قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں اس بہت اہم اور نئی ذمہ داری کے آغاز پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اگر چہ جب انسان اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیروں کے نورانی چہرے دیکھتا ہے اور ان کی پاکیزگی، دینداری، تقوا اور خوف خدا پر نظر ڈالتا ہے تو احساس کرتا ہے کہ یہ مبارکباد عوام کو دینا چاہئے کہ ان کے حکام الحمد للہ صاحب ایمان، متدین، کام سے لگاؤ رکھنے والے اور عوام کی خدمت کے عاشق ہیں۔ امید ہے کہ یہ حکومت اس حکومت کریمہ کی مصداق ہوگی جس کی ہم دعائے افتتاح میں خداوند عالم سے آرزو کرتے ہیں۔
اس مقام پر ضروری ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے دو گرانقدر شہداء، شہید رجائی اور شہید باہنر کی قدردانی کی جائے اور ان تمام شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے جنہوں نے ان چودہ پندرہ برسوں میں عظیم ذمہ داریاں قبول کرکے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ خداوند عالم ان کے درجات بلند کرے اور انہیں اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے۔ البتہ سب سے زیادہ شکر و سپاس اور خراج عقیدت امام کی روح مطہر کے لئے ہے، کہ یہ راستہ آپ نے ہی کھولاہے، آپ ہی نے ہر ایک کو یہ موقع فراہم کیا کہ ہر ایک اپنی توانائی، اشتیاق اور لگن کے مطابق اسلامی جمہوریہ میں عوام کی خدمت کرے۔ بعض وزرا جو پہلے ٹرم میں تھے اور ہم ہفتہ حکومت کے موقع پر ان کی زیارت کیا کرتے تھے، آپ کے درمیان اور اس کابینہ میں نہیں ہیں۔ میں اپنا فریضہ سمجھتا ہوں کہ ان حضرات اور برادان عزیز کا شکریہ ادا کروں حق و انصاف سے دیکھا جائے تو ان میں سے ہر ایک نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بہت محنت اور زحمت کی ہے۔ خدا ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔
جو چیز اس حیثیت سے کہ ہمیں خدمت کی توفیق ملی ہے، میرے اور آپ حضرات کے سامنے ہمیشہ رہنی چاہئے، یہی خدمت کا مسئلہ ہے۔ اسلامی جہموریہ ایران اور ان مادی نظاموں کے درمیان، جو انسانی مسائل میں الہی فکر پر استوار نہیں ہیں، یہی ایک فرق ہے کہ اسلامی جمہوریہ میں عہدیدار، وزیر اور صدر کی اصل نیت یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کی خدمت کرے اور فکر الہی نیز اس پاکیزہ زندگی کی ترویج میں مدد کرے جو خداوند عالم نے انسانوں کے لئے مقرر فرمائی ہے ۔ بنیاد یہ چیز ہے۔ ذاتی باتیں ہدف نہیں ہیں۔ عہدیدار اپنے لئے کام نہیں کرتا۔
یقینا ہمارے اعلی عہدیداروں میں ایسے لوگ ہیں کہ انسان ان کی روزمرہ کی سرگرمیوں پر نظر ڈالے تو دیکھے گا کہ سال میں ایک بار اور دو بار بھی یہ اپنے لئے کام نہیں کرتے۔ یعنی ان کو موقع ہی نہیں ملتا کہ خود پر توجہ دیں اور اپنے ذاتی کام نمٹائیں۔ عام طور پر ان کے ذاتی کام رہ جاتے ہیں۔ ان کا وقت، ان کی فکر ان کا کام صرف عوام کی خدمت کے لئے ہے۔ یہ بنیادی درخواست ہے اور آپ، ایک لمحے کے لئے بھی اس کو فراموش نہ کریں کہ ہدف خدمت کرنا ہے۔
البتہ خدمت کی بہت سی تفسیریں ہیں۔ ہر ایک ممکن ہے کہ کسی چیز کو خدمت سمجھے۔ ہمارا اپنا نقطہ نگاہ ہے، فکر ہے، مکتب ہے جس پر اس نظام کی بنیاد رکھی گئی ہے اور وہ مکتب، اسلام ہے، وہ فکر الہی تفکر ہے، توحید کی فکر ہے، یہ وہی فکر ہے جس کے لئے لوگ اپنے نوجوانوں کو راہ خدا میں قربان کرنے اور ہر چیز نثار کرنے پر تیار ہو گئے اور کبھی پیچھے مڑکے نہ دیکھا۔ خدمت یعنی یہ کہ اس راہ میں قدم رکھیں جو خود عوام کی خدمت کی ضامن ہے۔ یہ وہی اصلی ہدف ہے جس کو ہمیں ہر وقت یاد رکھنا ہے۔
البتہ آپ اس بات پر قلبی عقیدہ رکھتے ہیں، اس پر عمل کرتے ہیں، اس راہ پر گامزن ہیں، لیکن انسان بھول جاتا ہے۔ یہ جو ہم عرض کر رہے ہیں، اس وجہ سے ہے کہ انسان کو یاد دہانی اور توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی سب کو ضرورت ہوتی ہے۔ ہم اہل سلوک وعرفان میں سے ایسی ‏عظیم ہستیوں کو جانتے ہیں کہ کسی سے کہتے تھے کہ بیٹھئے مجھے نصیحت کیجئے۔ کیونکہ انسان ہمیشہ نصیحت کا محتاج ہے۔ اس کو یادہانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ آپ خود کو مستقل متنبہ کرتے رہئے۔ اپنی اس طرح تربیت کریں کہ ہمیشہ متوجہ رہیں۔ اخلاقی موضوع سے متعلق روایات کو دیکھیں، اخلاق کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ عوام کی خدمت کی فضیلت میں جو کہا گیا ہے اور جو چیز اسلام میں فلسفہ حکومت کو واضح کرتی ہے اس کو پڑھیں۔
حکومت کے معنی کیا ہیں؟ حکومت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کوئی حق دلائے، انصاف قائم کرے۔ امیر المومنین علیہ الصلوات و السلام اپنی اس گفتگو میں جو معروف ہے اور جس کو سب نے سنا ہے (1) فرماتے ہیں، یہ حکومت اس جوتے کے فیتے کے برابر بھی میرے لئے اہمیت نہیں رکھتی۔ اس کے بعد فرماتے ہیں، الا ان اقیم حقا ہاں مگر یہ کہ حق قائم کروں۔ اس راہ میں انسان جتنی مصیبتیں اٹھائے، جتنی زحمتیں برداشت کرے، جتنا زیادہ کام کرے، جتنی بھی شب بیداری کرے اور جتنا ان وسائل و سہولیات سے محروم رہے جو عموما افراد معاشرہ کے پاس ہوتے ہیں، کم ہے، مناسب ہے۔ اس صورت میں اس نے نقصان نہیں اٹھایا ہے۔ امیرالمومنین علیہ الصلاۃ و السلام سے منقول ہے کہ آپ نے ایک خطبے میں فرمایا کہ میں اس کے لئے تیار ہوں، مضمون یہ ہے کہ حق قائم کرنے اور باطل کو باطل ثابت کرنے کی راہ میں مجھے سخت کانٹوں پر گھسیٹا جائے، بہرحل یہ وہ چیز ہے جو ہمارے کام کی بنیاد ہے اور ہمیں اس پر توجہ رکھنی چاہئے۔
البتہ جب میں اس بارے میں اپنے دوستوں، بھائیوں، ملک کے حکام اور اعلا عہدیداروں سے گفتگو کرتا ہوں تو چونکہ آپ میں سے اکثر کو نزدیک سے پہچانتا ہوں ویسے ممکن ہے کہ کوئی ہو جس کے ساتھ قریبی رابطہ نہ رہا ہو، مگر آپ میں سے اکثر سے ان طویل برسوں میں قریب سے واقفیت رہی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کی فکر اور کام کیسا ہے۔ آپ کی اچھائیوں سے، دوسرے لوگوں کے مقابلے میں، میں زیادہ واقف ہوں۔ بنابریں میری زیادہ تاکید شرکائے کار کے انتخاب کے تعلق سے ہے۔ میں نے یہ بات بارہا عرض کی ہے، ایک بار پھر عرض کرتا ہوں کہ اس نکتے پر توجہ فرمائیں کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی عہدیدار، اپنے دائرہ کار میں فطری طور پر کچھ لوگوں پر بھروسہ کرتا ہے، چونکہ خود سارے کام نہیں کر سکتا، بنابریں ملازمین میں سے کچھ لوگوں کو اختیارات دے دیتا ہے۔ بعض اوقات آپ دیکھتے ہیں وہ سیدھے راستے سے ہٹ گیا ہے اور غلط راستے پر جا رہا ہے۔ اس کا پہلا تلخ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس عہدیدار کا کام بگڑ جاتا ہے۔ اس کے بعد ملک کو بھی نقصان پہنچتا ہے، اہداف کو نقصان پہنچتا ہے، لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ مگر پہلا مسئلہ جو پیش آتا ہے یہ ہے کہ خود وہ عہدیدار دیکھتا ہے کہ کام نہیں ہو رہا ہے۔ اس لئے کہ اس نے ایسے لوگوں پر بھروسہ کیا جو اس کے اہل نہیں تھے۔ وزارت خانوں میں ایسے لوگوں کو لانا چاہئے کہ جو اس راہ اور ہدف پر پختہ عقیدہ رکھتے ہوں۔ یہ پہلی شرط ہے۔ کیونکہ اگر ع‍قیدہ پختہ نہیں ہے تو مہارت اور توانائی کے باوجود، وہ اس مہارت اور توانائی کو اس راہ میں صرف نہیں کرےگا، جس راہ میں آپ محنت کر رہے ہیں۔ یہ فطری امر ہے۔ عقیدہ ہونا چاہئے۔ الحمد للہ آج چودہ پندرہ سال کے بعد جو انقلاب کو ہو رہے ہیں، مہارت اور اعتقاد میں وہ اختلاف نہیں ہے جو اوائل انقلاب میں تھا۔ اب 'یا اعتقاد یا پھر مہارت' کہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ مہارت بھی ہونی چاہئے اور اعتقاد بھی ہونا چاہئے۔ کیونکہ اب الحمد للہ بہت اچھے عہدیدار تیار ہو چکے ہیں جو نمایاں شخصیتوں کے حامل ہیں۔
اگر وزیروں کی سطح کی انتظامی لیاقت رکھنے والے ممتاز افراد کو تلاش کرنا چاہیں تو بہت سے افراد کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کو اس سلسلے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں ہے۔ میں اس بات کو نہیں مانتا کہ اعلا سطح کی انتظامی صلاحیت رکھنے والے افراد کم ہیں۔ ممکن ہے کہ درمیانی سطح پر ایسا ہو مگر اعلا سطح پر ایسا نہیں ہے۔ الحمد للہ ہمارے پاس اچھے ڈائریکٹر اور عہدیدار بہت ہیں جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
میں اس چیز کو اس طرح بیان کرنا چاہتا ہوں اور میری بات بالکل واضح اور شفاف ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ وزارتخانوں میں 'حزب اللہی فضا' کو بڑھائیں۔ بالکل اس طرح جو حزب اللہی لفظ کے حقیقی معنی کا تقاضا۔ اداروں کی باگ ڈور متدین افراد کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے۔ البتہ مختلف سطح پر ان لوگوں سے بھی جو تھوڑا بہت جانتے ہیں مگر ہمارے ہم عقیدہ نہیں ہیں اور خود بھی کہتے ہیں کہ وہ ہم خیال نہیں ہیں کام لیا جا سکتا ہے۔ کوئی حرج نہیں ہے۔ میں ملک کی سطح پر ایسے شعبوں سے واقف ہوں جہاں کا عہدیدار البتہ نچلی سطح کا اور اکسپرٹ، راہ انقلاب پر یقین نہیں رکھتا مگر اس ادارے میں کام کر رہا ہے۔ کسی ادارے میں یا وزارت خانے میں، اس شکل میں ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جو اسامیاں فیصلہ کن ہیں، جو پالیسیوں کا تعین کرتی ہیں، خاص طور پر مینیجمنٹ کی اعلا سطح پر، یا وہ ماہرین جو پالیسی ساز ہیں، ان کا انتخاب ان لوگوں میں سے ہونا چاہئے جو پختہ دینی اور اسلامی نظریہ رکھتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی کام ہے کہ جو اگر ہو گیا تو میری نظر میں وہ اہداف جو آپ نے معین کئے ہیں یا اپنے منصوبوں میں جن کو مد نظر رکھا ہے اور اپنی تقاریر اور بیانات میں جن کا اعلان کیا ہے، وہ پورے ہوں گے۔
الحمد للہ ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ میں اس بات کو نہیں مانتا کہ اسلامی جمہوریہ ایران عوامی رفاہ اور سماجی انصاف پر استوار معاشرہ تشکیل دینے کی توانائی نہیں رکھتا۔ میں اس بات کو ہرگز نہیں مانتا۔ میں اس بات پر ہرگز یقین نہیں رکھتا کہ اس کام میں ہمیں دوسروں کا سہارا لینا ہوگا۔ البتہ دوسروں سے معاشرت، دوسروں سے استفادہ کرنے، دوسروں کے ساتھ تعاون اور لین دین ہمیشہ اچھی بات ہے۔ ہر سطح پر ان حدود کی رعایت کے ساتھ جو ملک کا قانون، ملک کی پالیسیاں اور عہدیداروں کی تدبیریں معین کرتی ہیں، صحیح ہے لیکن سہارا لینا، صحیح نہیں ہے۔ سہارا اور اس سہارے کے بغیر ناتوانی کا احساس، ان باتوں پر میں یقین نہیں رکھتا۔ ملکی اداروں کو چلانے کی بنیاد بھی یہی ہے جس کی بارہا بیان کیا گیا ہے۔ سماجی انصاف، آپ دیکھیں تمام دینی کتابوں میں، اسلامی معاشرے کا بنیادی ہدف قرار دیا گیا ہے۔ ہدف عدل و انصاف پر استوار معاشرے کی تشکیل ہے۔ امام زمانہ کے بارے میں اتنی کتابیں ہیں ان میں اکثر میں کہا گیا ہے کہ آپ دنیا کو عدل و انصاف سے پر کرنے کے لئے تشریف لائیں گے۔ دنیا کو دین حق سے پر کرنے کے لئے آئیں گے، کہا گیا ہے کہ دنیا کو عدل سے پر کرنے کے لئے تشریف لائیں گے، یعنی پہلے درجے میں عدل قائم ہونا چاہئے۔
جیسا کہ جناب ہاشمی صاحب نے اشارہ کیا ہے، میری بھی ایک آرزو یہ ہے کہ محروم علاقوں اور ملک کے کمزور طبقات پر، ان علاقوں پر جو گذشتہ طاغوتی حکومتوں کے دور میں بے مہری کا شکار رہے ہیں، خاص توجہ دی جائے۔ یہ بہت ضروری اور لازمی کاموں میں سے ہے۔ ان شاء اللہ اقتصادی، علمی و سائنسی، فنی اور ثقافتی شعبوں میں جو حضرات ہیں وہ اس بات پر عمل کریں گے۔ یہ وہی کام ہوگا، جس کی آپ سے عوام اور اراکین پارلیمنٹ کو توقع ہے۔
تاکید کے ساتھ عرض کروں گا کہ دوسرے شعبوں، مقننہ اور عدلیہ کے ساتھ تعاون بہت اہم ہے۔ الحمد للہ حالیہ دور میں یہ تعاون شفاف اور ہمدردانہ جذبے پر استوار تھا۔ عدلیہ فعال ہے۔ محنت کر رہی ہے۔ اہم خدمات میں مصروف ہے۔ مقننہ بھی تمام مسائل میں احساس ذمہ داری اور ہمدردی کے جذبے کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ الحمد للہ یہ سب عوام کے منتخب کردہ ہیں، آپ کی حکومت بھی عوام کی منتخب کردہ ہے۔ امید ہے کہ یہ تعاون بہترین شکل میں جاری رہے گا۔
پالیسیوں کے بارے میں بھی جیسا کہ اشارہ کیا گیا، کچھ تجاویز پیش کروں گا۔ البتہ جو کچھ حکام نے پیش کیا ہے وہ پالیسی نہیں ہے۔ کلی منصوبہ ہے۔ وہ آئین کی ترجمانی نہیں ہے۔ لیکن جو چیز ہم ان شاء اللہ جواب میں پیش کریں گے، وہ وہی چیز ہوگی جس پر پالیسی کا اطلاق ہوگا۔ ان شاء اللہ آپ کے دوسرے پروگرام کے آنے کے قریب، وہ بڑے منصوبوں کے لئے، ایک کلی دائرہ عمل ہوگا۔
ان شاء اللہ یہ بڑا قدم بھی بہت اچھے انداز میں اٹھائیں گے اور اس کو آگے بڑھائیں گے۔ امید ہے کہ خداوند عالم آپ کو توفیق عنایت کرے گا۔ میں آپ سب کے لئے خاص طور پر جناب ہاشمی رفسنجانی کے لئے، جنہوں نے سنگین ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائی ہے دعاگو ہوں۔ یہ بھی در حقیقت ہمارے زمانے کے صالح افراد میں سے ہیں۔ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ ذمہ داری ان کے جیسی ہستی کے ہاتھ میں ہے۔ میں خاص طور پر ہمیشہ ان کے لئے اور ملک کے تمام دیگر حکام کے لئے دعا کرتا ہوں۔ امید ہے کہ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی عنایات اور آپ کی پاکیزہ دعائیں آپ کے شامل حال ہوں گی اور آپ ان شاء اللہ سنگین ذمہ داری سے جو آپ کے کندھوں پر ہے اچھی طرح عہدہ برآ ہوں گے۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ برکاتہ

1) نہج البلاغہ ؛ خطبہ 33