانداز کر دیا جائے۔ اقتصادی اور دیگر مسائل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو یقینا موثر ہیں لیکن پہلے تیونس اور پھر مصر میں ان عظیم عوامی تحریکوں کا اصلی محرک حقارت کا وہ احساس ہے جو عوام کے دلوں میں اپنے حکام کی حالت دیکھ کر پیدا ہوا ہے۔ عوام کی تحقیر کی گئی اور انہيں محسوس ہوا کہ ان کی بے عزتی کی جا رہی ہے۔ مصر کے نامبارک نے مصری قوم کو ذلیل کر دیا۔
میں پہلے ایک بات تیونس کے بارے میں کہہ دوں۔ تیونس کا بھگوڑا صدر، یہ ابن علی پوری طرح سے امریکہ پر منحصر تھا۔ یہاں تک کہ ہمارے پاس ایسی رپورٹیں ہیں کہ وہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئي اے سے وابستہ تھا۔ غور کریں! ایک قوم کے لئے یہ کتنی سخت تکلیف کی بات ہے کہ اس کا سربراہ، وہ بھی ایسا سربراہ جو اتنے طمطراق اور غرور کے ساتھ حکومت کرتا تھا وہ امریکی حکومت کا بندہ بے دام ہو۔ وہ یقینا بہت برا اور مغرور شخص تھا۔ اس نے برسہا برس عوام پر شدت و سختی کے ساتھ اور عوامی مفادات سے جن میں دین بھی شامل تھا، بے اعتنائی برتتے ہوئے حکومت کی۔ تیونس میں، جو ایک اسلامی ملک ہے اور جس کا طویل اسلامی ماضی ہے اور جہاں اسلامی تہذیب کی مایہ ناز شخصیات پیدا ہوئي ہيں، اگر لوگ بن علی کے زمانے میں مسجد جانا چاہتے تو انہیں مخصوص قسم کا کارڈ اپنے پاس رکھناہوتا تھا۔ مسجد میں داخلے کا کارڈ حکومت دیتی تھی اور ہر ایک کو دیتی بھی نہيں تھی۔ مسجد میں جانے کی اجازت نہيں ملتی تھی۔ نماز جماعت کی بات تو دور مسجدوں میں فرادی نماز بھی ادا کرنے پر پابندی تھی۔ (عوامی مقامات پر) لوگوں کے سامنے نماز ادا کرنے پر پابندی تھی۔ حجاب پر باقاعدہ طور پر قدغن لگا ہوا تھا۔ ان حالات میں عوام کے دلوں میں موجزن رہنے والا جذبہ، اسلام پسندی کا جذبہ تھا۔ اسی لئے آپ نے دیکھا کہ جیسے ہی یہ خائن ملک سے بھاگا اور حالات بگڑ گئے، یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی طالبات حجاب کے ساتھ یونیورسٹی گئيں۔ اس سےگہرے اسلامی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ مغربی تجزیہ نگار اس پر پردہ ڈالنا چاہتے ہيں۔ اس کے بعد امریکہ کی کاسہ لیسی کے خلاف پیدا ہونے والا جذبہ تھا کہ جو انتہائي اہم ہے۔ امریکی یہ نہيں چاہتے کہ یہ کہا جائے کہ پہلے تیونس میں تحریک کے آغاز اور پھر مصر میں اس کے عروج کی وجہ (ا ن حکومتو کی امریکہ پر) انحصار ہے لیکن حقیقت یہی ہے۔ تیونس میں تو ایک سطحی تبدیلی ہوئی۔ بن علی بھاگ گئے لیکن ان کی جماعت اور عناصر اب بھی بر سر اقتدار ہيں۔ خدا کرے تیونس کے عوام ملک کی صورت حال پر صحیح طور پر توجہ دیں کہ کہيں خدا نخواستہ دشمن انہيں دھوکا دینے میں کامیاب نہ ہو جائے۔
اور اب مصر ۔ مصر ایک بہت ہی اہم ملک ہے۔ میں اس سلسلے میں مختصر طور پر کچھ نکات بیان کرنا چاہوں گا۔ مصر پہلا اسلامی ملک ہے جو مغربی تہذیب سے آشنا ہوا۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں، مصر میں مغربی ثفاقت سے آشنائي کا آغاز ہوا۔ دوسرے تمام ممالک سے پہلے۔ مصر پہلا اسلامی ملک تھا جو یورپی ثقافت سے آشنا ہوا اور پہلا اسلامی ملک تھا جو یورپی اور مغربی ثقافت کے مقابلے پر آیا۔اس نے مغربی ثقافت کے معائب کو سمجھا اور اس کے سامنے پائیداری کی۔ عظیم شجاع و مجاہد اور اسلام کی خدمت گار شخصیت سید جمال الدین کو اپنی جد و جہد کے لئے سب سے بہتر جگہ مصر نظر آئي۔ اس کے بعد ان کے شاگرد محمد عبدہ اور دیگر لوگ جن کا طویل سلسلہ ہے۔ مصر میں اسلام پسندی کی تحریک کا ماضي اس طرح کا ہے۔ مصر میں اہم شخصیات گزری ہیں، سیاسی شعبے میں، ثقافتی شعبے میں اور سب کے سب حریت پسند تھے۔ اس طرح مصر نظریاتی و سیاسی لحاظ سے عرب دنیا کا رہنما ملک بن گيا۔ ایک طویل عرصے تک عرب ممالک مصر کی طرف دیکھتے تھے اور مصر عرب دنیا کی رہنمائی کرتا تھا۔ اس دور میں خودمختاری و آزادی کا ہر طرف بول بالا تھا۔ بہرحال اس دور کے عوام کو کچھ عرصے کے علاوہ اچھے مواقع نہيں ملے۔ مصر پہلا یا سب سے بڑا ایسا ملک تھا جو شام کے تعاون سے فلسطین کے لئے جنگ میں شامل ہوا۔ اسرائيل کے خلاف اس جنگ میں دیگر کسی اسلامی ملک نے شرکت نہيں کی۔ مصر اپنے فوجیوں کو، اپنی فوج کو، اپنے عوام کو، اپنے وسائل کو بروئے کار لایا لیکن بہرحال اسے کامیابی نہيں ملی۔ ایک بار سنہ انیس سو سڑسٹھ میں اور ایک بار سن انیس سو تہتر میں۔ مصر ایسا ملک ہے۔ اس لئے مصر، فلسطینیوں کی پناہ گاہ سمجھا جاتا تھا بلکہ دیگر بہت سے ممالک کے انقلابیوں کی بھی پناہ گاہ مصر ہی تھا جہاں وہ جاتے تھے۔ تو اس طرح کا ملک تیس برسوں سے ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو نہ صرف یہ کہ حریت پسند نہيں ہے بلکہ حریت پسندی کا دشمن بھی ہے، نہ صرف یہ کہ صیہونیوں کا دشمن نہيں ہے بلکہ ان کا ہمنوا، دوست، رازدار اور ایک طرح سے صیہونیوں کا غلام بھی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں کبھی صیہونیوں کے خلاف بلند ہونے والے پرچم سے پوری عرب دنیا کو ہمت ملتی تھی، اس مقام پر پہنچ گیا کہ اسرائیلی اور صیہونی، فلسطینیوں کے خلاف اپنے تمام اقدامات میں، اس نا مبارک شخص کی مدد پر اعتماد کرنے لگے اور اس نے ان کی خوب مدد کی۔ غزہ کے معاملے میں اگر حسنی مبارک اسرائيلیوں کی مدد نہ کرتا تو صیہونی غزہ کا محاصرہ نہيں کر سکتے تھے۔ غزہ میں فلسطینی، محاصرے میں تھے، چار برس سے وہ محاصرے میں ہیں۔ بائیس روزہ جنگ کے دوران، غزہ کے شہری، عورتيں بچے اسرائيلی گولہ باری میں تلف ہو گئے، ختم ہو گئے، ان کے گھر تباہ ہو گئے لیکن امداد رسانی کے کاروانوں کو غزہ کے شہریوں کی مدد نہیں کرنے دی گئی۔ نہ صرف یہ کہ مصر سے جانے والی امداد روکی گئ بلکہ ہمارے ملک سمیت دوسرے ملکوں کو بھی جو مصر سے گزر کر غزہ کے شہریوں کی مدد کرنا چاہتے تھے، حسنی مبارک نے مدد کی اجازت نہيں دی۔ اس طرح کے حالات مصر میں تھے۔ ظاہر سی بات ہے اس سے عوام تنگ آ چکے تھے۔ مصر کے عوام، اپنی موجودہ حکومت کی جانب سے اسرائیل کی حمایت اور امریکہ کی اندھی تقلید کی وجہ سے ذلت محسوس کرتے ہیں۔ انہيں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تحقیر کی جا رہی ہے۔ تحریک کی اصل وجہ یہ ہے۔ یہ لوگ مسلمان ہیں، ان کی تحریک نماز جمعہ سے شروع ہوتی ہے، مسجدوں سے شروع ہوتی ہے، ان کے نعرے ، اللہ اکبر کے نعرے ہیں۔ عوام دینی نعرے لگا رہے ہيں اور ان کے درمیان سب سے زيادہ مضبوط تحریک ایک اسلامی تحریک ہے۔ مصری عوام، ذلت کے اس داغ کو اپنے چہرے سے مٹانا چاہتے ہیں، اصل وجہ یہ ہے۔ مغرب والے، اقوام عالم اور رائے عامہ میں یہ خیال نہیں پھیلنے دینا چاہتے۔ اسی لئے وہ صرف اقتصادی وجوہات کی بات کرتے ہيں۔ یقینا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حسنی مبارک جیسے شخص کی امریکہ کی غلامی کے نتیجے میں مصر ترقی کی راہ پر ایک قدم بھی آگے نہ جا سکا۔ سات کروڑ سے زائد آبادی میں چالیس فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہيں! خود قاہرہ میں، جیسا کہ مجھے مستند رپورٹوں سے پتہ چلا ہے، کئ لاکھ بلکہ میں نے تو بیس سے تیس لاکھ سنا ہے لیکن بہر حال کئ لاکھ کی تعداد یقینی ہے، یہ لوگ قبرستانوں میں زندگی گزارتے ہيں! بے گھر ہیں، یہ لوگ قبرستانوں میں جاکر پناہ لیتے ہيں۔ عوام سخت معاشی بدحالی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یعنی امریکیوں نے اس غلامی کا صلہ بھی نہيں دیا۔ آج بھی اسے کوئي صلہ نہيں ملے گا۔ آج بھی وہ جیسے ہی مصر سے بھاگےگا، اسے یقین رکھنا چاہئے کہ سب سے پہلے اس کے لئے جو دروازہ بند ہوگا وہ امریکہ کا دروازہ ہوگا۔ وہ اسے گھسنے نہيں دیں گے۔ جیسا کہ انہوں نے بن علی کو اپنے یہاں گھسنے نہيں دیا جیسا کہ محمد رضا کو اپنے ملک میں گھسنے نہيں دیا۔ یہ لوگ ایسے ہيں۔ جن لوگوں کا امریکہ سے دوستی اور اس کی تقلید کا بہت شوق ہے انہيں ان مثالوں کو دیکھنا چاہئے۔ یہ لوگ شیطانوں کی طرح ہيں۔ صحیفہ سجادیہ کی ایک دعا میں آیا ہے کہ جب شیطان مجھے بہکا لے جاتا ہے تو پھر دوسری طرف دیکھنے لگتا ہے، وہ مجھے پر ہنستا ہے، مجھ سے منہ پھیر لیتا ہے، توجہ نہيں دیتا۔ یہ لوگ اس طرح کے ہیں۔ امریکی، اس طرح پست اور کمزور لوگوں کے ذریعے اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہيں۔
اس وقت امریکی شدید سراسیمگی کا شکار ہیں اور اسرائیلیوں کی حالت تو اور بھی ناگفتہ بہ ہے۔ مصر کے مسئلے میں کوئی راستہ تلاش کر رہے ہیں لیکن انہیں کوئي راستہ ملنے والا نہیں ہے۔ فریب دہی کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، عوام کی حمایت کا دم بھرنے لگے ہیں۔ اس سے کہہ بھی دیا ہے، امریکیوں نے اس (حسنی مبارک) سے کہہ دیا ہے کہ جلد از جلد ہٹ جاؤ اور چلے جاؤ۔ اب اسکا دار و مدار مصری عوام پر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں اور کس طرح عمل کرتے ہیں۔

اس کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے عرب بھائیوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے عربی زبان میں خطبہ دیا اس کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم

امت اسلامیہ کے ایک ایک فرد پر وہ جہاں کہیں بھی ہوں سلام و درود ہو۔ اس وقت عالم اسلام میں بہت عظیم، پر شکوہ اور فیصلہ کن واقعہ رونما ہو رہا ہے۔ ایسا واقعہ جو اس علاقے میں استکبار کے تانے بانے کو دگرگوں کرکے اسلام اور قوموں کے مفاد کی جانب موڑ سکتا ہے۔
ایسا واقعہ جو عرب قوموں اور امت اسلامیہ کو ان کا کھویا ہوا وقار واپس دلا سکتا ہے اور ان قدیم قوموں پر امریکہ اور مغرب کے ظالمانہ، توہین آمیز اور حقارت آمیز برتاؤ کے نتیجے میں ان کی صورت پر دسیوں سال سے جمع گرد و غبار کو جھاڑ سکتا ہے۔ یہ معجزاتی واقعہ تیونس کے عوام کے ہاتھوں شروع ہوا اور مصر کی عظیم اور با شعور قوم کے ہاتھوں پروان چڑھا ہے۔ مغرب اور عالم اسلام اپنی الگ الگ وجوہات کی بنا پر دم سادھے دیکھ رہے ہیں کہ عظیم مملکت مصر، حالیہ صدی کی نابغہ ہستیوں والا مصر، جمال عبدالناصر اور الشیخ حسن البناء کا مصر سن انیس سو سڑسٹھ اور انیس سو تہتر والا مصر اس وقت کیا قدم اٹھاتا ہے؟ اپنی بلند ہمتی کے پرچم کو کب تک بلند رکھتا ہے؟ اگر خدا نخواستہ یہ پرچم گرا تو بڑا تاریک دور شروع ہوگا اور اگر چوٹی پر پہنچ جانے کے بعد بلندی پر نصب ہو گیا تو آسمان سے باتیں کرنے لگےگا۔
تیونس کے عوام نے خائن حاکم کو جو امریکہ کا بندہ بے دام اور دین کا کھلا ہوا دشمن تھا نکال باہر کیا لیکن اسی کو مطلوبہ ہدف کا حصول سمجھ لینا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ (اغیار پر) منحصر نظام نظروں کے سامنے رہنے والے مہروں کے چلے جانے سے گرتا نہیں۔ اگ‍ر ان مہروں کی جگہ کچھ انہی کے ہمنوا آ جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا اور قوم کے سامنے اب بھی فریب کا جال بچھا ہوا ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے دوران بھی بارہا یہ کوشش کی گئی کہ قوم کو اس جال میں پھنسا دیا جائے لیکن قوم کی بیداری اور اس کے عظیم الہی قائد نے دشمن کی سازشوں کو پہچان کر نقش بر آب کر دیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔
جہاں تک مصر کا سوال ہے تو یہ ایک عدیم المثال نمونہ ہے کیونکہ دنیائے عرب میں مصر ایک بے مثال ملک ہے۔ مصرعالم اسلام کا وہ ملک ہے جو یورپی ثقافت سے سب سے پہلے آشنا ہوا۔ یہ عالم اسلام کا وہ ملک ہےجس نے سب سے پہلے اس ثقافتی یلغار کے خطرے کو محسوس کیا اور اس کے خلاف ٹھوس موقف اپنایا۔ یہ پہلا عرب ملک ہے جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک آزاد حکومت کی تشکیل کی اور نہر سویز کو قومیا کر اپنے قومی مفادات کی حفاظت کی۔ پہلا ملک ہے جو اپنی پوری توانائی کے ساتھ فلسطین کی مدد کے لئے آگے بڑھا اور عالم اسلام میں فلسطینیوں کی پناہ گاہ قرار پایا۔ سید جمال الدین مصری نہیں تھے لیکن مصر کے علاوہ کہیں ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ کسی مسلمان قوم سے اپنی گہری تشویش کا مکمل ادراک کرنے کی توقع رکھ سکتے۔ ملت مصر نے دینی اور سیاسی جد و جہد میں اپنی اہلیت و صلاحیت کو ثابت اور تاریخ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔ محمد عبدہ اور ان کے شاگرد اسی طرح سعد زغلول ان کے حامی، کوئی رجعت پسند اور دنیا سے نا آشنا افراد نہیں تھے۔ وہ ایسے عظیم اور بیدار مغز نابغہ روزگار تھے کہ ان کے جیسے کسی ایک شخص کی پرورش کرکے کوئی بھی قوم اپنی صلاحیت پر بجا طور پر فخر کر سکتی ہے۔ مصر اپنی اس ثقافتی، دینی اور سیاسی پوزیشن کی بنا پرعرب دنیا کا قائد بن گیا۔
مصر کے موجودہ نظام کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ اس نے اس ملک کو اس بلند ترین مقام سے نیچے لاکر علاقے کے سیاسی میدان میں اسے بے دست و پا بنا کر رکھ دیا۔ مصر کے عوام کا یہ آتش فشاں اسی بڑی خیانت کا جواب ہے جو مغرب پر منحصر آمر حکومت نے اپنےعوام کےساتھ کی۔
اس وقت پوری دنیا میں مصری قوم کے قیام کے بارے میں گوناگوں تجزئے پیش کئے جا رہے ہیں اور ہر ایک کوئي نہ کوئی بات کہہ رہا ہے لیکن جو بھی مصر کو پہچانتا ہے اس کو واضح طور پر یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ مصر (کی قوم) اپنے وقار اور عزت نفس کے دفاع میں مصروف ہے۔ مصری قوم نے ان خائن عناصر کا گریبان پکڑ لیا ہے جنہوں نے اس کے وقار کو پامال کرکے رکھ دیا تھا، اس قوم کو جو احترام و وقار کے اوج پر پہنچ چکی تھی اس کے دشمنوں کے غرور و تکبر کے ذریعے کچل کر رکھ دیا گيا تھا۔ اس کی ایک واضح مثال مسئلہ فلسطین میں مصر کے موقف کی ہے۔ فلسطین دسیوں سال سے اس علاقے کا سب سے مرکزی مسئلہ بنا ہوا ہے اور علاقے کے ممالک کے مسائل آپس میں اس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کہ کوئی بھی ملک اور کوئی بھی قوم اپنی تقدیر اور اپنے مستقبل کو مس‍ئلہ فلسطین سے بالکل الگ نہیں تصور کر سکتی۔ یہاں دو ہی محاذ ہیں، ایک ہے فلسطین اور فلسطینیوں کے منصفانہ جہاد کی حمایت کرنا اور دوسرا مد مقابل محاذ میں شمولیت۔
علاقے کی قوموں نے شروع سے ہی اپنا موقف واضح کر دیا۔ لہذا جب کوئی حکومت فلسطین کی حمایت کرتی ہے تو اسے اپنی قوم اور عرب و مسلم اقوام کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔ مصری حکومت نے ساٹھ اور ستر کے عشروں میں اس کا تجربہ بھی کیا ہے لیکن جب وہ خود کو دوسرے محاذ کے جز کے طور پر پیش کرے گی تو ظاہر ہے کہ قوم اس سے منہ پھیر لیگی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے مصر میں حکومت اور عوام کے درمیان یہ خلیج پیدا ہو گئی۔ مصری قوم جو سن سڑسھ اور سن تہتر میں دامے درمے سخنے ہر طرح سے فلسطین کی مدد کے لئے آگے بڑھی تھی، اسے رفتہ رفتہ یہ محسوس ہوا کہ حکام امریکا کی اطاعت اور کاسہ لیسی میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ مصر، غاصب صیہونی دشمن کا وفادار اور حلیف بن چکا ہے۔ مصری حکام پر امریکا کے غلبے سے، فلسطین کی حمایت میں کی گئی ان کی ساری زحمتوں پر پانی پھر گيا اور مصر فلسطین کا سب سے بڑا دشمن اور صیہونیوں کا سب سے ہڑا بہی خواہ بن گیا۔
یہ اسے عالم میں ہوا کہ جب سنہ سڑسھ اور سنہ تہتر کی جنگوں میں مصر کا حلیف ملک شام امریکہ کے تمام تر دباؤ کے باوجود آزادانہ موقف برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ مصر کی اس پٹھو حکومت کی یہ حالت ہو گئی کہ مصر کے عوام نے تاریخ میں پہلی بار دیکھا کہ غزہ میں ان کے بھائیوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں ان کی حکومت اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہوئي ہے اور نہ صرف یہ کہ (فلسطینیوں کی) مدد نہیں کر رہی ہے بلکہ دشمن محاذ کے اندر بہت فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی کہ حسنی مبارک وہی آدمی ہے جو غزہ کے عوام کے وحشتناک محاصرے اور غزہ کے مردوں اور عورتوں کے بائیس روزہ قتل عام میں اسرائیل اور امریکا کا معاون، شریک کار اور وفادار بنا رہا۔ ان دنوں مصری عوام پر کیا گذری ہوگی؟ ٹیلی ویزن پر مصری عوام کے جذباتی رد عمل کی تصاویر میں دیکھا گیا کہ وہ آبدیدہ ہوکر اپنی حالت اور فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنے کی اجازت نہ ملنے کی باتیں بیان کر رہے تھے۔ مصر کے مسلمان اور کہاں تک صبر کریں؟ آج جو کچھ قاہرہ اور مصر کے دیگر شہروں میں نظروں کے سامنے ہے اسی پاکیزہ غیظ و غضب (کے آتش فشاں کا) انفجار اور ان کدورتوں کا لاوا ہے جو اس طویل عرصے میں خائن اور پٹھو حکومت نے اپنے روئے سے مصر کے آزاد منش مرد و زن کے دلوں میں بھر دی تھیں۔
مصر کے مسلمان عوام کا قیام اسلامی اور حریت پسندانہ تحریک ہے۔ میں ایران کے عوام اور انقلابی حکومت کی طرف سے آپ اہل مصر اور اہل تیونس پر درود و سلام بھیجتا ہوں اور آپ کی مکمل فتح کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا گو ہوں۔ میں آپ پر اور آپ کی تحریک پر فخر کرتا ہوں۔ بے شک قوموں کے انقلابات جغرافیائی، تاریخی، سیاسی اور ثقافتی تقاضوں پر منحصر ہوتے ہیں اور ہر ملک کی اپنی الگ خصوصیات ہوتی ہیں۔ یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ تیس سال قبل ایران کے عظیم انقلاب کے دوران جو کچھ رونما ہوا بعینہ مصر اور تیونس میں بھی وقوع پذیر ہو لیکن کچھ اشتراکات بھی ہوتے ہیں جن کے سلسلے میں ایک قوم کے تجربات دوسری قوموں کے کام آ سکتے ہیں۔ وہ تجربات جو آج کام میں آ سکتے ہیں یہ ہیں؛
1 ہر عوامی انقلاب میں حقیقی جنگ ارادوں کی جنگ ہوتی ہے۔ جس فریق میں بھی عزم راسخ ہو اور جو سختیوں کو برداشت کرے وہی یقینی فاتح ہے۔ ہمارا قرآن ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ «إنّ الّذینَ قالُوا رَبُّنُااللَّه ثُمَّ استَقامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیهِمُ المَلائِكَه ألَّا تَخافُوا وَ لاتَحزَنُوا وَ أبشِرُوا بِالجَنَّهِ الَّتی كُنتُم تُوعَدونَ»( 3)پیغمبر اسلام سے ارشاد ہوا کہ «فَلِذلِكَفَادعُوَاستَقِمكَمااُمِرتَ وَ لا تَتَّبِع أهواءَهُم»(4) دشمن طاقت اور فریب سے آپ کے ارادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آپ ہوشیار رہئے، آپ کا ارادہ کمزور نہ پڑنے پائے۔
2 دشمن آپ کو اہداف کے حصول کے سلسلے میں مایوس اور ناامید کر دینا چاہتا ہے جبکہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ «وَنُرِيدُ أَن نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَاسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُالْوَارِثِينَ»(5) اللہ تعالی کے حتمی وعدے پر اعتماد رکھئے جس پر بار بار تاکید ہوئي ہے، جو کہہ رہا ہے کہ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (6).

3 آپ کا دشمن اپنے سیکورٹی کارندوں کو مسلح کرکے آپ کے مقابلے پر بھیج رہا ہے تاکہ بد امنی اور افرا تفری پھیلا کر عوام کو تھکا دے۔ ان سے ہراساں نہ ہوں۔ آپ کی طاقت ان کارندوں سے زیادہ ہے۔ آپ اس وقت اس مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں کہ جس مرحلے میں پیغمبروں اور اوليائے خدا کے پہنچ جانے کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا کہ «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىالْقِتَالِ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِنيَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْقَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ»(7)
4 بڑی طاقتوں اور بکے ہوئے حکام کے خلاف قوموں کا سب سے اہم ہتھیار ہے اتحاد و یکجہتی۔ آپ کا دشمن مختلف حیلوں سے آپ کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ تفرقے والی باتوں کو سامنے لانا، انحرافی نعرے بلند کرنا، خائن صدر کے جانشین کے طور پر غیر قابل اعتماد اور خراب کارکردگی والے افراد کا نام پیش کرنا، تفرقہ پھیلانے کے عزائم کا شاخسانہ ہے۔ آپ دشمن کے ہاتھوں بکے ہوئے عناصر سے ملک کی نجات اور دین کے محور پر اپنے اتحاد کو قائم رکھئے۔ «وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِجَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا»(8)
5 امریکا اور مغرب کے سیاسی حربوں اور گمراہ کن بیانوں پر بھروسہ نہ کیجئے۔ یہ لوگ کل تک اسی بد عنوان حکومت کی پشت پناہی کر رہے تھے اور اب جب اسے بچا پانے سے مایوس ہو گئے ہیں تو قوموں کے حقوق کا دم بھر رہے ہیں۔ وہ اس کی آڑ میں مہروں کی جگہیں تبدیل کرنے اور اپنے افراد کو نئے نئے روپ میں آپ پر مسلط کر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ قوموں کے شعور و فہم کا مذاق اڑانا ہے۔ آپ انہیں ٹھکرا دیں اور مکمل طور پر آزاد، عوامی اور پابند اسلام نظام کی تشکیل سے کم کسی چیز پر رضامند نہ ہوئیے۔
6 علمائے کرام اور جامعۃ الازھر کہ جن کا درخشاں ماضی اور کارکردگی زباں زد خاص وعام ہے اپنا کردار نمایاں طور پر ادا کریں۔ جن عوام نے مسجدوں اور نماز جمعہ سے اپنی تحریک کا آغاز کیا ہے اور جن کی زبان پر اللہ اکبر کے نعرے ہیں، علماء کرام سے انہوں نے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور یہ توقعات بے جا بھی نہیں ہیں۔
7 مصری فوج کو جسے صیہونی دشمن کے خلاف کم از کم دو جنگوں میں شرکت کا افتخار حاصل ہے، آج بہت بڑا بڑا تاریخی امتحان در پیش ہے۔ دشمن اسے عوام کی سرکوبی کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو اتنا بڑا المیہ رونما ہوگا جو ناقابل تلافی ہوگا۔ مصری فوج سے جنہیں ہرساں ہونا چاہئے وہ صیہونی ہیں نہ کہ مصری عوام۔ مصری فوج کے اہلکار خود بھی مصری عوام کا حصہ اور اسی قوم کے فرزند ہیں لہذا سرانجام وہ عوام سے جا مليں گے اور یہ شیریں تجربہ (ایران کے بعد) ایک بار پھر مصر میں دہرایا جائے گا۔
8 امریکہ جو تیس سال سے مصری عوام کے خلاف ضمیر فروش حکام کی پشت پناہی کرتا رہا اب اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ مصر کے معاملے میں ثالثی کی حیثیت سے میدان میں آئے۔ اس سلسلے میں امریکہ کے ہر اقدام اور ہر سفارش کو شک کی نگاہ سے دیکھئے اور اس پر اعتماد نہ کیجئے۔
عزیز بھائیو اور بہنو! یہ ہمارے تجربات ہیں اور میں آپ کے برادر دینی کی حیثیت سے اور اپنے دینی فریضے کی بنیاد پر ان تجربات کی باتیں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ دشمن کے تشہیراتی ادارے ہمیشہ کی طرح یقینا شور شرابا کریں گے کہ ایران مداخلت کر رہا ہے، مصر کو شیعہ بنانا چاہتا ہے، ولایت امر مسلمین ( کے نظرئے کو) مصر میں بھی پھیلانا چاہتا ہے، وغیرہ وغیرہ ۔ یہ لوگ تیس سال سے یہ جھوٹی باتیں دہرا رہے ہیں تاکہ ہماری قومیں ایک دوسرے سے دور اور امداد باہمی سے محروم رہیں۔ ان کے خریدے ہوئے افراد بھی یہی باتیں دہراتے ہیں۔ «يُوحِی بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍزُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْوَمَا يَفْتَرُونَ»(9) ان چالوں کو دیکھ کر ہم اپنے ان فرائض کو ہرگز نظر انداز نہیں کر سکتے جو اسلام نے ہمارے دوش پر رکھے ہیں۔ اللہ نیتوں سے آگاہ ہے۔ میں اپنے آور آپ کے لئے اللہ سے مغفرت و بخشش کا طالب ہوں۔
1) احزاب: 1
2) شمس: 1
3) فصلت:30
4)شورا: 15
5) قصص: 5
6) حج:40
7) انفال:65
8) آل عمران: 103
9) انعام: 112