اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله‌ الرّحمن ‌الرّحيم‌

سب سے پہلے میں آپ تمام برادران عزیز کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ آپ نے ایسی ہستیوں کو یاد کرنے اور خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے پروگرام کا اہتمام کیا جو ہمارے اس زمانے کی چنندہ اور نمایاں ہستیاں ہیں۔ یہ ہستیاں ہیں ہمارے شہدا اور مجاہدین۔ یہ عمل اپنے آپ میں بہت گراں قدر ہے۔ شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنا، ان کی یاد تازہ کرنا، انہوں نے جو خدمات انجام دیں ان کے بارے میں تحقیقی کام، ان کے بارے میں تحریریں، فلمیں اور تصاویر وغیرہ تیار کرنا، ان کی زندگی کو، ان کی سرگرمیوں کو اور ان کے جہاد کو فلمانا اور منعکس کرنا بہت اہم اور گراں قدر عمل ہے۔ اس کانفرنس میں جو کام انجام پانے والے ہیں اور جن کی فہرست ہمارے محترم کمانڈر نے بیان کی (2)، اس میں بڑے اچھے پروگرام شامل ہیں۔ یہ چیزیں بہت اچھی ہیں۔ لیکن آپ اس بات پر ضرور توجہ رکھئے کہ یہ سارے کام اور پروگرام گہرائی کے ساتھ انجام دئے جائیں، یعنی صرف رسم ادا نہ کی جائے بلکہ اس میں گہرائی ہو، توجہ کے ساتھ، وقت دیکر، فن و ہنر کو بروئے کار لاتے ہوئے اور تحقیقی کام انجام دیکر یہ پروگرام اور یہ تخلیقات پیش کی جائیں، انہیں موثر بنایا جائے۔ اس لحاظ سے یہ کام بہت اچھا اور اہم ہے۔ البتہ مجھے علم ہے کہ اہل مازندران اب تک صوبے کے مختلف خطوں میں شہدا کے سلسلے میں متعدد کانفرنسیں اور سیمینار کر چکے ہیں اور یہ سب کچھ عوام نے خود اپنی رغبت و دلچسپی سے انجام دیا ہے۔ ان چیزوں کی بڑی اہمیت ہے۔ آپ کا یہ عمل بہت اہم اجتماعی عمل ہے۔ اللہ آپ سب کو کامیاب کرے۔
مقدس دفاع ملت ایران کے لئے ایک بڑا امتحان تھا، استعداد، صلاحیتوں، افراد کی صلاحیتوں اور علاقوں کی توانائيوں کا امتحان تھا۔ افراد کی توانائیوں کے سلسلے میں میری نظر میں یہ نکتہ بہت اہم اور قابل توجہ ہے مگر اس پر توجہ نہیں دی جاتی اور غور نہیں کیا جاتا۔ اصل میں یہ نکتہ اتنا زیادہ واضح ہے کہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے، بہت زیادہ واضح ہونے کی وجہ سے مخفی رہ جاتا ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ مقدس دفاع انسانوں کے اندر پوشیدہ (3) صلاحیتوں اور توانائیوں کے عجیب و غریب انداز میں نمودار ہونے کا سبب بنا۔ مثال کے طور پر آپ پاسداران انقلاب فورس میں دیکھتے ہیں کہ ایک نوجوان میدان جنگ میں قدم رکھتا ہے۔ ابھی اسے عسکری امور کی کوئی اطلاع نہیں ہے، مہارت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ مگر ایک سال، ڈیڑھ سال یا دو سال کے اندر وہی جوان ایک فوجی اسٹریٹیجسٹ بن جاتا ہے۔ یہ کتنی عظیم بات ہے۔ آپ شہدا، پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈروں کے حالات زندگی پڑھئے تو اس طرح کی چیزیں کثرت سے نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر شہید حسن باقری کو لے لیجئے! وہ واقعی عظیم عسکری اسٹریٹیجسٹ اور پالیسی ساز تھے۔ جو بھی اس کا انکار کرے، یقینا اسے حقیقت امر کا علم ہی نہیں ہے۔ جس کو معلومات ہوگی وہ واضح طور پر دیکھےگا کہ یہ بیس پچیس سال کا نوجوان عسکری اسٹریٹیجسٹ ہے۔ یہ کب کی بات ہے؟ یہ سنہ انیس سو بیاسی کی بات ہے۔ وہ میدان جنگ میں وارد کب ہوئے تھے؟ سنہ 1980 میں۔ ایک رنگروٹ سے دفاعی اسٹریٹیجسٹ تک کا سفر بیس سال پچیس سال کے وقت اور محنت کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس جوان نے محض دو سال میں یہ فاصلہ طے کر لیا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یا آپ فرض کیجئے کہ کوئی کوئی کمانڈر، مثال کے طور پر یہی ہمارے مرتضی صاحب (4) اسی طرح دوسرے افراد بھی ہیں جو یہاں تشریف فرما ہیں، مثلا شہید باکری۔ جنگ کا آغاز ہوا تو وہ اسٹوڈنٹ تھے جو نئے نئے فارغ التحصیل ہوئے تھے۔ انہوں نے کچھ مہینے یا اسی طرح کا کوئی عرصہ چھاونیوں میں گزارا۔ پھر امام خمینی نے فرمایا کہ لوگ چھاونیوں سے باہر نکلیں تو وہ بھی باہر نکلے۔ سنہ 1980 کے اگست مہینے میں شہید باکری کی یہ پوزیشن تھی۔ لیکن اس کے بعد آپ دیکھئے کہ بیت المقدس آپریشن میں، خیبر آپریشن میں، اس سے پہلے فتح المبین آپریشن میں یہ جوان، ممتاز کمانڈر کے روپ میں ہمارے سامنے ہے جو پوری بٹالین کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ حیرت انگیز نہیں ہے؟ یہ معجزہ نہیں ہے؟ یہ سب انقلاب کے معجزے ہیں۔ تو یہ صلاحیتوں اور شخصیتوں کے نکھرنے کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں بیان کرنے کو بہت کچھ ہے لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا، یہ چیزیں اتنی واضح ہیں کہ ان پر کوئی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ کوئی یہ مطالعہ نہیں کرتا کہ یہ کون لوگ تھے؟ کیسی صلاحیتوں کے مالک تھے؟ ایک ستائیس اٹھائیس سالہ نوجوان اور شہادت کے وقت زیادہ سے زیادہ تیس سال کی عمر رکھنے والا یہ جوان دفاعی اور عسکری توانائیوں میں اتنی بلندی پر پہنچ جاتا ہے، اس نے کب اس سفر کا آغاز کیا کہ اس سن میں اس مقام پر پہنچ گیا؟ کتنی مدت میں یہ سفر اس نے طے کر لیا؟ یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔
ان کی حیرت انگیز مہارت کی وجہ اور ان کے کارنامے کی عظمت یہ ہے کہ ہمارے پختہ اور کہنہ مشق عسکری ماہرین بھی جو فوج میں تھے اور جنہوں نے برسوں اس شعبے میں کام کیا۔ جب وہ ایک ساتھ بیٹھ کر فتح المبین آپریشن، خیبر آپریشن یا دیگر فوجی آپریشنوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے تھے تو سارے ماہرین ان جوانوں کی مہارتوں اور حیرت انگیز صلاحیتوں کی تائید و تعریف کرتے تھے۔ اس سے بھی بڑی دلیل یہ ہے کہ ہمارے انہی نوجوانوں نے پوری طرح آراستہ ایک پیشہ ور فوج کو جسے بڑی طاقتوں کی بھرپور حمایت اور پشت پناہی بھی حاصل تھی، جس کے پاس غیر معمولی وسائل ہوتے تھے، اس انداز سے گھیر لیا کہ یہ فوج ششدر رہ گئی۔ مثال کے طور پر فتح المبین آپریشن میں ہمارے انہی بچوں، ہمارے انہی نوجوانوں کی اسٹریٹیجی کے نتیجے میں وہ دشمن جس نے اس عظیم صحرا کو پوری طرح فوجیوں سے پاٹ دیا تھا، میں نے جاکر اس صحرا کا فضائی معائنہ کیا تھا، میں نے اوپر سے دیکھا تھا کہ کس طرح دشمن کی فوج تعینات تھی، کس طرح دشت عباس صحرا پر ہر طرف دشمن فوج تعینات تھی۔ اچانک دشمن کی یہ فوج محسوس کرتی ہے کہ اس کے سامنے جو فورس جنگ کر رہی ہے وہی فورس یکبارگی پیچھے سے بھی حملہ آور ہو گئی ہے۔ یہ کتنی بڑی بات ہے؟ کیا اسے معمولی بات کہا جا سکتا ہے؟ کیا یہ کارنامہ اتنی عظمت کا حامل نہیں ہے کہ اس بارے میں تحقیق کی جائے، مطالعہ کیا جائے، اس پر فلمیں بنیں، دستاویزی پروگرام تیار ہوں؟ یہ کوئی مذاق ہے؟ اسی طرح بیت المقدس آپریشن میں دشمن کی دو تین بٹالینیں یکبارگی دیکھیں کے کہ وہ محاصرے میں آ گئی ہیں۔ خوزستان کے اس صحرا میں ان پر شمال سے بھی حملہ ہو رہا ہے، مشرق سے بھی حملہ ہو رہا ہے، دوسری سمتوں سے بھی حملہ ہو رہا ہے۔ تو ہمارے نوجوانوں کی صلاحیت اور درست حکمت عملی کا مظاہرہ ان مواقع پر ہوا۔ یہاں واضح ہوا کہ ایک پیشہ ور اور پوری طرح آراستہ فوج جس کے پاس کہنہ مشق کمانڈر بھی ہیں، بقول خود ممتاز عہدیدار بھی ہیں، عالمی سطح پر ہمارے دشمنوں سے انہیں مدد بھی مل رہی ہے، انہیں اسٹریٹیجی بتائی جاتی ہے، جنگی روشیں سکھائی جاتی ہیں، حکمت عملی بھی سکھائی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے نوجوانوں کی اسٹریٹیجی کے نتیجے میں یہ پیشہ ور فوج بے دست و پا ہو جاتی ہے۔ بے بس ہو جاتی ہے، ہتھیار ڈال دیتی ہے، اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان کتنے عظیم کارنامے انجام دے رہے تھے۔ تو صلاحیتوں پر نکھار آیا اور یہ ہستیاں ہمارے سامنے ظاہر ہوئیں۔
علاقوں کے سلسلے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ میں شہدائے مازندران کی یاد میں منعقد ہونے والے پروگرام کی مناسبت سے اسی علاقے کے بارے میں بات کرتا ہوں۔ مازندران واقعی امتحان میں پورا اترا۔ مازندران نے دس ہزار شہیدوں کی قربانی پیش کی ہے۔ لوگ 'راؤنڈ فیگر' کی وجہ سے دس ہزار کہہ دیتے ہیں جبکہ حقیقت میں اس صوبے کے شہیدوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے۔ شہیدوں کی اس تعداد کا کیا مطلب ہے؟ یہاں کے لوگ کتنی بڑی تعداد میں دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر گئے؟ بار بار گئے اور لوٹے۔ کتنی بڑی تعداد میں یہاں کے لوگوں نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران محاذ جنگ پر خود کو پہنچایا؟ بہت سے شہدا تو بہت معروف ہیں، نامور شہدا ہیں لیکن بہت بڑی تعداد ان شہیدوں کی ہے جو بہت زیادہ شہرت تو نہیں رکھتے لیکن ان کے اندر وہ صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں جن کا ذکر میں نے کیا۔ میں نے جنگ کے ایام میں ہی کربلا 25 بٹالین کا مشاہدہ کیا تھا۔ صرف یہی بٹالین نہیں تھی، گرگان 30 بٹالین بھی تھی۔ دوسرے فوجی دستے بھی تھے جن کا تعلق صوبہ مازندران سے تھا تاہم کربلا 25 بٹالین کو محور و مرکز کا درجہ حاصل تھا۔ ہم نے قریب سے اس بٹالین کو اور اس کی کارکردگی کو دیکھا ہے۔ انہوں نے جنگ کے دوران بڑی عظیم خدمات انجام دیں۔ مازندران کے لوگوں نے واقعی ایثار و فداکاری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنے نوجوانوں کو خلوص نیت کے ساتھ بھیجا، یہ نوجوان گئے، انہوں نے استقامت و پائيداری کا مظاہرہ کیا، انہوں نے مختلف فوجی آپریشنوں میں شرکت کی، جن میں سے پانچ کے نام یہاں جناب (5) نے ذکر کئے۔ ان نوجوانوں نے کارہائے نمایاں انجام دئے۔
مقدس دفاع کےعلاوہ بھی یہی صورت حال رہی۔ یہی آمل کا جو واقعہ ہے اس میں ایک عجیب عوامی کارنامہ انجام پایا، یہ کام آمل کے لوگوں نے انجام دیا۔ (6) یہ جو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اپنے وصیت نامے میں اہل آمل کا ذکر کیا، اس سے اس شہر کے عوام کے کارنامے کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں کے مختلف عوامی طبقات یہاں تک کہ خواتین نے عظیم خدمات انجام دی ہیں۔ اسی آمل کے واقعے میں چودہ پندرہ سال کی بچی جنگ کرتی ہے اور شہید ہو جاتی ہے (7)۔ مازندران کے عوام کی خدمات کی داستان بہت طویل ہے۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ قدیم الایام سے ہی یہ طبرستان کا علاقہ اور آسمانوں سے سرگوشیاں کرنے والے ان پہاڑوں کی پشت پر واقع یہ خطہ ایسا تھا کہ فاتح خلفا کی افواج ان پہاڑوں کو عبور نہیں کر پاتی تھیں، خاندان پیغمبر کے افراد جو دشمنوں کے خوف سے فرار ہونے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ وہ نوجوان جو مدینہ میں، کوفے میں، عراق و حجاز کے مختلف علاقوں میں حد درجہ سختیوں سے تنگ آ جاتے تھے، اپنے بچوں کے ساتھ فرار ہوکر اسی خطے میں آ جایا کرتے تھے جہاں اس زمانے کی مسلح افواج کی رسائی ممکن نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مازندران کے لوگ اسلام قبول کرنے کے وقت سے ہی محب اہل بیت رسول علیہم السلام رہے ہیں۔ یعنی انہیں اسلام اہل بیت پیغمبر سے ملا۔ انہوں نے بڑے کارنامے انجام دئے۔ بعد میں بھی جب زیدی سادات اور مکتب حضرت زید کے مجاہدین یمن میں تحریک چلانا چاہتے تھے تو مازندران سے جانے والے افراد نے ان کی مدد کی اور ابتدائی صدیوں میں ہی وہ یمن میں علوی اور زیدی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مختصر یہ کہ مازندران کے عوام کے افتخارات بے شمار ہیں۔ اس کے علاوہ جو تعمیر و باز آبادکاری کا مرحلہ آیا تو جیسا کہ اشارہ کیا گيا (8) سوسنگرد کی تعمیر نو کی ذمہ داری مازندران کے عوام نے اپنے ہاتھ میں لی۔ انہوں نے تعمیر نو کا کام مکمل کرکے یہ علاقہ سونپا۔ یعنی تعمیراتی اور تعمیر نو کے شعبے میں بھی انہوں نے عظیم خدمت انجام دی۔ آج بھی مازندران کے عوام بے حد وفادار ہیں۔ حالانکہ طاغوتی شاہی دور میں اسلام دشمن حلقوں اور شاہی دربار کے عناصر نے دین و تقوی و پاکدامنی کے خلاف روحانیت و اخلاقیات کے خلاف، دین و عقیدے اور طرز سلوک کے خلاف بڑی سرگرمیاں انجام دیں لیکن اس علاقے کے عوام نے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کی اور دشوار حالات میں بھی اپنے دینی جذبے کا قابل تحسین انداز میں مظاہرہ کیا۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ آپ سب کو کامیاب کرے اور آپ ہمیشہ بڑے کارنامے اور بہترین خدمات انجام دیتے رہیں۔

والسّلام عليكم و رحمة الله و بركاته‌

۱) یہ ایک روزہ سیمینار بارہ دی مطابق دو جنوری کو منعقد ہوا۔
۲) سیمینار کے سکریٹری جنرل، سید محمد تقی شاہ چراغی نے پروگراموں کی تفصیلات بیان کیں۔
۳) پنہاں
۴) بریگیڈیئر جنرل مرتضی قربانی
۵) سیمینار کے سکریٹری جنرل
۶) جنوری 1981 میں کمیونسٹوں کا ایک گروہ ملک گیر تحریک شروع کرنے کے مقصد کے ساتھ آمل پر قابض ہو گیا لیکن آمل کے ایثار پیشہ عوام نے اسی دن ان کا مسلحانہ مقابلہ کیا اور شام تک فتنے کی سرکوبی کر دی۔
۷) شہید سیدہ طاہرہ ہاشمی‌
۸) سیمینار کے سکریٹری جنرل