قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاھرین
حسن اتفاق سے اس سال علماء و مبلغین سے ملاقات جو ہر سال محرم سے قبل انجام پاتی ہے، اس صوبے میں ہوئی ہے۔ میں موقع سے استفادہ کرتے ہوئے محرم کے عظیم مہینے اور عاشورا کے ناقابل فراموش واقعے سے متعلق مسائل کے بارے میں کچھ باتیں علمائے کرام کی خدمت میں عرض کروں گا لیکن اس سے قبل ضروری ہے کہ محترم علماء بالخصوص اس صوبے کے ممتاز علماء و فضلائے کرام کا، جنہوں نے الحمد للہ تعلیم، بحث و مباحثے، تفسیر وغیرہ کے درس اور حقائق کے تجزیئے و تحلیل کی سنگین ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے، ان کا پرخلوص شکریہ ادا کروں۔
حق یہ ہے کہ یہ صوبہ ایمانی قوت کے لحاظ سے ممتاز صوبوں میں سے ہے۔ اگرچہ پورے ملک میں ہمارے عوام، الحمد للہ دین اور دینی باتوں پر یقین رکھتے ہیں مگر بہرحال ہر چیز کم اور زیادہ ہوتی ہے۔ یہ صوبہ ان مراکز میں سے ہے جن کے لوگوں نے ثابت کر دیا ہے کہ مومن، مخلص اور پاک ہیں۔ جہاں عوام ایسے ہوں، علماء کے لئے اپنے الہی فریضے کی ادائیگی کی زمین سازگار ہوتی ہے۔
جو زحمتیں حضرات اٹھا رہے ہیں، ان کے لئے میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خاص طور پر ان جید علماء کا جنہوں نے یہاں اہم خدمات انجام دی ہیں اور انجام دے رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ درخواست بھی ہے کہ صوبہ کہگیلویہ و بویر احمد میں ثقافتی پسماندگی دور کرنے کے لئے کوششیں اور کاوشیں زیادہ کر دی جائیں۔
محرم کے مسائل کے سلسلے میں دو باتیں عرض کرنی ہیں۔ پہلی بات انقلاب عاشورا سے متعلق ہے۔ اگرچہ قیام امام حسین علیہ السلام کے فلسفے کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا اور لکھا گیا ہے اور اس سلسلے میں بڑی محکم باتیں بیان کی گئی ہیں مگر اس درخشاں حقیقت کے بارے میں پوری عمر بیان کیا جائے تو بھی کم ہے۔ عاشورا اور قیام امام حسین علیہ السلام کے بارے میں جتنی فکر کریں اتنا ہی متوجہ ہوتے ہیں کہ یہ واقعہ مختلف پہلوؤں سے کشش رکھتا ہے اور اس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے اور بیان کیا جا سکتا ہے اور ممکن ہے کہ نئی باتیں اور نئے حقائق معلوم ہوں۔ یہ بات اگر پورے سال کہی جائے تو کہی جا سکتی ہے اور کہی جانی چاہئے لیکن یہ محرم کی خصوصیت ہے اور محرم کے ایام میں یہ بات زیادہ کہنی چاہئے اور کہی جاتی ہے اور انشاء اللہ کہی جائے گی۔ ایک اور بات جو محرم کی مناسبت سے قابل بحث ہے اور اس سلسلے میں کم بات کی جاتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آج رات اس سلسلے میں تھوڑی سی گفتگو کروں۔ یہ حسین بن علی علیہ السلام کی عزاداری اور ذکر عاشورا کے احیاء کی برکات ہیں۔ یقینا دیگر معاشروں پر شیعہ معاشرے کو یہ ایک اہم امتیاز حاصل ہے کہ شیعہ معاشرے میں ذکر عاشوار پایا جاتا ہے۔ جب سے حسین بن علی علیہ السلام کے مصائب کے بیان کا موضوع سامنے آیا ہے، اسی دن سے اہلبیت علیہم السلام کے معتقدین اور چاہنے والوں کے اذہان میں دین اور معنویت کا چشمہ فیض جاری ہو گیا ہے۔ یہ چشمہ فیض آج بھی باقی ہے اور جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اس کا سبب عاشورا کا لا متناہی تذکرہ ہے۔
عاشورا کے ماجرے کا بیان، کسی معمولی واقعے کا بیان نہیں ہے۔ بلکہ ایک ایسی روداد کا بیان ہے کہ - جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا - جو بے شمار پہلووں کی حامل ہے۔ بنابریں اس واقعے کا بیان درحقیقت، بے شمار برکات پر منتج ہو سکتا ہے لہذا آپ ملاحظہ فرمائیں کہ آئمہ علیہم السلام کے زمانے میں، امام حسین علیہ السلام پر رونے اور رلانے کا مسئلہ بذات خود اہمیت رکھتا ہے۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ فکر، منطق اور استدلال میں رونے کی کیا جگہ ہے اور یہ باتیں پرانی ہیں۔ نہیں یہ خیال باطل ہے۔ جذبات اپنی جگہ پر اور منطق اور استدلال اپنی جگہ پر۔ انسان کی شخصیت کی تعمیر میں دونوں کا حصہ ہے۔ بہت سے مسائل ہیں جنہیں محبت اور جذبے سے حل کیا جاتا ہے اور ان کے اندر منطق اور استدلال کی جگہ نہیں ہوتی۔ آپ اگر انبیا کی تحریکوں پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ پیغمبروں کے مبعوث ہونے کے بعد پہلے مرحلے میں کچھ لوگ ان کے گرد جمع ہوتے تھے اور اس کا بنیادی عامل منطق اور استدلال نہیں ہوتا تھا۔ آپ کو پیغمبر اسلام کی تاریخ میں جو واضح اور مدون ہے، کہاں یہ بات ملتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کفار قریش سے ان لوگوں کو جن کے اندر استعداد اور قوت استدلال پائی جاتی تھی، اپنے سامنے بٹھایا ہو اور ان کے سامنے استدلال پیش کئے ہوں کہ اس دلیل سے خدا کا وجود ثابت ہے۔ یا اس دلیل کی بنیاد پر خدا ایک ہے۔ یا تم جن بتوں کی پرستش کرتے ہو وہ اس عقلی دلیل کی بناء پر باطل ہیں۔ دلیل اور استدلال اس وقت کارگر ہوتا ہے کہ جب تحریک آگے بڑھ چکی ہو۔ پہلے مرحلے میں احساسات و جذبات پر استوار ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے میں یہ ہوتا ہے کہ یکا یک آواز بلند کرتے ہیں کہ دیکھو یہ بت ناتواں ہیں۔ پہلے مرحلے میں کہتے ہیں کہ دیکھو خدائے متعال ایک ہے قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا کس دلیل سے لا الہ الا اللہ فلاح کا باعث ہے؟ یہاں کون سا عقلی اور فلسفی استدلال پایا جاتا ہے؟ البتہ ہر سچے جذبے میں ایک فلسفی دلیل بھی پوشیدہ ہوتی ہے لیکن بحث یہ ہے کہ جب نبی اپنی دعوت شروع کرنا چاہتے ہیں تو فلسفی استدلال پیش نہیں کرتے بلکہ سچے جذبے اور احساس کو پیش کرتے ہیں۔ البتہ یہ سچا جذبہ غلط اور بے منطق نہیں ہے۔ ایسا جذبہ ہے کہ جس میں استدلال بھی موجود ہے۔ پہلے آپ اس ظلم پر جو معاشرے میں ہو رہا ہے، جو طبقاتی اختلاف پایا جاتا ہے اور لوگوں پر انسانوں اور انسانی شیطانوں کی طرف سے جو زیادتی ہو رہی ہے، اس کی جانب توجہ مبذول کراتے ہیں۔ یہ وہی احساسات و جذبات ہیں۔ البتہ بعد میں جب تحریک معقول اور معمول کی روش پر آ جاتی ہے تو منطقی استدلال کی نوبت آتی ہے۔ یعنی جو لوگ عقلی و فکری پیشرفت کا تحمل رکھتے ہیں، اعلی استدلال تک پہنچ جاتے ہیں لیکن بعض لوگ ابتدائی درجات میں ہی رہ جاتے ہیں اور معلوم بھی نہیں ہے کہ جو لوگ استدلال کے لحاظ سے بلند تر سطح کے مالک ہیں وہ معنوی درجات کے لحاظ سے بھی اعلا درجات رکھتے ہیں یا نہیں، کبھی وہ لوگ جن کی استدلالی سطح کم ہوتی ہے لیکن جذبات محکم ہوتے ہیں، مبداء غیبی سے ان کا رابطہ زیادہ مستحکم اور پیغمبر سے ان کی محبت زیادہ عمیق ہوتی ہے۔ وہ زیادہ اعلا درجات تک پہنچ جاتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے۔
روحانی اور معنوی تحریکوں میں جذبات کی اپنی جگہ ہوتی ہے۔ نہ جذبات استدلال کی جگہ لیتے ہیں اور نہ ہی استدلال جذبات کی جگہ لے سکتا ہے۔ واقعہ عاشورا، اپنی ذات اور فطرت میں، سچے جذبات کا ایک بحر بیکراں ہے۔ ایک اعلی، پاک اور منور انسان کہ جس کی اعلا ملکوتی شخصیت میں ذرہ برابر بھی شبہے کی گنجائش نہیں ہے، ایک ایسے ہدف کے لئے کہ تمام منصفین عالم جس کے صحیح اور معاشرے کے ظلم و ستم اور جارحیت سے نجات پر مبنی ہونے پر متفق ہیں، حیرت انگیز تحریک کا آغاز کرتا ہے اور کہتا ہے ایہا الناس ' ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، قال من رای سلطانا جائرا۔۔۔ بحث یہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام اپنی تحریک کا فلسفہ ظلم سے مقابلہ کرنا قرار دیتے ہیں۔ یعمل فی عباد اللہ بالاثم و العدوان بحث مقدس ترین ہدف کی ہے جس کو تمام منصفین عالم قبول کرتے ہیں۔ ایسا انسان، ایسے ہدف کی راہ میں دشوار ترین جد و جہد کرتا ہے۔
سخت ترین جدو جہد وہ ہے جو غریب الوطنی میں انجام دی جائے۔ دوستوں اور عوام کے تحسین آمیز نعروں کے درمیان قتل ہونا زیادہ دشوار نہیں ہے۔ چنانچہ صدر اسلام کی ایک جنگ میں جب حق و باطل کے لشکر آمنے سامنے ہوئے اور محاذ حق پر سب سے آگے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیرالمومنین علیہ السلام تھے، پیغمبر نے اپنے سپاہیوں سے پوچھا کون تیار ہے اس بات کے لئے کہ میدان میں جائے اور لشکر دشمن کے فلاں جنگجو کو قتل کرے؟ تو سپاہیان اسلام میں سے ایک نوجوان آگے بڑھا۔ پیغمبر نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور روانہ کیا۔ مسلمانوں نے بھی اس کے لئے دعا کی۔ وہ میدان جنگ میں گیا، جہاد کیا اور قتل ہو گیا۔ یہ جہاد کرنے اور قتل ہونے کی ایک قسم ہے۔ جہاد کی دوسری قسم وہ جہاد ہے کہ جب انسان میدان کی طرف جاتا ہے تو معاشرے کے لوگ یا اس کی طرف سے غافل ہیں یا اس کا انکار کرتے ہیں یا کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں یا اس کے مقابلے پر آتے ہیں۔ جولوگ دل سے اس کی تحسین کرتے ہیں اور ان کی تعداد بہت کم ہے، وہ زبان پر تحسین لانے کی جرائت نہیں کرتے۔
امام حسین علیہ السلام کے عاشورا کے ماجرے میں حتی عبد اللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن جعفر جیسے لوگ بھی جو خاندان بنی ہاشم اور اسی شجرہ طیبہ سے تھے، مکے یا مدینے میں، یہ جرائت نہیں کرتے کہ کھڑے ہوں اور امام حسین علیہ السلام کا نام لیکر آواز بلند کریں۔ یہ عالم غربت کا جہاد ہے اور عالم غربت کا جہاد سخت ترین جہاد ہے۔ سب دشمن ہیں، سب منہ پھیر چکے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد میں حتی بعض دوست بھی پھر گئے تھے، چنانچہ آپ نے کسی سے فرمایاآؤ میری مدد کرو اس نے مدد کرنے کے بجائے اپنا گھوڑا بھیج دیا اور کہا کہ میرے گھوڑے سے جو چاہو مدد حاصل کر لو۔ اس سے بڑی غریب الوطنی اور کیا ہوگی۔ اس سے زیادہ عالم غربت کا جہاد اور کیا ہوگا اور پھر اس عالم غربت کے جہاد میں عزیز ترین اعزا آنکھوں کے سامنے قربان ہو جاتے ہیں۔ بیٹے، بھتیجے، بھائی، چچا کے بیٹے، بنی ہاشم کے پھول بکھر جاتے ہیں۔ آنکھوں کے سامنے زمین پر گرتے ہیں یہاں تک کہ شش ماہہ بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔
ان تمام مصیبتوں کے علاوہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جسم اطہر سے روح کے نکلتے ہی، بے پناہ و بے سہارا اہل حرم پر حملہ ہوگا۔ جانتے ہیں کہ یہ بھوکے بھیڑیئے، کم سن بچیوں اور بچوں پر حملہ کریں گے ان کے دلوں پر خوف طاری کریں گے، ان کے اموال کو لوٹیں گے، انہیں اسیر بنا لیں گے، ان کی توہین کریں گے۔ جانتے ہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی والا مقام بیٹی زینب کبری سلام اللہ علیہا کے ساتھ جو اسلام کی اعلی شخصیات میں ہیں، گستاخی کریں گے۔
ان تمام باتوں کے ساتھ ہی اپنی اور اپنے اہل وعیال کی تشنگی، کمسن بچے پیاسے ہیں، بچی پیاسی ہے، بوڑھے پیاسے ہیں، حتی شیرخوار پیاسا ہے، آپ سوچ سکتے ہیں کہ یہ جہاد کتنا سخت ہے؟ ایسا عالی مرتبت انسان، ایسا پاک و مطہر اور منور انسان کہ آسمان کے ملائکہ جس کی تجلی کی زیارت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور حسین ابن علی علیہ السلام کی زیارت کے آرزمند ہیں، تاکہ ان کی زیارت سے متبرک ہوں، ایسا انسان کہ انبیاء و اولیاء جس کے مقام و مرتبے کی آرزو کریں، اتنے سخت اور دشوار جہاد میں شہید ہو جاتا ہے۔ ایسی شخصیت کی شہادت، حیرت انگیز واقعہ ہے۔ کون انسان ہے جس کے جذبات اس واقعے سے مجروح نہ ہوں گے؟ کون انسان ہے جو اس واقعے سے واقف ہو، اس کو سمجھے اور اس کا دل اس ذات کا گرویدہ نہ ہو جائے؟
یہ وہی چشمہ خروشاں ہے جو ظہر عاشوار سے شروع ہوا:اسی وقت سے جب ایک روایت کے مطابق حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا تل زینبیہ پر گئیں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فریاد کی یا رسول اللہ صلی علیک ملائکۃ السماء ھذا حسینک مرمل بالدماء مقطع الاعضاء مصلوب العمامۃ والرداء آپ امام حسین علیہ السلام کے مصائب پڑھنا شروع کرتی ہیں اور بلند آواز سے ماجرا بیان کرتی ہیں۔ جس ماجرے کو وہ چاہتے تھے کہ خفیہ رہ جائے۔ امام علیہ السلام کی خواہر گرامی کربلا میں بھی، کوفہ و شام میں بھی اور مدینے میں بھی، بلند آواز سے عاشورا کا واقعہ بیان کرتی ہیں۔ یہ چشمہ خروشاں اس دن سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ یہ عاشورا کا واقعہ ہے۔
اگر کوئی کسی نعمت سے محروم ہے تو جو نعمت اس کو نہیں ملی ہے اس کا سوال اس سے نہیں ہوگا۔ لیکن جب کوئی کسی نعمت سے بہرہ مند ہو تو اس کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔ امام حسین علیہ السلام کی یاد ایک بڑی نعمت ہے، مجالس عزا کی نعمت، محرم کی نعمت اور عاشورا کی نعمت، ہمارے شیعہ معاشرے کے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔ افسوس کہ ہمارے غیر شیعہ مسلمانوں نے خود کو اس نعمت سے بہرہ مند نہیں کیا لیکن اس نعمت سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ اس کا امکان ہے۔ البتہ بعض غیر شیعہ مسلمین محرم اور عاشورا کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن جس طرح ہونا چاہئے، اس طرح ان کے درمیان رائج نہیں ہے مگر ہمارے درمیان رائج ہے۔
اب جبکہ ہمارے درمیان محرم اور عاشورا کا ذکر اور امام حسین علیہ السلام کی یاد رائج ہے تو ہمیں ان مجالس سے کیا استفادہ کرنا چاہئے اور اس نعمت کا شکر کیسے ادا کرنا ہے؟ یہ وہی بات ہے جو میں ایک سوال کے عنوان سے پیش کرنا چاہتا ہوں اور آپ اس کا جواب دیں۔
یہ عظیم نعمت دلوں کو ایمان اسلامی کے منبع سے متصل کرتی ہے۔ وہ کام کرتی ہے جو اس نے تاریخ کے دوران کیا ہے اور ستمگر حاکموں کو عاشورا سے خوفزدہ کیا ہے۔ وہ امام حسین علیہ السلام کی نورانی قبر کے وجود سے گھبراتے تھے۔ عاشورا اور اس کے شہدا کا خوف، خلفائے بنی امیہ کے دور سے شروع ہوا ہمارے دور تک جاری ہے اور آپ نے اس کا ایک نمونہ خود اپنے انقلاب کے دوران دیکھا۔ جب محرم آتا تھا تو فاسق و فاجر کافر اور رجعت پسند پہلوی نظام دیکھتا تھا کہ اس کے ہاتھ پیر بندھ گئے ہیں اور وہ عاشورا کے شیدائی مجاہد عوام کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ درحقیقت اس نظام کے حکام محرم آنے پر خود کو ناتواں پاتے تھے۔ اس منحوس حکومت کی باقی رہ جانے والی رپورٹوں میں صراحت کے ساتھ یہ بات موجود ہے کہ وہ محرم آنے کے بعد خود کوبے دست و پا محسوس کرتے تھے۔ ہمارے عظیم امام (خمینی ) یہ عظیم ہستی، صاحب بصیرت، دین شناس، دنیا شناس، انسان شناس اور صاحب حکمت ہستی تھی اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس واقعے سے امام حسین علیہ السلام کے ہدف کو آگے بڑھانے میں کیسے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے عظیم امام (خمینی) نے محرم کو شمشیر پر خون کی فتح کےمہینے کے عنوان سے پیش کیا اور محرم کی برکت سے، اسی تجزیئے اور منطق کے ساتھ شمشیر پر خون کو کامیابی بھی دلائی۔ یہ ماہ محرم اور امام حسین علیہ السلام کے ذکر اور یاد کی مجالس کی نعمت کی تجلیوں کا ایک نمونہ ہے جو آپ نے دیکھا۔ بنابریں عوام بھی اور علماء بھی، اس نعمت سے استفادہ کریں۔ عوام کا استفادہ یہ ہے کہ سیدا الشہدا کی مجالس عزاداری سے اپنے دلوں کو وابستہ کریں اور مختلف سطح پر جہاں تک ہو سکے، زیادہ سے زیادہ ان مجالس کو برپا کریں۔ عوام خلوص کے ساتھ استفادے کے لئے ان مجالس عزائے امام حسین علیہ السلام میں شرکت کریں۔ ایسا نہ ہو کہ وقت گذارنے کے لئے یا عامیانہ انداز میں صرف آخرت کے ثواب کے لئے شرکت کریں اور یہ معلوم نہ ہو کہ یہ آخرت کا ثواب کہاں سے آتا ہے؟
یقینا ان مجالس میں شرکت آخرت کا ثواب رکھتی ہے۔ مگر دیکھنا چاہئے کہ مجالس عزا کا آخرت کا ثواب کس رخ سے اور کس پہلو سے ہے؟ یقینا ایسی جہت اور رخ سے ہے کہ اگر وہ رخ نہ ہو تو ثواب بھی نہیں ہوگا۔ بعض لوگ اس نکتے کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔ سب ان مجالس میں شرکت کریں۔ مجالس عزا کی قدر کو سمجھیں۔ ان مجالس سے استفادہ کریں۔ ان مجالس کو ذریعہ قرار دیں اپنے قلب و روح کو روح اسلام و قرآن، امام حسین علیہ السلام اور اہلبیت پیغمبر سے متصل کرنے کا۔ یہ ان فرائض میں سے ہے جن کا تعلق عوام سے ہے۔
لیکن علمائے کرام کے فرائض کے سلسلے میں مسئلہ زیادہ دشوار ہے کیونکہ مجالس اس طرح برپا ہوتی ہیں کہ لوگ جمع ہوتے ہیں اور ایک عالم ان کے درمیان آکے مجلس پڑھتا ہے، عزاداری قائم کرتا تاکہ دوسرے مستفید ہوں۔ عالم مجلس کس طرح پڑھتا ہے، کس طرح عزاداری قائم کرتا ہے؟ یہ میرا سوال ہے ان تمام لوگوں سے جو اس مسئلے میں ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں۔ میرے خیال میں حسینی عزاداری کی مجالس میں تین خصوصیات ہونی چاہئے۔
پہلی خصوصیت یہ ہونی چاہئے کہ یہ مجالس اہلبیت علیہم السلام کی محبت زیادہ کریں۔ کیونکہ محبت کا رابطہ بہت قیمتی رابطہ ہے۔ آپ علمائے کرام ایسا کام کریں کہ مجالس میں شرکت کرنے والوں میں امام حسین علیہ السلام اور اہلبیت پیغمبر کی محبت اور معرفت الہی روز بروز زیادہ ہو۔ اگر خدانخواستہ ان مجالس میں آپ نے ایسا ماحول قائم کیا کہ ان میں شرکت کرنے والے اور سننے والے جذباتی لحاظ سے اہلبیت علیہم السلام سے نزدیک نہ ہوئے بلکہ ان کے اندر دوری اور بیزاری کا احساس پیدا ہوا تو نہ صرف یہ کہ یہ مجالس عظیم ترین فوائد سے عاری ہوں گی بلکہ ایک لحاظ سے مضر بھی ہوں گی۔ اب آپ جو ان مجالس کے بانی یا ذاکر ہیں، دیکھیں کہ کیا کر سکتے ہیں کہ لوگوں کے اندر ان مجالس میں شرکت کرکے امام حسین علیہ السلام اور اہلبیت پیغمبر علیہم الصلوات و السلام سے محبت روز بروز زیادہ ہو۔
ان مجالس کی دوسری خصوصیت یہ ہونی چاہئے کہ لوگ عاشور کے واقعے سے واضح اور شفاف طور پر واقف ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم امام حسین علیہ السلام کی مجالس میں منبر پر جائیں تقریر کریں لیکن تقریر کا موضوع ایسا ہو کہ مجلس کے شرکاء چاہے وہ نوجوان ہوں یا بوڑھے، عورت، مرد اہل فکر، جو آج انقلاب کی برکات سے ہمارے معاشرے میں کافی ہیں، یہ سوچیں کہ ہم نے مجلس میں شرکت کی، گریہ کیا، لیکن کس لئے؟ معاملہ کیا تھا؟ امام حسین پر کیوں گریہ کرنا چاہئے؟ امام حسین علیہ السلام کربلا کیوں گئے کہ عاشورا کا واقعہ پیش آیا؟ بنابریں ایک ذاکر اور مقرر کے عنوان سے ایسا موضوع اختیار کریں جس میں ان تمام سوالوں کا جواب موجود ہو۔ لوگوں میں عاشورا کے واقعے کی صحیح معرفت پیدا ہو۔ اگر ذاکری اور مجلس میں ان باتوں کی وضاحت یا کم سے کم ان کی طرف اشارہ نہ ہوا تو جو تین ارکان بیان کئے گئے ان میں سے ایک رکن کم ہوگا۔ یعنی ممکن ہے کہ یہ مجلس ضروری فائدہ نہ پہنچائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ خدانخواستہ ضرر رساں بن جائے۔
ان مجالس کی تیسری ضروری خصوصیت لوگوں میں ایمان اور معرفت دین میں اضافہ ہے۔ ان مجالس میں دین کی وہ باتیں بیان ہونی چاہئے کہ جو سننے والوں کی معرفت اور ایمان بڑھائیں۔ یعنی ذاکر اور مقررکو اپنی تقریر میں ایک صحیح وعظ، ایک صحیح حدیث، کوئی سبق آموز تاریخی واقعہ، قرآن کی کسی آیت کی تفسیر یا کسی بڑے اسلامی دانشور اور بزرگ عالم دین کی بات شامل کرنی چاہئے اور سامعین تک پہنچانی چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ جب ہم منبر پر جائیں تو تھوڑی سی لفاظی کریں، باتیں کریں، اور جو بیان کریں وہ کمزور ہو جو نہ صرف یہ کہ سامعین کے ایمان کو زیادہ نہ کرے بلکہ کمزور کرے۔ اگر ایسا ہوا تو ان مجالس کے فوائد اور اہداف تک نہیں پہنچ سکیں گے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کبھی اس طرح کی باتیں بھی نظر آتی ہیں۔ یعنی کبھی ذاکر مجلس میں ایسی باتیں پڑھتا ہے جو استدلال اور عقلی و نقلی سند کے لحاظ سے بھی کمزور ہوتی ہیں اور تجزیہ کرنے والے اور اہل منطق و استدلال سامع کے لئے تباہ کن بھی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک کتاب میں کچھ باتیں ایسی لکھی ہوئی ہیں کہ جن کے جھوٹ ہونے کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ ممکن ہے سچ ہو اور ممکن ہے جھوٹ ہو۔ اگر آپ وہ باتیں بیان کریں اگرچہ یقینی نہیں ہے کہ غلط ہو، مگر ان کے سننے سے آپ کے سامعین کے لئے جو نوجوان، یونیورسٹی یا کالج کے طلبا، مجاہد اور انقلابی ہو سکتے ہیں ---- الحمد للہ کہ انقلاب نے ذہنوں کو کھول دیا ہے --- دین کے بارے میں سوال اور مسئلہ پیدا ہو سکتا ہو، مشکل پیش آ سکتی ہو تو ان باتوں کو نہ بیان کریں۔ حتی اگر صحیح ہونے کی سند ہو تو بھی۔ چونکہ گمراہی اور انحراف کا باعث ہے اس لئے اس کو نقل نہیں کرنا چاہئے، چہ جائیکہ بعض کتابوں میں موجود ان میں سے اکثر باتوں کے صحیح ہونے کی سند بھی نہیں ہے۔ کوئی شخص کسی دوسرے کی زبان سے اس طرح کی بات سنتا ہے کہ میں فلاں سفر میں فلاں جگہ تھا کہ فلا واقعہ ہوا۔ کہنے والا سند کے ساتھ یا بغیر سند کے یہ بات کہتا ہے سننے والا اس پر یقیق کرلیتا ہے اور اس کو کتاب میں لکھ دیتا ہے۔ یہ کتاب ہمارے اور آپ کے ہاتھ میں پہنچتی ہے۔ ہم اور آپ اس بات کو جو بڑے مجمع میں تحلیل و تجزیہ کرنے والے ہوشیار اور باخبر اذہان کے لئے قابل توجیہ نہیں ہے، کیوں بیان کریں؟ کیا ضروری ہے کہ جو بات بھی جہاں بھی لکھی ہو انسان اسے پڑھکر بیان کرے؟
آج ملک کے نوجوانوں کے، وہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے، عورت ہوں یا مرد، حتی ان لوگوں کے اذہان بھی کھل چکے ہیں جو جوان نہیں ہیں۔ اگر کل، انقلاب سے پہلے یونیورسٹی طلبا میں یہ خصوصیت تھی تو آج یہ بات ان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سارے ہی لوگ، مسائل کو بصیرت اور تجزیئے کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور سمجھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے آج کے معاشرے میں ثقافتی انقلاب کا ایک حصہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں شکوک پیدا کئے جاتے ہیں۔ یعنی ہمارے دشمن شک و شبہ پیدا کرتے ہیں۔ دشمن اور ہماری اور آپ کی فکر کے منکرین، شکوک پیدا کرتے ہیں۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو ہماری فکر کو قبول نہ کرے وہ چپ رہے، بولے نہ اور کوئی شک و شبہ پیدا نہ کرے؟ کیا اس طرح کہا جا سکتا ہے؟ بہرحال وہ بولتے ہیں، باتیں پھیلاتے ہیں۔ شک پیدا کرتے ہیں، شبہات پیدا کرتے ہیں۔ اہم یہ ہے کہ آپ جو بات کریں وہ شک و شبہے کو دور کرنے والی ہو بڑھانے والی نہ ہو۔
بعض لوگ اس اہم ذمہ داری پر کوئی توجہ دیئے بغیر منبر پر جاتے ہیں، ایسی بات کہتے ہیں کہ جس سے نہ صرف یہ کہ سننے والے کے ذہن کی کوئی گرہ نہیں کھلتی ہے بلکہ اس کے ذہن میں مزید شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے۔ اگر ایسا ہوا کہ ہم نے منبر پر جاکے ایسی بات کہی جس سے دس نوجوانوں، پانچ نوجوانوں یا حتی ایک نوجوان کے اندر دین کے بارے میں شک پیدا ہوا، وہ تقریر سننے کے بعد اٹھ کر چلا گیا اور ہم نے اسے نہیں پہچانا تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہوگی؟ کیا یہ قابل تلافی ہے؟ کیا خدا ہمیں معاف کر دے گا؟ مسئلہ بہت سخت ہے۔
محرم کی عزاداری کی مجلسوں میں یہ تین خصوصیات ہونی چاہئے۔ 1؛ امام حسین علیہ السلام اور اہلبیت پیغمبر سے محبت میں اضافے کا سبب بنیں۔ ( آل محمد سے محبت کے رابطے اور تعلق کو مستحکم تر کرے ) 2؛ سننے والوں کو عاشورا کے بارے میں واضح اور شفاف نقطہ نگاہ دیں۔ 3؛ دینی باتوں کی نسبت، معرفت اور ایمان پیدا کرنے میں کسی طرح مدد کریں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تمام مجالس میں یہ تمام خصوصیات پائی جائیں اور ساری باتوں کا ذکر ہو، نہیں بلکہ اگر آپ نے کسی معتبر کتاب سے ایک صحیح حدیث نقل کرکے اس کی تشریح کر دی تو کافی ہے۔ بعض ذاکرین بعض اوقات ایک حدیث کے اتنے گوشے نکالتے ہیں کہ اصلی معنی گم ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ ایک حدیث کی سامعین کے لئے صحیح تشریح کریں تو ممکن ہے کہ جو ہم چاہتے ہیں اس کا بڑا حصہ پورا ہو جائے۔ اگر آپ قرآن کریم کی کسی ایک آیت پر معتبر منابع سے فکر کریں، مطالعہ کریں باریک بینی سے جائزہ لیں اور سامعین کے لئے بیان کریں تو مقصود حاصل ہو جائے گا۔ اگر مصائب کے بیان کے لئے، محدث قمی مرحوم کی کتاب نفس المہموم کھولیں اور اس سے پڑھیں تو سننے والے روئیں گے اور ان میں وہی پرجوش جذبات پیدا ہوں گے۔ کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنے خیال میں مجلس آرائی کریں اور ایسا کام کریں کہ مجلس عزا اپنے حقیقی فلسفے سے دور ہو جائے؟
میں واقعی ڈرتا ہوں اس بات سے کہ خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس دور میں جو ظہور اسلام، اسلام کے ارتقاء، اسلام کی تجلی اور اہلبیت علیہم الصلوات و السلام کی فکر کی تجلی کا دور ہے، ہم اپنا فریضہ انجام نہ دے سکیں۔ بعض کام ایسے ہیں جن کے کرنے سے عوام الناس خدا اور دین کے نزدیک ہوتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک کام روایتی عزاداری ہے جو عوام کے دین کے زیادہ قریب ہونے کا باعث ہوتی ہے۔ یہ جو امام (خمینی) نے فرمایا ہے کہ روایتی عزاداری کرو اسی دین کے قریب ہونے کی وجہ سے فرمایا ہے۔ عزاداری کی مجلسوں میں بیٹھنا، مجلس پڑھنا، رونا، ماتم کرنا، عزاداری کے جلوس نکالنا، یہ سب وہ امور ہیں جن کے سبب لوگوں میں اہلبیت پیغمبر کے لئے محبت جوش مارنے لگتی ہے، یہ بہت اہم امور ہیں۔ اس کے برعکس بعض کام ایسے بھی ہیں جن کے کرنے سے لوگ دین سے پھر جاتے ہیں۔
مجھے بڑا افسوس ہے کہ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ حالیہ تین چار برسوں میں ماہ محرم کی عزاداری کی رسومات کے سلسلے میں بعض کام ایسے دیکھے گۓ ہیں جنہیں ہمارے معاشرے میں غلط ہاتھوں نے پھیلایا ہے۔ ایسےکام شروع کرتے ہیں اور ان کی ترویج کرتے ہیں کہ جو بھی انہیں دیکھے اس کے ذہن میں سوال پیدا ہو۔ مثال کے طور پر پرانے زمانے میں عوام الناس میں رائج تھا کہ عزاداری کے ایام میں اپنے بدن پر تالا لگاتے تھے۔ البتہ ایک مدت کے بعد بڑے علما نے اس سے منع کیا اور یہ غلط رسم ختم ہو گئی لیکن اب دوبارہ اس رسم کی ترویج شروع کر دی گئی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ ملک کے گوشہ و کنار میں بعض افراد اپنے جسم پر تالا لگاتے ہیں، یہ کیسا غلط کام ہے جو بعض افراد کرتے ہیں؟
قمہ لگانا بھی اسی طرح ہے۔ قمہ لگانا بھی غلط کاموں میں ہے۔ میں جانتا ہوں کچھ لوگ کہیں گے کہ حق یہ تھا کہ وہ قمہ کا نام نہ لیتے کہیں گے تمہیں قمہ لگانے پر کیا اعتراض ہے؟ کچھ لوگ لگاتے ہیں، لگانے دو نہیں۔ غلط کام پر خاموشی نہیں اختیار کی جا سکتی۔ جس طرح جنگ کے بعد گذشتہ چار پانچ برسوں میں قمہ لگانے کی ترویج کی گئی ہے اور اب بھی کی جا رہی ہے، اگر حضرت امام ( خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ کی حیات مبارک میں کرتے تو آپ یقینا اس کی مخالفت کرتے۔ غلط کام ہے کہ کچھ لوگ قمہ ہاتھ میں لیں، اپنے سرپر ماریں اور خون بہائیں۔ اس کام سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ یہ کام کہاں سے عزاداری ہے؟ البتہ سر پر ہاتھ مارنا عزاداری کی علامت ہے۔ آپ نے بارہا دیکھا ہوگا کہ جن لوگوں پر کوئی مصیبت آتی ہے وہ اپنے سر اور سینے پر مارتے ہیں۔ یہ معمول کی عزاداری کی علامت ہے لیکن آپ نے کہاں دیکھا ہے کہ کوئی شخص کسی مصیبت پر، اپنے عزیزتریں عزیزوں کے غم میں اپنے سر پر شمشیر مار لے اور خون بہائے۔ یہ کام عزاداری کہاں ہے؟ قمہ لگانا جعلی رواج ہے۔ ان امور میں سے ہے جو دین سے مربوط نہیں ہیں۔ بیشک خدا بھی اس کام سے راضی نہیں ہے۔ ہمارے علمائے سلف کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ وہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ یہ کام غلط اور خلاف شریعت ہے۔ آج اسلام کی حکومت اور اسلام کی تجلی کا زمانہ ہے۔ ہمیں ایسا کام نہیں کرنا چاہئے کہ برتر اسلامی معاشرے کے افراد یعنی محبان اہلبیت علیہم السلام کا معاشرہ، جو حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کے نام پر، حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام پر اور امیرالمومنین علیہ الصلوت و السلام کے نام پر فخر کرتا ہے، دنیا کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی نظر میں بے منطق اور خرافات میں مبتلا لوگوں کا گروہ سمجھا جائے۔ میں نے واقعی بہت فکر کی لیکن دیکھا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ اس بات پر یعنی قمہ لگانے کے مسئلے میں جو یقینا بدعت اور غلط ہے اپنے عزیز عوام کو آگاہ نہ کروں۔ نہ کریں یہ کام۔ میں راضی نہیں ہوں۔ اگر کوئی اس بات کا تظاہر کرے کہ وہ قمہ لگانا چاہتا ہے، میں دل سے اس سے ناراض ہوں۔ میں یہ بات سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ ایک وقت تھا جب گوشہ و کنار میں چند افراد جمع ہوتے تھے اور لوگوں کی نگاہوں سے دور، قمہ لگاتے تھے اور ان کا کام اس طرح نہیں تھا جیسے آج اس کا تظاہر کیا جاتا ہے، کسی کو ان کے غلط کام سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ کیونکہ محدود دائرے میں انجام دیتے تھے لیکن ایک وقت ایسا ہو کہ تہران، قم یا آذربائیجان کے شہروں میں کئی ہزار افراد ایک ساتھ سڑکوں پر آئیں اور اپنے سروں پر قمہ اور شمشیر سے ماریں، یہ کام یقینا غلط ہے۔ امام حسین علیہ السلام اس کام پر راضی نہیں ہیں۔ میں نہیں جانتا ہوں کہ یہ عجیب و غریب بدعت کہاں سے اور کس طرح اسلامی معاشروں اور ہمارے انقلابی معاشرے میں داخل ہوئی۔
حال ہی میں ایک عجیب وغریب بدعت زیارت کے سلسلے میں ایجاد ہوئی ہے۔ جب آئمہ علیہم السلام کی زیارت کے لئے جاتے ہیں تو صحن میں داخل ہونے کے بعد زمین پر لیٹ جاتے ہیں اور سینے کے بل خود کو گھسیٹتے ہوئے حرم تک جاتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ مدینے، عراق اور ایران میں لوگ اور بڑے علما و فقہا حضرت رسول صلوات اللہ علیہ، امام حسین علیہ السلام، امام جعفر صادق علیہ السلام، امام موسی کاظم عیلہ السلام، امام علی رضا علیہ السلام اور دیگر آئمہ علیہم السلام کے روضوں کی زیارت کے لئے جاتے رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کوئی امام یا کوئی عالم جب زیارت کے لئے گیا ہو تو صحن میں پہنچنے کے بعد زمین پر لیٹ گیا ہو اور سینے کے بل خود کو گھسیٹ کے ضریح تک پہنچایا ہو؟ اگر یہ کام اچھا مستحب اور مستحسن ہوتا تو ہمارے بزرگ اس کو انجام دیتے مگر انہوں نے یہ کام نہیں کیا۔ حتی نقل کیا گیا ہے کہ جید عالم، قوی و روشنفکر مجتہد مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی رضوان اللہ تعالی علیہ آستانے ( روضے کی چوکھٹ ) کے بوسے کو جو شاید مستحب ہو، منع کرتے تھے۔ احتمالا روایات میں آستانہ بوسی کو مستحب قرار دیا گیا ہے۔ دعاؤں کی کتابوں میں تو موجود ہے۔ میرے ذہن میں ہے کہ آستانہ بوسی کے لئے روایت بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ کام مستحب ہے وہ کہتے تھے انجام نہ دو کہیں دشمن یہ نہ سمجھیں کہ سجدہ کر رہے ہیں۔ شیعوں کو طعنہ دینے کے اسباب فراہم نہ کرو۔ لیکن آج جب کچھ لوگ حضرت امام علی رضا علیہ الصلوات والسلام کے روضے کے صحن میں داخل ہوتے ہیں تو خود کو زمین پر گرا دیتے ہیں اور دو سو میٹر تک خود کو سینے کے بل گھسیٹتے ہوئے حرم تک لے جاتے ہیں۔ آیا یہ کام صحیح ہے؟ نہیں، یہ کام غلط ہے۔ یہ دین اور زیارت کی توہین ہے۔ کون یہ بدعتیں لوگوں میں رائج کر رہا ہے؟ یہ باتیں لوگوں کو بتائیں اورذہنوں کو روشن کریں۔
دین منطقی ہے، اسلام منطقی دین ہے اور اسلام کا منطقی ترین حصہ وہ تفسیر ہے جو شیعہ، اسلام کی کرتے ہیں۔ یہ بہت محکم تفسیر ہے۔ علم کلام کے شیعہ ماہرین اپنے زمانے میں خورشید کی طرح درخشاں تھے۔ کوئی ان سے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ تمہاری منطق کمزور ہے۔ یہ متکلمین آئمہ علیہم السلام کے زمانے میں بھی جیسے مومن طاق اور ہشام بن حکم ان کے بعد بھی جیسے بنی نوبخت اور شیخ مفید اور بعد کے دور میں بھی جیسےمرحوم علامہ حلی موجود تھے۔ ان کی تعداد کافی تھی۔ ہم اہل منطق و استدلال ہیں۔ آپ دیکھیں کہ شیعہ مذہب کے بارے میں قوی استدلال کی کتنی کتابیں لکھی گئی ہیں؟! ہمارے زمانے میں مرحوم شرف الدین کی کتابیں اور علامہ امینی مرحوم کی الغدیر سر تاپا محکم اور قوی استدلال پر مبنی کتاب ہے۔ شیعہ مذہب یہ ہے یا ایسی باتیں جن کا کوئی استدلال نہیں ہے بلکہ خرافات سے مشابہ ہیں؟ ان باتوں کو کیوں وارد کرتے ہیں؟ یہ ایک بڑا خطرہ ہے جس کی طرف سے علمائے دین اور دین کی سرحدوں کے محافظین کو ہوشیار رہنا چاہئے۔
میں نے عرض کیا کہ کچھ لوگ جب یہ باتیں سنیں گے تو ہمدردی میں کہیں گے کہ بہتر تھا کہ وہ یہ باتیں نہ کرتے نہیں ' میرے لئے یہ باتیں کہنا ضروری تھا۔ مجھے یہ بات کہنی چاہئے۔ میری ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہے۔ البتہ آپ حضرات کو بھی یہ بات کہنی چاہئے۔ آپ حضرات بھی یہ کہیں۔ ہمارے امام (خمینی) ایسے صف شکن تھے کہ جہاں بھی کوئی انحرافی نکتہ دیکھتے تھے، کوئی لحاظ کئے بغیر پوری قطعیت سے بیان فرماتے تھے۔ اگر یہ بدعتیں اور غلط کام آپ کے زمانے میں ہوتے اور اس طرح رائج ہوتے تو یقینا آپ روکتے۔ البتہ جن لوگوں کے دل ان باتوں سے وابستہ ہیں وہ کہیں گے کہ انہوں نے ہماری دلچسپی کی باتوں کے بارے میں اس طرح بے مروتی کیوں کی اور اس لہجے میں کیوں بولے البتہ ان میں بھی زیادہ تر مومن، صادق اور بے لوث لوگ ہیں۔ مگر غلطی کر رہے ہیں۔ ہر جگہ کے علمائے کرام پرعائد ہونے والی بڑی ذمہ داری وہی ہے جو میں نے عرض کی۔ امام حسین علیہ الصلوات و السلام کی عزاداری کی مجالس ایسی مجالس ہیں کہ جنہیں معرفت کا سرچشمہ ہونا چاہئے۔ ان تین خصوصیات کو منبع ہونا چاہئے جو عرض کی گئیں۔
ہماری دعا ہے کہ خداوندعالم آپ کو کامیاب کرے۔ جو بات رضائے پروردگار کا موجب ہے اس کو پوری قوت، بے خوفی اور پوری تندہی سے بیان کریں اور ان اپنے فریضے کو ادا کریں۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ