قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تمام بھائیوں اور بہنوں کو اسلام کی عظیم خاتون، حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آپ سب کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
یوم تیماردار کی مناسبت سے ایک مختصر جملہ تیمارداروں اور نرسوں کی خدمت کی اہمیت کے بارے میں عرض کروں گا اور وہ یہ ہے کہ ہم سب کا فریضہ ہے کہ ان فداکار، ہمدرد اور مخلص افراد کی ، جو تیمارداری کے اپنے انسانی عمل سے بیماریوں کے دشوار مراحل میں بیماروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں، ان کے کام کے اعلا انسانی پہلوکو مد نظر رکھتے ہوئے، قدردانی کریں۔ تیمارداری اسلامی اور انسانی کام ہے۔ ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں، جو گوناگوں انسانی احساسات و جذبات سے سرشار ہے اور اس معاشرےمیں محبت ومہربانی کا کردار ہمیشہ ممتاز رہا ہے، اس محبت ومہربانی کے عظیم کام کو جو راسخ فکری اور معقولیت کی بنیادوں پر استوار ہے، احترام کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔
تیمارداروں اور نرسوں کو بھی چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین، اپنی قدر کرنی چاہئے اور اس کام کو مقدس سمجھنا چاہئے۔ بیمار کی تیمارداری میں نرس کا ہر اقدام ایک نیکی اور مستحق انسان کی مدد ہے اور وہ بھی حساس حالات میں۔ نرسنگ اور تیمارداری، ڈاکٹر کے ساتھ اور اس کے برابر ہے۔
حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کا یوم ولادت اس بات کا متقاضی ہے کہ ہماری بحث کا دائرہ بالخصوص انسانیت کے موجودہ حالات کے مدنظر، وسیع تر ہو۔ حضرت زینب کبری ایک عظیم خاتون ہیں۔ اس عظیم خاتون کو مسلم اقوام میں جو عظمت حاصل ہے، وہ کس وجہ سے ہے؟ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس لئے ہے کہ آپ علی بن ابیطالب کی بیٹی یا حسین بن علی یا حس بن علی (علیہم السلام) کی بہن ہیں۔ نسبتیں ایسی عظمت کا سبب نہیں بن سکتیں۔ ہمارے تمام ائمہ کی مائیں اور بہنیں تھیں لیکن حضرت زینب کبری کی مثل کون ہے؟
حضرت زینب کبری کی اہمیت و عظمت فریضہ الہی کی بنیاد پر آپ کی عظیم اسلامی اور انسانی تحریک اور موقف کی وجہ سے ہے۔ آپ کے کام، آپ کےفیصلے اور آپ کی تحریک کی نوعیت نے آپ کو ایسی عظمت عطا کی۔ جو بھی یہ کام کرے چاہے وہ دختر امیرالمومنین نہ ہو تب بھی، اس کو عظمت مل جائے گی۔ اس عظمت کا ایک حصہ یہ ہے کہ آپ نے پہلے موقع کو پہچانا، امام حسین( علیہ السلام ) کے کربلا جانے سے پہلے کے موقع کو بھی،یوم عاشور کے بحرانی موقع کو بھی اور شہادت امام حسین ( علیہ السلام) کے بعد کے حولناک واقعات کے موقع کو بھی پہچانا اور پھر ہر موقع کی مناسبت سے ایک اقدام کا انتخاب کیا اور ان انتخابات نے حضرت زینب کی شخصیت کی تعمیر کی۔
کربلا کی جانب روانگی سے پہلے ابن عباس اور ابن جعفر جیسی صدر اسلام کی معروف ہستیاں جو فقاہت، شجاعت اور صدارت کی دعویدار تھیں، گومگو کا شکار تھیں، نہ سمجھ سکیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئے۔ لیکن حضرت زینب کبری تذبذب کا شکار نہیں ہوئیں اور آپ سمجھ گئیں کہ آپ کو اس راستے کا انتخاب کرنا چاہئے اور اپنے امام کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہئے اور آپ گئیں۔ ایسا نہیں تھا کہ آپ نہ سمجھتی ہوں کہ یہ راستہ بہت سخت ہے۔ آپ دوسروں سے بہتر اس بات کو محسوس کررہی تھیں۔ آپ ایک خاتون تھیں۔ آپ ایک ایسی خاتون تھیں جو اپنے فریضے کی ادائيگی کے لئے اپنے شوہر اور کنبے سے دور ہورہی تھیں، اسی بناء پر اپنے چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ لیا۔ آپ محسوس کررہی تھیں کہ حادثہ کیسا ہے۔
ان بحرانی لمحات میں جب قوی ترین انسان بھی نہیں سمجھ سکتے کہ انہیں کیا کرنا چاہئے، آپ اپنا فریضہ سمجھ گئیں اور اپنے امام کی حمایت کی اور شہادت کے لئے آپ کو آراستہ کیا۔ شہادت حسین بن علی کے بعد جب دنیا تاریک ہوگئی، دل و جان اور آفاق عالم پر اندھیرا چھاگیا تو یہ عظیم خاتون نور بن کے درخشاں ہوگئیں۔ حضرت زینب اس منزل پر فائز ہوگـئيں کہ جہاں تک تاریخ بشریت کے صرف اعلا ترین افراد یعنی پیغمبر پہنـچ سکتے ہیں۔
آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہرا ( سلام اللہ علیہا) کی بات اور ہے، آپ کا مرتبہ حضرت زینب کبری سے بھی بلند تر ہے۔ یہ اسلام کی مثالی خواتین ہیں۔ آج کی صنف نازک کو نمونہ عمل کی ضرورت ہے۔ اگر اس کے لئے حضرت زینب اور حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہما) نمونہ عمل ہوں تواس کا فہم صحیح ہوگا، مواقع کے ادراک میں ہوشیاری سے کام لے گی، بہترین کاموں کا انتخاب کرے گی اور اس عظیم فریضے کی انجام دہی میں جو خدا نے انسانوں کو سونپا ہے، مزاحمت اور فداکاری سےکام لے گی۔ وہ مسلمان عورت جو حضرت زینب کبری اور حضرت فاطمہ زہرا ( سلام اللہ علہما) کو نمونہ عمل بنائے، ایسی ہوگی۔
اگر عورت آرائش و آسائش کی فکر میں ہو، جلد ختم ہوجانے والی ہواوہوس کی اسیر ہو، بے بنیاد جذبات کے سامنے جھک جائے تو اس راستےپر نہیں چل سکتی۔ اسے ان وابستگیوں کو جو ایک مسافر انسان کے قدموں سے لپٹے ہوئے تار عنکبوت کی طرح ہیں، خود سے دور کرنا ہوگاتاکہ اس راستے پر چل سکے۔ چنانچہ ایرانی خواتین نے انقلاب اور جنگ کے دوران یہی کیا اور توقع ہے کہ انقلاب کے ہر دور میں یہی کام کریں گی۔
اس راستے میں ایرانی خواتین کے لئے نمونہ عمل وہی ہے جو عرض کیا۔ حضرت زینب کبری نمونہ عمل ہیں۔ حضرت زینب ایسی خاتون نہیں تھیں کہ جو علم و معرفت سے بے بہرہ ہوں۔ اعلاترین علوم اور پاکیزہ ترین معرفتیں آپ کے پاس تھیں۔ وہی سکینہ کبری کہ جن کا نام آپ نے کربلا کے تعلق سے سنا ہے، اور آپ دختر امام اور حضرت زینب کبری کی بھتیجی ہیں، جو لوگ اہل تحقیق اور اہل مطالعہ ہیں وہ دیکھیں، آپ پوری تاریخ اسلام میں آج تک معرفت کی ایک مشعل ہیں۔ جو لوگ حتی حضرت زینب، حضرت زینب کے والد اور حضرت سکینہ کے والد کو قبول نہیں کرتے، وہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت سکینہ (سلام اللہ علیہا) علم و معرفت کی ایک مشعل ہیں۔
اس راستے پر چلنے کا مطلب علم ومعرفت، عالمی بصیرت،روشنفکری،معلومات اور آداب سے دوری نہیں ہے۔ یہ سب چیزیں ان سے ماوراء ہیں۔ اسلامی عورت، وہ ہے جو صحیح راستے پر چلتی ہے۔ ہدف کو صحیح پہچانتی ہے اور اس راہ میں فداکاری کے لئے تیار ہے اور ایسی خاتون عظمتیں خلق کرتی ہے۔ چنانچہ ایرانی خواتین نے عظمتیں خلق کی ہیں۔ یہ حقیقت بیانی ہے۔
اگر خواتین انقلاب میں شامل نہ ہوئی ہوتیں، توانقلاب کامیاب نہ ہوتا۔ جوان انقلاب کی صفوں میں شامل ہونے کے لئے گھروں سے باہر نہ آتے۔ ان کی مائیں نہ آنے دیتیں یا کم سے کم ان کی حوصلہ افزائی نہ کرتیں۔ اگر عورتوں کے دل انقلاب سے وابستہ نہ ہوتے تو مرد اس طرح آزادی کے ساتھ انقلاب کی صفوں میں جانفشانی نہ کرتے۔ انقلاب میں خواتین کا کردار، براہ راست اور بالواسطہ، دونوں لحاظ سے نمایاں، ممتاز اور مجموعی طور پر بنیادی ہے۔ جنگ میں بھی ایسا ہی ہے۔
شہیدوں کے کنبے والوں سے میری نشست و برخاست کافی رہی ہے۔ بہت کم شہیدوں کے گھرانے ایسے ملیں گے جہاں ماں کے حوصلے باپ کے حوصلوں سے زیادہ نہ ہوں۔ اکثر گھرانوں میں شہید کی ماں کا حوصلہ شہید کے باپ کے حوصلے سے بلند ہے۔ یہ ایک غیر معمولی چیز ہے۔ یہ انقلاب میں ان مومن خواتین کے کردار کو ظاہر کرتا ہے جنہوں نے انقلاب کی کامیابی اور انقلاب کے اہداف کی پیشرفت کے لئے پائیداری سے کام لیا اور اسلامی و خدائی اہداف و اقدار کے لئے سب کچھ فدا کردیا۔
عورت کی زندگی کے لئے یہ کردار صحیح ہے۔ لیکن مغربی اور یورپی آئیڈیل اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کا نقطۂ مقابل ہے۔ یہ دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ عورت کے لئے یورپی آئیڈیل میں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ عورت پڑھی لکھی ہو اور اسلام یہ نہیں چاہتا کہ عورت پڑھی لکھی ہو، وہ چاہتے ہیں کہ عورت سماجی میدان اور سماجی منصبوں پر فائز ہو لیکن اسلام یہ نہیں چاہتا۔ معاملہ یہ نہیں ہے۔ اسلام نے عظیم دانشور خواتین کی تربیت کی ہے۔ آج بھی اگر ہمارے معاشرے پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ خاتون سائنسداں، خاتون ڈاکٹر، خاتون محقق اور عظیم فنکار خواتین کم نہیں ہیں۔ ان کے درمیان صاحبان فکر ماہرین مذہبیات اور اہم شخصیتیں ملیں گی۔ سیاسی میدان میں مجریہ اور مقننہ میں بھی ایسا ہی ہے۔ ملک کے تمام شعبوں میں خواتین کا کردار اور موجودگی بہت فعال ہے۔ ہمارے اور ان کے درمیان، اسلامی تفکر اور اقدار میں اور مغرب کے تفکر میں بحث ان باتوں پر نہیں ہے بلکہ بحث کسی اور چیز پر ہے۔
آج یورپی اور مغربی آئیڈیل قدیم یونانی اور رومی آئیڈیل کی دین ہے۔ اس دور میں بھی عورت مرد کے فریضے کی ادائيگی اور اس کے لطف اندوز ہونے کا وسیلہ تھی اور ہر چیز اسی کے زیر اثر تھی اور آج بھی وہ یہی چاہتے ہیں۔ مغرب والوں کی اصل بات یہ ہے۔
وہ مسلم خاتون کی کس چیز کے زیادہ مخالف ہیں؟ اس کے حجاب کے۔ وہ آپ کی چادر اور صحیح حجاب کے سب سے زیادہ مخالف ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان کی تہذیب اس کو قبول نہیں کرتی۔ یورپ والے ایسے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے سمجھا ہے، دنیا کو ہماری پیروی کرنی چاہئے۔ وہ معرفت عالم پر اپنی جاہلیت کو غالب کرنا چاہتے ہیں۔ وہ عورت کو معاشرے میں یورپی طرز پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتےہیں کہ عورت ماڈل ہو، استعمال کی ایک چیز ہو، لوگوں کے درمیان آرائش کرکے آئے، ایک کھلونا ہو اور دونوں صنفوں کے درمیان جنسی مسائل ہوں۔ وہ عورت کے ذریعے ان چیزوں کو رائج کرنا چاہتے ہیں۔ مغرب والوں کے اس ہدف کی جہاں مخالفت ہو وہاں ان کی آواز بلند ہوجاتی ہے۔ ان کے اندر قوت برداشت بھی بہت کم ہے۔ یہی مغربی دعویدار اپنے تسلیم کردہ اصولوں کی معمولی سی بھی مخالفت برداشت نہیں کرتے۔
دنیا میں ہر جگہ اپنا اثر انہوں نے قائم کیا ہے، سوائے حقیقی اسلامی ماحول کے۔ آپ اگر آج افریقا، لاطینی امریکا اور مشرقی ایشیا کی غربت زدہ دنیا میں جائیں تو دیکھیں گے کہ ہر جگہ انہوں نے اپنا آئیڈیل رائج کردیا ہے۔ وہی فیشن، وہی آرائش، وہی طرز، وہی عورت کا کھلونا بننا، رواج پاگیا ہے۔ جن جگہوں پر ان کا تیر نشانے پر نہیں لگ سکا ہے، وہ اسلامی ماحول ہے اور اس کا مظہر اسلامی جمہوریہ ایران کا عظیم معاشرہ ہے۔ اس لئے اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔
آج آپ خواتین مغربی دنیا کی جاہلیت کی حالت کے مقابلے میں، اسلامی اصولوں کی محافظ ہیں۔ آپ اسلامی تہذیب کے اس محکم قلعے کی محافظ ہیں۔ علم میں، ثقافت میں، سیاست میں ہرچیز میں عورت کی اسلامی تربیب ہونی چاہئے۔ سماجی، اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں، ہرجگہ جائے اور آگے رہے، لیکن شہوت پرستی اور جنسی مسائل میں ان کے ہاتھ کا کھلونا نہ بنے۔ ہمارا یہ کہنا ہے۔
مکتب اسلام میں عورت اور مرد کے درمیان ایک حجاب اور پردہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورتیں کی دنیا مردوں کی دنیا سے الگ ہے۔ نہیں عورتیں اور مرد معاشرے میں اور دفاتر میں ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ ہر جگہ ایک ساتھ ہیں۔ سماجی مسائل کو مل کر حل کرتے ہیں۔ جنگ کے امور تک مل کر دیکھتے ہیں اور دیکھا بھی ہے۔ خاندان مل کر چلاتے ہیں۔ بچوں کی مل کے پرورش اور تربیت کرتے ہیں۔ لیکن یہ حجاب اور پردہ گھر اور کنبے سے باہر یقینا محفوظ رہنا چاہئے۔ یہ اسلامی آئیڈیل اور نمونہ عمل کا اصلی اور بنیادی نکتہ ہے۔ اگر اس نکتے کی رعایت نہ کی گئی تو وہی پستی آئے گی جس میں آج مغرب مبتلا ہے۔ اگر اس بنیادی نکتے پر توجہ نہ دی گئی تو عورت اقدار کی طرف حرکت میں آگے بڑھنے سے، جس کا ایران اسلامی میں مشاہدہ کیا جارہا ہے، رہ جائے گی۔ مغرب والے چاہتے ہیں کہ اس نکتے میں بھی پوری قوت کے ساتھ کسی بھی جگہ، کسی بھی طرح اور کسی کے بھی تعلق سے رسوخ اور نفوذ پیدا کریں۔
میری نظر میں فیشن، تجمل پسندی، جدت پسندی، بہت زیادہ میک اپ، مردوں کے روبرو نمائش، عورت اور معاشرے کے منحرف ہونے کے اہم ترین اسباب میں سے ہے۔ ان چیزوں کے مقابل میں ہماری خواتین کو مزاحمت کرنی چاہئے۔
وہ عورت کو اس طرح ڈھالنے کے لئے، جیسا وہ چاہتے ہیں، مستقل طور پر فیشن پیش کرتے رہتے ہیں اور آنکھوں، دلوں اور ذہنوں کو انہیں ظاہری چیزوں میں مشغول رکھنا چاہتے ہیں۔ جو ان چیزوں میں مشغول ہوجائے وہ حقیقی اقدار تک کب پہنچ سکتاہے؟ اس کو حقیقی اقدار کی طرف جانے کا وقت ہی نہیں ملے گا۔ جو عورت اس فکر میں ہو کہ خود مردوں کے لئے کشش کا وسیلہ بنائے، اس کو اس بات کا وقت کہاں ملے گا کہ اخلاقی طہارت کے بارے میں سوچے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ وہ یہ چاہتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ تیسری دنیا کی خواتین روشن فکری کی مالک اور اقدار پسند ہوں۔ خود عظیم ہدف کی طرف بڑھیں اور اپنے شوہر اور بچوں کو بھی اسی طرف لے جائیں۔ ہمارے معاشرے کی نوجوان خواتین کو بہت زیادہ ہوشیار رہنا چاہئے تاکہ مغربی تہذیب و تفکر کے اس بہت خطرناک غیر مرئی جال کو پہنچان سکیں، اس سے بچیں اور معاشرے کی عورتوں کو بھی اس سے خبردار اور دور کریں۔
آج امت اسلامیہ بالخصوص ایران کی بہادر قوم نے جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ اسلامی اہداف کی تکمیل، انسانوں کی نجات، ظلم کو دور کرنے اور دنیا میں دولت و طاقت کے بتوں کو توڑنے کا راستہ ہے۔ اس صحیح راستے کو پہچاننا اور اس کی حفاظت اور پاسداری کرنا چاہئے۔ اس کے لئے قوی ارادوں، مضبوط دلوں اور اعلا صلاحیتوں کی ضرورت ہے اور یہ چیز ہمارے مردوں اور عورتوں کی اسلامی اور خدائی تربیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ معاشرے میں عورتوں کی بھلائی اور نیکی مردوں کی نیکی اور بھلائی بھی لاتی ہے۔ اس سلسلے میں خواتین کا کردار بہت ممتاز اور شاید بنیادی ہے۔
خداوند عالم سے دعا ہے کہ آپ سب بھائیوں اور بہنوں کو اپنے لطف و کرم اور اپنی رحمت و ہدایت میں شامل کرے اور ہمارے معاشرے کے مردوں اور عورتوں کو اپنے بہترین بندوں میں شمار کرے اور حضرت ولی عصر ( ارواحنا فداہ ) کو ان سے راضی کرے۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ