بسم اللہ الّرحمن الّرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین۔
خواہران و برادران عزیز، خوش آمدید! کتنے خوش نصیب ہیں وہ کارکنان و عازمین حج جن کی آنکھیں، خانہ کعبہ، روضہ رسول مکرم اسلام اور ائمہ بقیع کی زیارت سے منور ہوں گی اور اس عظیم مہم میں معاونت کرنے والے ریاستی اور عوامی عوامل بھی خوش قسمت ہیں۔
کارکنان حج کا میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ ان کی زحمتیں واقعی قابل قدر ہیں اور مطلوبہ اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق مناسک حج کا پرشکوہ اہتمام جس کا ایک اہم حصہ آپ کارکنان حج سے تعلق رکھتا ہے، درحقیقت ایک بڑی توفیق ہے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کی اس خدمت کو قبول اور آپ کی حفاظت فرمائے۔
حج کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ بزرگوں نے اور دوسروں نے اس سلسلے میں بہت کچھ فرمایا ہے اور ہم نے بھی کچھ باتیں عرض کی ہیں، لیکن حج ان تمام باتوں، بحثوں اور نکات سے بالاتر ہے۔ اس سلسلے میں معصوم (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ راوی نے ایک بار معصوم علیہ السلام سے کہا کہ ہم برسوں سے آپ سے حج کے بارے میں پوچھتے ہیں اور آپ ہر بار نئی باتیں بیان کرتے ہیں، آپ اس کی تصدیق فرماتے ہیں اور مناسب جواب دیتے ہیں۔
آج جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ حج ایک ایسا فریضہ ہے جس کے پہلو اور معانی و مفاہیم بہت وسیع ہیں۔ اس کے گوناگوں پہلو ہیں جن میں معنوی اور مادی دونوں پہلو شامل ہیں، لیکن اس بندہ ناچیز کی نظر میں حج کے دو نمایاں اور ممتاز ترین نکات ہیں، ایک نکتے کا تعلق انسان کے باطن اور روح سے ہے جو علم، معرفت اورعزم کا سرچشمہ ہے اور دوسرے نکتے کا تعلق سماجی اور اجتماعی زندگی سے ہے۔
وہ نکتہ جو انسان کے باطن، اس کی تربیت اور انسان کے اندرعزم و اردے کی پرورش سے تعلق رکھتا ہے، وہ 'ذکر' کا مسئلہ ہے۔ حج میں 'ذکر' بہت اہم عنصر ہے۔ آپ حج کو شروع سے آخر تک دیکھیں، احرام باندھنے، 'محرم' ہونے کی تمہیدات سے لے کر عمرہ کی ادائیگی تک، اس کے بعد احرام حج، وقوف اور دیگر مناسک حج، ذکر و یاد خدا سے مملو ہیں۔ اسی بنا پر خود قرآن میں مختلف جگہوں پر حج کے سلسلے میں ذکر کا حکم دیا گیا ہے۔ یہی آیات جن کی تلاوت کی گئی، منجملہ یہ آیات کہ " فاذ افضتم من عرفات فاذکروا اللہ عند المشعر الحرام" (2) واذکروا اللہ فی ایّام معدودات" (3) " فاذکروا اللہ کذکرکم آبائکم" (4) فاذکروا اسم اللہ علیھا صواف" (5) سب ذکر ہے۔ چاہے طواف ہو، چاہے سعی ہو، چاہے نماز طواف ہو، چاہے وقوف عرفات ہو، چاہے وقوف مشعرالحرام ہو اور چاہے منیٰ کے اعمال ہوں۔ حج سر تا پا ذکر اور توجہ الی اللہ ہے۔ یہ ذکر سرچشمہ حیات ہے۔ سب سے اہم یہ ہے۔ جب ہمارے دل میں یاد خدا ہو اور یاد خدا کے نتیجے میں ہمارے دل پر خوف خدا سایہ فگن ہو تو اس کا اثر ہماری زندگی، ہمارے ارادے، ہمارے عزم اور ہمارے بڑے فیصلوں پر ہوگا۔ جس قوم کو بڑے اور بنیادی کام درکار ہوں، اس کے افراد کو ذکر خدا سے مانوس ہونا چاہئے۔
بعض اوقات ہم عزیز اور محترم عازمین حج کو نصیحت کرتے ہيں کہ مکے اور مدینے میں اس چیز کی فکر میں رہیں جو وہاں کے علاوہ کہیں اور نہیں مل سکتی، ان چیزوں کی فکر نہ کریں جو ہر جگہ دستیاب ہیں۔ بازار ہر جگہ ہیں، آنکھوں کو لبھانے والی چیزیں اور اجناس بھی ہر جگہ ہیں۔ کعبہ ہر جگہ نہیں ہے، مسجد الحرام ہر جگہ نہیں ہے، طواف ہر جگہ نہیں ہے، زیارت روضہ رسول ہر جگہ نہیں ہے، صرف وہیں ہے۔ وہاں اپنے چند روزہ قیام کے دوران اس کو غنیمت جانیں اور اس کی قدر کو سمجھیں۔ ہماری یہ تاکید اس لئے ہے کہ ہم ذکر و یاد خدا میں مشغول رہیں،" فاذکروا اللہ کثیرا لعلّکم تفلحون" (6) ذکر و یاد خدا میں فلاح ہے۔ فلاح صرف معنوی اور روحانی نجات نہیں ہے۔ فلاح یعنی کامیابی، یعنی رہائی، یعنی سبھی کاموں میں ہدف اور مقصد کا حصول۔ یہ ذکر و یاد خدا سے حاصل ہوتا ہے۔ یاد و ذکر خدا حج کا بنیادی عنصر ہے جو انسان کے باطن سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کی زندگی سنوار دیتا ہے۔
سماجی اور اجتماعی نکتہ، مسئلہ وحدت ہے، یک جہتی کا مسئلہ ہے، یکساں ںظریہ اپنانے کا مسئلہ ہے، مسلمان عوام سے رابطے کا مسئلہ ہے۔ حج میں یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔ ہم نے بارہا عرض کیا ہے کہ خداوند عالم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وسیلے سے صرف خاص طبقے کو نہیں بلکہ عوام الناس کو (حج کی دعوت دی ہے): و اذّن فی النّاس بالحج۔"(7) خدا وند عالم فرماتا ہے کہ عوام الناس کو، سبھی لوگوں کو، سبھی افراد بشر کو حج کی دعوت دو۔ ہر سال ایک مخصوص اور معینہ جگہ پر چند معینہ دنوں میں عوام الناس کے لئے دعوت الہی کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ منشاء الہی، خداوند عالم کا 'ارادہ تشریعی' یہ ہے کہ سبھی مسلمان ایک دوسرے سے نزدیک ہوں، ایک دوسرے کو پہچانیں، ان کے اندر ہمفکری پیدا ہو اور مل کر فیصلہ کریں۔ آج ہمارے درمیان سب سے بڑا خلا یہی ہے: "مل کر فیصلہ کریں" ایک جگہ جمع ہوں اور اس اجتماع کا عالم اسلام کے لئے مطلوبہ اور پسندیدہ نتیجہ برآمد ہو بلکہ یہ نتیجہ پوری بشریت کے لئے اچھا ہو۔ ہم یہ چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے تفاہم ضروری ہے، ملیت اور قومیت سے گزر جانے اور مذہبی و فرقہ وارانہ تفرقے کو عبور کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام میں بہت سے مذاہب ہیں، ان سبھی مذاہب کے پیرو، حج میں ایک ساتھ، ایک طریقے سے، ایک لباس میں ایک جگہ پر جمع ہوتے ہیں۔ یہ اجتماع الہی ہے، اجتماع اسلامی ہے، یہ حج کا ممتاز اور نمایاں سیاسی پہلو ہے۔ حج میں یہ دونوں نکات پائے جاتے ہیں، ذکر اور یاد خدا بھی اور اتحاد و وحدت اسلامی بھی۔
البتہ قرآن میں اور رسول مکرم اسلام کی احادیث میں اور بزرگان اسلام کے ارشادات میں عدم انتشار کا تعلق صرف حج سے مخصوص نہیں ہے۔ "و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرّقوا" (8) قرآن کی بہت سی آیات میں تفرقے اور ایک دوسرے کی دشمنی سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے۔ بہرحال حج کے یہ دو ممتاز نکات ہیں۔
میں اس بات کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ حج کی بات ہو تو جناب ابراہیم (علیہ الصلاۃ و السلام) کا اسم مبارک فراموش نہیں ہونا چاہئے۔
قرآن میں حضرت ابراہیم کی طرف سے ہمیں کافی درس دیا گیا ہے جنہیں قرآن کریم نے نقل کیا ہے۔ ان میں سے ایک یہی دعوت حج ہے کہ " اذّن فی النّاس بالحج"۔ اور لوگوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ "و اتّخذوا من مقام ابراھیم مصلّی" ( 9) جہاں وہ کھڑے ہوئے، جس جگہ انھوں نے نماز پڑھی، اس جگہ کو نماز کی جگہ قرار دو۔ یا "عھدنا الی ابراھیم و اسماعیل ان طھّر بیتی للطّائفین والعاکفین والرّکّع السّجود" (10) یہ طاہر کرنے کا حکم جو انھیں دیا گیا ہے، اس سے احساس ہوتا ہے کہ حضرت ابراھیم سے پہلے اس جگہ کچھ مسائل تھے جس کی بنا پر آپ کو گھر کی بنیادیں (11) اٹھانے کے ساتھ ہی ان نجاستوں سے کہ روایات اور تاریخ سے ہم پر روشن نہیں ہے کہ وہ کیا تھیں، پاک کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔ بنابریں میں عرض کرتا ہوں کہ جو تعلیمات حضرت ابراھیم نے ہمیں دی ہیں، ان کے مطابق اس سال کا ہمارا حج 'حج برائت' ہے۔ البتہ یہ برائت، ابتدائے انقلاب سے ہی حج میں ہے، برائت تھی اور جاری رہی ہے اور اس کو باقی رہنا چاہئے۔ لیکن خاص طور پر اس سال کا حج حج برائت ہے۔
یہ واقعات جو غزہ میں رونما ہو رہے ہیں، یہ عجیب اور عظیم حادثہ، یہ مغربی تمدن سے نکلے خون آشام وجود کا بے نقاب ہونا، یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن پر توجہ آج اور ان ایام سے مخصوص نہیں ہے۔ یہ تاریخ میں باقی رہیں گی۔ آج جو غزہ اور فلسطین میں رونما ہو رہا ہے، یہ وحشیانہ حملے، یہ پاگل صیہونی کتے اور یہ خون آشام صیہونی ایک طرف اور اسی کے ساتھ دوسری طرف غزہ کے مسلمان عوام کی مظلومیت اور استقامت، ان میں سے ہر ایک تاریخ کی عظیم علامت ہے، ایک نمایاں اور ممتاز معیار ہے جو تاریخ میں باقی رہے گا۔ یہ اہم معیارات ہیں جو بشریت کو مستقبل کا راستہ دکھائيں گے۔
آپ ملاحظہ فرمائيں کہ غیر مسلم معاشروں میں اس واقعے کا انعکاس اور ردعمل حیرت انگیز اور بے نظیر ہے۔ یہ واقعات جو آج امریکا اور بعض دیگر ملکوں کی یونیورسٹیوں میں رونما ہو رہے ہیں، (12) ان کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر کوئی دعوی کرتا کہ ممکن ہے کسی دن ایسا ہو جائے تو کوئی یقین نہ کرتا۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ ہوگا! یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ معیار ہے۔
اب ہمارا فریضہ کیا ہے؟ حضرت ابراہیم سے سیکھیں۔ آپ ملاحظہ فرمائيں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) رحم دل پیغمبروں میں ہیں۔ پیغمبران خدا، اخلاقی خصوصیات کے لحاظ سے، سب ایک ہی طرح کے نہیں تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بہت رحم دل تھے۔ مثال کے طور پر جب ملائک قوم لوط پر عذاب نازل کرنے جا رہے تھے تو حضرت ابراہیم ان سے بحث کرتے کہ اگر ممکن ہو تو ان پر رحم کرو۔ "یجادلنا فی قوم لوط" (13) یعنی آپ خدا کے ملائکہ سے یہ سفارش اور شفاعت کرنا چاہتے تھے کہ ان پر رحم کریں۔ آپ ایسے تھے۔ بعض دیگر پیغمبر دوسری طرح کے تھے۔ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام ) کے بارے میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ سورہ ابرہیم کی اس آیہ شریفہ میں کہ "فمن تبعنی فانّہ منّی و من عصانی فانّک غفور رّحیم " (14) یعنی جو لوگ میری پیروی کرتے ہيں، وہ تو ٹھیک ہے کہ میرے پیرو ہیں، لیکن جو پیروی نہیں کرتے آپ یہ نہیں فرماتے کہ پالنے والے! جو میری بات نہیں سنتے ان کی اصلاح فرما، ان کی ہدایت فرما یا ان پر عذاب نازل کر۔ فرماتے ہیں" فانّک غفور رّحیم" انہیں معاف کر دے، انہیں بخش دے۔ آپ اتنے رؤوف اور رحم دل تھے۔
جو لوگ مسلمانوں سے جںگ نہیں کرنا چاہتے، ان کے بارے میں سورہ ممتحنہ میں ان باتوں کے بعد جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے نقل کی جاتی ہیں، ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم سے تعلق رکھتی ہیں: لاینھاکم اللہ عن الّذین لم یقاتلوکم فی الدّین و لم یخرجوکم من دیارکم ان تبرّوھم و تقسطوا الیھم انّ اللہ یحبّ المقسطین" (15) یعنی اگر تمھارا 'ہم مذہب' نہیں ہے لیکن تم سے جنگ بھی نہیں چاہتا تو اس کے ساتھ انصاف سے پیش آؤ، منصفانہ برتاؤ کرو۔ یعنی ان غیر مسلمین سے جو تم سے جنگ نہیں چاہتے، تمہیں تکلیف نہیں پہنچاتے، ( انصاف سے پیش آو)۔
حضرت ابراہیم ایسے ہی تھے۔ گناہگاروں کے ساتھ اس طرح (یعنی معاف کرنے کی سفارش کرتے ہیں) اور غیرمسلمین کے ساتھ اس طرح۔ لیکن آپ دیکھیں کہ یہی ابراہیم ایک اور گروہ کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں: "قَد کانَت لَکُم اُسوَۃ حَسَنَةٌ فی اِبراھیمَ وَ الَّذینَ مَعَہُ اِذ قالوا لِقَومِھِم اِنّا بُرَآؤُا مِنکُم وَ مِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّہِ کَفَرنا بِکُم وَ بَدا بَینَنا وَ بَینَکُمُ العَداوَۃُ وَ البَغضاءُ اَبَداً حَتّىٰ تُؤمِنوا بِاللَّہِ وَحدَہ۔(16)
ملاحظہ فرمائيں کہ اس گروہ کے ساتھ، جو دشمن اور لڑائی کرنے والا ہے، اس طرح پیش آتے ہیں! وہی ابراہیم جو رؤوف اور رحیم ہیں، ایسے رحم دل ہیں کہ قوم لوط کی شفاعت کرتے ہیں، گناہگاروں کے لئے مغفرت طلب کرتے ہیں، جو اس بات کے قائل ہیں کہ جو کفار جنگ پسند نہیں ہیں، ان کے ساتھ نیکی کرنا چاہئے، وہی ابراہیم ایک جگہ اس طرح محکم انداز میں ڈٹ جاتے ہیں اور اظھار برائت کرتے ہیں: "اِنّا بُرَآؤُا منکم۔ ہم تم سے برائت کرتے ہیں، بَدا بَینَنا وَ بَینَکُمُ العَداوَۃُ وَ البَغضاءُ۔ ہمارے اور تمھار درمیان کھلی دشمنی ہے، ہم تمھارے کھلے دشمن ہیں اور دشمنی کرتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو جنگ پسند ہیں اور پھر اسی سورہ ممتحنہ میں، اس آیت کے بعد جو پہلے پڑھی اور یہ آیت بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذہنی کیفیت سے تعلق رکھتی ہے، فرمایا جاتا ہے:" اِنَّما یَنھاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذینَ قاتَلوکُم فِی الدّینِ وَ اَخرَجوکُم مِن دِیارِکُم وَ ظاھَروا عَلىٰ اِخراجِکُم اَن تَوَلَّوھُم" (17) ان لوگوں کے ساتھ جو تمھیں قتل کرتے ہیں، تم سے جںگ کرتے ہیں، تمھیں تمھارے دیار سے باہر نکالتے ہیں یا ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو تمھیں تمھارے گھر اور دیار سے باہر نکالتے ہیں، رابطہ رکھنے اور ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا حق نہیں ہے۔ یعنی ان کے اور تمھارے درمیان دشمنی ہونی چاہئے۔ یہ وہی چیز ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمائی کہ بدا بیننا وبینکم العداوۃ والبغضاء۔
تو آج دنیا میں کون ہے جو مسلمانوں سے دشمنی کرتا ہے، جںگ کرتا ہے، انہیں قتل کرتا ہے، ان کی عورتوں کو ان کے مردوں کو، ان کی اولادوں کو اور انہیں ان کے گھر اور دیار سے باہر نکال رہا ہے؟ کون ہے؟ صیہونی دشمن۔ کیا قرآن میں اس سے بھی زیادہ شفاف بیان کی ضرورت ہے؟ اور صرف صیہونی دشمن ہی نہیں ہے۔ وظاھروا علی اخراجکم۔ اور جو لوگ ان کی مدد کرتے ہیں، کون مدد کر رہا ہے؟ اگر امریکا کی مدد نہ ہوتی تو کیا صیہونی حکومت میں اتنی طاقت اور جرائت تھی کہ اس طرح اس محدود اور بند جگہ پر مسلمان عوام، عورتوں، مردوں اور بچوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتی؟ اس دشمن کے ساتھ کشادہ روئی سے نہیں پیش آیا جا سکتا۔ ان کے ساتھ نرمی نہیں برتی جا سکتی۔ اس دشمن کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ نہ اس کے ساتھ جو قتل کر رہا ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ جو اس قتل میں اس کا ساتھ دے رہا ہے اور پشت پناہی کر رہا ہے۔ نہ اس کے ساتھ جو گھروں کو تباہ کر رہا ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ جو گھر تباہ کرنے والے کی پشت پناہی کر رہا ہے: ومن یتولّھم فاولئک ھم الظالمون۔ (18) جو ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے وہ ظالم اور ستمگر ہے۔ الا لعنۃ اللہ علی الظّالمین" (19) یہ نص قرآن اور آیات قرآن ہیں۔ بنابریں اس سال برائت ہمیشہ سے زیادہ واضح ہے۔ اس سال کا حج، حج برائت ہے۔
ایرانی اور غیر ایرانی سبھی مومن عازمین حج کو وہ جہاں سے بھی ہوں، اس قرآنی منطق اور استدلال کو پوری اسلامی دنیا میں منتقل کرنے میں کامیاب ہونا چاہئے۔ آج فلسطین کو اس کی ضرورت ہے۔ فلسطین کو اسلامی دنیا کی پشت پناہی کی ضرورت ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کسی کے انتظار میں بیٹھا ہے نہ بیٹھے گا۔ لیکن اگر مسلم اقوام اور مسلمان حکومتیں ہر طرف سے آکر ساتھ دیں تو اس کا اثر بہت زیادہ ہوگا۔ پھر فلسطینی عوام کی المناک حالت اس طرح باقی نہیں رہے گی۔ یہ فریضہ ہے۔(20) آپ آمادہ ہیں خدا ایسا کرے کہ پوری اسلامی دنیا آمادہ ہو جائے۔ ان شاء اللہ۔
محترم عازمین حج کے تعلق سے جو زحمتیں ادارہ حج کے اندر اور اسی طرح (مکے اور مدینے میں) نمائندہ دفتر میں جو کام اور زحمتیں کی جا رہی ہیں، یا دوسرے متعلقہ ادارے عازمین حج کی صحت و سلامتی، سیکورٹی، رفت و آمد اور نقل وحمل کے حوالے سے جو خدمتیں کر رہے ہیں، ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ہماری تاکید ہےکہ عازمین حج کے آرام و اسائش کے لئے اور اس بات کے لئے کہ وہ حج مقبول انجام دے سکیں، جو بھی ہو سکے کیا جائے اور ضروری منصوبہ بندی سے کام لیا جائے۔ یہ منصوبہ بندی ضروری ہے۔
امور بہت اچھی طرح انجام دیے گئے، انجام دیے جا رہےہیں لیکن ہم جو کام کر رہے ہیں اور جو توقع ہے اس کے درمیان پایا جانے والا فاصلہ ختم ہونا چاہئے۔ ان شاء اللہ منصوبہ بندی کریں، خداوند عالم بھی آپ کی مدد کرے گا۔
خدا سے اپنے امام بزرگوار(امام خمینی رحمت اللہ علیہ) شہدا اور اپنے مرحومین کے لئے اس کے تفضلات، اور اس کی رحمت و مغفرت کی دعا کرتا ہوں ۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ برکاتہ
1۔ اس ملاقات میں پہلے نمائندہ ولی فقیہ اور ایرانی عازمین حج کے سرپرست حجت الاسلام والمسلمین سید عبد الفتاح نواب اور ایران کے ادارہ حج و زیارت کے سربراہ جناب سید عباس حسینی نے مختصر تقاریر کیں۔
2۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 198 "۔۔۔۔۔۔ اور خدا کو معینہ دنوں میں یاد کرو۔۔۔۔؟
3۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 203 "۔۔۔۔۔ جس طرح اپنے آباء و اجداد کو یاد کرتے ہو، اس سے بھی زیادہ خدا کو یاد کرو۔۔۔۔۔"
4۔ سورہ بقرہ آیت نمبر200" ۔۔۔۔۔ جس طرح کہ اپنے ابا و اجداد کو یاد کرتے ہو، اس سے زيادہ خدا کو یاد کرو۔۔۔۔"
5۔ سورہ حج، آیت نمبر 36 " ۔۔۔۔۔ پس ان پر ایسی حالت میں کہ ستون پرکھڑے ہیں، خدا کا نام لو۔۔۔۔"
6۔ سورہ انفال آیت نمبر 45 اور سورہ جمعہ آیت نمبر 10
7۔ سورہ حج آیت نمبر 27"۔۔۔۔ اور لوگوں کے درمیان حج کے لئے آواز دو۔۔۔۔۔"
8۔ سورہ آل عمران، آیت نمبر 103 " ۔۔۔۔ اور سب اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لیں اور تفرقے میں نہ پڑیں۔۔۔۔'
9۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 125"۔۔۔۔ مقام ابراہیم پر اپنے لئے نماز کی جگہ بناؤ۔۔۔۔"
10۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 125"۔۔۔۔۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو فرمان دیا کہ طواف کرنے والوں اور معتکفین کے لئے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے ہمارے گھر کو پاک کریں۔"
11۔ ستون
12۔ امریکا اور یورپ سمیت پوری دنیا میں، یونیورسٹیوں میں طلبا کے صیہونیت مخالف احتجاجی مظاہروں کی طرف اشارہ جن کے دوران بہت سے طلبا کو زد و کوب اور گرفتار کر لیا گیا۔
13۔ سورہ ہود آیت نمبر 74
14۔ سورہ ابراہیم آیت نمبر 36
15۔ سورہ ممتحنہ آیت نمبر 8
16۔ سورہ ممتحنہ آیت نمبر 4" یقینا تمھارے لئے ابراہیم اور ان لوگوں کی جو ان کے ساتھ ہیں، پیروی میں اسوہ حسنہ ہے۔ اور پھر اپنی قوم سے کہا کہ " ہم تم سے اور جس کی تم پرستش کرتے ہو اس سے بیزار ہیں۔ تمھاری نفی کرتے ہیں، ہمارے اور تمھارے درمیان دائمی دشمنی پیدا ہو گئی ہے یہاں تک کہ تم خدا پر ایمان لاؤ۔"
17۔ سورہ ممتحنہ آیت نمبر 9
18۔ سورہ ممتحنہ آیت نمبر 9"۔۔۔ اور جو بھی ان سے دوستی کریں، وہ ستمگر ہیں۔۔۔۔"
19۔ سورہ ہود آیت نمبر 18 " ۔۔۔۔ ستمگروں پر خدا کی لعنت ہو"
20۔ حاضرین کا نعرہ کہ "اے رہبر آزادہ آمادہ ایم آمادہ یعنی اے حریت پسندوں کے رہبر ہم آمادہ ہیں۔