میں بھی نورانیت و حریت کا پیغام لانے والے اور انسانیت کو اس کی آخری بلندیوں تک پہچانے والے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلوات و السلام کے یوم ولادت باسعادت پر، دنیا کے تمام مسلمانوں، عزیز ایرانی قوم، حاضرین محترم اور عزیز مہمانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم ولادت، ہم مسلمانوں کے لئے کئی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دن بہت ہی اعلا معنی و مفاہیم رکھتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس دنیا میں آپ کی ولادت با سعادت، ایسے وقت میں ہوئی جب بشریت، صرف ایک قوم یا ایک ملک کے رہنے والے نہیں بلکہ پوری انسانیت میں دو نمایاں خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ ایک خصوصیت یہ تھی کہ انسان علمی، عقلی اور فکری لحاظ سے اس سے پہلے کی ادوار کی نسبت، کافی ترقی کر چکا تھا۔ ان کے درمیاں فلاسفر، سائنسداں، ریاضی داں، ڈاکٹر، انجینئر موجود تھے اور تہذیب و تمدن وجود میں آ چکے تھے۔ یہ تمدن بغیر علم کے تو وجود میں نہیں آ سکتے تھے۔ مغرب کی اکادمیاں اور مشرق کے تمدن، چینی تمدن، مصری تمدن اور تاریخ کے دیگر عظیم تمدنوں سے انسان گذر چکا تھا۔ یعنی انسان کامل ہو چکا تھا۔ یہ ایک خصوصیت تھی۔
دوسری خصوصیت، ان دونوں خصوصیتوں کا ایک ساتھ ہونا تھا۔ ایک بہت عجیب بات یہ کہ اس دور کا انسان، اخلاقی لحاظ سے ہمیشہ سے زیادہ پست ہو چکا تھا، دوسرے الفاظ میں پستی عروج پر پہنچ چکی تھی۔ علم و دانش کا مالک یہی انسان تعصبات، خرافات، خود پسندیوں، ظلم وستم اور قاتل نیز انسانیت مخالف حکومتی نظاموں کا اسیر بن کر رہ گیا تھا۔ دنیا کی حالت یہ تھی۔ کوئی اگر تاریخ کا مطالعہ کرے تو دیکھے گا کہ اس دور میں پوری بشریت اسیر تھی۔ جیسا کہ امیر المومنین علیہ الصلوات و السلام کے کلام میں ہے فی فتن داستھم باخفافھا و وطئتھم باظلافھا و قامت علی سنایکھا۔ ( 1) دنیا فتنہ و فساد، مشکلات اور برادرکشی کا شکار تھی۔ انسان بہت تلخ زندگی گذار رہا تھا۔ نومھم سھود اسی خطبے میں امیر المومنین فرماتے ہیں لوگ سکون سے سو نہیں سکتے تھے۔
اگر کوئی یہ سوچے کہ یہ مشکلات جزیرۃ العرب سے مخصوص ہیں تو یہ غلط ہے۔ نہیں، بلکہ اس دور کے تمدن کے مرکز یعنی روم کو بھی آپ دیکھیں تو وہاں بھی یہی صورتحال تھی۔ وہاں بھی جہاں کے لئے دعوی کرتے تھے کہ ڈیموکریسی، پارلیمنٹ اور سینٹ تھی، بدعنوانی اور استبداد کی ایسی حکمرانی تھی کہ وہاں کی کتاب پڑھے تو انسان شرم محسوس کرتا ہے کہ انسان کسی زمانے میں اتنی پستی میں پہنچ گیا تھا! ہمارا قدیمی ایران بھی اس لحاظ سے روم سے بہتر حالت میں نہیں تھا۔ ان کے پاس بھی طاقت، تلواریں، نیزے، جنگجو اور سپاہی وغیرہ تھے مگر اسی کے ساتھ طبقاتی اختلافات، ظلم، نسلی امتیاز، برائیاں، زور زبردستی، جہالت اور خرافات بھی بہت زیادہ تھیں۔ ان حالات میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بشریت کی نجات کے لئے اس دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔
یہ جو تاریخ اور کتابوں میں ہے کہ قیصر کے محل کے کنگورے ٹوٹ کر گر گئے اور دنیا کے گوشہ وکنار میں شرک و بت پرستی کے مظاہر لرز گئے، اگر یہ باتیں صحیح ہوں تو شاید، یہ وہی الہی طاقت کا مظاہرہ اور اس بات کا اعلان تھا کہ الہی طاقت کا یہ مظہر ظلم و جور کی بنیادوں کو ختم کر دے گا اور دنیا کو خرافات اور تمدن کو ظلم اور برائیوں سے پاک کر دے گا۔ ہمارے پیغمبر اکرم صلی للہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ کام کیا۔ آپ ایسی دنیا سے روبرو ہوئے اور بہت سخت جہاد کے ذریعے انسانیت کو جہالت، خرافات، برائیوں، ظلم، خانماں سوز تعصب، زور زبردستی، ظلم وستم، اور دھوکہ و فریب سے نجات دلائی۔ آپ نے بشریت کی حالت ہی بدل دی۔ دنیا میں ایک نئی بساط اور نئی صورتحال پیدا کی۔ ظاہر ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کام یہ نہیں تھا کہ پوری دنیا کی اصلاح کریں۔ نہیں بلکہ آپ کا کام یہ تھا کہ یہ صحیح اور عملی نمونہ وحی سے حاصل کرکے انسان تک پہنچا دیں تا کہ انسان زندگی میں اس کی پابندی کرے اور ہر لمحہ اس سے استفادہ کرے۔ اب یہ کہ کس نے عمل کیا اور کس نے ضائع کر دیا، یہ دوسری بحث ہے۔ آپ نے اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا کر دی، اپنا کام مکمل کر دیا اور جوار رحمت الہی میں تشریف لے گئے۔
آج بھی یہ دن اس لحاظ سے اہم ہے کہ دنیا کو دیکھیں کہ آج بھی دنیا نے کافی ترقی بھی کر لی ہے اور اخلاقی لحاظ سے بہت زیادہ پستی میں جا چکی ہے۔
دنیا کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ دنیا کی تسلط پسند طاقتیں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی بتاتی تھیں۔ میری نظر میں دنیا میں انسانیت کی تباہی و بربادی سے زیادہ بری چیز کوئی اور نہیں ہے۔ یہ جو روایات کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ دنیا میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو برائیوں کا حکم دیں گے اور اچھائیوں سے روکیں گے لوگ تعجب کرتے تھے کہ برائی اچھائی کیسے ہو جائے گی انسان احساس کرتا ہے کہ آج بھی بے لگام، تسلط پسند، مغرور و متکبر استکباری طاقتوں نے دنیا کی یہی حالت کر دی ہے۔ سیدھے سیدھے عوام سے جھوٹ بولتے ہیں اور اس جھوٹ کو مقدس کام بتاتے ہیں۔ ظلم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اس ظلم کی وجہ سے ظالم کو حق بجانب قرار دیتے ہیں، مظلوم کی مذمت کرتے ہیں، مظلوم پر مصیبتیں ڈھاتے ہیں اور مظلوموں پر اس ظلم کو اچھا بتاتے ہیں۔
آج دنیا کی یہ حالت ہے۔ کچھ لوگوں نے جا کے فلسطین کو غصب کر لیا ہے اور فلسطین کے غصب پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے۔ چالیس سال سے زیادہ عرصے سے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کیا ہے، انہیں بے وطن کیا ہے، ان کا قتل عام کیا ہے، ان کی تحقیر اور تذلیل کی ہے۔ یہ کھلی ہوئی برائی ہے۔ اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس جائے اور آپ پر ظلم ڈھائے تو کون ایسا ہوگا جو اس کو خطاوار نہ کہے؟ ظالم کو غلط کہنا چاہئے۔ آج آپ ملاحظہ فرمائیں یورپی طاقتیں، امریکا اور ان کے زرخرید، جو ان طاقتوں کے قبضے میں ہیں، وہ حکومتیں جو امریکا کے اشارے پر برسراقتدار آئی ہیں اور اپنی اقوام سے ان کا کوئی رابطہ نہیں ہے، سب لام بند ہو گئی ہیں کہ اس ظالم کو جس نے اس طرح کھلے عام ظلم کیا ہے اور ظلم کو جاری رکھا ہے، اس کو منظوری دے دیں۔ دوسری طرف مسلمان فلسطینی اور لبنانی نوجوان جو ظلم سے عاجز اور جاں بلب ہو چکے ہیں، جب اس ظلم و ستم کے خلاف مجاہدت کرتے ہیں جو تمام معقول انسانوں کی نظر میں پسندیدہ کام ہے، تو ہر طرف سے آواز اٹھ رہی ہے کہ یہ دہشتگرد ہیں۔ یہ ظالم ہیں۔ کیوں مارا؟ کیوں قتل کیا؟ کیوں نہیں جھکتے؟ کیوں سازباز نہیں کرتے؟
اس سے بڑی برائی دنیا میں اور کوئی نہ ہوگی۔ یہ برائی ہے۔ بعد ما ملئت ظلما و جورا ( 2) یعنی اسی حالت کا پیدا ہو جانا۔ یورپ میں، سابق یوگوسلاویہ میں کچھ لوگ جمع ہوئے اور اسی علاقے کے لوگوں کا، بوسنیا ہرزے گووینا کے عوام کا جو یہیں کے ہیں، یہیں کے باشندے ہیں، مہاجر نہیں ہیں، نہ صرف یہ کہ خود مہاجر نہیں ہیں بلکہ ان کی دس پشتیں یہیں کی رہنے والی ہیں، اس سرزمین کے باشندے اور اسی نسل کے لوگ ہیں، ان کا محاصرہ کر لیا ہے۔ ان کے سروں پر بم برسائے ہیں۔ ان کی زندگی تباہ کر دی ہے۔ ان کو ان کے اپنے وطن سے باہر کر دیا ہے۔ ان کے ہزاروں افراد کو قتل کر دیا ہے۔ ان کا مال و دولت سب کچھ لوٹ لیا ہے۔ پناہ گزیں کیمپوں میں ان پر بدترین مصبیتیں ڈھائی ہیں۔ حتی ان کی ناموس پر بھی حملے کئے ہیں۔ اور پھر یہی انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق، حیوانا ت کے حقوق اور اسی طرح کے دوسرے جھوٹے دعوے جو آج دنیا میں رائج ہیں، ان کے دفاع کے دعویدار خاموش بیٹھے تماشا دیکھتے رہے۔ انہوں نے صرف ایک کام کیا کہ علاقے کا محاصرہ کر لیا تا کہ ان لوگوں تک اسلحہ نہ پہنچنے پائے۔
حیرت ہے۔ کروٹوں اور سربوں کو تو کسی کے اسلحے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے آکے ایک غیر مسلح قوم کا محاصرہ کیا ہے۔ تم نے آکے انہیں گھیر لیا ہے کہ کوئی اس علاقے میں اسلحہ نہ لائے؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ بے شرمی نہیں ہے کہ کوئی اس کو امن پسندی کہے؟ یہ امن پسندی ہے یا لاچار مسلمانوں کا قتل عام ہے؟ دنیا کی سب سے بڑی برائی یہ ہے۔ بڑی برائی یعنی یہ۔ اس وقت تقریبا دوسال سے سابق یوگوسلاویہ کے علاقے میں مسلمانوں کی یہ نسل کشی جاری ہے۔ انہوں نے دو سال سے صرف باتیں بنائی ہیں۔ جو لوگ سنجیدگی کے ساتھ کچھ کرنا چاہتے تھے انہیں کرنے نہیں دیا۔ ہم اس قضیے میں سنجیدہ تھے۔ ہمارے عوام، ہمارے نوجوان، ہماری حکومت، ہمارے ملک کے ادارے، خدا کو حاضر و ناظر جان کر ہر وہ کام کرنے کے لئے تیار تھے جو ان کے بس میں تھا۔ بعض دیگر اسلامی ممالک بھی سنجیدہ تھے۔ اس کو ہم نے آشکارا دیکھا۔ واقعی اس قضیے میں بعض اسلامی ممالک سنجیدہ تھے اور انہوں نے امریکا وغیرہ کا منہ نہیں دیکھا۔ جو سنجیدہ تھے ان کو باہر ہی روک دیا کیونکہ علاقہ ان کے کنٹرول میں ہے۔
حضرات 'ایرانیو' دنیا کے لوگو' جان لیجئے کہ یہ ایران عراق جنگ کے سلسلے میں بھی یہی کرنا چاہتے تھے۔ مگر نہ کر سکے۔ ان کی آرزو تھی کہ جو مصیبت انہوں نے یورپ میں بوسنیا ہرزے گووینا کے مسلمانوں پر ڈھائی ہے، وہی یہاں ایرانی مسلمانوں پر بھی ڈھاتے۔ افغانستان میں افغانی مسلمانوں پر بھی وہی مصیبت ڈھانا چاہتے تھے۔ یہ ان کی آرزو تھی، وہ کرنا چاہتے تھے۔ مگر نہ کر سکے۔ اب وہاں ان کا زور چل گیا ہے۔ ان لاچار لوگوں پر جو وہیں کے باشندے ہیں، یورپی ہیں، یہ مصیبت ڈھائی ہے۔ یہ دنیا اور دنیا کی اخلاقی برائیوں کی حالت ہے۔
البتہ علم نے ترقی کی ہے۔ کچھ لوگ بیٹھ کے امریکا اور دوسری جگہوں کی علمی ترقی کو رشک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ علمی ترقی یقینا قابل تعریف ہے۔ پسماندہ ملکوں کی علمی پسماندگی یقینا ایک مصیبت ہے اور خدا ان لوگوں کو جنہوں نے مسلم اقوام کو اس مصیبت میں مبتلا کیا ہے، بدترین عذاب میں مبتلا کرے، پہلوی اور قاجار نسل کے حکام پر خدا کی لعنت ہو کہ انہوں نے گذشتہ دو سو برسوں میں ہماری قوم کو اس مصیبت میں مبتلا کیا۔ پہلی بات یہ ہے کہ علم میں ہم امریکا سے بہت آگے تھے۔ کسی زمانے میں علمی لحاظ سے ہم یورپ سے بہت آگے تھے۔ یہی سلاطین، یہی ظالم حکومتیں، یہی فرعون، یہی طاغوت یہی جن کی باقیات آج یہاں اور وہاں اخبارات اور جرائد چھاپتی ہیں اور ہر چیز کا دم بھرتی ہیں، انہیں نے اس قوم کو اقوام عالم کے برابر اور ان سے آگے نہ جانے دیا۔ جی ہاں علمی پسماندگی افسوسناک ہے۔ اس کا چارہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان، بڑے، بوڑھے، دانشور، حکام سب کوشش کریں اور اس خلا کو پر کریں۔ مگر یہ کہ فلاں ملک نے علمی ترقی کی ہے، یہ اس ملک کی نجات اور فلاح کی دلیل نہیں ہے۔ اس کو جان لیں۔ بہت سی اقوام ہیں جو آج علمی لحاظ سے عروج پر ہیں مگر گردن تک برائیوں اور پستی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ آج بھی دنیا میں بڑے ناموں کے ساتھ، سپر طاقتوں کے زیر سایہ ایسی اقوام زندگی گذار رہی ہیں۔ اس کو جان لیں۔ ان ملکوں میں عورت بدبخت ہے۔ مرد بے چارہ ہے۔ نوجوان تباہ و برباد ہیں۔ وہاں برائیاں، فحاشی، منشیات کی عادت، جرائم اور ہر قسم کی برائی، قتل عام کا بازار گرم ہے، مگر تشہیراتی پردے ان المیوں اور بدعنوانیوں کو برملا نہیں ہونے دیتے۔ جب ایک مضبوط لاؤڈ اسپیکر ایک جاہل اور ظالم کے ہاتھ میں ہو ان ہزاروں لوگوں کے درمیان جن کے پاس لاؤڈ اسپیکر نہیں ہے تو ان ہزاروں لوگوں کے درمیان عالم و فاضل لوگ بھی ہوں تب بھی اس کی آواز ان کی آواز پر غالب رہتی ہے۔ آج دنیا کی حالت یہی ہے۔
آج دنیا کے تشہیراتی نیٹ ورک صیہونیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ اکثر مشہور نیوز ایجنسیاں صیہونی ہیں۔ صیہونی اسلام کی نسبت کیا کریں گے؟ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں کیا کریں گے؟ اس قوت کے تعلق سے جو مسئلہ فلسطین اور فلسطینی اقدار کے لئے ڈٹی ہوئی ہے، کیا کریں گے؟ ظاہر ہے کہ وہ جو کچھ کہیں گے وہ گالی ہوگی یا الزام ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہو تو تعجب کرنا چاہئے۔ یہ آج کے سلسلے میں ایک نکتہ ہے جو طویل ہو گیا۔
دوسرا نکتہ اختصار کے ساتھ بیان کروں گا اور وہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ میرے عزیزو 'مسلمین عالم، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے نام پر دوسری چیزوں کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے متحد ہو سکتے ہیں۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خصوصیت ہے۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مسلمانوں کا جذباتی لگاؤ ہے، مسلمان اپنے پیغمبر سے محبت کرتے ہیں۔ خدایا تو شاہد ہے کہ ہمارے دل محبت پیغمبر سے سرشار ہیں۔ اس محبت سے استفادہ کرنا چاہئے۔ یہ محبت راستہ کھولنے والی ہے۔ آج مسلمانوں کو اخوت و برادری کی ضرورت ہے۔ آج انما المومنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم (3) کی دعوت کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ آج دنیا میں مسلمانوں کی کمزوری اور تحقیر ان کے اختلاف و تفرقے کا نتیجہ ہے۔ اگر مسلمان متحدہ ہوتے، تو فلسطین کی یہ حالت نہ ہوتی۔ بوسنیا کی یہ حالت نہ ہوتی۔ کشمیر کی یہ حالت نہ ہوتی۔ تاجکستان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ یورپ کے مسلمان اتنی مشقت کی زندگی سے دوچار نہ ہوتے۔ امریکا میں مسلمانوں کے ساتھ اس طرح زروزبردستی نہ کی جاتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے مسلمانوں کی وحدت کی دعوت دی، تمام استکباری طاقتیں اس پر ٹوٹ پڑیں، البتہ اسلامی جمہوریہ ایران نے تن تنہا ان سب کا مقابلہ کیا، کیوں؟ اس لئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران وحدت و اتحاد کا منادی ہے اور یہ طاقتیں مسلمانوں کی وحدت و اتحاد کو اپنے نقصان میں سمجھتی ہیں۔ بنابریں کوشش کرتی ہیں کہ اس اتحاد کو ختم کر دیں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ شیعہ و سنی علماء ایران سمیت دنیا میں جہاں بھی ہیں، ہوشیار رہیں۔ ایران میں یہ وحدت قربانیوں سے حاصل ہوئی ہے۔ دنیا میں وحدت کی اس آواز نے قربانیوں کے نتیجے میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ اس کو آسانی سے ختم نہ ہونے دیں۔ جو بھی اس کو توڑے اس نے خیانت کی ہے۔ وہ چاہے جو بھی ہو۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ شیعہ ہے یا سنی۔
ہمارے امام (خمینی) نے اسلام کو سرافراز کرنے میں کامیابی اس لئے حاصل کی کہ آپ نے مسلمانوں کے درمیان وحدت کی ضرورت کا احساس کیا اور دنیا کے گوشے گوشے میں مسلمانوں نے آپ کی آواز پر عمل کیا۔ اس نے یہ نہ سوچا کہ میرا مذہب کیا ہے ؟ میں سنی ہوں اور وہ شیعہ، میں شیعہ ہوں اور وہ سنی دشمن کے لئے یہ صورتحال مضر ہے۔ دشمن اس وحدت کو توڑنا چاہتا ہے۔ اب اگر کوئی دوست اس کو توڑے تو؟ استکباری طاقتوں کے بجائے خود ہم اور آپ اپنی باتوں سے، اپنی تحریروں سے، اپنی گفتگو سے اس وحدت کو توڑیں تو؟ شیعہ کو سنی سے اور سنی کو شیعہ سے الگ کریں تو کیا ہوگا؟ جب یہ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے تو سنی فرقوں کا نمبر آئے گا۔ اس فرقے کو اس فرقے سے الگ کریں گے۔ اس اصول کی پیروی کرنے والے کو اس اصول کی پیروی کرنے والے سے الگ کریں گے۔ اس فروع کی پیروی کرنے والے کو اس فروع کی پیروی کرنے والے سے الگ کریں گے۔ پھر شیعوں کا نمبر آئے گا۔ اس فرقے کو اس فرقے سے اور اس گروہ کو اس گروہ سے الگ کریں گے۔ کیا کسی کو باقی رہنے دیں گے؟ ہم دشمن کی خواہش کے مطابق عمل کیوں کریں؟ امام (خمینی) جو اتنا زیادہ وحدت پر زور دیتے تھے، اس کی وجہ یہی تھی کہ یہ کوئی جذباتی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک عقلی مسئلہ ہے۔ جو بھی کسی فرقے کے مقدسات کی توہین کرے، دوسرے فرقے کے ساتھ تشدد آمیز اور توہین آمیز سلوک کرے، جتنا اس کا کام کاری ہوگا، اتنا ہی وحدت کو ضرب لگے گی۔ وہ چاہے جو بھی ہو۔
کچھ کتابیں ایسی ہیں جو پٹرو ڈالر کے ذریعے بعض عالم نما لوگوں سے شیعوں کے خلاف بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اسلام کے خلاف، شیعوں کے خلاف، امام (خمینی) کے خلاف اور انقلاب کے خلاف لکھوائي گئی ہیں۔ انہیں کتابوں میں سے ایک میر ے پاس پنہچی ہے۔ میں نے یونہی سرسری نگاہ ڈالی کہ دیکھیں کیا لکھتے ہیں اور اس کے مقابلے میں کیا کیا جانا چاہئے؟ اتنی قابل تعریف کوششیں اتحاد کے لئے کی جا رہی ہیں۔ یہی انجمن تقریب مذاہب اسلامی جو یہاں ہے، یا دنیا میں اتحاد کو جو دیگر کوششیں ہو رہی ہیں، ان سب کو چھوڑ دیا جائے صرف اس لئے کہ ایک جاہل، خبیث اور زرخرید نے یہ کام کیا ہے؟ حقائق کو بے نقاب کرنے کے بجائے ہم بھی جواب میں توہین اور تفرقہ انگیزی شروع کر دیں؟ یہ صحیح ہوگا؟ یہ وہی چیز ہے کہ جشن میلاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اس سے روکتا ہے۔
پالنے والے تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہے، امت اسلامیہ کی فلاح ونجات کی طرف ہدایت فرما۔ ہمیں، ہمارے فرائض سے آگاہ فرما۔ ہمارے عظیم امام کی روح مقدس کو پغمبر اکرم کے ساتھ محشور فرما۔ اس راہ کے شہیدوں کو شہدائے صدر اسلام کے ساتھ محشور فرما۔ ہمیں ہمارے فرائض سے آگاہ فرما ۔حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی فرما۔
1- نہج البلاغہ خطبہ دوم۔ (جنگ صفین سے واپسی پر )
2- یملاء الارض قسطا وعدلا بعد ما ملئت ظلما و جورا / اعلام الوری ص 401 (حدیث نبوی )
3- حجرات ؛ 10