قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

مجھے آپ عزیزجوانوں کے درمیان آ کے بہت خوشی ہوتی ہے اور میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ بلا مبالغہ آپ اسلام اور قرآن کے سپاہی شمار ہوتے ہیں۔ میں آپ جیسے مومن، انقلابی اور حق و حقیقت کے دفاع کے ارادوں میں اٹل جوانوں کے وجود پر ہمیشہ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ آج وہ نسل جس کی آپ نمائندگی کرتے ہیں اور مومن نیز عابد جوانوں کا وہ لشکر عظیم جس کے آپ ممتاز نمونے ہیں، اور الحمد للہ (اس لشکر کے سپاہی) پورے ملک میں موجود ہیں، یہ وہی سپاہی ہیں کہ جن کے لیے امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) نے فرمایا ہے کہ اسلامی انقلاب کی فتح الفتوح، ایسے نوجوانوں کی تربیت ہے۔ حقیقت میں ایسا ہی ہے۔
ایک لاکھ سپاہیوں سے زیادہ کی اس عظیم فوجی مشقوں کے بارے میں دو نکات عرض کروں گا۔ پہلا نکتہ اس کی شکل کے تعلق سے ہے۔ اس کی شکل اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ میں خدا کے فضل سے پاسداران انقلاب اسلامی نے یہ توانائی اور صلاحیت حاصل کرلی ہے کہ بہت ہی مختصر عرصے میں، مدنظر علاقے میں پوری قوت اور ہمہ گیریت کے ساتھ پہنچ جائے۔ یہ باعث افتخار ہے۔ یہ ایمان کی برکت اور اس ارادے کا نتیجہ ہے جو عشق اور ایمان سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ وہی میدان جنگ کا جذبہ ہے، یہ وہی جوش و ولولہ ہے جو کربلا پانچ اور والفجر آٹھ نامی آپریشن میں تھا۔ یہ وہی جذبہ ہے جو دریائے اروند کو پارکرنے کے ارادے میں تھا۔ یہ وہی فتح المبین بیت المقدس اور آبادان کا محاصرہ توڑنے کا جوش و لولہ ہے۔ جوش و جذبہ وہی ہے۔ فرق جو ہے وہ یہ ہے کہ آج تنظیم زیادہ قوی اور منظم نیز کمان کی آگاہی اور بصیرت زیادہ ہے اور سپاہی فطری طور پر فوجی امور سے زیادہ واقف اور پرجوش ہیں۔ اس زمانے میں میدان میں دشمن کی موجودگی سب کو حرکت میں لارہی تھی اور آج جو چیز سب کو آگے بڑھنے کی دعوت دیتی ہے، وہ فریضہ ہے۔ قرآن مجید کی آیت ہے کہ و اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل (1) یہ اس چیز کا درجہ ہے جس کا ہمارے ملک اور عوام نے مسلط کردہ جنگ کے دوران مشاہدہ کیا۔ یہ چیز دشمنوں کو خوفزدہ اور دوستوں کو خوش، پرامید اور مطمئن کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب اسلامی جمہوریہ پر غفلت کی حالت میں حملہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معطر خوبصورت پھول یعنی اسلامی جمہوریہ، کو بغیر دفاع اور حفاظت کے نہیں چھوڑ دیا گیا ہے کہ دشمن اس کو غارت کرنے کے لیے ہاتھ بڑھائے اور اس کا شیرازہ بکھیر دے۔ یہ شمشیر ذوالفقار ہے۔ یہ تیغ دودم ہے جو دوستوں کو خوش اور دشمنوں کو خوفزدہ کرتی ہے۔ یہ خطرات کے لیے آمادگی بھی ہے اور دشمن کو لالچ کی نگاہ ڈالنے سے روکنا بھی ہے۔ جو لمحہ بھی آپ یہاں اس صف میں، پریڈ میں اور مشق میں گزار رہے ہیں (یعنی جب سے آپ اپنے گھر اور شہر سے نکلے ہیں، اس وقت تک کہ جب آپ ان شاء صحیح و سلامت واپس جائیں گے، آپ کا ہر لمحہ) حسنہ اور نیکی ہے۔ آپ کا ہر قدم حسنہ اور نیکی ہے اور اس کا ایک ہدف اور غرض ہے۔ پورے ملک میں پھیلے ہوئے مجاہد سپاہیوں کے اس لشکر عظیم کا وجود، جن کے بارے میں امام ( خمینی رضوان اللہ علیہ) نے فرمایا ہے کہ جو مملکت اسلامی ہے، اس میں تمام افراد کو اس طرح کا فوجی ہونا چاہیے۔ حسنہ اور نیکی ہے۔ یہ اس ہدف کی راہ میں ہے اور اس کام کے لیے ہے۔ مجاہدین، بسیجیوں (عوامی رضاکار سپاہیوں)، پاسداران انقلاب اور فوجیوں کو ہر جگہ آمادہ اور تیار رہنا چاہیے۔ یہ شکل کے لحاظ سے ہے اور اب تک بہت اچھی طرح انجام پایا ہے۔ ان شاء اللہ فوجی مشقوں کے آخر تک آپ کی دقت اور ہوشیاری سے، بہترین طریقے سے تمام مراحل انجام پائیں گے اور یہ آپ کے لیے مسلح افواج تیار کرنے کی راہ میں جو خدائی اور فوجی دونوں پہلو رکھتا ہے، ایک ذخیرہ ہوگا۔ جیسا کہ الحمد للہ ابھی سے کافی حدتک ویسا ہی نظر آرہا ہے۔
اور اب رہا معنوی اور حقیقی پہلو، تو تاریخ انسان اور اقوام عالم نے دیکھا ہے اور سیکھا ہے کہ پوری دنیا میں ملک اور قوم میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ محنت اور کوشش کرتے ہیں، دشمن کو اس کی اوقات بتا دیتے ہیں، فداکاری کرتے ہیں، اور قابل فخر کارنامے انجام دیتے ہیں یہاں تک کہ انہیں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر ملکوں اور اقوام میں دیکھا گیا ہے کہ کافی محنت اور کوششوں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد جب وہ اپنے گھروں، برادری، شہروں اور بستیوں میں واپس گئے، امور زندگی میں مشغول ہوئے اور شیریں اور اچھی زندگی سے لطف اندوز ہونے میں مصروف ہو گئے تو بھول گئے کہ یہ افتخار اور کامیابی انہوں نے کتنی سنگین قیمت پر حاصل کی ہے۔ خواب غفلت میں پڑ گئے اور وہ دشمن جس نے میدان جنگ میں ان سے شکست کھائی تھی، دوبارہ آیا اور بغیر کسی زحمت کے آرام سے، ان کی وہ تمام چیزیں جواتنی قیمت دے کے انہوں نے حاصل کی تھیں، ان سے چھین کے لے گیا۔
تاریخ پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ بہت سے ممالک اس انجام سے دوچار ہوئے۔ غفلت کی شکار بہت سی اقوام کا یہی انجام ہوا۔ ایسے لوگ تھے جو حتی جنگ کے دوران بھی دشمن کے خطرے کے بارے میں سوچنے کے بجائے، آرام کی زندگی اور اس فکر میں تھے کہ ان کی زندگی کا مادی سکون اور عیش نہ ختم ہونے پائے اور اگر ان کے مادی آرام و آسائش میں ذرہ برابر کمی ہوجاتی تھی تو سب پر اعتراض کرنے لگتے تھے۔ جنگ بندی قبول کئے جانےاور جنگ ختم ہونے کے بعد، انیس سو اٹھاسی کے بعد بھی ایسے افراد اور اس قسم کی سوچ موجود رہی ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی دیگر انسانی معاشروں کی طرح ہے۔ وہی مصیبتیں، وہی خطرات اور ویسے ہی انجام کے امکانات کا خطرہ ہمیں بھی لاحق ہے۔
میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ امن کے دور میں ملک کو اپنی مقتدرانہ صلح کے نتائج سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ امن اور زندگی، اس قوم کا حق ہے۔ ملک اس قوم کا ہے۔ قوم کو اس ملک کی نعمتوں سے بہرہ مند ہونا چاہیے۔ لوگوں کو چاہیے کہ اپنے ملک کی تعمیر کریں اور روز بروز اس کی ترقی و پیشرفت میں اضافہ کریں۔ اگر آپ قرآن کو دیکھیں تو ایک موضوع، جس کی سورہ بقرہ سے لے کر آخری سورۂ قرآن (سورۂ الناس) تک قرآن میں بہت زیادہ تکرار ہوئی ہے، شیطان کا موضوع ہے۔
ایمان لانے اور شیطان کو شکست دینے سے کام ختم نہیں ہوجاتا۔ یہ اس لیے ہے کہ ایک آگاہ، باخبر، عقلمند، بیدار اور صاحب بصیرت قوم کو دشمن کے وجود، اس کی موجودگی، اس کے خطرے، اور اس کی سازش، مکاری اور خباثت کی طرف سے کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔
آج خدا کے فضل سے ہماری مسلح افواج، فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب، پورے ملک میں ترقی کے کاموں میں مصروف ہیں، سڑکیں بنارہے ہیں، ہائی وے بنا رہے ہیں، ڈیم تعمیر کر رہے ہیں، ترقیاتی کام کررہے ہیں، زراعت اور بہت سے کام کر رہے ہیں۔ یعنی اس قوم کے جوان چاہے وہ فوجی وردی میں ہوں، (یا دوسرے لباس میں ہوں) ملک کے لیے مفید بننا چاہتے ہیں اور ہو سکتے ہیں لیکن میری گزارش یہ ہے کہ اس مملکت کے بہترین جوان اور فداکاروں کے سردار وہ ہیں جو ہرحال میں اس بات پر توجہ رکھیں کہ حاکمیت اسلام کی یہ امانت جو ان کے پاس ہے، تمام پیغمبروں، اماموں اور اولیاء کی امانت ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کی آرزو تھی جو حاکمیت الہی سے انسانوں کی محرومی کے دور میں موت سے ہمکنار ہوئے، جنہوں نے عقوبت خانوں میں تکلیفیں برداشت کیں اور یہ آرزو کی کہ خداوند عالم انہیں نجات دلائے اور کامیابی عطا کرے۔ یہ ان سب کی آرزو اور صدیوں (کی مجاہدتوں اور فداکاریوں ) کا نتیجہ ہے۔ پوری قوت، توانائی، ہو شیاری اور بیداری کے ساتھ اس کی محافظت کرنی چاہیے۔
ثقافتی حفاظت ہوتی ہے، اقتصادی محافظت ہوتی ہے، علمی محافظت ہوتی ہے اور سیاسی محافظت ہوتی ہے لیکن اگر فوجی محافظت نہ ہو، اگر یہ تیاریاں نہ ہوں، تو یہ ساری حفاظتیں آدھے دن میں برباد ہوسکتی ہیں۔ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ عسکریت پسند ہے ذرا‏ئع ابلاغ، قلم اور ہر تشہیراتی وسیلہ دشمن کے پاس ہے۔ آپ کو دشمن سے کیا توقع ہے؟ کیا آپ دشمن سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اسلام، ہمارے امام عظیم الشان، امت اسلامیہ اور اسلامی جمہوریہ کی تعریف کرے گا؟ ظاہر ہے کہ وہ برائی کرےگا۔ ظاہر ہے کہ بہتان باندھے گا۔ عسکریت کا الزام بھی لگائے گا۔ دشمن کا یہ الزام اس بات کا سبب نہیں بننا چاہیے کہ ہم تیاری نہ رکھیں۔
دنیا جان لے کہ ہم جارحیت، برائی، ظلم اور نا انصافی کرنے والے نہیں ہیں لیکن کسی کے سامنے جھکنےوالے بھی نہیں ہیں۔ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ فوجی دھمکی، ایٹمی دھمکی، اقتصادی محاصرے کی دھمکی اور (ہمارے خلاف) متحد ہوجانے کی دھمکی کا ایرانی قوم پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے؛ اس لیے کہ ایرانی قوم خدا پر بھروسہ کرتی ہے۔
اس دن میں نے دعا کا یہ جملہ کہیں پڑھا؛ عزّ جارک وجلّ ثنائک وتقدّست آلاؤک ولا الہ غیرک یہ قوم، جاراللہ ہے۔ یہ قوم خدا پر توکل کرتی ہے۔ خدا کو مانتی ہے اور خدا کے لیے کام کرتی ہے۔ جو خدا پر بھروسہ کرے، وہ صاحب عزت ہوتا ہے۔ خدا اپنے بندوں اور اپنے مخلصین کو بیچ میدان میں اکیلا نہیں چھوڑتا۔
میرے عزیزو! کیا ان سولہ برسوں میں خدا نے اس قوم کو اس کے حال پر چھوڑ دیا؟ خدا کی قسم، آئندہ بھی، جب تک آپ اس راستے پر باقی رہیں گے، خدا آپ کو اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ یہ راستہ، راہ خدا، راہ افتخار اور راہ بہشت ہے۔ اس راہ پر چلنے والے کے لیے خدا کی رحمتیں ہیں اور اس کا کرم موت کے بعد کی زندگی کے لیے ہی نہیں ہے، و اخری تحبّونھا نصّر من اللہ و فتّح فبشّر المومنین (2) اس راہ پر چلنا یہ ہے۔ اب امریکا، دنیا کے مستکبرین، صیہونی، بڑی کمپنیوں کے مالک اور ان کے حقیر اور پست نوکر جو چاہیں کہیں۔ وہ ایران کے مسائل کو نہیں سمجھتے اور ان کا صحیح تجزیہ نہیں کرسکتے۔ یہ قوم مومن اور صاحب عزت ہے۔ یہ نظام، نظام الہی ہے۔ ہماری مومن قوم بہت پرانی، لیکن جوان ہے۔ آج ہمارے نوجوان اس قوم کے حقیقی مظہر ہیں۔ آج اس جوان اور پرجوش قوم نے سعادت کی اس راہ پر جس پر اس نے آگے بڑھنے کا آغاز کیا ہے، آخر تک جانے اور دیگر اقوام کے لیے نمونۂ عمل بننے کا عزم مصمم کر رکھا ہے۔ اگر آپ اس راستے کو، جسے آپ نے آدھا طے کرلیا ہے، عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ کام دیگر اقوام کے لیے ایک مثال بن جائے گا۔ امریکا اسی بات سے خوفزدہ ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ کسی طرح آپ کو اس راستے کو عبور نہ کرنے دے یا آپ کو اسی راہ میں گرا دے لیکن وہ جانتا ہے کہ یہ کام ہونے والا نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ کام نہیں ہوگا۔ اس لیے اس کی کوشش ہے کہ ایسا کام کرے کہ تدریجی طور پر خود آپ اس بات کے قائل ہوجائیں کہ کیا ضرورت ہے، بہتر ہے کہ واپس ہوجائیں۔ وہ چاہتا ہے کہ خود آپ اس بات کے قائل ہوجائیں کہ رہ چنان رو کہ رہروان رفتند (یعنی راستہ اس طرح چلو جس طرح چلنے والے چلے ہیں) دیگر حکومتوں اور ان لوگوں کی طرح جو امریکا کو پسند ہیں اور امریکا جنہیں پسند ہے، زندگی گزاریں؛ لیکن امریکا نے غلط سمجھا ہے۔ خدا کا فضل اور جان عالم ہستی، روح عالم حضرت ولی اللہ الاعظم (حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کہ جن کی معرفت اور محبت خداوندعالم نےعطا کرکے ہم پر بڑا احسان اور کرم کیا ہے، آپ کی عنایات اس قوم کے شامل حال ہیں۔
میں یہاں موجود تمام حضرات، بالخصوص سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈروں اور ان تمام لوگوں کا جنہوں نے ان فوجی مشقوں کے لیے کافی محنت کی ہے، دل کی گہرائیوں سے شکریہ اداکرتا ہوں۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ فوجی مشقوں کے آخر تک پوری دقت، ہوشیاری، مہارت اور کامیابی سے تمام مراحل کو طے کریں گے اور احسن طریقے سے اس کام کو پورا کریں گے، ان شاء اللہ حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کا قلب مقدس اور امام خمینی کی روح مطہر کو زیادہ سے زیادہ شاد اور خوشنود کریں گے اور ان شاء اللہ جنگ اور انقلاب کے شہیدوں اوراپنے عظیم سرداروں کی یاد کو روز بروز زیادہ زندہ کریں گے کیونکہ جو کچھ ہے سب انہیں کی یادگار ہے، اور اسی طرح معذور ہونے والے جانبازوں، بے مثال فداکاری کرنے والوں، لاپتہ ہوجانے والے مجاہد سپاہیوں اور دشمن کی جنگی قید کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد رہائی پانے والے غازیوں کو سربلند اور خوش کریں گے۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

1/ اور (اے مسلمانو!) ان کے (مقابلے کے) لئے تم سے جس قدر ہو سکے قوت و طاقت مہیا کر رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی (کھیپ بھی). (سورہ انفال آیت 60)
2/ اور (اس اخروی نعمت کے علاوہ) ایک دوسری (دنیوی نعمت بھی عطا فرمائے گا) جسے تم بہت چاہتے ہو، (وہ) اللہ کی جانب سے مدد اور جلد ملنے والی فتح ہے اور (اے نبی مکرم!) آپ مومنوں کو خوشخبری سنا دیں (یہ فتح مکہ اور فارس و روم کی فتوحات کی شکل میں ظاہر ہوئی)۔ (سورہ صف آیت 13)