1392/04/23 ہجری شمسی مطابق 14/7/2013 عیسوی اتوار کی شام صدر ڈاکٹر محمود احمدي نژاد اور ان کی کابینہ کے اراکين نے قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي سے ملاقات کي - قائد انقلاب اسلامي نے اس موقع پر اپنے خطاب ميں، رات دن کي انتھک محنت اور ملکي و بين الاقوامي سطح پر انقلابي اقدار کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوششوں کو، حکومت کي نماياں خصوصيات ميں شمار کيا۔ آپ نے بعض مخالفين اور بعض ملکي و غير ملکي ذرائع ابلاغ کي جانب سے، حکومت کي محنت کو نظرانداز کرنے کي کوشش کا حوالہ دیتے ہوئے فرمايا کہ گزشتہ آٹھ سال ميں سبھي نے اس بات کا احساس اور ادراک کيا ہے کہ صدر مملکت اور ان کے ساتھيوں نے سختياں برداشت کيں اور ديگر ادوار اور حکومتوں کي بہ نسبت زيادہ محنت اور لگن سے کام کيا جو اس حکومت کا نماياں اور قابل قدر پہلو ہے- قائد انقلاب اسلامی نے مختلف ملکوں میں حکومتی عمائدین کو ملنے والی سہولیات اور امتیازات سے صدر احمدی نژاد کی حکومت کی بے اعتنائی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ سہولتیں حاصل کرنے سے اجتناب اور بے تکان محنت موجودہ حکومت کی بہت بڑی خصوصیت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انقلابي اقدار کي شجاعانہ ترویج کو ضروري قرار ديا اور فرمايا کہ انقلاب مخالف محاذ نے ان اقدار کي اہميت کم دکھانے اور تدريجي طور پر ان کو اصول و اقدار کے خلاف ظاہر کرنے کي بہت کوشش کي ہے ليکن اس محاذ کو کامیابی نہیں ملی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمايا کہ انقلاب دشمنوں کي اس ناکامي کي وجہ ان اقدار کو پيش کرنے اور ان کو مستحکم کرنے ميں حضرت امام خميني رحمت اللہ عليہ کي ہوشياري تھی۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم الله الرّحمن الرّحيم

بہت اچھا اجلاس تھا۔ آج کے اس اجلاس میں محترم عہدیداروں نے اعداد و شمار کے ساتھ فنی انداز میں اپنی سرگرمیوں اور خدمات کی کچھ تفصیلات بتائیں۔ ماہ مبارک رمضان میں ہر سال حکومتی عہدیداروں، کابینہ کے ارکان، صدر محترم اور ان کے معاونین کے ساتھ یہ اجلاس ہوتا ہے جس میں عام طور پر ہم کاموں کی رپورٹ اور بریفنگ نہیں سنتے بلکہ کچھ نصیحتیں اور نہج البلاغہ کے چند جملے بیان کرتے رہے ہیں، اس طرح ہم سب کلام امیر المونین علیہ السلام سے مستفیض ہوتے تھے لیکن اس سال اور آج کے دن میرا اصرار تھا اور میں نے خود صدر محترم کے سامنے تجویز رکھی کہ احباب تقریر کریں اور رپورٹ پیش کریں، کیونکہ اس حکومت کے آخری ایام ہیں جو اس بات کے لئے بہت مناسب اور موزوں معلوم ہوتے ہیں کہ اس حکومت کے دور میں جو کام انجام پائیں ہیں بطور نمونہ ان کی مختصر رپورٹ پیش کر دی جائے۔ آج اس اجلاس میں جو باتیں بیان کی گئیں، میں چاہتا ہوں کہ ہمارے عزیز عوام تک بھی پہنچیں اور اہل نظر افراد بھی اس سے باخبر ہوں۔ کیونکہ بہت سی باتیں اور حقائق جو بیان کئے جاتے ہیں ان سے ہمارے بہت سے دوست باخبر نہیں ہیں۔ خاص افراد کے پاس بھی مکمل اطلاعات اور پوری تفصیلات نہیں ہوتیں۔ اسی طرح عوام کا باخبر ہونا بھی ضروری ہے تا کہ وہ دیکھیں اور محسوس کریں، البتہ بہت سے کام ایسے ہیں جو خود عوام کی نگاہ کے سامنے ہیں۔ البتہ مخالفین اور بے خبر افراد، بعض دشمن ذرائع ابلاغ اور کبھی کبھی ملک کے اندر بھی بعض حلقے، ان چیزوں کا بھی انکار کر دیتے ہیں جو ان کی آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ یعنی کام انجام دیا جا چکا ہے، ان کی آنکھوں کے سامنے ہے، سب دیکھ رہے ہیں، سب کچھ سامنے آ چکا ہے لیکن اس کے باوجود انکار کرتے ہیں، اب یہ دوستانہ، منصفانہ یا حسن ظن پر مبنی طرز فکر کے فقدان کی وجہ سے ہے یا کسی اور وجہ سے اس سے ہمیں بحث نہیں ہے، ملک کے اندر بہرحال ان چیزوں کو عوامی سطح پر پیش کیا جانا چاہئے اور ان کا اندراج ہونا چاہئے۔
میں آپ سب دوستوں کی خدمت میں سب سے پہلے تو لگاتار محنتوں پر قدردانی کے چند جملے عرض کروں گا، اللہ آپ سب کی قوت و ہمت میں مزید اضافہ فرمائے۔ آپ نے آٹھ سال کام کیا، محنت کی، بہت اچھے کام انجام پائے، آپ نے دن رات کام کیا اور شب و روز کی اپنی اس محنت اور زحمت کا ثمرہ بھی لوگوں کے سامنے پیش کر دیا، سب نے دیکھا، سب نے محسوس کیا اور سب کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ صدر محترم اور ان کی کابینہ کے دیگر افراد کی محنت بہت زیادہ ہے اور دیگر ادوار کی نسبت آپ نے زیادہ تیز رفتاری سے کام انجام دیا ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ جو لوگ بھی حکومتوں، کابیناؤں اور صدور محترم کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا چاہیں، خواہ اپنی ذات کے لئے یا عوام کے سامنے پیش کرنے کے لئے، تو بہت مناسب ہے کہ اس نکتے پر ضرور توجہ دیں۔ کاموں کی کثرت، لگاتار محنت، ان آسائشوں اور سہولیات سے بے رغبتی جو عام طور پر دنیا کے ملکوں میں حکام کو حاصل ہوتی ہیں، وہ استراحت کرتے ہیں، تفریح کے لئے جاتے ہیں، امتیازات لیتے ہیں، موجودہ حکومت کے عہدیداروں نے کبھی ان کا سوال نہیں کیا، کبھی طلب نہیں کیا۔ یہ اس حکومت کی بہت بڑی خصوصیت ہے۔
ایک اور نکتہ جو اس حکومت کے تعلق سے پورے آٹھ سال کے دوران میرے مد نظر رہا اور میں نے بارہا اس کا ذکر بھی کیا، یہ ہے کہ یہ حکومت انقلاب کے نعروں کو نمایاں طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہی ہے، اس حکومت نے ان نعروں پر اظہار فخر کیا، اسے معاشرے میں پرزور طریقے سے دہرایا۔ تاریخ میں دیکھئے تو دنیا کے مختلف ملکوں میں انقلاب مخالف محاذ نے ہمیشہ یہ روش اختیار کی کہ کسی طرح انقلابی اقدار کو کم رنگ کر دے۔ پہلے تو اقدار کو کم رنگ کرتے ہیں اور پھر انہیں مٹا دینے کی کوشش کرتے ہیں، اور اگر انہیں موقعہ مل جائے تو ان اقدار کو بالکل الٹ دیتے ہیں۔ دنیا میں یہ روش عام رہی ہے۔ ہم نے دنیا کے انقلابوں کی تاریخ میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے۔ ہمارے زمانے میں انقلاب آئے، ہم نے اپنی اس عمر میں جن انقلابوں کو دیکھا یا جن کے بارے میں سنا، ان میں بھی یہی ہوتا رہا۔ انقلاب مخالف اور انقلاب دشمن محاذ کبھی بھی انقلاب کے نعروں کو فراموش نہیں کرتا، یعنی اسے خوب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقابلہ آرائی میں، اس تصادم میں انقلابی محاذ کی مضبوطی اور انقلاب مخالف محاذ کی شکست کی ایک وجہ انقلاب کے نعرے ہوتے ہیں۔ نعروں کے مضمون اور مفہوم میں جتنی گہرائی ہوگی اور نعرے عوام کے دل و احساس کے جتنے قریب ہوں گے، انقلاب کی پیشرفت میں ان کا کردار اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ تو وہ ان نعروں کو رفتہ رفتہ مٹا دینے اور کم رنگ کر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے ملک اور اسلامی انقلاب کے بارے میں یہ چال دشمنوں نے چلی لیکن بحمد اللہ وہ ناکام رہے۔ دشمن انقلاب کے نعروں کو کم رنگ کرنے اور مٹا دینے میں ناکام رہا۔ میرے خیال میں اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ جاتا ہے ہمارے عظیم الشان امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی دور اندیشی کو۔ امام خمینی نے اپنے بیانوں، اپنے فرمودات اور اپنی تحریروں کی شکل میں جو کچھ ہمارے درمیان چھوڑا ہے وہ بالکل واضح اور بین مطالب ہیں، یہ متشابہ کہی جانے والی آیتوں کی مانند نہیں ہیں کہ جن میں کسی شک و شبہے کی گنجائش ہو اور کوئی اسے سمجھنے میں غلطی کا مرتکب ہو جائے۔ امام خمینی کا حرف آخر آپ کا وصیت نامہ ہے۔ میں عہدیداروں اور ان افراد کو جو حکومتی سطح پر اہم فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں، ہمیشہ سفارش کرتا ہوں کہ امام خمینی کے وصیت نامے کا مطالعہ کریں۔ امام خمینی کا یہ وصیت نامہ آپ کے مد نظر اقدار اور اصولوں کا ماحصل ہے۔ امام خمینی نے یہ چیز ہمارے درمیان چھوڑی ہے جو زندہ ہے اور ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اقدار میں کوئی تحریف نہیں کر سکتا، انہیں کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ البتہ ان کو نظر انداز کر دینا تو ممکن ہے اور کچھ لوگ ممکن ہے کہ اسے نظر انداز کر دیں، لیکن اس میں تحریف ممکن نہیں ہے۔
موجودہ حکومت نے ان نعروں کو نمایاں کیا، باقاعدہ پیش کیا، اسے اپنایا اور اس پر اظہار فخر بھی کیا عالمی اداروں کے پلیٹ فارم پر بھی انہیں اٹھایا۔ انقلابی فکر و جذبات، انقلابی اہداف اور انقلابی انداز کو برملا پیش کرنے میں کبھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ آپ نے جو کچھ خوشنودی خدا کے لئے انجام دیا، اللہ تعالی آپ کے نامہ اعمال میں اسے رقم فرما چکا ہے، کراما الکاتبین نے بھی اسے محفوظ کر لیا ہے جو یقینا آئندہ آپ کے کام آئے گا۔ آپ نے جو کچھ انجام دیا، اسے میں یا مجھ جیسے افراد دیکھیں یا نہ دیکھیں، جانیں یا نہ جانیں، اظہار تشکر کریں یا نہ کریں «انّ الله شاكر عليم»؛(۱) خدا تو بہرحال دیکھ ہی رہا ہے، جانتا ہی ہے اور اس پر اظہار تشکر بھی کرتا ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں میری دعا ہے کہ آپ سب کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ جس کام کو بہت ہمت اور حوصلے کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ خدمت کے سلسلے کو رکنے نہ دیجئے۔ سعی و کوشش کا دائرہ صرف وزارت خانے یا کسی حکومتی عہدے تک محدود نہیں ہے۔ نہیں، ملکی پلیٹ فارم بہت وسیع ہے، کام اور محنت کے لئے بڑا وسیع میدان سامنے ہے۔ دو طرح کے کام انجام دئے جا سکتے ہیں۔ ایسے کام جن کا رخ انقلابی اہداف کی جانب ہو اور ایسے اقدامات جن کا رخ انقلابی اہداف کی طرف نہ ہو۔ آئندہ حکومت کے اندر آپ کوئی عہدہ سنبھالیں یا نہ سنبھالیں، آپ جس عہدے پر بھی جو کام بھی انجام دیں، آپ کی کوشش یہ ہو کہ وہ کام انقلابی اہداف اور انقلابی جذبات و احساسات کے ساتھ انجام پائے۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے گا اور ہم بھی اپنی بساط بھر تشکر اور قدردانی کریں گے۔
اب وقت زیادہ نہیں ہے، میں ہمیشہ کے معمول کے مطابق نہج البلاغہ کے چند جملے آپ کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا جس میں امام امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں؛ «و اعلم انّ امامك طريقا ذا مسافة بعيدة و مشقّة شديدة».(۲) یہ امام حسن علیہ السلام کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی وصیت کے جملے ہیں۔ وصیت کو انتہائی پرخلوص اظہار ما فی الضمیر خیال کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ وصیت ایسے وقت کی جاتی ہے جب مادی دنیا سے انسان کی دلچسپی و رغبت ختم ہو چکی ہے، اس کے اب مادی اغراض و مقاصد نہیں ہیں اور اگر ہیں تو بہت کمزور پڑ چکے ہیں، چنانچہ وصیت نامے میں انتہائی خلوص والی باتیں کہی جاتی ہیں۔ وہ بھی اس وقت جب وصیت جس سے کی جا رہی ہے وہ سب سے عزیز اور سب سے قریبی شخص ہو۔ بیٹا ہو، وہ بھی امام حسن علیہ السلام جیسا فرزند، امیر المومنین علیہ السلام کے فرزند اکبر جن کی محبت حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے دل میں سب سے زیادہ تھی۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے اس فرزند کو وصیت کر رہے ہیں۔ البتہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ یہ وصیت صرف تم سے مختص نہیں بلکہ عمومی ہے لیکن اصلی خطاب امام حسن علیہ السلام سے ہی ہے۔ بنابریں اس وصیت نامے میں حضرت علی علیہ السلام نے جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ آپ کے قلبی واردات اور ذہنی افکار کا ماحصل ہے۔ بیشک حضرت علی علیہ السلام کا ہر جملہ اور ہر لفظ بے پناہ گہرائیوں کا حامل ہے اور حکمت سے معمور ہے، یہ صرف اسی وصیت نامے کی بات نہیں ہے بلکہ حضرت علی علیہ السلام کے ہر کلام میں گہرائی ہے جسے ہم نہیں سمجھ سکتے۔ آپ کے ہر جملے اور ہر لفظ میں جو گہرائی ہے اس کے ادراک سے ہم قاصر ہیں، ہم اپنی بساط بھر اس سے مستفیض ضرور ہوتے ہیں لیکن اس کی گہرائی تک ہم نہیں پہنچ پاتے۔ ہم نے دیکھا کہ جن افراد کی حکمت و دانش کا معیار بہت بلند ہے اور جن کی فکری گہرائی و گیرائی زیادہ ہے انہوں نے مولائے متقیان کے کلام سے زیادہ نکات اخذ کئے۔ تو نہج البلاغہ اس طرح کا خزانہ ہے۔ اس نہج البلاغہ کے اندر حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے یہ جملے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں: جان لو کہ تمہارے سامنے ایسا راستہ ہے جس کی مسافت بہت طولانی اور جس کی دشواریاں بہت زیادہ ہیں۔ یہ طویل راستہ اعمال کی جزا اور قیامت کی منزل تک پہنچانے والا راستہ ہے، یہ بہت طولانی راستہ ہے۔ «و انّه لا غنى لك فيه عن حسن الارتياد»؛(۳) اس راستے میں تمہیں اپنی خواہش کے آخری نقطے کی طرف بڑھنا چاہئے۔ ارتیاد یعنی خواہش، طلب، کوشش نیت و ارادے کے ساتھ۔ تو ایسے میں تمہارے پاس پوری محنت سے آگے بڑھنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ یعنی یہ ایسا راستہ نہیں ہے جسے انسان سرسری انداز میں طے کرتا چلا جائے۔ ہم غفلت برتتے ہیں اور کچھ کاموں کو سرسری انداز میں انجام دے دیتے ہیں لیکن سرسری انداز میں یہ کام اس لئے ہم انجام دے رہے ہیں کہ ہم غفلت کا شکار ہیں۔ اگر ہمیں حقیقت امر کا بخوبی اندازہ ہو جائے، ہم پوری طرح سمجھ لیں کہ کس سمت میں جا رہے ہیں، ہماری ابدی عاقبت کس طرح اور کہاں ہماری نظروں کے سامنے آئے گی؟! اگر ان باتوں پر ہم توجہ دیں تو پھر سنجیدگی سے کام کریں گے۔ آپ دعائے کمیل میں دیکھئے، یہ دعا بھی حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے۔ آپ فرماتے ہیں؛ «و هب لى الجدّ فى خشيتك»؛(۴) دعا کرتے ہیں، اللہ تعالی کی بارگاہ میں التجا کرتے ہیں کہ معبود! اللہ کے سامنے ہمارا تضرع اور خوف سنجیدہ ہو، ظاہری احساس اور زود گزر جذبے کی طرح نہ ہو، انسانی حقیقت میں اللہ کی بارگاہ میں اس ہیبت و جلالت اور اپنے اوپر طاری ہونے والے خوف کا احساس کرے۔ « قدّر بلاغك من الزّاد مع خفّة الظّهر».(۵) آپ کو اس سخت و دشوار اور طولانی راستے کو جو قیامت کا راستہ ہے، ہر حال میں طے کرنا ہے، اس سے عبور کرنا ہے، قیامت کی جانب بڑھتے ہوئے دنیا کے بیچ سے گزر رہے ہیں، آپ کو اس مادی گزرگاہ سے لا محالہ گزرنا ہے، اس کے تمام تر مادی خصوصیات اور مادی فضا و ماحول کے بیچ سے گزرنا ہے۔ تو اس راستے کو آسان بنانے اور مطلوبہ منزل تک خود کو پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ «قدّر بلاغك من الزّاد» اتنا زاہ راہ ضرور مہیا کر لیں جو اس منزل تک پہنچا سکے۔ یعنی تخمینہ لگانا ہے کہ اس منزل تک رسائی کے لئے کتنا زاد راہ ضروری ہے۔
دوسرے حصے میں کہا گیا ہے: «مع خفّة الظّهر» اپنی پیٹھ کا وزن کم کر دو۔ یہ دو ہدایات حضرت امیر المومنین نے دی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اس راستے سے گزرنے کے لئے جو ضروری ہے اسے حاصل کریں، پھر آپ اس ضروری زاد راہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اجتناب از محرّمات و انجام واجبات یعنی وہ ضروری مقدار اور ڈاکٹروں کے بقول لازمی ڈوز جس کی آپ کو سخت ضرورت ہے اور راستہ طے کرنے کے لئے اسے حاصل کرنے کے لئے آپ ناگزیر ہے، وہ ہے واجبات پر عمل، واجبات کی انجام دہی۔ آپ نے واجب اعمال انجام دئے تو آپ کو ضروری زاد راہ مل جائے گا۔ اب آپ نے اپنے اعمال میں جتنا اضافہ کیا آپ کا زاد راہ اتنا ہی زیادہ ہوتا جائے گا، وسائل بڑھتے جائیں گے، فائدہ بڑھتا جائے گا۔ تو واجبات وہ کمترین زاد راہ ہے جس کی ہمیں اس راستے کو عبور کرتے وقت ضرورت پڑےگی۔ محرمات بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ یعنی محرمات سے اجتناب، اس راستے کی مصیبتوں سے خود کو بچانے کے لئے کمترین احتیاط کا تقاضا ہے۔ بنابریں اگر ہم نے محرمات سے اجتناب کیا اور واجبات کو انجام دیا تو ہماری اور آپ کی مطلوبہ پرواز کا سامان فراہم ہو جائے گا، ہمیں اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض افراد کچھ خاص 'ورد و ذکر' وغیرہ کی تلاش میں رہتے ہیں، ریاضت کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے، شرعی ریاضت واضح ہے۔ اگر ہم اپنی یہی نمازیں ادا کرتے رہیں، صحیح انداز میں پڑھتے رہیں، بروقت بجا لاتے رہیں، اس کے جملہ ارکان کو صحیح طور پر اور پوری درستگی کے ساتھ انجام دیتے رہیں، خضوع و خشوع کے ساتھ پڑھیں، اسی طرح روزہ رکھیں تو یہی واجبات جو انسان انجام دیتا ہے، اسے پرواز کی صلاحیت عطا کر دیں گے۔ اگر ہم نے یہ لازمی عمل انجام دیا تو یہی مقدمہ اور تمہید ثابت ہوگا انوار الہیہ کے حصول کا۔ یعنی یہ کمترین مقدار جو ہمارے لئے ضروری ہے، اس کا فائدہ صرف اتنا نہیں ہے کہ ہمیں یہ راستہ طے کرنے پر قادر بنا دیگی بلکہ اس کا دوسرا فیض یہ ہے کہ مزید انوار الوہی اور فیضان ربوبی کے حصول کا راستہ بھی ہموار کر دیگی۔ جب انسان واجب نماز کو بنحو احسن ادا کرے تو فطری طور پر اس کے اندر نافلہ نمازوں سے بھی رغبت پیدا ہوگی۔ اگر انسان جھوٹ، غیبت، غیر ذمہ دارانہ گفتگو، تہمت، تخریبی امور، رشوت و حرام خوری اور خیانت در امانت سے پرہیز کرنے لگےگا تو یہ صورت حال انسان کے دل کو ہدایت و معرفت الہیہ کا میزبان بنا دینے میں مددگار ثابت ہوگی۔ ہمیں آگے لے جائیگی۔ یہ ہے پہلی وصیت۔
دوسری وصیت یہ ہے کہ «مع خفّة الظّهر»؛ اپنے پیٹھ کا بوجھ کم کریں۔ ہمارے دوش پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں یہ توفیق دے کہ اس بوجھ کو اٹھا سکیں۔ اگر آپ کامیابی کے ساتھ اس بوجھ کو اس کی منزل تک پہنچا لے گئے تو بے پناہ اجر آپ کو ملے گا۔ یعنی یہ سنگین ذمہ داری اور بوجھ جس طرح انسان کو بڑی تشویش میں مبتلا رکھتا ہے، تمام تقاضے درست انداز میں پورے کر دئے جانے پر بے شمار فضیلتیں بھی عطا کرتا ہے۔
اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ آپ سب کی مدد فرمائے اور اسلام و انقلاب کی خدمت انجام دینے میں آپ کو کامیاب کرے۔

والسّلام عليكم و رحمة الله و بركاته

۱) بقره: ۱۵۸
۲) نهج البلاغه، مکتوب نمبر ۳۱
۳) نهج البلاغه، مکتوب نمبر ۳۱
۴) مفاتيح‌ الجنان، دعاى كميل
۵) نهج البلاغه، مکتوب نمبر ۳۱