رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 9 آذر 1394 ہجری شمسی مطابق 30 نومبر 2015 کو فقہ کے درس خارج کے آغاز میں خاندان پیغمبر اکرم سے عاشقانہ اور روحانی وابستگی کے ان مواقع اور ان نورانی، ملکوتی اور عظیم ہستیوں کی زیارت کو اسلامی مسلکوں میں شیعہ فرقے کے طرز فکر کا طرہ امتیاز قرار دیا اور فرمایا کہ اربعین کے پیدل سفر میں شرکت کے لئے ایران اور دنیا کے دیگر ملکوں سے عوام کا پہنچنا مکتب اہل بیت علیہم السلام کی نمایاں خصوصیات کا جز ہے، جس میں ایمان، قلبی عقیدہ اور سچا یقین بھی موجزن نظر آتا ہے اور عشق و محبت بھی۔
رہبر انقلاب اسلامی کا یہ خطاب ملاحظہ فرمائيے؛
 

یہ ایام اربعین سے نزدیک کے ایام ہیں۔ ان حالیہ برسوں میں ایک بے نظیر اور عدیم المثال چیز وجود میں آئی ہے اور وہ نجف و کربلا کے درمیان یا نجف سے بھی زیادہ دور کے شہروں سے کربلا تک پیدل سفر کا سلسلہ ہے۔ کچھ لوگ بصرے سے، کچھ لوگ سرحدی علاقوں سے، کچھ لوگ دوسرے کچھ شہروں سے، پیدل روانہ ہو جاتے ہیں، یہ سفر طے کرتے ہیں۔ یہ عمل عشق و ایمان کا آئینہ ہے۔ ہم بھی بس دور سے اس عمل کو تکتے ہیں اور رشک کرتے ہیں ان لوگوں پر جنھیں یہ توفیق ملی ہے اور جو یہ عمل انجام دے رہے ہیں۔

گرچه دوریم به یاد تو سخن میگوییم‌
بُعد منزل نبوَد در سفر روحانى (۱)

جن لوگوں نے یہ راستہ طے کیا اور جو یہ عاشقانہ و ایمانی عمل انجام دے رہے ہیں، واقعی عمل صالح بجا لا رہے ہیں۔ یہ بڑا عظیم عمل ہے۔ لا تُحِلّوا شَعائِرَ الله (۲)، یہ شعائر اللہ کا جز ہے۔ ہم جیسے افراد جو ان اعمال سے محروم ہیں، اگر یہ کہیں تو بیجا نہ ہوگا کہ؛ «یا لیتنا کنّا معکم فنفوز فوزاً عظیماً» (۳) جیسا کہ ہم نے عرض کیا؛ یہ عمل عشق و ایمان کا عمل ہے۔ اس میں ایمان و اعتقاد قلبی اور سچا یقین بھی کارفرما اور ترغیب دلانے والا عنصر ہے اور اسی طرح عشق و محبت بھی ہے۔ اہل بیت کے مکتب فکر اور شیعہ مکتب فکر کا یہی انداز ہے۔ یہ عقل و جذبات کا حسین امتزاج ہے، یہ ایمان و عشق کا آمیزہ ہے، ان دونوں عناصر کی ترکیب سے عبارت ہے۔ یہ ایسی چیز ہے کہ جس کا خلا دیگر اسلامی مسلکوں میں صاف نظر آتا ہے۔ وہ بعض اوقات کوشش بھی کرتے ہیں کہ کسی طرح اس خلا کو پر کریں، لیکن پر نہیں ہوتا۔ دیگر اسلامی فرقوں کے عقائد میں خاندان پیغمبر جیسے نمایاں، ممتاز، نورانی اور ملکوتی عناصر کہاں ہیں جن سے عوام کو اس درجہ عشق ہو، جن سے ایسا قلبی ربط ہو، جن سے درد دل بیان کیا جائے، جن کی بارگاہ میں سلام پیش کیا اور ان کی بارگاہ سے لطف خداوندی کے طفیل میں جواب سلام حاصل کیا جائے۔ دوسری کون سی ہستی ہے جس کی یہ شان ہو؟ اس طرح اہل بیت اطہار کے پیروکاروں کے پاس ایک سنہری موقع ہے۔ ائمہ علیہم السلام کی یہ زیارتیں، ان عظیم ہستیوں سے یہ روحانی عشق، ہمارے پاس ممتاز اور عالی مفاہیم کے حامل یہ زیارت نامے ہیں۔ کچھ لوگ ان میں سے بعض زیارتوں کی سند تلاش کرتے ہیں۔ میں یہ عرض کروں گا کہ بغیر سند کے بھی ان زیارتوں کو پڑھا جا سکتا ہے۔ اگر ہم ان ذوات مقدسہ سے ہمکلام ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں کس انداز میں اپنی بات کہنی چاہئے؟ ہم اتنے فصیح و بلیغ اور اتنےشائشتہ و شستہ الفاظ کہاں سے لائیں گے، یہ ترکیبیں کہاں تلاش کریں گے، ہمارے اذہان کی ان مفاہیم تک رسائی کیسے ہوگی کہ ہم ان ہستیوں سے گفتگو کریں؟ یہ زیارتیں بہت اچھی ہیں۔ البتہ یہ زیارت نامے اس بات میں رکاوٹ نہیں ہیں کہ انسان ان بزرگواروں سے دل ہی دل میں اپنی التجائیں کرے۔ جیسے کوئی شخص اپنے والد سے یا کسی قریبی انسان سے گفتگو کرتا ہے، شکوہ کرتا ہے، اپنی بات رکھتا ہے۔ یہ (زیارت نامے) اس سے نہیں روکتے۔ لیکن جو زیارت نامے ہمارے پاس ہیں وہ واقعی بڑے قابل قدر ہیں، جو بحمد اللہ ہمارے مکتب فکر میں موجود ہیں۔
بہرحال یہ بڑا اہم عمل ہے، بہت بڑا کام ہے۔ ایران سے، دیگر اسلامی ممالک سے، ہندوستان سے، یورپ سے، یہاں تک کہ امریکا اور دیگر ملکوں سے، دور دراز کے علاقوں سے لوگ آتے ہیں اور ان جلوسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ دو دن، تین دن یا اس سے کچھ زیادہ یا کم، اس راستے پر پیدل چلتے ہیں! عراقی عوام بھی واقعی بڑی فراخدلی اور محبت سے ان کی پذیرائی کرتے ہیں۔ یہ بہت عظیم، بامعنی اور پرمغز عمل ہے، جن کو اس کی توفیق حاصل ہو رہی ہے وہ اس کی بہت قدر کریں۔
البتہ ہمارے ان معروضات کی وجہ سے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کچھ لوگ قوانین اور ضوابط سے ماورا ہوکر اٹھیں اور چل پڑیں، روانہ ہو جائیں۔ نہیں، انھیں قوانین کے دائرے میں رہیں جو اسلامی حکومت نے معین کئے ہیں۔ حکومت میں موجود ہمارے دوستوں نے غور کیا ہے اور اس عمل کے لئے کچھ قوانین و ضوابط طے کئے ہیں، ان ضوابط کا ضرور لحاظ کیا جائے۔ یہ نہ ہو کہ کچھ لوگ کہیں؛ چلو اسی طرح نکل پڑتے ہیں، بیابان کا رخ کرتے ہیں اور روانہ ہو جاتے ہیں۔ یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔ ان ضوابط کی ضرور پابندی کی جائے۔ اللہ آپ کی تائید فرمائے، آپ کو کامیاب کرے۔
۱) حافظ کا شعر، تھوڑے سے فرق کے ساتھ؛ اگرچہ ہم دور ہیں لیکن تیری یاد میں محو گفتگو ہیں، سفر روحانی میں منزل کی دوری کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا۔
۲) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۲ کا ایک حصہ «...شعائر اللہ کی حرمت و وقار کا خیال رکھئے...»
۳) اے کاش ہم بھی آپ کے ساتھ ہوتے اور عظیم کامیابی حاصل کرتے