مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں زائرین و مجاورین کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے تمام ہم وطنوں کو عید نوروز کی مبارکباد پیش کی اور سنہ تیرہ سو نوے ہجری شمسی کے دوران ملت ایران کی کارکردگی کے درخشاں پہلوؤں اور قوم کے دشمنوں کی سازشوں اور سرگرمیوں کی حقیقی تصویر پیش کی تا کہ اس اہم ترین مقابلے میں ایرانیوں اور ان کے دشمنوں کی صحیح پوزیشن کا اندازہ ہو سکے۔ آپ کے مطابق رجز خوانیوں کا اصلی مقصد تشہیراتی، سیاسی اور معاشی یلغار ہے اور امریکا اور دیگر بیرونی طاقتوں کی فوجی اور سیکورٹی سے متعلق دھمکیوں کا مقصد ملت ایران کو مرعوب اور مایوسی میں مبتلا کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سنہ تیرہ سو نوے (اکیس مارچ دو ہزار گیارہ تا بیس مارچ دو ہزار بارہ) کے دوران دشمنوں نے اس شجاع و شاداب اور بیدار قوم کو یہ باور کرانے کے لئے کہ ایرانیوں کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے، اپنی تمام توانائيوں کو استعمال کیا لیکن اس قوم نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے ملنے والی تعلیمات کی مدد سے بار بار پوری دنیا اور تمام اغیار پر یہ ثابت کر دیا کہ دشمنوں کی شومئے قسمت سے ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی کے بقول مجموعی طور پر دیکھا جائے تو قوم کی کارکردگی کے مثبت اور کامیابی کے پہلو کمزوریوں اور نقائص سے بہت زیادہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ عوام کی جانب سے حکام کے ساتھ بھرپور تعاون کے نتیجے میں سنہ تیرہ سو نوے کے دوران قابل لحاظ اقتصادی ثمرات حاصل ہوئے اور اس کا سب سے اہم نمونہ سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کا منصوبہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کے منصوبے پر عملدرآمد کے تعلق سے اقتصادیات کے تمام ماہرین کے اتفاق رائے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تیرہ سو نوے میں مجریہ اور مقننہ نے پابندیوں کی وجہ سے در پیش دشوار اور پیچیدہ حالات کے باوجود عوام کی مدد سے اس عظیم منصوبے کے اہم ترین مراحل کو خاصی حد تک جامہ عمل پہنایا تاہم ابھی یہ کام ختم نہیں ہوا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ملت ایران کی پیشرفت اور اقتصادی شعبے پر اس ترقی کے اثرات کا بھی جائزہ لیا۔ آپ نے گزرے سال میں ملت ایران کی کامیابیوں کو گنوایا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

الحمدللّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على ءاله‌ الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيّةاللّه فى الأرضين.

دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جس نے ایک بار پھر یہ موقعہ اور توفیق عنایت فرمائی کہ سال نو کے مناسبت سے (فرزند رسول) حضرت ابو الحسن علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی ملکوتی بارگاہ میں آپ عزیز عوام، اہل مشہد، دیگر مقامات سے آنے والے محترم زائرین اور روضہ اقدس کے خادمین اور آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کی معیت کا شرف حاصل کروں اور اس عظیم ہستی اور روضہ مبارک کے سائے میں جگہ پا سکوں۔
عید نوروز اور سال نو کی آمد کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ یہ نیا سال جس میں ہم داخل ہوئے ہیں تمام ملت ایران کے لئے مسرت، شادمانی، نشاط و گشائش، امور کی انجام دہی اور معارف و تقوائے الہی کے حصول کا سال قرار پائے گا۔
اس ملاقات میں چند باتیں آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کے سامنے پیش کروں گا۔ سب سے پہلے ایک سرسری جائزہ لوں گا ان حالات کا جو ہم پر، ہماری قوم پر، ہمارے ملک پر گزرے اور دنیا و علاقے میں ہمارے تعلق سے پیش آئے۔ سنہ تیرہ سو نوے (ہجری شمسی مطابق 21 مارچ سنہ 2011 تا 19 مارچ سنہ 2012) میں ملت ایران کو حاصل ہونے والی کامیابیوں کا خصوصیت سے ذکر کرنے کی وجہ ہمارے دشمنوں اور بدخواہوں کی وہ رجزخوانیاں ہیں جو وہ ہمارے خلاف کرتے رہے۔ استکباری محاذ کے عمائدین، زر و زور کی مسندوں پر براجمان عناصر اور ہمارے اس علاقے میں ان کے مہرے اپنی پوری طاقت کے ذریعے، اپنی مالی توانائی، اپنی تشہیراتی توانائی اور اپنے سیاسی رسوخ کا استعمال کرکے ملت ایران کو مرعوب کرنے کے لئے کوشاں ہیں، اسے مایوسی کا شکار بنا دینا چاہتے ہیں۔ ملت ایران کے بدخواہوں کے سیاسی پروپیگنڈوں پر جس کی بھی نظر ہو وہ اس حقیقت کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ ساری تگ و دو، یہ اقتصادی اٹھا پٹک، یہ سیاسی طاقت فرسائی، یہ فوجی دھمکیاں سب کچھ صرف اس لئے ہیں کہ یہ سرگرم عمل، بلند ہمت، جذبہ امید سے سرشار اور پختہ حقیقت یعنی ملت ایران جو بیچ میدان میں دیدنی شجاعت کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے اور پروقار انداز میں آگے بڑھتی جا رہی ہے، اس کی پیشرفت کو روک دیا جائے، اس پر مایوسی کے بادل چھا جائیں، اسے میدان عمل میں جمے رہنے کے خطرات کی بات کرکے ڈرا دیا جائے۔ در حقیقت اس نعرے کے مقابل کہ ہم کر سکتے ہیں جس کی تعلیم ہمیں عظیم الشان امام خمینی نے دی اور اسلامی انقلاب نے اسی ضمن میں ہمیں ہم کر سکتے ہیں کا نعرہ بلند کرنے کی جرئت عطا کی، دشمن ملت ایران کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ تمہارے بس میں کچھ بھی نہیں ہے، دشمن یہ ہدف پورا کرنے کے لئے اپنی ساری توانائی صرف کر رہا ہے۔ سنہ تیرہ سو نوے (ہجری شمسی کا سال) دشمن کی ان سرگرمیوں کے اوج کا سال تھا۔ میں یہاں اس نکتے پر تاکید کرنا چاہوں گا کہ تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود دشمن کی شومیئے قسمت یہ ہے کہ ملت ایران نے سنہ تیرہ سو نوے کے دوران اپنے اقدامات سے، اپنی پیشرفت سے اور اپنے صائب فیصلوں سے تمام دنیا منجملہ دشمنوں اور بدخواہوں پر ثابت کر دیا کہ وہ سب کچھ کر سکتی ہے۔
آج اگر ہم اپنے مضبوط پہلوؤں اور صلاحیوں کا بار بار ذکر کرتے ہیں تو اس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ملت ایران نے اپنی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لایا اور بدخواہوں کے منشاء کے برخلاف دنیا کو دکھا دیا کہ وہ صلاحیتوں سے سرشار ہے۔ ہم اپنی کمزوریوں سے لاعلم نہیں ہیں۔ ان کی بھی خبر ہمیں ہے لیکن جب ہم مجموعی طور پر جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں کامیابیاں اور مثبت اقدامات کمزوریوں کے مقابلے میں بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے سنہ تیرہ سو نوے (ہجری شمسی) کو اقتصادی جہاد کا سال قرار دیا تھا لہذا میں اپنی گفتگو کا آغاز اقتصادی مسائل سے ہی کرنا چاہوں گا۔ سنہ تیرہ سو نوے کے دوران عوام کے مثالی اور تحسین آمیز تعاون کے ذریعے ملک کے حکام کی اقتصادی سرگرمیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس سلسلے میں جن امور کا ذکر کیا جا سکتا ہے ان میں ایک سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کے منصوبے پر عملدرآمد کا مسئلہ ہے۔ تمام اقتصادی ماہرین خواہ ان کا تعلق سابقہ حکومتوں سے ہو یا موجودہ حکومت کے ساتھ وہ مصروف کار ہوں، سب کے سب اس نکتے پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کے منصوبے پر عملدرآمد ایک بنیادی اور اہم ترین ضرورت ہے۔ سب اس کے معترف ہیں۔ یہ مسئلہ سب کی نظر میں متفق علیہ تھا لیکن پھر بھی یہ ضروری منصوبہ اپنی دشواریوں اور پیچیدگیوں کی وجہ سے ٹھنڈے بستے میں پڑا ہوا تھا۔ مجریہ اور مقننہ نے سنہ تیرہ سو نوے میں ایسے عالم میں کہ جب ہم پر پابندیاں لگی ہوئی ہیں، ایک ایسے وقت جب اس منصوبے کی دشواریاں اور پیچیدگیاں ہمیشہ سے زیادہ تھیں ہمت و شجاعت کا مظاہرہ کیا اور عملدرآمد کا آغاز کر دیا، اس حیاتی مہم کے اہم ترین مراحل پورے کئے۔ ابھی کام ختم نہیں ہوا ہے لیکن حکام نے خواہ وہ مجریہ سے تعلق رکھتے ہوں یا مقننہ سے، سب نے عملی اقدامات کئے ہیں اور قوم کی پشتپناہی اور تعاون کے نتیجے میں انہیں کامیابی بھی ملی۔ یہ بہت اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے۔ اس منصوبے کے بنیادی اہداف در حقیقت کچھ انتہائی اہم قسم کے امور ہیں جن کا میں ذکر کرنا چاہوں گا۔ ہمارے عزیز عوام نے ان امور کے بارے میں سنا ہے لیکن انہیں مزید ان پر غور و خوض کرنے اور توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت بڑا کارنامہ ہے، بہت اہم منصوبہ ہے۔ اس سے متعلق قانون کا ایک بنیادی ہدف اسلامی نظام اور حکومت کی طرف سے عوام الناس کو دی جانے والی سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم ہے۔ میں نے اس سے قبل بھی ایک گفتگو کے دوران اس کی تشریح کی تھی کہ سبسیڈی ہمیشہ غیر متوازن انداز میں اور مساوات کی پابندی کے بغیر لوگوں میں تقسیم ہو رہی تھی لیکن اس منصوبے پر عملدرآمد کے بعد سے در حقیقت سبسیڈی کی تقسیم میں ایک طرح کا توازن اور انصاف دیکھنے میں آ رہا ہے۔ میرے پاس ملک بھر کی مصدقہ اطلاعات ہیں کہ اس قانون پر عملدرآمد سے معاشرے کے کمزور طبقات کی حالت میں بہتری آئی ہے۔ یہ ایک ہدف ہے اور اس قانون کا سب سے اہم ہدف یہی ہے۔
ایک اور ہدف ملک کے پیداواری ڈھانچے اور معاشی نظام کی اصلاح ہے۔ ملک میں پیداواری سسٹم میں کچھ خامیاں تھیں۔ ہم ملک کی مجموعی پیداوار سے جو کچھ حاصل کرتے تھے اس کے لئے ہمیں کافی بجٹ صرف کرنا پڑتا تھا اور ثمرہ بہت کم ملتا تھا۔ اقتصادی امور کے ماہرین کے بقول جو سب کے سب اس نکتے پر اتفاق رائے رکھتے ہیں، سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم سے اس خامی کو دور کیا جا سکتا ہے۔ ملک کے پیداواری سسٹم میں زیادہ اخراجات اور کم پیداوار کی مشکل کو اس راستے سے ختم کیا جا سکتا ہے اور اخراجات اور پیداوار کے درمیان اعتدال اور توازن قائم کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور مقصد انرجی کے استعمال کو منظم بنانا ہے۔ ہمارا ملک تیل کی دولت سے مالامال ملک تھا تو شروع ہی سے ہماری یہ عادت ہو گئی کہ پٹرول، گیس، ڈیزل اور کیروسین کو بے تحاشا استعمال کریں۔ ہمارے یہاں انرجی کا استعمال بہت سے ممالک بلکہ ایک طرح سے تمام ممالک سے زیادہ اور بے حساب کتاب تھا۔ سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کے منصوبے نے ملک کو انرجی کے استعمال میں کفایت شعاری سے کام لینے کا راستہ دکھایا۔ شائع ہونے والے اعداد و شمار جو مسلمہ اعداد و شمار ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کا منصوبہ نافذ نہ کیا گيا ہوتا تو منصوبے کے نفاذ سے اب تک ملک میں جس مقدار میں پیٹرول استعمال ہوا ہے اس کی دگنی مقدار میں پیٹرول خرچ ہو چکا ہوتا۔ جب ملک کے اندر پیٹرول کی پیداوار، خرچ کی مقدار سے کم ہوگی تو ہم کس بات پر مجبور ہوں گے؟ ہم پیٹرول امپورٹ کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یعنی قوم دشمنوں اور بدخواہوں کی محتاج ہوگی۔ اس منصوبے کی وجہ سے بچت کی عادت عام ہو گئی۔ آج ملک کے اندر پیٹرول کا استعمال، پیٹرول کی داخلی پیداوار کے تقریبا برابر ہے۔ اب پیٹرول درآمد کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ یہ ملک کے لئے بہت بڑے امتیاز کی بات ہے۔ یہ کام سنہ تیرہ سو نوے ہجری شمسی میں انجام پایا۔ یعنی عین اس وقت جب دشمنوں نے ہم پر پابندیاں عائد کیں کہ ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں لیکن قوم کے نوجوانوں نے ہمت دکھائی اور اپنے اقدامات سے دشمن کی سازش اور منصوبے کو نقش بر آب کر دیا۔
تیرہ سو نوے کے دوران اقتصادی میدان میں قوم کی بلند ہمتی کی بنا پر ایک اور اہم کارنامہ جو انجام پایا وہ سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے سے متعلق ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی در حقیقت کسی بھی قوم کی اقتصادی قوت و طاقت کا ایک بنیادی ستون ہے۔ قوم کے پاس اگر پیشرفتہ ٹکنالوجی ہو، سائنسی طاقت ہو تو اسے دولت بھی حاصل ہوتی ہے، سیاسی بے نیازی کی کیفیت بھی پیدا ہوتی ہے، اس کا قد بھی اونچا ہوتا ہے اور اس کی قوت بازو میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کی پیشرفت کی کلیدی حیثیت کی وجہ سے میں اس مسئلے کے تعلق سے بہت حساس ہوں۔ مختلف طریقوں سے، مختلف ذریعوں سے تقریبا دائمی طور پر مختلف رپورٹیں حاصل کرتا ہوں۔ میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ملک کی ترقی کی سطح اس سے کہیں زیادہ بلند ہے جس کی اطلاعات عوام الناس تک پہنچی ہیں۔
دنیا کے معتبر علمی مراکز کی رپورٹ یعنی ہمارے علمی مراکز کی رپورٹ نہیں، اس بات کی عکاس ہے کہ دنیا میں سب سے تیز رفتار سائنسی ترقی ایران میں ہو رہی ہے۔ سنہ دو ہزار گيارہ عیسوی کی معتبر علمی مراکز کی رپورٹ یہ ہے کہ اس سال کے دوران ملت ایران نے گزشتہ سال یعنی سنہ دو ہزار دس کی نسبت بیس فیصدی زیادہ علمی ترقی کی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ ایسے حالات میں جب ملت ایران کے دشمن آپس میں ایرانی قوم کے زوال کی شرط باندھ رہے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے ایران پر کمر شکن پابندیاں لگائی ہیں، ملت ایران نے یہ حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا!!
معتبر عالمی تحقیقاتی مراکز کی یہ رپورٹ بھی ہے کہ علاقے میں ایران علمی سطح کے لحاظ سے پہلے مقام پر اور دنیا میں سترہویں مقام پر ہے۔ یہ رپورٹ ان لوگوں کی تیار کردہ ہے جنہیں ہمارے خلاف رپورٹ پیش کرنے کا موقعہ ملے تو ایسا کرنے میں ہرگز تامل نہیں کریں گے۔ لیکن وہی یہ اعتراف کر رہے ہیں۔ تیرہ سو نوے ہجری شمسی میں ہم نے بایو ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کی، نینو ٹکنالوجی میں پیشرفت حاصل کی، ایرو اسپیس کے شعبے میں نئی بلندیاں طے کیں۔ نوید سیٹیلائٹ خلا میں بھیجا گيا، جوہری ٹکنالوجی کے میدان میں ہم کافی آگے بڑھے اور سنہ تیرہ سو نوے میں ہم نے یورینیم کو بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ کر لیا۔ بیس فیصدی کے گریڈ تک یورینیم کی افزودگی وہی چیز ہے جسے انجام دینے کے لئے سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی میں امریکی اور کچھ دوسرے لوگ ہمارے سامنے شرطیں لگا رہے تھے۔ ہمیں تہران کے تحقیقاتی ایٹمی مرکز کے لئے جس میں نیوکلیئر میڈیسن تیار کی جاتی ہیں، بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ یورینیم کی ضرورت تھی کیونکہ بیس فیصدی گریڈ تک افزودہ یورینیم ہمارے پاس ختم ہو چکا تھا۔ انہوں نے یہ کام انجام دینے کے لئے شرطیں رکھ دیں۔ کہنے لگے کہ آپ نے جو (ساڑھے تین فیصدی کے گریڈ کا) یورینیم افزودہ کیا ہے اسے ملک سے باہر بھیجئے۔ ہم نے یہ بات نہیں مانی۔ امریکیوں نے برازیل اور ترکی کی حکومتوں کے توسط سے ہم سے بات کرنے کی کوشش کی، یہ راستہ اختیار کیا کہ کوئی سمجھوتا ہو جائے۔ ہم نے سمجھوتے کی بات قبول کر لی۔ ترکی اور برازیل کے حکام یہاں آئے اور انہوں نے ہمارے صدر جمہوریہ سے مذاکرات کئے، گفت و شنید کا عمل انجام دیا اور ایک معاہدے پردستخط ہوئے۔ دستخط ہو جانے کے بعد امریکی اپنے وعدے سے مکر گئے۔ وہ اس معاہدے پر دستخط نہیں چاہتے تھے۔ وہ صرف مراعات حاصل کرنے کی کوشش میں تھے، باج خواہی کی فکر میں تھے۔ امریکیوں نے جو وعدہ خلافی کی اس سے ترکی اور برازیل کی حکومتیں بھی ہمارے سامنے شرمندہ ہو گئیں۔ تو بیس فیصدی گریڈ تک افزودہ یورینیم کا یہ قصہ ہے۔
ان تمام مشکلات کے باوجود، ان رکاوٹوں کے باوجود ہمارے نوجوانوں نے کہا کہ ہم خود تیار کریں گے اور سنہ تیرہ سو نوے میں انہوں نے تہران کی ایٹمی سائٹ کے لئے بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ یورینیم تیار کر لیا اور دنیا کو اس سے آگاہ بھی کر دیا۔ ہمارے دشمن مبہوت رہ گئے! وہ یہ جانتے ہیں کہ تہران کا ایٹمی مرکز نیوکلیئر میڈیسن تیار کرنے سے مختص ہے، یعنی ملک میں اسپتالوں، تجربہ گاہوں اور ہزاروں بیماروں کو اس کی ضرورت ہے لیکن پھر بھی انہوں نے نہیں دیا، فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ شرائط عائد کر دیں۔ باج خواہی کی کوششیں شروع کر دیں۔ ہمارے نوجوانوں نے اسے خود ہی تیار کر لیا۔ حالانکہ یہ بہت پیچیدہ عمل تھا، بہت دشوار کام تھا لیکن وہ اس میں کامیاب ہو گئے۔ آج مختلف اقسام کی نیوکلیئر میڈیسن تہران کے اسی ایٹمی مرکز میں مقامی طور پر تیار کئے گئے ایندھن کے استعمال سے تیار ہو رہی ہیں۔ تو یہ سنہ تیرہ سو نوے ہجری شمسی میں حاصل ہونے والی کامیابیاں ہیں۔
سنہ تیرہ سو نوے ہجری شمسی میں جوہری صنعت میں ملک کے اندر ایٹمی فیول پلیٹس تیار کی گئیں۔ اس کی اگر میں تشریح کروں تو بات بہت طویل ہو جائے گی۔ مختصر یہ کہ جب ملک کے اندر تیار کئے گئے یورینیم کے تبادلے کی بات ہو رہی تھی اس وقت کہہ رہے تھے کہ آپ اپنا ساڑھے تین فصیدی کے گریڈ تک افزودہ یورینیم روس کو دیجئے، روس اسے بیس فیصدی تک افزودہ کرے گا اور فرانس کے حوالے کر دے گا، فرانس فیول پلیٹس تیار کرے گا اور آپ کو لوٹا دے گا۔ ہمارے سائنسدانوں نے، ہمارے نوجوانوں نے کہا کہ ہم فیول فلیٹس خود ہی تیار کر لیں گے۔ انہوں نے ہمت سے کام لیا اور تیار کر لیا، اس کی رپورٹ دی اور سامنے پیش کر دیا۔ یہ سنہ تیرہ سو نوے کی بات ہے۔
نئے فرمولے کے تحت تیار کی جانے والی دواؤں کی پیداوار میں چھے گنا اضافہ، سائنس و ٹکنالوجی پر استوار مصنوعات اور سروسیز کی برآمدات میں اضافہ، یہ سب تیرہ سو نوے کی کامیابیاں ہیں۔ یہ اقتصادی جہاد کے سال میں حاصل ہونے والی کامیابیاں ہیں۔ یہ سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے کی ترقی ملک کے علمی اقتدار کی عکاسی کرتی ہے لیکن اس کا ملکی معیشت پر بھی براہ راست اثر پڑتا ہے۔ اقتصادی جہاد کا یہی مطلب ہے۔
تیرہ سو نوے ہجری شمسی کے آخری ایام میں، ابھی گزشتہ ہفتے ہم نے پیٹرولیم انڈسٹری کے تحقیقاتی سینٹر کا دورہ کیا۔ وہاں ایسی چیزیں دیکھنے کو ملیں جن کے مثل چیزیں ملک کے مختلف علمی مراکز کے دوروں میں نظر آتی ہیں۔ اس سے انسان یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ یہ استثنائات نہیں ہیں بلکہ یہ باقاعدہ ایک سلسلہ ہے۔ یہ اہم ترین آلات جن کا ایک زمانے میں ملت ایران تصور بھی نہیں کر سکتی تھی آج تیار کر لئے گئے ہیں اور باقاعدہ معمول کی مصنوعات میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ میں نے وہاں جو خاص باتیں اور حالات دیکھے ان میں سے چند کے بارے میں بتانا چاہوں گا۔ سب سے پہلی خصوصیت جو نظر آئی وہ پورے گروپ میں موجزن جہادی فکر و جذبہ تھا۔ سائنسدانوں کی یہ ٹیم مجاہدانہ جذبے کے ساتھ کام کرتی نظر آئی۔ اس انداز سے اپنا کام انجام دے رہے تھے کہ گویا جہاد کر رہے ہوں، گویا جہاد فی سبیل اللہ کے کسی محاذ پر محو کارزار ہوں۔ بہت فرق ہے کہ ایک شخص پیسے کے لئے، عہدے کے لئے، شہرت کے لئے یا خود اپنے علم کے لئے کام کر رہا ہو جبکہ دوسرا شخص جہاد فی سبیل اللہ کی نیت کے ساتھ راہ خدا میں سعی و کوشش کے ارادے کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے۔ ہمارے ملک کی اس ٹیم اور دیگر علمی گروہوں میں یہی جذبہ نمایاں نظر آتا ہے، یہ بہت اہم بات ہے۔
دوسری خاص بات یہ نظر آئی کہ ہمارے یہ سائنسداں ہماری قوم پر عائد کی جانے والی پابندیوں کو ایک سنہری موقعہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی ماحول میں کام آگے بڑھ رہا ہے اور ابلتے ہوئے چشمے کی مانند اس کے ثمرات جاری ہیں۔
تیسری اہم خصوصیت ان میں بھرا جذبہ خود اعتمادی تھا۔ پیٹرولیم کی صنعت کے کچھ شعبے ایسے ہیں جو دنیا کے صرف تین چار ممالک کے انحصار میں ہیں۔ وہ کسی کو اس ٹکنالوجی کے دائرے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ برسوں سے ہمارا ملک بھی اس پیچیدہ اور اہم ٹکنالوجی کے لئے ہمیشہ ان سے مدد لیتا تھا اور اس کے بدلے انہیں رقم ادا کرتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے یہ سائنسداں کمر ہمت باندھے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہم اسے تیار کر لیں گے، ہم خود یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے لئے، قوم کے سائنسدانوں کے لئے اور قوم کے نوجوانوں کے لئے یہ جذبہ خود اعتمادی بے پناہ اہمیت رکھتا ہے۔
ایک اور اہم خصوصیت نوجوانوں کا محوری رول میں نظر آنا تھا۔ امور، نوجوانوں کے ہاتھ میں ہیں، کام نوجوانوں کے ذریعے انجام پا رہا ہے۔ نوجوان، اختراعات کا سرچشمہ ہے، خلاقیت و جدت عمل کا مرکز ہے۔
اس کے علاوہ ایک اہم خصوصیت صنعتی شعبے اور یونیورسٹی کا رابطہ تھا۔ یہ میری بڑی دیرینہ خواہش تھی۔ میں نے گزشتہ حکومتوں کے مختلف متعلقہ شعبوں کے حکام سے ہمیشہ یہ سفارش کی کہ انڈسٹری اور یونیورسٹی کے درمیان رابطہ قائم کرنے کی کوشش کیجئے۔ اس مرکز میں میں نے دیکھا کہ یہ رابطہ قائم ہو چکا ہے۔ یہ چیز عام ہونی چاہئے۔ تمام صنعتوں کو یونیورسٹیوں سے جوڑا جانا چاہئے، یونیورسٹیوں سے مربوط کرنا چاہئے۔ اس سے علم و دانش کا شعبہ بھی ترقی کرے گا اور صنعتی شعبے کی بھی ترقی ہوگی۔ میں نے اس مرکز میں یہ خصوصیات دیکھیں۔ یہ خصوصیات اسی علمی مرکز اور آئل انڈسٹری سے مختص نہیں ہیں۔ میں نے یہ چیز دوسرے مراکز کے دوروں میں بھی دیکھی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں یہ چیز عمومیت حاصل کرتی جا رہی ہے، اسی رخ پر حرکت جاری ہے۔
سنہ تیرہ سو نوے ہجری شمسی میں معاشی شعبے کی یہ صورت حال رہی۔ اس پورے سال میں ملت ایران کے دشمنوں اور بدخواہوں کی دہاڑ گونجتی رہی، کبھی دھمکیاں دیتے تھے، کبھی سیاسی دباؤ ڈالتے تھے اور کبھی پابندیاں عائد کرتے تھے۔ آج پوری دنیا میں امریکی حکومت کے عناصر پابندیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دوڑتے پھر رہے ہیں تا کہ بخیال خویش ملت ایران پر ضرب لگا سکیں اور ایرانی عوام کو اسلامی نظام سے علاحدہ کر دیں۔
سنہ تیرہ سو نوے میں اور بھی اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ ایک مثال اس سال کے دوران علاقائی مسائل میں سرگرم سفارت کاری کی ہے۔ اسلامی بیداری اجلاس کا انعقاد، فلسطین کانفرنس، ترک اسلحہ کانفرنس، دہشت گردی سے پاک دنیا کانفرنس، اسلامی بیداری اور نوجوان کانفرنس، اہم سفارتی سرگرمیاں تھیں جو تہران میں انجام پائیں اور اسلامی جمہوری نظام بیدار ہو چکے عالم اسلام کی توجہ کا مرکز بن گیا۔
اقتصادی سروسیز کے شعبے میں دیکھا جائے تو دسیوں ہزار رہائشی مکانات تعمیر کرکے عوام کے حوالے کئے گئے۔ یہ اعداد و شمار بہت بڑے اعداد و شمار ہیں۔ دیہی مکانات بنائے گئے، سڑکیں بنائی گئيں، ہائی وے اور ایکسپریس وے بنائے گئے۔ یہ ترقی و انصاف سے موسوم عشرے کا طلوع ہے۔ ہم نے کہا ہے کہ یہ (اسلامی انقلاب کی فتح کے تین عشرے گزر جانے کے بعد شروع ہونے والا چوتھا) عشرہ ترقی و انصاف کا عشرہ ہوگا اور یہ اس کے طلوع کے آثار ہیں۔ اس عشرے کے تین سال گزر چکے ہیں۔ ان دشمنوں کے مقابلے میں، ان خبیث اور بددماغ بدخواہوں کے مقابلے میں یہ پرجوش اور فعال قوم یہ کارنامے انجام دینے میں کامیاب رہی ہے۔
سنہ تیرہ سو نوے میں ملت ایران نے جو تحسین آمیز کارنامے انجام دیئے ہیں ان میں ایک کارنامہ دو مارچ کو ہونے والا پارلیمنٹ کا الیکشن تھا۔ البتہ میں یہیں پر یہ بھی عرض کر دوں کہ انتخابات ابھی مکمل نہیں ہوئے ہیں۔ انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی ہمارے عوام کو چاہئے کہ اسی شکوہ و عظمت کا مظاہرہ کریں۔ یہ انتخابات بہت اہم ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کر دوں، البتہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ان دشمنوں نے تقریبا چھے مہینے سے بڑی طاقت فرسائی کی کہ عوام کو انتخابات کی بابت مایوسی میں مبتلا کر دیں۔ کبھی کہا کہ انتخابات میں گڑبڑ ہونا یقینی ہے، کبھی فرما دیا کہ عوام اگر انتخابات میں شرکت نہ کریں تو دشمنوں کی جانب سے جاری معاندانہ کارروائيوں کی شدت کم ہو جائے گی۔ عوام کو حق رائے دہی کے استعمال اور پولنگ مراکز سے دور رکھنے کے لئے بھانت بھانت کے حربے اپنائے گئے۔ کبھی ہمارے سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ چھے مہینے سے بھی کم عرصے میں تین سائنسدانوں کو نشانہ بنایا۔ وہ عوام کو ہراساں کرنا چاہتے تھے، عوام کو مایوس اور لا تعلق بنانا چاہتے تھے۔ اس طرح کے حالات میں انتخابات کا انعقاد ہوا لیکن کیسی شاندار عوامی شرکت ہوئی؟! چونسٹھ فیصدی سے زیادہ کی شرکت بہت بڑی بات ہے۔ میں آپ کو بتا دوں کہ دنیا میں پارلیمانی انتخابات میں عوامی شراکت کی اوسط شرح سے یہ بہت زیادہ ہے۔ امریکا میں کانگریس کے انتخابات میں عوامی شرکت کی اوسط شرح پینتیس فیصدی ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے انتخابات میں عوامی شرکت کی شرح چالیس فیصدی تک پہنچی ہے۔ آپ اس کا ذرا موازنہ کیجئے ملت ایران سے۔ اس جوش و جذبے اور اس پرشکوہ شراکت سے۔ تب آپ کو اس کی اہمیت کا بہتر طور پر انداز ہوگا۔ دشمن کی کوشش تھی کہ دباؤ بنا کر، نفسیاتی حربے اپنا کر، دھمکیاں دیکر، ٹارگٹ کلنگ کرواکر دو مارچ کی تاریخ کو ملت ایران اور اسلامی نظام کی رسوائی اور شرمساری کے دن میں تبدیل کر دیں لیکن دشمن کی بد قسمتی کہئے کہ یہ دن اسلامی نظام اور ملت ایران کی سربلندی و سرفرازی کا دن بن گیا۔ انتخابات نے سچے اور باثر میڈیا کا کام کیا۔ ذرائع ابلاغ ایران سے متعلق خبروں میں تحریف کرتے ہیں، ایران کے اندر ایسے واقعات رونما ہونے کی بات کرتے ہیں جو ہرگز رونما نہیں ہوئے، سچی خبروں پر پردہ ڈال دیتے ہیں لیکن ان انتخابات کا انکار کر دینا ان کے بس کے باہر ہے، کیونکہ یہ تمام لوگوں کی نگاہوں کے سامنے انجام پائے ہیں۔ انتخابات نے مضبوط اور باثر میڈیا کی طرح ملت ایران اور اسلامی نظام کی طاقت کو دنیا کے سامے پیش کر دیا۔
یہ سنہ تیرہ سو نوے میں رونما ہونے والے تغیرات تھے۔ اس سال کے دوران دشمن نے ملت ایران اور اسلامی نظام پر ضرب لگانے کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی لیکن سنہ تیرہ سو نوے میں حاصل ہونے والی کامیابیاں آپ دیکھ رہے ہیں۔ دشمن یہ کینہ توزی کیوں کر رہا ہے؟ میں اس نکتے کی وضاحت کروں گا۔ مختلف ادوار میں دشمنی کے مختلف بہانے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ جب سے ایٹمی مسئلہ اٹھا ہے اس وقت سے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سب سے اہم بہانہ یہی مسئلہ ہے۔ البتہ انہیں حقیقت کا علم ہے اور وہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار کے لئے کوشاں نہیں ہے۔ یہ عین حقیقت ہے۔ ہم اپنی خاص وجوہات کی بنا پر کسی بھی صورت میں ایٹمی ہتھیار کی طرف جانا پسند نہیں کریں گے۔ ہم نے نہ تو جوہری ہتھیار بنایا ہے اور نہ بنائیں گے۔ اسے دشمن بھی جانتے ہیں لیکن انہوں نے اسے بہانہ بنا رکھا ہے۔ تو کبھی اس مسئلے کو بہانہ بنا لیتے ہیں کبھی انسانی حقوق کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں، کبھی کسی داخلی مسئلے کو ہوا دیتے ہیں۔ یہ سب صرف بہانے ہیں۔ اصلی مسئلہ کیا ہے؟ اصلی مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی نطام ملک کی تیل اور گیس کی دولت کی مقتدرانہ انداز میں حفاظت و پاسداری کر رہا ہے۔ ماضی کی مانند اس وقت بھی اور مستقبل میں بھی اقتصادی و سیاسی اقتدار اور اس کے ساتھ علمی و دفاعی قوت کا انحصار انرجی اور گیس پر ہے۔ آئندہ دسیوں سال تک دنیا کو تیل اور گیس کی شدید احتیاج رہے گی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے۔ استکبار اور سامراجی طاقتوں کو معلوم ہے کہ تیل اور گیس کے ذخائر ان کی شہہ رگ کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب سستے داموں تیل کا حصول ان کے لئے ممکن نہ رہے گا، جب انہیں تیل اور گیس حاصل کرنے کے لئے مراعات دینے پر مجبور ہونا پڑےگا، جب انہیں اپنی اکڑ چھوڑنی پڑے گی، وہ دن ان کی بدبختی کا دن ہوگا۔
دوسری طرف مغربی ممالک تیل کے ذخائر کے تعلق سے شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ روز بروز ان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یورپی ممالک بلکہ تمام مغربی ممالک کے تیل کے ذحائر کا یہ عالم ہے کہ کچھ ذخائر چار سال میں، کچھ چھے سال میں اور کچھ نو سال میں ختم ہو جانے والے ہیں۔ چنانچہ وہ دوسرے ملکوں کے ذخائر سے تیل حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ امریکا جس کے پاس تیس ارب بیرل سے زیادہ تیل کا ذخیرہ ہے، ہمارے ملک کے ماہرین کے تخمینوں کے مطابق جو خود امریکیوں کے اعداد و شمار پر استوار ہیں، امریکا کا تیل سنہ دو ہزار اکیس یعنی نو سال کے بعد ختم ہو جائے گا۔ آج دنیا کی ضرورت کا پچاس فیصدی سے زیادہ تیل خلیج فارس سے نکل رہا ہے۔ مغربی ممالک کے ذخائر ختم ہو جانے کے بعد یہ ملک ہمارے علاقے میں اس خلیج فارس کے خطے میں تیل کے تین اہم ذخائر کے محتاج ہوں گے، ان میں ایک اہم ترین ذخیرہ ایران کا ہے۔ اس بارے میں میں چند باتیں ابھی عرض کروں گا۔ تیل اور گیس کے ذخائر کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا بھر کے ممالک کے درمیان، یعنی یہ صرف خلیج فارس کی بات نہیں ہے، سب سے بڑے ذخائر کا مالک اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ بعض ممالک ہیں جن کی گیس ہم سے زیادہ ہے اور بعص ممالک ایسے ہیں جن کے تیل کے ذخائر ہم سے زیادہ ہیں۔ گیس کے ذخائر کے لحاظ سے ہم دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں، پہلے نمبر پر روس کا نام آتا ہے، اس کے بعد ہمارا نام لیا جاتا ہے۔ تیل کے ذخائر کے لحاظ سے ایران دنیا کا چوتھا ملک ہے۔ تین ملک ایسے ہیں جن کے تیل کے ذخائر ہم سے زیادہ ہیں۔ لیکن اگر تیل اور گیس کے ذخائر کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو اسلامی جمہوریہ ایران آپ کا یہی وطن عزیز سب سے زیادہ مالامال ملک ہے۔ ایران دنیا مین تیل کے صارف ملکوں کے لئے بہت پرکشش مقام ہے، استکباری مراکز کے لئے یہ ملک بہت اہم ہے کیونکہ انرجی ان کی شہہ رگ حیات ہے۔ ایران اس عظیم دولت کا مالک ملک ہے۔ ان سامراجی ملکوں کا تیل چار سال، دس سال یا پندرہ سال میں ختم ہو جانے والا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کے ذخائر جو اب تک تلاش کئے گئے ہیں 80 سال تک تیل اور گیس پیدا کرتے رہیں گے۔ یہ بڑی دلچسپ چیز ہے۔ ایران تیل اور گیس کے لحاظ سے انتہائی بلندی پر کھڑا ہے۔ اس صورت حال میں استکباری طاقتوں کا منشاء کیا ہے؟ ان کی مرضی یہ ہے کہ ایسا ملک ایک ایسی حکومت کے اختیار ہونا چاہئے جو ان کے ہاتھ میں موم کے پتلے کی مانند ہو۔ وہی حکم دیں کہ پیداوار کی مقدار اتنی ہو، حکومت کا جواب ہو آپ کا حکم سر آنکھوں پر، فلاں کو فروخت کیجئے، فلاں کے ہاتھ نہ بیچئے، جواب ہو جیسا حکم۔ اگر دولت و ثروت سے مالامال ملک ایران میں جو تیل اور گیس کی عظیم دولت کا مالک ہے، کوئی ایسا نظام تشکیل پا جاتا ہے جو قومی حمیت کے جذبے کے ساتھ قومی دولت کی حفاظت کرے، انہیں لوٹ کھسوٹ کی اجازت نہ دے، جارحیت کا موقعہ نہ دے، دشمنوں کی پالیسیوں کے آگے نہ جھکے تو اس نظام کے وہ دشمن بن جائیں گے۔ تو ایران سے دشمنی کی اصلی وجہ یہی ہے۔
جو لوگ اس خیال میں ہیں کہ اگر ہم ایٹمی مسئلے میں پسپائی اختیار کر لیں تو امریکا کی دشمنی بند ہو جائے گی وہ حقیقت سے غافل ہیں۔ مغربی ممالک کی مشکل ایٹمی مسئلہ نہیں ہے۔ بہت سے ممالک ہیں جن کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اور خود ہمارے علاقے میں موجود ہیں، ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ تو مسئلہ ایٹمی ہتھیاروں کا یا ایٹمی صنعت کا نہیں ہے۔ مسئلہ انسانی حقوق کا نہیں ہے۔ ان کی سب سے بڑی مشکل اسلامی جمہوری نظام ہے جو ان کے مقابل شیر کی مانند ڈٹا ہوا ہے۔ اگر اسلامی جمہوری نظام بھی علاقے کی بعض حکومتوں کی مانند اپنی قوم سے خیانت کرنے پر تیار ہو جاتا اور مغربی طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا گوارا کر لیتا تو پھر انہیں کوئی اعتراض نہ رہتا۔ ان کی مشکل ان کی استکباری پالیسیاں ہیں۔ ملت ایران سے ان کی دشمنی کی وجہ یہ ہے۔
امریکیوں کی یہ بھول ہے جو وہ سمجھتے ہیں کہ دشمنی، لڑائی اور دھمکی سے وہ اسلامی جمہوریہ ایران کو پسپائي اختیار کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں، یا اسلامی جمہوریہ کو مٹا سکتے ہیں۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے اور اس بھول کا نتیجہ بھی انہیں بھگتنا پڑے گا۔ ان کے لئے بہتر ہے کہ ملت ایران سے مودبانہ رویہ اختیار کریں، اپنے حق پر قانع رہیں، جو المیہ ان کے انتظار میں ہے اسے محسوس کریں اور پہچانیں۔ مغربی ممالک اپنے عوام کو تیل کے اس بحران کی بھنک نہیں لگنے دے رہیں جو پیش آنے والا ہے۔ وہ اپنے عوام کو اس کی خبر نہیں لگنے دینا چاہتے کہ تیل اور انرجی کے ذرائع کے تعلق سے جو صورت حال انہیں پیش آنے والی ہے وہ کیا ہے؟ یہ اس گمان میں ہیں کہ ملت ایران سے دشمنی نکال کر اپنے کچھ مسائل حل کر لیں گے لیکن یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔
میرے عزیز بھائیو اور بہنو! عزیز ملت ایران! میں یقین دلاتا ہوں کہ امریکا اپنی ان تمام ہنگامہ آرائیوں کے باوجود، طاقت کی اس نمائش کے باوجود آج کمزور پڑ چکا ہے، اس کے قدم لڑکھڑا رہے ہیں۔ میں خفیہ اطلاعات یا ظاہری باتوں کی بنیاد پر ایسا نہیں کہہ رہا ہوں۔ میری بات دو اور دو چار کے حساب کی طرح بالکل واضح ہے۔ آپ خود دیکھئے! موجودہ امریکی صدر تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں پہنچے۔ تبدیلی سے کیا مراد ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری موجودہ حالت بہت خراب ہے جسے میں بدل دینا چاہتا ہوں۔ وہ اس نعرے کے ساتھ میدان میں اترے۔ عوام نے تبدیلی کا نعرہ سنا تو انہیں ووٹ دیا ورنہ نسل پرست لوگ کبھی بھی ایک سیاہ فام کو ووٹ نہ دیتے۔ انہوں نے تبدیلی کی آس پر انہیں ووٹ دیا۔ تبدیلی کا نعرہ اگر عوام میں اتنا مقبول ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حالت بہت خراب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حالات جن میں یہ جناب منتخب ہوکر اقتدار میں پہنچے خود امریکی عوام کے نقطہ نگاہ سے بھی ناگوار حالات تھے۔ انہوں نے ان حالات کو بدل دینے کا وعدہ کیا۔ یعنی حالات کا خراب ہونا مسلمہ ہے۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ خود امریکی عوام کا ماننا ہے کہ ان کی حالت خراب ہے۔ اب یہ جناب اقتدار میں پہنچے تو کیا انہوں نے تبدیلی پیدا کی؟ کیا حالات کو بدلنے میں کامیاب ہوئے؟ ان برے حالات کی اصلاح کر سکے؟ آج امریکا پر پندرہ ہزار ارب ڈالر کا قرضہ ہے۔ یہ قرضہ ان کی قومی پیداوار سے یا تو زیادہ ہے یا اس کے برابر ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی ملک کے لئے سب سے بڑی بدبختی ہے۔ ان کی سیاسی حالت یہ ہے کہ عراق سے بے نیل مرام، خالی ہاتھ بے دخل ہونا پڑا ہے۔ افغانستان میں ان کی حالت روز بروز ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں جو ان کا حلیف ملک شمار کیا جاتا تھا یہ روز بروز زیادہ بدنام ہوتے جا رہے ہیں۔ اسلامی ممالک میں، مصر میں، شمالی افریقا میں، تیونس وغیرہ میں امریکیوں کا سارا دبدبہ ریت کی دیوار ثابت ہوا ہے۔ یہ سب تو اپنی جگہ خود امریکا کے شہروں میں وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک پھیل چکی ہے۔ یہ صورت حال کیا کوئی بہتر صورت حال ہے؟ یہ دو دو چار والی بات ہے۔ اس کو سمجھنے میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ امریکی عوام نے تبدیلی کی حمایت کی یعنی موجوہ حالت بری ہے۔ یہ بری حالت اب تک بدلی نہیں ہے۔ بنابریں امریکی عوام مشکلات میں اب بھی گرفتار ہیں۔
ممکن ہے کہ امریکا دیگر ممالک کے لئے خطرے پیدا کرے، ممکن ہے کہ کوئی جنونی کارروائی کرے تو میں یہیں پر اعلان کرتا ہوں کہ ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں اور ہم ایٹمی ہتھیار بنائیں گے بھی نہیں لیکن دشمنوں کے حملے کے جواب میں خواہ وہ امریکا کی جانب سے کیا گیا ہو یا صیہونی حکومت کی جانب سے، اپنے دفاع کے لئے ہم حملے کی سطح کی ہی جوابی کارروائي کریں گے۔ ہم ان پر حملہ کر دیں گے۔
قرآن نے ہمیں خوش خبری دی ہے کہ : «و لو قاتلكم الّذين كفروا لولّوا الأدبار ثمّ لا يجدون وليّا و لا نصيرا. سنّة اللّه الّتى قد خلت من قبل و لن تجد لسنّة اللّه تبديلا» (1) قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گيا ہے کہ اگر تم نے جنگ شروع کی، حملے کا آغاز کیا تو حتمی طور پر تمہیں فتح حاصل ہوگی، ممکن ہے کہ آپ فتحیاب ہوں اور یہ بھی امکان ہے کہ آپ کو شکست کا سامنا ہو۔ چنانچہ صدر اسلام کی جنگوں میں آپ دیکھئے! جن میں مسلمانوں نے حملے کا آغاز کیا ہے، ان میں کبھی تو انہیں شکست ہوئی اور کبھی فتح ملی۔ تاہم قرآن نے یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر دشمن نے حملے کی شروعات کی تو دشمن کی شکست یقینی ہوگی۔ اب آپ یہ نہ کہئے کہ یہ چیز صدر اسلام سے مخصوص ہے۔ کیونکہ «سنّة اللّه الّتى قد خلت من قبل و لن تجد لسنّة اللّه تبديلا» یہ الہی قانون ہے(جو بدلتا نہیں)۔ ملت ایران پرعزم ہے، جوش و جذبے سے بھری ہوئی ہے۔ یہ قوم کسی پر حملے یا جارحیت کی فکر میں نہیں ہے لیکن اپنے وجود، اپنے تشخص، اپنے ذخائر، اپنے دین اسلام اور اسلامی جمہوری نظام سے قلبی طور پر وابستہ ہے۔
ہم نے اس سال کے لئے قومی پیداوار کے نعرے کا انتخاب کیا، جس کی تشریح کی جا چکی۔ ایرانی سرمائے اور کام کی حمایت کا جہاں تک سوال ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اگر آپ مقامی طور پر تیار کی جانے والی مصنوعات کا استعمال کریں گے تو در حقیقت آپ ایرانی محنت کش طبقے کے مددگار ثابت ہوں گے، آپ اپنے اس عمل سے روزگار کے مواقع پیدا کریں گے، آپ ایرانی سرمائے کی مدد کریں گے، رشد و ترقی کی راہ ہموار کریں گے۔ یہ بڑی غلط عادت ہے جو ہمارے ہاں کچھ جگہوں پر عام ہو گئی ہے کہ بس امپورٹڈ سامان ہی استعمال کیا جائے! اس سے وطن عزیز کو نقصان پہنچے گا، اس سے ہماری ترقی متاثر ہوگی، ہمارے مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ لہذا اس سلسلے میں سب پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، حکومت کی بھی ذمہ داری ہے، اسے چاہئے کہ قومی پیداوار کی حمایت کرے، قومی پیداوار کو تقویت پہنچائے۔
خوش قسمتی سے اقتصادی ترقیاتی فنڈ کو منظوری مل گئی ہے، پارلیمنٹ نے اس کا قانون بھی پاس کر دیا ہے۔ آج حکام کے پاس ایک عظیم سرمایہ ہے جسے وہ قومی پیداوار کے لئے بروئے کار لا سکتے ہیں۔ کام میں آسانی پیدا کریں، پارلیمنٹ بھی تعاون کرے، مجریہ بھی ہمت و شجاعت کا مظاہرہ کرے تا کہ سب مل کر قومی پیداوار کو رونق عطا کر سکیں۔ عوام بھی جن میں بعض کے پاس سرمایہ ہے اور کچھ کے پاس افرادی قوت ہے، انہیں چاہئے کہ تعاون کریں، کام کو بنحو احسن انجام دیں۔ مقامی مصنوعات کو معیاری، پائیدار اور مرغوب بنائيں۔ جہاں تک ہو سکے اشیاء کی قیمتوں کو نیچے رکھا جائے۔ اس کے لئے تمام متعلقہ شعبوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ سرکاری اداروں کو چاہئے کہ مدد کریں، خواہ وہ مالیاتی ادارے ہوں یا دیگر اقتصادی شعبے۔ پارلیمنٹ بھی تعاون کرے تا کہ ہمارے ملک میں یہ کام انجام پا سکے۔
اس سلسلے میں عوام ستون کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ خود ایرانی مصنوعات کا مطالبہ کیجئے۔ یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے کہ ہم اپنے لباس میں، گھر کے سامان میں، فرنیچر میں، روز مرہ کے استعمال کی اشیاء میں، اشیائے خورد و نوش میں غیر ملکی ٹریڈ مارک کو مقامی کمپنیوں پر ترجیح دیں جبکہ مقامی طور پر تیار کی جانے والی اشیاء بسا اوقات (امپورٹڈ اشیاء سے) زیادہ معیاری واقع ہوئی ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ ملک کے اندر بعض صوبوں میں تیار ہونے والے لباس کو لے جاکر غیر ملکی ٹریڈ مارک لگاتے ہیں اور پھر اسے واپس لاتے ہیں! اگر ایسا نہ کریں تو ممکن ہے کہ ایرانی صارف اسے پسند نہ کرے۔ لیکن جب اس پر فرانسیسی کمپنی کا لیبل لگ جاتا ہے تو ایرانی خریدار اسی لباس کو، اسی سوٹ کو، اسی سلائی کو پسند کرتا ہے۔ یہ غلط بات ہے۔
قومی پیداوار بہت اہم ہے، آپ پہلے دیکھئے کہ ایرانی محنت کش نے کیا چیز تیار کی ہے؟ ایرانی سرمایہ کار نے کتنی بڑی سرمایہ کاری کی ہے؟ استعمال کے سلسلے میں مرکزی اور محوری پوزیشن عوام الناس کی ہے۔ یہ معیار صرف کی اصلاح کا جز ہے جس کے بارے میں دو سال قبل میں نے یہیں پر ایرانی عوام سے گفتگو کی تھی، اسی طرح یہ اقتصادی جہاد کا بھی جز ہے جس کے بارے میں ایک سال قبل میں نے بات کی تھی۔ قومی پیداوار بہت اہم ہے، اسے نصب العین بنانا چاہئے۔
میں سیاسی شعبے کے تعلق سے بھی ایک سفارش کرنا چاہوں گا۔ بھائیو اور بہنو! آج پورے ملک میں اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اختلاف کی بہت سی وجہیں نکل آتی ہیں، کبھی کسی مسئلے میں دو لوگوں کے نظریات الگ الگ ہوتے ہیں لیکن اسے تنازعے کا باعث نہیں بننے دینا چاہئے۔ کبھی کسی شخص میں ایک رجحان ہوتا ہے لیکن دوسرے شخص میں وہ رجحان نہیں پایا جاتا تو اسے تصادم کا باعث نہیں بننے دینا چاہئے۔ سب کے نظریات قابل احترام ہیں، لیکن اندرونی صفوں میں اختلاف اور تنازعہ شروع ہو جائے گا تو ناکامی اور شکست کا باعث بنے گا۔ قرآن ہمیں ہدایت دیتا ہے کہ :و لا تنازعوا فتفشلوا و تذهب ريحكم (2) اگر ہم مختلف مسائل کے بارے میں ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے، سیاسی مسائل میں، اقتصادی مسائل میں، ذاتی مسائل میں دست بگریباں ہو جائیں گے تو ہمارے دشمن کی جرئت بڑھے گی۔ گزشتہ برسوں کے دوران دشمن کی جرئت جو تھوڑی بڑھی تو اس کی وجہ ہمارے اختلافات تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ : «ليس من طلب الحقّ فاخطأه كمن طلب الباطل فأصابه» مخالفین دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک مخالف وہ ہے جو حق کا متلاشی ہے، اسے بھی اسلامی جمہوریہ کی فکر ہے، اسے بھی انقلاب کی فکر ہے، وہ دین و خدا سے انس رکھتا ہے لیکن غلط طرز فکر اختیار کر بیٹھا ہے۔ ایسے شخص سے دشمنوں جیسا برتاؤ نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس انسان میں اور اس شخص میں بہت فرق ہے جو اسلامی نظام سے دشمنی کے جذبے کے ساتھ اس نظام کی مخالف سمت میں حرکت کر رہا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اپنائیے، دلوں میں ایک دوسرے کے لئے نرمی رکھئے۔
یہ الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ باعث بنا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے خلاف بے لگام ہوکر اظہار خیال کریں، ایک دوسرے کو برا بھلا کہیں۔ ملک کے حکام کی طرف سے اس کا بھی کوئی حل نکالا جانا چاہئے تاہم سب سے بنیادی راہ حل یہ ہے کہ ہم عوام خود کو اسلامی اخلاقیات کا پابند بنائیں، قانون کے سامنے سر جکھائیں۔ اب میری اس بات کو کچھ لوگ بہانہ بنا کر انقلابی نوجوانوں کی ملامت شروع نہ کر دیں! بالکل نہیں، میں ملک کے تمام غیور نوجوانوں کو اپنے مومن اور انقلابی فرزندوں کی حیثیت سے دیکھتا ہوں اور ان کا پشت پناہ ہوں۔ میں انقلابی، مومن و غیور نوجوانوں کی حمایت کرتا ہوں لیکن سب کے لئے میری سفارش یہ ہے اپنے طرز عمل کو اسلامی اخلاقیات کے سانچے میں ڈھالیں، قانون کی پاسداری کریں۔ قانون کے سب پابند رہیں۔ اسلامی انقلاب اسلامی جمہوریہ کے قوانین کے قالب میں موجود ہے۔ ملک کے حکام کا طرز عمل بھی یہی ہونا چاہئے۔ مجریہ کو چاہئے کہ پارلیمنٹ کے وقار کا خیال رکھے اور پارلیمنٹ کو چاہئے کہ حکومت اور صدر کا احترام کرے۔ ایک دوسرے سے متحد رہیں، ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ یہ مقصود نہیں ہے کہ سب کے سب ایک ہی نہج پر سوچیں! مراد یہ ہے کہ اگر دو الگ الگ طرز فکر ہے تو دست بگریباں نہ ہو جائیں۔ ہمارا آپسی تنازعہ، ہمارا آپسی جھگڑا دشمن کی خوشی کا باعث بنے گا۔
میں امید کرتا ہوں کہ سنہ 1391 ہجری شمسی کا سال جو آج سے شروع ہوا ہے ملت ایران کے لئے امید و نشاط، کام اور محنت اور کامیابی و خوشبختی کا سال ثابت ہوگا۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کے صدقے میں ہمارے عزیز نوجوانوں کو، عزیز ملت ایران کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ۔ پروردگارا! اس قوم کے دشمنوں کو مغلوب کر۔ پالنے والے! اس مجاہد، ثابت قدم اور با وقار قوم کو اس کے اعلی اہداف میں کامیاب فرما۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔ حضرت کی دعاؤں کو ہمارے شامل حال فرما۔

والسّلام عليكم و رحمةاللّه و بركاته

‌1) فتح: 22 و 23
2) انفال: 46