آپ نے لائیبریرین حضرات کو کتابوں کے انتخاب میں ایک رہنما کا کردار ادا کرنے کی سفارش۔ آپ نے کتابوں کی نوعیت کے سلسلے میں بھی انتہائی اہم نکات بیان کئے۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
برادران و خواہران گرامی کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ سو فیصدی علمی جلسہ ہے۔ آپ عزیزوں سے ملاقات کے لئے اس جلسے کے اہتمام کا ایک مقصد ملک بھر میں لائبریریوں کے ذمہ داروں اور لائبریرین حضرات کی زحمتوں کا شکریہ ادا کرنا ہے کیونکہ وہ بہت عظیم اور اہم کام انجام دے رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہمارا یہ جلسہ کتاب اور مطالعے کے لئے معاشرے میں خاص اہمیت کو ظاہر کرنے والا علامتی عمل ہے۔
ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں کتاب کی ضرورت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ اگر کوئی یہ سوچے کہ نئے نئے مواصلاتی وسائل کی ایجاد سے کتاب متن زندگی سے ہٹ جائے گی تو یہ غلط تصور ہوگا۔ معاشرے میں کتاب کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ نئے وسائل جو ایجاد ہو رہے ہیں ان کا سب سے بڑا فن یہ ہے کہ کتابوں کے مضمون کو، کتابوں کے مندرجات کو اور خود کتب کو آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔ کوئی بھی چیز کتاب کی جگہ نہیں لے سکتی۔
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر ہم فکر و تجربے اور ذوق و فن کے لحاظ سے نشو نما میں ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کتابوں سے اپنا رابطہ بڑھانا ہوگا۔ کتاب ایک فکر، ایک ذوق، ایک فن اور ایک نظریئے سے وجود میں آنے والے ثمرات کا ذخیرہ ہے۔ یہ کسی ایک یا کئی انسانوں کی فکری کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ مختلف انسانوں کے فکری ثمرات سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ یہ موقعہ ہمیں کتاب فراہم کرتی ہے۔ یہ کتاب سے ہمیں ملنے والا تحفہ ہے۔ معلوم ہوا کہ کتاب بڑی قیمتی شئے ہے۔ یہ چیز ہمیشہ سے تھی اور آئندہ بھی رہے گی۔ بنابریں کتاب پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کتاب پر خاص توجہ در حقیقت مطالعے پر خاص توجہ کا مقدمہ ہے۔ معاشرے میں کتب کے مطالعے کا ماحول بڑھنا چاہئے۔ خواندگی کی شرح بڑھانے کا مقصد اور فائدہ یہی ہے۔ دنیا کے ممالک میں ناخواندگی کو مٹانے کے لئے جو مہم اور تحریکیں چلائی جاتی ہیں ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ عوام الناس دوسروں کی فکری توانائيوں اور ذہنی استعداد کے اس مجموعے سے بہرہ مند ہوں۔ مطالعے کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ میری نظر میں بدترین اور سب سے زیادہ نقصان دہ تساہلی مطالعے کے سلسلے میں کی جانے والی تساہلی ہے۔ انسان اس میں جتنی تساہلی برتتا ہے اس کی کاہلی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ معاشرے میں کتب کے مطالعے کی ترویج کی جانی چاہئے۔ یہ تمام متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔ پرائمری اسکول سے ہی بچوں کو کتاب پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لئے منصوبہ بنایا جانا چاہئے۔ تدبر اور غور و فکر کے ساتھ کتاب پڑھنے کی عادت ڈالنے کا منصوبہ۔ اسی طرح مواصلاتی ذرائع، نشریاتی اداروں اور تشہیراتی وسائل سب کی سطح پر یہ منصوبہ بندی ضروری ہے۔
معاشرے کی سطح پر ایک بہت اہم کام یہی ہے کہ کتب کا مطالعہ ہمہ گیر ہو۔ ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ بےارزش چیزوں کے لئے جن کی انسانی زندگی میں کوئی خاص تاثیر بھی نہیں ہوتی، ان کے مالکان بڑی رنگارنگ اور عجیب و غریب انداز کی تشہیر کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ، اخبارات و جرائد، نشریاتی ادارے اسے پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس سامان کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے، اس کی کوئی احتیاج نہیں ہے، یہ زندگی میں بالکل اضافی چیز ہے۔ کبھی کبھی ان سے کچھ فائدہ پہنچ جاتا ہے لیکن کبھی کبھی تو ان سے نقصان ہی پہنچتا ہے۔ لہذا کتاب جو انتہائی ذی قیمت شئے ہے، بڑی با عظمت چیز ہے اس کی تشہیر ضروری ہے، وہ اس لائق ہے کہ لوگوں کو اس کے مطالعے کے لئے رغبت دلائی جائے۔ ہمیں اس چیز کو ایک عادت میں تبدیل کر دینا چاہئے۔
میں یہ عرض کر دوں کہ ہمارے ملک میں اور ہمارے معاشرے میں آج جو صورت حال ہے ہم اس سے خوش نہیں ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ آج جس تعداد میں کتابوں کی تصنیف و تالیف انجام پا رہی ہے وہ ماضی سے بہت زیادہ ہے، کبھی کبھی تو کئی گنا زیادہ کتابیں شائع ہوتی ہیں، یا یہ کہ کتاب کے نسخوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ہمارے ملک کے لئے ابھی یہ بہت کم ہے۔ ایسا ماحول ہونا چاہئے کہ ہر کنبے کے استعمال کی اشیاء میں کتاب باقاعدہ شامل ہو۔ لوگ کتابیں خریدیں۔ البتہ مطالعے کے لئے، صرف کتبخانے کو سجانے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے نہیں۔ تو یہ معاشرے میں مطالعے کا ماحول بنانے کے تعلق سے اہم نکتہ ہے۔
ایک مسئلہ کتب خانوں کا ہے۔ اس سلسلے میں لائیبریرین حضرات واقعی زحمت اٹھا رہے ہیں اور ان پر براہ راست ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ میں نے بچپن سے ہی کتب خانوں میں لائبریرین کے کردار کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ میں (مشہد میں واقع) روضہ اقدس حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے کتب خانے میں جاتا تھا اور دیکھتا تھا کہ وہاں کے لائبریرین حضرات کتنا اہم رول ادا کر رہے ہیں، کتنی زحمتیں اٹھا رہے ہیں، کتنی دلسوزی سے کام کر رہے ہیں۔ لائبریرین کا کام بڑا نمایاں علمی کام ہے۔ لائبریرین کا کام صرف یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو کتابیں دے اور ان سے واپس لیکر رکھ دے۔ لائبریرین کو چاہئے کہ کتاب سے رجوع ہونے والے افراد کے لئے رہنمائی کا فریضہ انجام دے۔
ضروری کاموں میں ایک یہ بھی ہے کہ ہم ذہن کو ترتیب وار مطالعے کا عادی بنائيں۔ اگر ایک کتاب کا مطالعہ کرنا ہے اور اس سے پہلے اسی موضوع کی دیگر کتابوں کا آپ مطالعہ کر چکے ہیں اور اس کے بعد اب اس کتاب سے آپ رجوع ہو رہے ہیں تو اس کی تاثیر زیادہ ہوگی۔ لیکن اس کے لئے رہنمائي کی ضرورت ہے۔
بعض افراد مطالعے کے عادی ہیں لیکن آسان کتابیں ہی پڑھنا چاہتے ہیں جن میں ذہن پر زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت نہ پڑے۔ یہ بھی مطالعہ ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن مطالعہ کی بہتر روش یہ ہے کہ انسان زیر مطالعہ کتابوں میں آسان کتاب کو بھی شامل رکھے۔ مثال کے طور پر ناول، سرگزشت یا تاریخ کی آسان کتابوں کا مطالعہ ان کتابوں کے ساتھ کرے جن میں غور و فکر کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمیں اپنے ذہن کو غور و فکر کرنے کا عادی بنانا چاہئے۔ تدبر کی عادت ڈالنی چاہئے۔ کتاب ذہن کو فکر و تدبر پر مجبور کرے، اس سب کے لئے رہنمائی کی ضرورت ہے۔
آج ہمیں جن چیزوں کی خاص ضرورت ہے ان میں ایک ہے مختلف طبقات کے لئے مطالعے کا مناسب شیڈول۔ بارہا دیکھنے میں آتا ہے کہ نوجوانوں یا بچوں کو ہم کتاب پڑھنے کی تو ترغیب دلاتے ہیں لیکن وہ پلٹ کر سوال کرتے ہیں کہ ہم کون سی کتابیں پڑھیں؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا ایک جواب نہیں ہے۔ اس کے متعدد جوابات ہو سکتے ہیں۔ کتاب کے امور کے ذمہ دار افراد خواہ وہ ثقافت اور اسلامی ہدایت کی وزارت سے تعلق رکھتے ہوں یا کتب خانوں سے ان کا تعلق ہے، اس سلسلے میں سنجیدگی سے کام کریں۔ مختلف شعبوں میں، مختلف طبقات کے افراد کے لئے، مختلف شکلوں میں، مناسب تنوع کا خیال رکھتے ہوئے مطالعے کا منظم عمل تیار کریں۔ پہلے یہ کتاب، پھر یہ کتاب اور اس کے بعد یہ کتاب۔ جب بچہ، نوجوان یا کوئی اور شخص جو کتاب سے ابھی مانوس نہیں ہے، اندر آتا ہے، آگے بڑھتا ہے تو پھر اپنا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب بھی ہوتا ہے۔ تو یہ ایک اہم نکتہ ہے۔
دوسرا نکتہ کتاب کے انتخاب کے سلسلے میں ہے۔ کسی ایک شخص یا چند افراد کی فکر، دماغ، تجربات، فن اور ذوق کا نتیجہ کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر کتاب مفید ہی واقع ہو اور اس میں کوئی ضرررساں پہلو نہ ہو۔ بعض کتابیں ضرر رساں بھی ہوتی ہیں۔ کتب کے امور کے ذمہ دار افراد اس خیال کے ساتھ کہ ہمیں سب کو آزاد چھوڑ دینا چاہئے، لوگ خود انتخاب کریں، ضرر رساں کتابوں کو مطالعے کی فضا میں نہیں لا سکتے۔ جیسا کہ زہریلی دوائیں، خطرناک دوائیں، نشہ آور دوائیں متعلقہ عہدیدار آسانی سے سب کو فراہم نہیں کرتے، لوگوں کی دسترسی سے انہیں دور رکھتے ہیں، کبھی کبھی انتباہات بھی دیتے ہیں۔ کتاب ایک معنوی غذا ہے۔ اگر خراب ہو، اگر زہریلی ہو، اگر ضرر رساں ہو تو ہم ایک ناشر کی حیثیت سے، صاحب کتاب کی حیثیت سے، کتب خانے کے ذمہ داری حیثیت سے، کتب کی تقسیم کے ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے یا کسی اور حیثیت سے اگر کتاب کے رابطے میں ہیں تو ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ انہیں ایسے افراد کے حوالے کر دیں جو باخبر نہیں ہیں، متوجہ نہیں ہیں۔ شریعت اسلام میں اس کے سلسلے میں ایک الگ باب ہے۔ تو بہت احتیاط سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اچھی اور صحت مند مضامین کی حامل کتاب لوگوں کو دینی ہے۔ اس بات پر خاص توجہ ہونا چاہئے کہ کتاب فکری پرورش بھی کرنے والی ہو اور صحیح راستے کی نشاندہی بھی کرنے والی ہو۔ بنابریں مطالعے کے سلسلے میں منصوبہ بندی کے ساتھ اس نکتے پر توجہ بھی ضروری ہے۔
ہم ملت ایران کی حیثیت سے، ایک مسلمان قوم ہونے کے باعث کتابوں سے گہرا اور دیرینہ رشتہ رکھتے ہیں۔ یہ آج کل کی بات نہیں ہے کہ ہمیں کتاب سے آشنائی حاصل ہوئی ہے۔ ہمارے ملک میں، خاص طور پر اسلام پھیل جانے کے بعد عظیم کتب خانوں، علمی مراکز، بیش بہا تحریروں ان سب چیزوں کی بڑی قدیم تاریخ ہے۔ ہم ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں جس کا کتابوں سے رشتہ زمانہ قدیم سے رہا ہے۔ صدیوں سے ہمیں کتابوں سے انسیت تھی۔ البتہ ان دنوں کتابوں تک رسائی آسان نہیں تھی۔ خطی نسخوں کے دوسرے نسخے تیار کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی جو لوگ اہل کتاب تھے، کتابوں سے شغف رکھتے تھے انہوں نے کتنی جفاکشی کی۔ ہم نے پڑھا ہے اور بارہا سنا ہے کہ بعض افراد ایسے تھے کہ کسی کتاب کی ضرورت تھی اور جن کے پاس وہ کتاب تھی وہ ذرا بخل سے کام لیتے تھے، کتاب دینے پر تیار نہ ہوتے تھے۔ بڑی مشکل سے منت سماجت کرکے کتاب کو ایک یا دو شب کے لئے عاریتا لیتے تھے اور پھر انہیں نہ دن کی خبر ہوتی تھی نہ رات کی، مسلسل محنت کرکے اس کتاب کا ایک اور نسخہ تیار کر لیتے تھے۔ اس طرح کی مثالیں بے شمار ہیں۔ آج یہ ساری رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں۔ علم کی ترقی سے کتابوں کی فوٹوکاپی کر لینا آسان ہو گیا ہے۔ ہمیں اپنے اس ماضی کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے، کتب کی نشر و اشاعت میں اپنے مقام کو بلند کرنا چاہئے۔
کتاب کو بازار میں لانے والے افراد کو بھی اس نکتے پر توجہ رکھنی چاہئے۔ خواہ وہ مصنفین ہوں، مترجمین ہوں یا ناشرین ہوں جو کتابیں لوگوں تک پہنچاتے ہیں، معاشرے کی احتیاج اور خلاء پر توجہ دیں۔ فکری خلاء کی اور فکری احتیاج کی نشاندہی کریں، انتخاب کریں، پھر ان پر کام شروع کریں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کتابوں کے بازار میں بسا اوقات ایسی کتابیں نظر آتی ہیں جن میں گمراہ کن باتیں بھی ہوتی ہیں۔ ان میں ایسے موضوعات اٹھائے جاتے ہیں جو معاشرے کی عام ذہنیت کے لئے اور ملک کی عام ذہنیت کے لئے، اخلاقی لحاظ سے، دینی و اعتقادی لحاظ سے یا پھر سیاسی لحاظ سے زیاں بخش ہوتے ہیں۔ واضح طور پر کتب کے بازار میں نظر آتا ہے کہ کتابوں کے پس پردہ کچھ خفیہ ہاتھ ہیں جو اپنا کام کر رہے ہیں۔ کتابیں لکھی جا رہی ہیں، ترجمے کئے جا رہے ہیں خاص سیاسی اہداف کے تحت۔ ان کی ظاہر شکل تو علمی فنپارے کی ہے لیکن باطن سیاسی ہے۔
ہمارے ملک میں بہت سے ایسے امور جن کی ترویج ثقافت و علم کے نام پر اغیار، معاندین اور اسلام و اسلامی نظام کے دشمنوں کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ ان کا صرف ظاہر ثقافتی اور علمی ہے، باطن پوری طرح سیاسی ہے۔ اسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ کتابوں کے امور سے وابستہ افراد خواہ آپ جیسے لائیبریرین، لائبریریوں کے مالکان ہوں یا ثقافت و اسلامی ہدایت کی وزارت سے تعلق رکھنے والے افراد یا خود ناشر حضرات، سب اس بات پر توجہ دیں کہ معاشرے میں صحتمند، مفید اور قوت بخش روحانی غذا تقسیم کی جانی چاہئے۔ اس وقت ماشاء اللہ خواندگي کی شرح اور کتابوں سے استفادے کا امکان بہت وسیع ہے۔ اس سنہری موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔
میں آج اس اجتماع میں چاہتا ہوں کہ ایک نئے سلسلے کا آغاز ہو کتاب اور مطالعے کے تعلق سے، مفید اور صحتمند کتب کے تعلق سے۔ ملک میں تمام حکام ایک نئی مہم شروع کریں۔ منصوبہ بندی کرنے والوں سے لیکر تالیف و تصنیف اور ترجمہ کرنے والوں، ان کا پرچار کرنے والوں، کتاب پڑنے والے بچوں اور نوجوانوں تک سب کے اندر ایک نیا طرز فکر پیدا ہو۔ ساڑھے سات کروڑ کی آبادی والے ملک، نوجوانوں کی اتنی کثیر تعداد اور اس جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے کتابوں کے نسخوں کی ایک ہزار دو ہزار یا تین ہزار کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ بعض کتابوں کے سلسلے میں دیکھنے میں آتا ہے کہ کئی ایڈیشن شائع ہوئے ہیں لیکن مجموعی طور پر کتابوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نہیں یہ تعداد اطمینان بخش نہیں ہے۔ ایک نئی تحریک کی ضرورت ہے۔
میں کتب کے امور کے ذمہ داروں کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں اور ان سے گزارش بھی کرتا ہوں کہ کتاب کے معاملے میں ایک نیا نقطہ نگاہ اختیار کریں۔ ہمیں کچھ ایسے اقدامات کرنے چاہئے کہ مطالعے کا ماحول بنے اور ہمارے نوجوان کا ہاتھ کتاب سے خالی نظر نہ آئے۔ یہ جو اعداد و شمار بتائے جاتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے میں فی کس مطالعے کی مقدار اتنی ہے۔ یہ اعداد و شمار اطمینان بخش نہیں ہیں۔ صورت حال اس سے بہت بہتر ہونی چاہئے۔ انسان کبھی بھی کتاب سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ بچپن سے لیکر، تعلیم کے ابتدائی دور سے لیکر آخر عمر تک انسان کو کتاب کی ضرورت ہے، مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے، فکری و روحانی غذا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کی سطح پر یہ ذہن سازی ہونی چاہئے، اقدام کیا جانا چاہئے، اس پر کام کیا جانا چاہئے۔
اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب کرے۔ ہم آپ کی زحمتوں کی قدردانی کرتے ہیں۔ جو کچھ انجام پایا ہے اس سے خوش ہیں اور امید کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ نے اب تک کیا ہے اس سے کئی گنا زیادہ انجام دیں۔ اللہ تعالی آپ کی مدد فرمائے اور حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی دعائیں آپ کے شامل حال ہوں۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته