قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس بصیرت، استقامت، بروقت میدان عمل میں موجودگی جیسی خصوصیات کی وجہ سے یہ قوم کبھی بھی شکست سے دوچار نہیں ہوگی اور 2 مارچ 2012 کو منعقد ہونے والے انتخابات میں یہ قوم ایک بار پھر اپنی ہوشیاری اور موقعہ شناسی کا ثبوت پیش کرے گی۔ آپ نے فرمایا کہ ایرانی قوم نویں پارلیمنٹ کے انتخابات میں اپنی پرجوش اور بھرپور شرکت سے ایک بار پھر دشمن کو طمانچہ رسید کرے گی۔
شاہی حکومت کے خلاف انتیس بہمن سنہ 1356 ہجری شمسی مطابق 18 فروری سنہ 1978 عیسوی کے اہل تبریز کے تاریخی قیام کی مناسبت سے ہزاروں کی تعداد میں تہران آنے والے صوبہ آذربائیجان اور مرکزی شہر تبریز کے علماء، حکام اور مختلف عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کے واقعات کو بلندیوں اور اعلی اہداف کی جانب پیش قدمی کے عمل کے لئے اہم سبق اور بنیادی معیار قرار دیا اور گیارہ فروری کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے جشن مین کروڑوں کی تعداد میں ایرانی عوام کی شرکت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سال سبھی کو بخوبی یہ اندازہ تھا کہ گزشتہ برسوں کی نسبت گیارہ فروری کے جشن میں عوام کی شرکت زیادہ بڑی تعداد میں اور زیادہ جوش و خروش کے ساتھ ہوگی تاہم یہ سوال اپنی جگہ پر بہت اہم ہے کہ اس سال عوامی شراکت کی ماضی سے زیادہ شوکت و عظمت کی وجہ کیا تھی؟ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس کا جواب عوام کی بصیرت اور موقعہ شناسی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتا کیونکہ ملت ایران کو اس سال احساس ہو گیا کہ ملک، نظام اور اسلام کو اس شراکت کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
میں تمام بھائیوں اور بہنوں کا جو سردی کے اس موسم میں طولانی سفر طے کرکے صوبہ آذربائیجان کے صدر مقام تبریز اور دیگر اضلاع سے یہاں تشریف لائے اور اپنی اس تشریف آوری سے ہمارے اس حسینیہ کی فضا کو روحانیت اور مہر و محبت کی خوشبو سے معطر کر دیا، تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہر سال انتیس بہمن (مطابق اٹھارہ فروری) کی تاریخ مجھ حقیر کے لئے اس شیریں سالانہ ملاقات کی سوغات لیکر آتی ہے اور اس مقام پر آذربائيجان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے غیور اور شجاع نوجوانوں اور عزیزوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ میرے لئے یہ ملاقات بڑی دل آویز اور شیریں ملاقات واقع ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ آپ عزیزوں پر اپنے الطاف، اپنی ہدایت خاص اور غیبی امداد میں روز بروز اضافہ کرے اور آپ وطن عزیز کے زیادہ روشن، زیادہ شیریں اور زیادہ پرکشش مستقبل کا عینی مشاہدہ کریں۔ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام سے ہمیں جو سبق اور جو عبرتیں حاصل ہوئی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں اور قدم بقدم ہمارے عوام کی، ہمارے حکام کی اور خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کی بلندیوں کی جانب پیش قدمی میں مدد کرتی ہیں۔ ہمیں حاصل ہونے والی عبرتیں، ہمارے تجربات اور ہمارے مشاہدات، یعنی یہ صرف معلومات نہیں ہیں بلکہ ہم نے ان کا مشاہدہ کیا ہے، ہمیں ان مشاہدات سے رہنمائی ملتی ہے۔ اس کا ایک نمونہ جسے میں بیان کرنا لازمی سمجھتا ہوں یہی بائیس بہمن (گیارہ فروری کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ) کی ریلیوں میں عوام کی عظیم الشان شرکت ہے۔ یہ بات سب نے کہی کہ اس سال جلوسوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد گزشتہ برسوں کی نسبت زیادہ تھی، لوگوں کا جوش و جذبہ زیادہ تھا اور لوگوں کی خوشی دوبالا تھی۔ کیوں؟ یہ ایک دو لوگوں کی بات نہیں ہے۔ تہران میں، صوبوں میں، تبریز، اصفہان، مشہد اور دیگر شہروں میں جہاں کی خبریں ہمیں ملی ہیں، لوگوں کی شراکت بڑی عظیم الشان تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس عظیم شراکت کی وجہ کیا ہے؟ اس سال ایسا کیا ہوا کہ عوام زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ، زیادہ شوق و رغبت کے ساتھ اور زیادہ انس و محبت کے ساتھ میدان میں نکلے اور سڑکوں کو اپنے وجود سے پر کر دیا؟ اس سوال کا جواب ہمارے لئے بڑا اہم درس بھی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ملت ایران نے اس سال محسوس کیا کہ وطن عزیز، اسلامی نظام اور دین اسلام کو اس شراکت کی ضرورت اور احتیاج ہے۔ شرپسند اور موذی دشمن کہ جس کے اختیار میں دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ عامہ اور مواصلاتی وسائل ہیں اور مغرب کے بہت سے سیاستداں اس کے مہرے ہیں، یعنی یہی سرمایہ داروں کا محاذ، یہی بڑے بڑے کارٹل، یہی بڑے بڑے ٹرسٹ، یہ کثیر القومی کمپنیوں کے مالکان، یہ خون چوس جانے والے سرمایہ دار، یہ صیہونی، یہ عالمی صیہونی نیٹ ورک جس کے اختیار میں دنیا کے ذرائع ابلاغ عامہ، انتہائی پیشرفتہ الیکٹرانک میڈیا ہے، یہ ٹی وی چینل ہیں، جس کے اختیار میں انٹرنیٹ نیٹ ورک ہے، یہ لوگ کئی مہینوں سے اپنے پروپیگنڈوں میں یہ تاثر عام کرنے کی کوشش شروع کر رہے تھے کہ ملت ایران میں نظام کے تعلق سے، اسلام کے تعلق سے، اعلان شدہ اہداف کے تعلق سے بے رغبتی اور عدم دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ اس کا خوب پرچار کیا، اپنے تشہیراتی لاؤڈ اسپیکروں سے بار بار یہ بات دوہرائی تا کہ عظیم الشان ملت ایران کو اس جھوٹ کا یقین دلا دیں۔ مقصد کیا تھا؟ مقصد یہ تھا کہ ایران کی شجاع قوم، باایمان قوم، سخت اور دشوار امتحانوں پر ہمیشہ پوری اترنے والی قوم میں بے دلی کی کیفیت پیدا ہو جائے۔ جب کسی قوم میں یہ کیفتیت پیدا ہو جاتی ہے تو قومی دفاع بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ جب قوم میدان سے ہٹ جائے تو حکام تنہا رہ جاتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی سیاسی نظام قوم کی پشتپناہی کے بغیر اپنا مشن آگے نہیں لے جا سکتا۔ دشمن یہی چاہتا تھا۔ خاص طور پر گیارہ فروری کے جلوسوں کو انہوں نے ذہن میں رکھا اور انواع و اقسام کے تشہیراتی حربے اختیار کئے کہ شاید انقلاب کی سالگرہ کے جلوسوں میں عوام کی شرکت کو محدود کر سکیں، عوامی شراکت کی رونق کو کم کر سکیں، عوام کو ان جلوسوں سے دور رکھ سکیں۔ عوام اس چال کو بھانپ گئے۔ جس چیز کو دیکھ کر انسان حیرت کے سمندر میں غوطے لگانے لگتا ہے، وہ چیز جس کی وجہ سے انسان اس قوم کی عظمت کو سلام کرکے فخر محسوس کرتا ہے، وہ چیز ملت ایران کی یہی بصیرت اور موقعہ شناسی ہے۔ ۔۔۔(1) عوام الناس کی یہ بے مثال بصیرت، یہ موقعہ شناسی انسان کو مبہوت کر دیتی ہے۔ اسی خصوصیت نے اس قوم کو ثابت قدم رکھا ہے، اسی سے ملک کو تحفظ ملا ہے۔ ملت ایران نے بھانپ لیا کہ اس وقت دشمن کا ہدف کیا ہے؟ قوم نے اپنے اقدام سے دشمن کو بھرپور طمانچہ رسید کیا۔ اپنی بھرپور شراکت کے ذریعے دشمن کے سارے کئے دھرے پر پانی پھیر دیا۔ بچے، نوجوان، بوڑھے اور سن رسیدہ افراد، مرد اور عورتیں پورے ملک میں سڑکوں پر نکلے۔ مجھے جو مصدقہ اطلاعات ملیں ان کے مطابق ملک کے کم از کم ساڑھے آٹھ سو شہروں میں عوام کی ایسی زبردست شرکت رہی کہ ٹیلی ویزن بھی اس عظیم واقعے کو پوری طرح منعکس کرنے سے قاصر ہے۔ یہ ہے ملت ایران، یہ ہے بصیرت، یہ ہے قوم کی موقعہ شناسی اور شراکت۔ اس قوم کو ہرگز شکست نہیں ہو سکتی۔ جن لوگوں تک اس کا پیغام پہنچنا تھا پہنچ گیا۔ جو لوگ شراب کے نشے میڈ دھت اپنے بیمار دماغوں میں ملت ایران کے خلاف کچھ منصوبے بنا رہے تھے ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ ایران کے کیا حالات ہیں؟! انہوں نے اپنے پروپیگنڈوں میں ایک بار پھر اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن اس حقیقت کا ادراک جسے ہونا چاہئے تھا اسے اس کا ادراک ہو گیا۔ ہمارے دشمنوں کے خفیہ ادارے، اسلامی جمہوریہ کے دشمن ممالک کے سیاستداں سب سمجھ گئے کہ ملت ایران کس طرح میدان میں ثابت قدمی سے کھڑی ہوئی ہے؟! ویسے انہوں نے اس عوامی شراکت کو بھی چھپانے کی بڑی کوشش کی کیونکہ اس سے ان کی رسوائی ہوگی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو میڈیا کی آزادی کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔ جن کا دعوی ہے کہ وہ کبھی بھی خبروں کو نہیں چھپاتے، کسی خبر کو مخفی نہیں رکھتے، سینسر شپ کے قائل نہیں ہیں۔ اگر وہ واقعی سینسر نہ لگاتے تو ملک بھر میں نکلنے والے جلوسوں میں شرکت کرنے والے عوام کی کروڑوں کی تعداد کے بارے میں یہ نہ کہتے کہ تہران میں چند ہزار لوگ آئے تھے! یہ چند ہزار لوگ تھے؟! گیارہ فروری کو تہران میں سڑکوں پر نکلنے والے لاکھوں افراد آپ کو بس چند ہزار نظر آئے؟! فرما رہے ہیں کہ پورے ایران میں کچھ لاکھ افراد نے جلوسوں میں شرکت کی! یہ کچھ لاکھ کی تعداد تھی؟! ایک ایک شہر میں لاکھوں افراد نے جلوسوں میں شرکت کی ہے، پورے ملک میں کروڑوں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر انقلاب کا جشن منایا ہے۔ بہرحال ہم اپنے دشمنوں کی طرف سے دروغگوئی، فریب دہی اور پست چالیں شروع ہی سے دیکھتے آ رہے ہیں۔ ابتدائے انقلاب سے تاحال یہ سلسلہ جاری رہا ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا لیکن ان کا مقصد پورا ہونے والا نہیں ہے۔
جب کسی قوم کے دلوں کی گہرائیوں سے اس کا صادقانہ پیغام نکلتا ہے تو وہ اپنا اثر ضرور دکھاتا ہے۔ ہم نے یہ بات بارہا کہی ہے کہ عوامی شراکت، انقلابی جذبہ اور پرعزم اقدام باد بہاری کی مانند گوشے گوشے تک پہنچتا ہے اور اپنے ہلکے ہلکے جھونکوں سے پورے وجود کو نوازتا ہے۔ اس کی مثال چاہئے تو ایک نظر ڈالئے شمالی افریقا پر، تمام عرب ممالک پر، پورے عالم اسلام پر، اس کا نمونہ دیکھنا ہے تو صاحب فکر مسلمانوں کے دلوں کی گہرائی میں جھانکئے ان ملکوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ ان بیتے ہوئے برسوں کے دوران رفتہ رفتہ ان میں اپنے تشخص کا احساس بیدار ہوا ہے، ان کی اسلامی پہچان بحال ہوئی ہے۔ اسلام اپنے عظیم مشن میں انتہائی حساس موڑ پر پہنچ گیا ہے۔ آئندہ نسلیں اپنی آنکھوں سے بڑی اہم تبدیلیوں کا مشاہدہ کریں گی۔ دنیا دگرگوں ہو جائے گی۔ یہ استکباری تسلط کی پالیسیاں جنہوں نے قوموں کو جکڑ رکھا ہے رفتہ رفتہ کمزور پڑتی جائيں گی، نابود ہوتی جائيں گی، بے اثر ہوتی جائيں گی۔ یہ دنیا کا مستقبل ہے۔ اس درمیان اصلی مرکز یہاں ہے، یہیں سے یہ چشمہ جاری ہوا ہے اور یہیں پر عوام نے استقامت کی نئي داستان رقم کی ہے۔ استقامت و پائیداری ہی بنیادی نکتہ ہے۔ میرے عزیزو! میرے نوجوانو! تبریز اور آذربائیجان کے عزیز بھائیو اور بہنو! اصلی نکتہ اسی استقامت میں مضمر ہے۔ ہم ہر سال انتیس بہمن مطابق اٹھارہ فروری کے واقعے کی یاد کیوں مناتے ہیں؟ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم بس ماضی میں گم رہنا چاہتے ہیں۔ یہاں اس اجتماع میں اور اسی طرح آذربائیجان اور شہر تبریز میں ایسے بہت سے نوجوان ہیں جنہوں نے اٹھارہ فروری کے واقعے کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے لیکن پھر بھی آپ سب اس دن کی یاد مناتے ہیں۔ یہ ماضی میں الجھے رہنا نہیں ہے۔ یہ در حقیقت مستقبل کی طرف پیش قدمی کے صحیح راستے اور خطوط پر چلنے کی علامت ہے۔
تبریز اور آذربائیجان کے عوام کا جہاں تک تعلق ہے، ہم نے بارہا عرض کیا ہے کہ آذربائیجان کے رہنے والے، خصوصا شہر تبریز اور دیگر متعدد شہروں میں بسنے والے افراد سو سال سے بھی قبل کے دور سے لیکر تاحال ملک کے اہم اور فیصلہ کن حیثیت کے حامل واقعات میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں اور ہمیشہ اہم کردار ادا کرتے دکھائے دیئے ہیں۔ تنباکو کے بائیکاٹ کی تحریک سے لیکر جس میں الحاج میرزا جواد مجتہد تبریزی مرحوم وارد میدان ہوئے آئینی تحریک تک، جد و جہد کا سرچشمہ آذربائیجان اور شہر تبریز رہا ہے۔ تبریز کے نامور مجاہدین کی جیب میں ہمیشہ ممتاز علمائے کرام کے خطوط اور احکامات ہوتے تھے اور وہ انہی احکامات کو اپنے اقدام کی بنیاد قرار دیتے تھے اور اس کا برملا اظہار کرتے تھے۔ ستارخان اور باقر خان جیسے شجاع افراد اور آذربائیجانی مجاہدین آشکارا طور پر کہتے تھے کہ وہ علمائے دین کے پیرو اور مراجع تقلید کے احکامات کے تابع ہیں۔ اس دور کے دستاویزات جو باقی بچ گئے ہیں وہ اس حقیقت کی غماز ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ تحریک بغیر کسی ہدف کے خود بخود شروع ہو گئی ہو۔ یہ مذہبی تحریک تھی، غیرت دینی کے جذبے کے تحت یہ تحریک شروع ہوئی تھی۔ دیندار لوگ تو پورے ملک میں تھے لیکن بعض خطوں میں پائی جانے والی خاص شجاعت و حمیت و ہمت کی وجہ سے یہ تحریک زیادہ نمایاں ہوئی۔ تبریز اور آذربائيجان ایسے ہی علاقوں میں گنے جاتے ہیں۔
جب اسلامی تحریک کا آغاز ہوا تو پندرہ خرداد سنہ 1342 ہجری شمسی سے تبریز اور آذربائیجان کے علمائے کرام کو وہاں سے جلاوطن کیا گیا، لاکر تہران کی جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد بھی یہی صورت حال قائم رہی۔ اسلامی انقلاب کے ابتدائی دور میں اٹھارہ فروری کی تاریخ ایک اہم شناخت کا درجہ رکھتی ہے، ایرانی عوام کی اس عظیم تحریک کا اہم ترین سنگ میل ہے۔ میں یہ بات متعدد بار کہہ چکا ہوں کہ اگر اٹھارہ فروری کا واقعہ رونما نہ ہوا ہوتا تو انیس دی مطابق 13 جنوری کا قم کا واقعہ کتنا اثر دکھا پاتا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اٹھارہ فروری کا اہل تبریز کا قیام تھا جس نے انیس دی مطابق 13 جنوری کے اہل قم کے قیام کے شہیدوں کے خون کی لالی بڑھا دی اور اس کا پیغام ملک کے گوشے گوشے تک پھیلا دیا۔ تو اہل تبریز کے قیام کا یہ نتیجہ نکلا۔ اسی طرح انقلاب سے متعلق تغیرات میں اور میدان جنگ میں بھی اس کی مثالیں سامنے آئيں۔ پہلے شہید محراب اور جام شہادت نوش کرنے والے پہلے امام جمعہ تبریز کے تھے۔ پانچ شہدائے محراب میں سے دو کا تعلق تبریز سے ہے۔ مختلف بٹالینوں اور دلیر کمانڈروں میں عاشورا بٹالین اور آذربائیجانی و تبریزی کمانڈروں کے نام بہت نمایاں ہیں۔ بٹالین تو جوانوں کا ایک مجموعہ ہوتی ہے، تمام عوام تو بٹالین میں شامل نہیں ہوتے۔ لیکن اگر تمام عوام میدان میں نہ ہوں، تمام لوگوں کے دل اسی سمت میں مائل نہ ہوں تو عاشورا بٹالین جیسی شجاع اور دلاور بٹالین وجود میں نہیں آ سکتی۔ شہیدوں کے جنازوں پر جنازے چلے آ رہے ہیں، عوام ان کی آخری رسومات ادا کر رہے ہیں لیکن عوام کے ایثار اور اشتیاق میں کوئی کمی نہیں ہے، والدین اب بھی اپنے نونہالوں کو اور بھی جوش و جذبے کے ساتھ محاذ جنگ پر بھیجتے ہیں۔ یہ بہت عظیم چیزیں ہیں اور یہی ملت ایران کی کامیابی کا راز ہے۔
عزیزان محترم! شاہی حکومت کے دور میں ہماری بڑی توہین کی گئی، تحقیر کی گئی، ہمیں حقیر سمجھا گیا۔ ہمارا حق لوٹا جا رہا تھا، ہمارا تیل لوٹا جا رہا تھا، ہمارے نوجوانوں کی استعداد اور صلاحیتوں کو نکھرنے سے پہلے ہی کچل دیا جاتا تھا، ہم علم و دانش کے شعبے میں پیچھے رہ گئے۔ ٹکنالوجی سے ہم بیگانہ ہوکر رہ گئے۔ عالمی سیاست سے بے بہرہ ہو گئے۔ دنیا کی اقوام پر ہمارا کوئی اثر نہیں رہا۔ ہمارے ہاتھ پاؤں کٹ کر رہ گئے۔ ملت ایران نے اس صورت حال کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اپنا راستہ تبدیل کر دیا۔ آج ایران عالمی استکبار اور عالمی سطح پر ہونے والے ظلم کے خلاف جدوجہد کا منادی ہے، البتہ اس میں ملت ایران کا بھی بہت فائدہ ہے۔ جب کوئی قوم رعونت و دبدبے والے دشمن کے سامنے ڈٹ جاتی ہے اور اسے للکارتی ہے تو یقین جانئے کہ وہ علم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہے، اس کی معیشت استحکام کی منزلیں طے کر رہی ہے، اس کے سماجی امور بنحو احسن انجام پا رہے ہیں، اس کی فکر، اس کا نعرہ اور اس کا عقیدہ دنیا میں پھیل رہا ہے۔ ایک زمانے میں جب ہماری زبانوں سے مظلومانہ انداز میں نعرے بلند ہوتے تھے تو ملت ایران اس وقت تنہا ہوا کرتی تھی لیکن آج ان نعروں کی صدائے بازگشت تقریبا پورے عالم اسلام میں سنائی دے رہی ہے۔ قوم اگر اپنی قوت ارادی سے کام لے تو خود کو مستحکم بنا سکتی ہے، بااثر بن سکتی ہے اور استحکام کا یہ عمل بلا وقفہ جاری بھی رہ سکتا ہے۔ ہم علم و دانش کے شعبے میں مزید آگے بڑھیں گے، معاشی میدان میں انشاء اللہ پیشرفت حاصل کریں گے، تعمیر و ترقی کے میدان میں ہمارے قدم بلندیوں پر پہنچیں گے۔ یہ قوم، یہ نوجوان، یہ بلند ہمتی، یہ استقامت وطن عزیز کو کسی گلدستے کی مانند سنوار دیگی اور وطن عزیز تمام عالم اسلام کے لئے نمونہ قرار پائے گا۔
ہماری ذمہ داری بس اتنی ہے کہ انہیں صحیح خطوط پر، اسی صحیح سمت میں، اسی صراط مستقیم پر، اسی راہ خدا پر، راہ اسلام پر، راہ دین پر، راہ شریعت پر قدم جما کر آگے بڑھتے رہیں، ہمیشہ چوکنے رہیں، بیدار رہیں اور اپنے فرائص کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ ہونے دیں۔
کل کو انتخابات ہونے والے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ عامہ میں ایک بار پھر کٹھپتلی کا وہی پرانا ڈراما شروع ہو گیا ہے، میڈیا نے پھر یہی رٹ لگا دی ہے کہ اس دفعہ انتخابات میں سردمہری نظر آئے گی۔ میں بارہا یہ کہہ چکا ہوں اور آج اس کا پھر اعادہ کرتا ہوں کہ انتخابات میں عوام کی بھرپور شراکت ملک کو آگے لے جائیگی، اسے دشمن کے شر سے محفوظ بنا دیگی، دشمن کی سازشوں کو نقش بر آب کر دے گی، اسے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دے گی۔ پرجوش انداز میں انتخابات کا انعقاد در حقیقت دشمن کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔
اللہ آپ کے ساتھ ہے، من کان للہ کان اللہ لہ جب قوم اللہ کے راستے پر چلتی ہے تو اللہ بھی اس کی مدد کرتا ہے، الہی انتظامات سے اسے مدد ملتی ہے۔ لوگوں کے دل تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ پختہ عزم و ارادہ، قدرت الہی کی دین ہے، انشاء اللہ اس دفعہ کے انتخابات میں بھی اللہ تعالی لوگوں کی مدد کرے گا۔ انشاء اللہ نویں پارلیمنٹ کے انتخابات میں بھی عوام الناس کو اللہ تعالی کی طرف سے توفیق حاصل ہوگی اور انتخابات بھرپور قومی جوش و خروش کے ساتھ، بصیرت و آگاہی کے ساتھ اور عوام کی بھرپور شرکت کے ساتھ انجام پائیں گے اور نتیجے میں انشاء اللہ ایک بہترین پارلیمنٹ ملک کو حاصل ہوگی۔ انشاء اللہ بہترین افراد رکن پارلیمنٹ کے طور پر منتخب ہوکر میدان عمل میں وارد ہوں گے، اس وادی میں قدم رکھیں گے۔
آپ سب کے لئے اللہ تعالی سے توفیقات کا دعاگو ہوں، اللہ آپ سب کو ہمیشہ سلامت رکھے، آپ کے جوش و جذبے کو قائم رکھے، ہمیشہ آپ کی تائید فرمائے۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه وبركاته
1) حاضرین کے فلک شگاف نعرے آذربايجان اوياخدى، انقلابا داياخدى ( یعنی آذربائیجان بیدار ہے، حامی انقلاب ہے)