رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب ملاحظہ فرمائیے؛

 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 
سب سے پہلے میں ہفتہ حکومت کی، حکومت کے اراکین، صدر محترم، وزرا ، دیگر حکام اور عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ ملک کی مجریہ کے عہدیداران، حکام اور کارکنوں کی قدرشناسی اور عوام کو شیریں اور اچھی خبریں سنانے، انہیں خوش کرنے اور جو کام انجام پائے ہیں، ان سے انہیں باخبر کرنے کا بہترین موقع ہے۔
خوش قسمتی سے اس بار، اس سال، ہماری ایک خواہش اور آرزو پوری ہوئی یعنی عوام سے تھوڑی بہت گفتگو ہوئی، جو کچھ انقلاب اس ملک اور اس قوم کے لئے فراہم کر سکا ہے، ملک کے عوام اور اسی طرح دنیا کے مشتاق (اس انقلاب اور ملک سے محبت کرنے والے) افراد کے لئے بیان کیا گیا۔ جو اچھے کام انجام پائے ہیں، ان میں سے ایک یہی حکومت کے کاموں کی نمائش ہے۔ کاش اس طرح کی نمائشیں اس ہفتے تک محدود نہ ہوں تاکہ عوام اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ خدمت گزار حکومت اور وہ حکام جو عوام کی حمایت اور ان کی خدمت کا دم بھرتے ہیں، انھوں نے عمل میں کیا کیا ہے۔ سمجھیں کہ جو کہا جاتا ہے وہ صرف بات، دعوی اور وعدہ نہیں ہے؛ جیسا کہ ہم انقلاب سے پہلے اپنی زندگی میں اس بات کے عادی ہو چکے تھے کہ اعلی حکام سے بس وعدے ہی سنتے رہتے تھے۔ لوگ دیکھیں کہ انقلاب واقعی عوام کے لئے حقیقی معنی میں کام کر رہا ہے اور ملک کے لئے محنت ہو رہی ہے۔
میرے خیال میں، اس ہفتے میں وہ بنیادی ترین بات جو بہتر ہے کہ اس جلسے میں کہی جائے، جس میں کچھ صدر مملکت نے بیان کیں، جس کی اطلاع عوام تک پہنچے گی، جنگ کے بعد کے دور کی مشکلات و مسائل سے نکالنے میں اسلامی جمہوری حکومت اور ملک کے حکام کی کارکردگی ہے۔ اس سلسلے میں بڑے عظیم کام انجام پائے ہیں اور جاری ہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی حکام اور امور کے ذمہ دار حضرات اس کو جاری رکھیں گے۔ اس ملک کے لئے جنگ، معنوی لحاظ سے کافی نتائج کی حامل رہی ہے کہ جو ہماری نسلوں کے لئے فکری، معنوی، ثقافتی، ایمانی اور روحانی تجربہ کے ذخائر ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ مادی لحاظ سے دشمن نے اس ملک کو بڑے نقصانات پہنچائے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس جنگ میں ہمارے بہترین نوجوان کام آ گئے۔ قوم سے چھین لئے گئے۔ لیکن ملک کی تباہی کے نقصانات، وسائل کی بربادی اور اس سے بڑھ کے انقلاب کے بعد اس ملک میں تعمیر کے جو امکانات تھے، ان کا ختم ہو جانا قابل ذکر ہے۔
واقعی جنگ کے دوران انقلاب کا عظیم کارنامہ یہ تھا کہ ملک کو چلا سکا اور آگے بڑھا سکا۔ جنگ کے دوران ، ملک کی ضرورت اور توقعات کے مطابق بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر اور حقیقی مادی اور اقتصادی نمو و ترقی کا کوئی ایسا موقع نہیں ملا جو قابل ذکر ہو۔ جنگ کے بعد گزرنے والے ان چند برسوں میں، خوش قسمتی سے حکومت نے اس سلسلے میں بڑے کام کئے ہیں اور آج یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں محکم بنیادی اقتصادی ڈھانچہ تیار ہو چکا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جنگ کے بعد ابتدائی دنوں میں، حکام کے ساتھ تعمیرات کے بارے میں میٹنگیں ہوتی تھیں، اس وقت صدر مملکت، پارلیمنٹ کے اسپیکر تھے اور بعض دیگر حکام بھی تھے۔ اس وقت ہماری ایک آرزو یہ تھی کہ کچھ ڈیم تعمیر کر لئے جاتے، کچھ سڑکیں بن جاتیں، پیٹروکیمیکل اور اسٹیل وغیرہ کے کچھ کارخانے تیار ہو جاتے۔ یہ ہماری آرزو تھی جنہیں ہم کاغذ پر لکھتے تھے اور ان کے لئے کوشش اور محنت کرتے تھے۔ آج الحمد للہ یہ آرزوئیں پوری ہو گئيں اور یہ کام انجام پا گئے ہیں۔ یہ چیزیں آسانی سے حاصل نہیں ہوتی ہیں۔ انتھک محنت، پوری لگن اور مضبوط مینیجمنٹ کے بغیر یہ چیزیں حاصل نہیں ہوتیں۔ بالخصوص جناب ہاشمی (رفسنجانی) کا مینیجمنٹ! واقعی انھوں نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور حکومت کا انتظام بہت اچھی طرح چلایا ہے۔
مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ خداوند عالم جانتا ہے، ہمارے عوام بھی خوش قسمتی سے جانتے ہیں، لیکن میں بھی یہ عرض کر دوں اور ثابت ہو جائے کہ یہ جناب صدر مملکت کا ذاتی افتخار اور آپ تمام وزرائے محترم اور مختلف شعبوں کے حکام ان افتخارات میں شریک ہیں، یہ آپ کے افتخارات ہیں اور ان کا ثواب ان شاء اللہ خدا کے نزدیک آپ کے لئے محفوظ ہے۔ اسی طرح وہ تمام لوگ جنھوں نے جنگ کے بعد گزرنے والے ان برسوں میں آپ کے ساتھ تعاون کیا ہے، مختلف محکموں کے کارکن اور ماہرین اور اسی طرح عوام سبھی ان شاء اللہ ان قابل فخر کارناموں میں شریک ہیں۔
جب کسی ملک میں تعمیر و ترقی اور اقتصاد ومعیشت کی بنیادیں محکم اور مضبوط ہوتی ہیں اور ملک میں حقیقی معنی میں تعمیرات انجام پاتی ہیں تو ملک کو اندرونی اور بیرونی دونوں سطح پر سیاسی بلندی بھی حاصل ہوتی ہے۔ یعنی اگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ الحمد للہ اسلامی جمہوری حکومت، ایرانی قوم اور ہمارا ملک عالمی سطح پر سیاسی عزت و آبرو کا مالک ہے اور ملک کے اندر بھی برا چاہنے والوں، برا کہنے والوں، عیب ڈھونڈنے والوں، چھوٹے سے نقص کو بڑا کرکے پیش کرنے والوں اور خوبیوں کو نظرانداز کرنے والوں کی زبانیں کسی حد تک بند ہو گئی ہیں- اگرچہ بدگوئی کرنے والوں کی زبان پوری طرح کبھی بند نہیں ہوگی؛ کیونکہ ان کی بدخواہی کبھی ختم نہیں ہوگی، لیکن بہت حد تک ان کی زبان بند ہو گئی ہے - تو یہ اس لئے ہے کہ ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ بہت سی باتیں جو کہہ سکتے تھے، جن کا بہانے کے طور پر ذکر کر سکتے تھے، اب ان کے پاس نہیں ہیں۔ یعنی ملک کی تعمیر کی سرگرمیوں کے استحکام سے بہت حد تک سیاسی استحکام بھی آتا ہے اور خوش قسمتی سے یہ کام انجام پائے ہیں۔ ثقافتی شعبوں میں بھی کام ہوا ہے۔ اگرچہ اتنا کام نہیں ہوا ہے جتنا بنیادی اقتصادی کام ہوا ہے، جتنا اقتصادی ترقی کے لئے کام ہوا ہے۔ لیکن بہرحال اس شعبے میں بھی، حقیقت یہ ہے کہ اہم کام انجام پائے ہیں۔
جس چیز پر میں اپنی پہلی سفارش کے عنوان سے تاکید کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس محنت اور سعی و کوشش، تعمیری سرگرمیوں کو اس عبوری دور میں جو ہمارے سامنے ہے، سست نہ پڑنے دیں۔ یعنی معمول کے مطابق اس حکومت کا یہ آخری سال ہے۔ محترم حکام میں سے کوئی یہ نہ سوچے کہ ہم چند مہینے سے زیادہ حکومت میں نہیں ہیں۔ نہیں ممکن ہے آپ برسوں یہ کام جاری رکھیں اور اصولی طور پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ اچھے افسران اور اچھی انتظامی صلاحیت رکھنے والے حضرات، مستقل طور پر کام کرتے ہیں۔ چاہے ممکن ہے کہ امور کا چارج ان کے پاس نہ ہو، لیکن کاموں میں ان کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔ ان کاموں میں معمولی سا بھی تزلزل نہ آنے دیں۔ یہ نہ کہیں کہ اب ہفتہ حکومت بھی گزر چکا ہے، ضروری تشہیرات جو کسی حد تک لازمی تھیں، انجام دے دی گئی ہیں، اب اس کے بعد آہستہ آہستہ اپنی بساط سمیٹنے کی فکر کرنی چاہئے۔ نہیں، اپنی ذمہ داریوں کی آخری قانونی گھڑی اور آخری لمحے تک آپ سعی و کوشش کر سکتے ہیں۔ اس حدیث شریف کو مد نظر رکھیں کہ اعمل لدنیاک کانّک تعیش ابدا(1) یعنی آپ یہ فرض کریں کہ آپ مزید دس سال تک پندرہ سال تک اس عہدے پر رہیں گے اور یہ کام کرتے رہیں گے۔ اس نقطہ ںگاہ اور اس نیت سے کام کریں۔
مجھے واقعی یہ خوف ہے کہ کہیں اس آخری سال میں، اس سعی و کوشش میں سستی اور اضمحلال نہ آ جائے۔ خوش قسمتی سے ملک کی روش میں استحکام و دوام ہے۔ پالیسیاں ایک ہیں۔ ہمارے نظام اور ہمارے آئین کا مزاج بعض ایسے ملکوں کی طرح نہیں ہے کہ جب ایک حکومت کا دور ختم ہوتا ہے تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔ حتی پالیسیاں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ہماری پالیسیاں دائمی ہیں۔ انھیں پالیسیوں کی بنیاد پر منصوبے تیار کئے گئے ہیں اور انہیں منصوبوں کے مطابق حکام نے اچھے کام انجام دیئے ہیں۔ ان پالیسیوں کو جاری رہنا چاہئے۔ ان کاموں کو بھی جاری رہنا چاہئے۔ بنابریں میری پہلی سفارش یہ ہے کہ تعمیر کی اس مہم میں حتی معمولی سا بھی وقفہ اور سستی نہ آنے دیں۔ یہ مہم پوری قوت سے جاری رہنی چاہئے۔
میں نے ہمیشہ ایک بات حضرات سے عرض کی ہے اور ایک بار پھر اس کا اعادہ ضروری سمجھتا ہوں۔ البتہ آپ اچھے عہدیداران ہیں۔ مختلف شعبوں کے حکام الحمد للہ انقلاب کی معنویت کے چشمے سے سیراب ہوئے ہیں اور مستفید ہوتے رہے ہیں؛ لیکن اس کے باوجود مجھے یہ بات عرض کرنی ہے تاکہ یہ ایک ناقابل فراموش باب کے عنوان سے، ہمیشہ ذہنوں میں باقی رہے۔ ہمیں ان تمام بڑے کاموں میں جو ہمارے ذمہ ہیں، ان کے مختلف مراحل میں، اسلامی نظام کی اعلی اقدار اور اہداف سے ایک لمحے کے لئے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ہمارا تعمیری کام ان اہداف سے غفلت کے ساتھ انجام پائے تو اہداف سے ان کاموں کے منحرف ہو جانے کا خدشہ ہے۔ اس لئے کہ ہم انسان ہیں، ہم بشر ہیں؛ اگر تھوڑی سی غفلت ہوئی تو ممکن ہے کہ صراط مستقیم سے دائیں یا بائیں منحرف ہو جائیں۔
فرض کریں کہ کسی نوجوان کو کچھ عاقل، مدبر اور ہمدرد لوگوں کے سپرد کر دیں کہ اپنی تربیت اور تعلیم سے اس کو ایک ممتاز اور نمایاں شخصیت بنا دیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس کے لئے خوراک کی ضرورت ہوگی، اس لئے کہ وہ ممتاز ہستی اس وقت بن سکتا ہے جب زندہ رہے اور زندہ رہنے کے لئے خوراک اور کھانے کی ضرورت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کے لئے ورزش ضروری ہوگی، اس لئے کہ اگر ورزش نہیں کرے گا تو کام اور محنت جاری رکھنے پر قادر نہیں رہے گا۔ اس میں شک نہیں کہ اس کو تعلیم وتربیت کی ضرورت ہوگی، اس کو پڑھنے لکھنے کی ضرورت ہوگی، اس لئے کہ اگر نہیں پڑھے گا تو صاحب علم نہیں بن سکے گا، اس کے پاس علم نہیں ہوگا تو بڑے کام نہیں کرسکے گا۔ اس میں شک نہیں کہ اس کے لئے سیر و سیاحت، گھومنا پھرنا اور تفریحی مقامات پر جانا بھی ضروری ہوگا، اس لئے کہ اگر ہم اس کی صحیح تربیت کرنا چاہتے ہیں تو دنیاوی پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ تو پھر بغیر زراعت کے، بغیر بھاری صنعتوں کے اور بغیر معدنیات و فلزات وغیرہ کے اسلامی نظام کو دنیا میں بلندی پر کیسے لے جا سکتے ہیں۔
ظاہر کہ ملک کی تعمیر ضروری اور لازمی ہے؛ لیکن اس نوجوان کے تعلق سے جس کو آپ مستقبل میں مادی، معنوی، علمی اور دینی لحاظ سے ایک ممتاز شخصیت بنانا چاہتے ہیں، مذکورہ تمام کاموں کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ اس ہدف کو فراموش نہ کریں جس کے لئے یہ سارے کام انجام دے رہے ہیں۔ یعنی اگر ورزش اور کھیل کود میں، اس کو کھیل کود کے ایک میدان سے دوسرے میدان میں اس طرح لے جائیں کہ وہ اخلاقی پستی کا شکار ہو جائے تو پھر یہ نوجوان وہ نہیں بن سکے گا جو آپ چاہتے تھے۔ اس کو جو کھانا آپ نے دیا اگر ایسا کھانا تھا جو انسان کو سنگدل بنا دیتا ہے، یا ذہن کو کند کر دیتا ہے، اس کا پیٹ تو بھر دیا لیکن جو اس کے لئے ضروری تھا وہ نہیں دیا، اس کو جو تعلیم دی اگر وہ ایسی تھی کہ جس کا اس کے مستقبل پر کوئی اثر نہ ہو اور اس کو وہ سہولتیں فراہم نہیں کیں جو اس کو ایک ممتاز اور عظیم انسان بنانے کے لئے ضروری تھیں تو پھر آپ نے اس کو ممتاز اور بڑا انسان بنانے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔
میرے خیال میں اس وقت ملک میں بعض اوقات دو باتیں کہی جاتی ہیں؛ دونوں باتیں صحیح ہیں۔ اگرچہ دونوں باتیں بظاہر متضاد نظر آتی ہیں اور ایک دوسرے کے مقابلے میں بیان کی جاتی ہیں۔ جب تعمیر و ترقی کی بات ہوتی ہے تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اقدار کو اہمیت دیں۔ گویا ملک کی اقتصادی اور مادی تعمیر و ترقی کی اہمیت کمتر ہے۔ اقدار کی بات اس طرح کی جاتی ہے جیسے ملک کی تعمیر اور ترقی کا درجہ بعد کا ہے اور اس کی اہمیت نہیں ہے۔ اس کے برعکس جب اقدار کی بات کی جاتی ہے تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں ملک کی تعمیر و ترقی پر توجہ کرنی چاہئے۔ اگر ملک کی تعمیر نہ ہو تو اقدار کو دنیا میں متعارف نہیں کرایا جا سکتا۔ یہ دونوں باتیں صحیح ہیں۔ یعنی ان دونوں میں سے کوئی بھی بات دوسری کی نفی نہیں کرتی ہے۔ ملک کی تمام پہلوؤں سے تعمیر و ترقی ہونی چاہئے۔ یعنی آپ میں سے ہر ایک، ملک کے ایک شعبے کا انچارج اور ذمہ دار ہے، آپ کافی محنت بھی کر رہے ہیں اور اس محنت اور کوشش میں مزید اضافہ ہونا چاہئے اور ان شاء اللہ یہ مہم جو آپ نے شروع کی ہے، پوری قوت سے جاری رہے گی ، اس کے بعض اچھے نتائج سامنے ائے ہیں، اور مزید مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے؛ لیکن ان تمام مراحل میں، وہ معنوی اقدار، وہ چیزیں جن میں سے دو تین کا میں بعد میں ذکر کروں گا، مد نظر رکھیں؛ اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو یہ مہم اس مقصود تک نہیں پہنچ سکے گی جو آپ کے مد نظر ہے اور دنیا کو یہ نہیں دکھایا جا سکے گا کہ نظام الہی، دین اور اسلام میں تعمیر و ترقی کی توانائي ہے اور احکام الہی کے ذریعے ملک و قوم کو چلایا جا سکتا ہے۔
اقدار سے متعلق مسائل کے سلسلے میں مجھے جو بات عرض کرنی ہے اور اس پر تمام شعبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ممکن ہے کہ اس میں وہ تمام چیزیں شامل نہ ہوں جو ضروری ہیں، لیکن یقینا جو اہم ترین ہیں وہ ان میں شامل ہیں۔ ایک مسئلہ ملک کے حکام کی خود اعتمادی کا ہے۔ یہ ہمارے انقلاب کا ایک بنیادی اصول ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ ملک کی تعمیر و ترقی کے ستون متزلزل ہو جائيں گے۔ ملک کے مختلف شعبوں کے ذمہ دار عہدیداروں میں خود اعتمادی اور اس یقین کی تقویت ہونی چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ، ایرانی قوم اور اس ملک کے اپنے لوگ، اس ملک کو اعلی ترین سطح پر پہنچانے پر قادر ہیں۔ ممکن ہے ہمارے بعض ذمہ دار عہدیداران اور مختلف شعبوں میں کام کرنے والے حضرات، اقتصادی امور میں بھی اور ثقافتی شعبوں میں بھی، دوسروں کے تبصروں اور تجزیوں پر انحصار کریں جیسے کسی عالم یا کسی قلمکار کا تجزیہ کسی علمی جریدے ميں شائع ہو اور اس طرح لوگوں پر اثر انداز ہو کہ ان کی خود اعتمادی ختم کر دے اور ذہن کو ان منصوبوں سے غافل اور منصرف کر دے جو ملک کے حقائق کے مشاہدے کی دین ہیں۔ بہر حال ہر ملک کے ت‍قاضے اور حقائق ہوتے ہیں۔
ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا اور کام کے میدان میں قدم رکھنے والے نئے افراد میں خود اعتمادی اور تحلیل و تجزیئے کی صلاحیت وجود میں آئے اور اس کی تقویت کی جائے تاکہ وہ ملک کے مسائل کا تجزیہ کرکے انھیں سمجھ سکیں اور ان کا حل نکال سکیں۔ دوسروں کے تجزیئے اور غیر ملکی صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کے تبصروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے کہ انھوں نے کیا لکھا کہ ایران کی اقتصادی مشکلات کو دور کرنے کے لئے کون سا راستہ طے کرنا چاہئے؟ البتہ علمی مسائل دنیا میں جہاں بھی جو بھی پیش کرے، ان پر توجہ دی جانی چاہئے لیکن اس طرح نہیں کہ آنکھ بند کرکے انہیں قبول کر لیا جائے۔ بلکہ تحلیل و تجزیہ کرکے اس کو قبول کیا جانا چاہئے، ان کو پرکھا جائے، ملک کے حالات کو سامنے رکھ کر اسے پرکھا جائے اور اس کے بعد ان پر عمل کیا جائے۔
بہرحال دوسروں کے تجزیئے اور ان کے نظریات پر انحصار نہ کرنا بہت اہم ہے۔ یہ چیز پورے نظام میں ہونی چاہئے۔ اس پر زیادہ توجہ نہ دیں کہ دوسرے ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ممکن ہے جو ہمارے بارے میں کہتے ہیں وہ اس سے مختلف ہو جو اپنے بارے میں کہتے ہیں۔ اگرچہ جو کچھ وہ اپنے بارے میں کہتے ہیں، وہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہمارے حالات زندگی پر صادق آئے۔ ضروری نہیں ہے کہ وہ ہمارے حالات سے بھی مطابقت رکھتا ہو۔ ہمارے عوام متدین ہیں جو مذہبی ایمان، انقلابی اقدامات اور معنوی و دینی اقدار پر توجہ کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ ان اقدار کو اہمیت دیتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ ان باتوں پر توجہ ضروری ہے۔ یہ نہ دیکھیں کہ دوسرے آپ کے بارے میں، آپ کے ملک کے بارے میں، حکام کے بارے میں، ملک کے منصوبوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہ دیکھیں کہ ملک کو کس چیز کی ضرورت ہے اور کیا کرنا چاہئے۔
دوسری بات جو تعمیر و ترقی کے تمام شعبوں کے لئے ضروری ہے، یہ ہے کہ ہم اوائل انقلاب سے ہی عوام کی مشارکت پر بھروسہ کرتے آئے ہیں۔ امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ نے بارہا عوام کی شراکت کی سفارش کی ہے اور اس پر تاکید فرمائي ہے۔ اس زمانے میں ایک سوچ یہ بھی تھی جو عوام کو مختلف میدانوں سے دور کرتی تھی۔ بعد میں الحمد للہ سب اس نیتجے پر پہنچے کہ نہیں ملک کے مختلف مسائل میں، اقتصادی امور میں اور تمام میدانوں میں، سیاسی میدان میں عوام کی موجودگی اور شراکت ضروری ہے۔ الحمد للہ آج بھی عوام سیاسی امور میں دخیل ہیں۔ انہیں دخیل رہنا بھی چاہئے۔ آج صورتحال یہ ہے اور یہی ہونا چاہئے۔
یہ ایک اصولی بات ہے کہ عوام حکومت کے کاموں میں شریک ہوں اور تعاون کریں۔ لیکن یہاں ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ عوام کی مداخلت اور شراکت کی نوعیت یہ نہیں ہونی چاہئے کہ عوام کے بعض طبقات یا بعض چالاک افراد بھاری فائدہ اٹھائیں اور دولت جمع کریں اور دوسرے لوگ زندگی کی ابتدائی ضروریات بھی پوری نہ کر سکیں۔ یعنی وہی سماجی انصاف کے بنیادی مسئلے اور مختلف شعبوں میں عوام کے سبھی طبقات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مختلف شعبوں میں، حکومت مختلف وزارتوں میں، قانون کے مطابق اور وزراتوں کے اپنے خاص اصول و ضوابط کے مطابق، جو اچھے ہیں اور ان میں کوئی برائی نہیں ہے، ہر ایک اپنے طور پر اپنے امور کو عوام کے ساتھ ہم آہنگ اور متوازن کرتے ہیں؛ لیکن اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ حکومت کے وسائل سے جن کا تعلق عوام سے ہے، اس طرح کام نہ لیا جائے کہ کچھ لوگ بے تحاشا دولت جمع کریں اوراس کے نتیجے میں کچھ لوگ محروم رہیں۔
جب تک ملک میں ایسے لوگ رہیں گے جو ملک کی دولت و ثروت سے بہت زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور بظاہر سارے معاملات قانونی طور پر انجام پاتے ہیں، یعنی ظاہر میں قانونی لبادے میں یہ کام ہوتا ہے؛ اگرچہ ممکن ہے کہ باطن میں قانون کی خلاف ورزی ہو- طے ہے کہ اس وقت تک ملک سے غربت کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ ان حالات میں، یہ چیز ممکن نہیں ہے۔ یعنی اگر تھوڑے سے لوگوں کے اختیار میں حد سے زیادہ وسائل رہیں تو یہ صورتحال یہ نہیں ہونے دے گی کہ ملک کی پیداوار اور وسائل تک تمام عوام کی دسترسی ہو۔ یہ افراط زر جس کی آپ اور سبھی شکایت کرتے ہیں اور شکایت کا حق بھی ہے؛ باقی رہے گا۔ حکومت کے مختلف اداروں میں غیر اخراجات اور وسائل کے غلط استعمال کی روک تھام ہونی چاہئے جس کے نتیجے میں کچھ لوگ بے تحاشا دولت جمع کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی قانون ایسا ہے تو یہ قانون غفلت میں بن گیا ہے، یا کہیں ایسے اصول و ضوابط تیار کئے گئے ہیں جس کے نتیجے میں یہ کام ہوتے ہیں، تو چونکہ اس سے نقصان ہے اس لئے اس قانون کی اصلاح ہونی چاہئے۔ پارلیمنٹ، کابینہ اور دیگر شعبے توجہ رکھیں کہ اصلاح اس طرح کریں کہ اس کا امکان نہ رہے۔
ملک کے وسائل سے عوام کے سبھی طبقات کے لئے برابری سے استفادے کا امکان ہونا چاہئے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ فاصلے دن بدن بڑھتے جائيں اور کچھ لوگ اس طرح زندگی گزاریں۔ اس کا ایک حصہ وزارت اقتصاد و مالیات انجام دے سکتی ہے۔ ان لوگوں سے مناسب ٹیکس لیا جائے جو زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ ایک بات تھی جو عرض کرنی تھی۔
اسی سلسلے میں ایک سفارش اپنے برادران عزیز سے اور کرنی ہے، اس کو اپنے پروگرام میں ضرور رکھیں؛ اس لئے کہ تعمیری دور میں فطری طور پر بعض اقتصادی نقائص رہ سکتے ہیں۔ ہر جگہ ایسا ہی ہے۔ افراط زر بڑھ جاتا ہےاور لوگوں کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے۔ ملک میں خاص طور پر اس اقتصادی مسئلے کے حل کے لئے زیادہ کوشش ہونی چاہئے۔ قومی کرنسی کی قدر مستحکم رکھنے کی محکم تدابیر اپنائی جائيں اور پوری کوشش کی جائے۔ البتہ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ آپ کے اقدامات کے نتائج سامنے آئیں گے اور یہ جو بنیادی اہمیت کے کام انجام پا رہے ہیں یہ نتیجہ بخش ثابت ہوں گے، ایسا ہی ہوگا، طویل مدت میں یہی ہوگا، لیکن اس کے انتظار میں مختصر اور درمیانی مدت کے علاج کی طرف سے غفلت نہیں برتی جا سکتی۔ قومی کرنسی کی قدر بہت سی مشکلات ومسائل کے حل کی کنجی ہے اور عوام کے نچلے طبقات کی قوت خرید میں کمی اور زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے میں ان کی ناتوانی اسی کی دین ہے۔ ان شاء اللہ ان امور میں زیادہ محنت اور کوشش کی جائے۔
اسی سلسلے میں، میں نے ایک سفارش ہمیشہ کی ہے اور ایک بار پھر عرض کروں گا کہ ملک کے مختلف شعبوں اور امور میں کچھ ذمہ داریاں ان لوگوں کو بھی سونپی جائیں جنہوں نے ملک کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ملک میں جو سلامتی اور امن و امان پایا جاتا ہے اسی کی وجہ سے پلاننگ، منصوبہ بندی اور خلاقیت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور ملک کی تعمیر کا کام ہو رہا ہے، قابل فخر کارنامے انجام پا رہے ہیں، یہ سب دشمن کے ساتھ جنگ کے میدان میں ایثار و فداکاری کرنے والے انہیں نوجوانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ان ميں سے بعض شہید ہو گئے، ان کے پسماندگان ہیں، بعض زخمی ہوئے اور جسمانی طور پر معذوری کا شکار ہوئے ہیں اور بعض الحمد للہ صحیح و سالم ہیں، یہ سب ہمارے ملک کے فداکار ہیں۔ مسلح افواج کے انھیں مومن جوانوں نے، چاہے فوجی محکموں میں ہوں یا پولیس فورس میں، واقعی محنت کی، زحمتیں اٹھائیں اور ملک کے امن و امان میں خلل ڈالنے کی کوشش کرنے والوں سے مقابلہ کیا۔ جیسا کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے ایک بار فرمایا تھا کہ اگر یہ نوجوان نہ ہوتے اور یہ انقلاب کامیاب نہ ہوا ہوتا تو ہمیں یہ موقع نہ ملتا کہ ملک کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور خدا کے نزدیک ثواب حاصل کریں اور عوام اور تاریخ میں قابل فخر بنیں۔ آپ عوام کو یہ سہولیات فراہم کریں۔
درحقیقت آپ، ملک کے حکام اور ہم سب، عوام کے اور خاص طور پر ان فداکاروں کے احسان مند ہیں جنہوں نے اتنی محنت، پوری توانائی سے اور جان کی بازی لگا کے ہمارے لئے یہ امکان فراہم کیا۔ اگر یہ قربانیاں نہ ہوتیں تو پتہ نہیں کہ ملک کی ارضی سالمیت محفوظ ہوتی یا نہ ہوتی، دشمن ہمارے ملک کے اندر آ گیا ہوتا یا نہیں، یہ امکان ہوتا یا نہ ہوتا کہ کوئی ملک کے لئے کام اور محنت کرے اور تعمیرات انجام دے۔ بنابریں ہمارے اوپر لازم ہے کہ تمام مراحل میں اس بات کا خیال رکھیں کہ ملک کے فداکار طبقات جیسے شہیدوں کے پسماندگان، معذور جانبازوں، جنگ میں حصہ لینے والوں اور ان لوگوں کے حقوق پامال نہ ہونے پائیں جنھوں نے واقعی محنت کی اور جہاد کیا۔ ان باتوں اور طعنوں پر کوئی توجہ نہ دیں جو ملک کے گوشہ وکنار میں ان لوگوں کی جانب سے دیئے جاتے ہیں جنھوں نے نہ اس انقلاب کے لئے کچھ کیا ہے، نہ جنگ میں کچھ کیا ہے اور نہ ہی خطرات کے مواقع پر کچھ کیا ہے۔
بعض اوقات اس طرح کی باتیں کی جاتی ہیں کہ یونیورسٹیوں میں، وزارتوں میں، یا کسی مرکز میں شہیدوں کے پسماندگان، فداکاروں اور رضاکار فورس، بسیج کے جوانوں کو اہمیت کیوں دی جاتی ہے؟ ان باتوں پر کوئی توجہ نہ دیں۔ آج انھیں جو سہولیتیں، جو آج الحمد للہ قانونی بھی ہو گئی ہیں، دی جارہی ہیں، وہ اس سے زیادہ نہیں ہیں، جس کے وہ مستحق ہیں؛ بلکہ ان کی محنت اور قربانی سے بہت کم ہیں۔
میں برادران عزیز سے درخواست کروں گا کہ خدا کو ہر حال میں حاضر و ناظر سمجھیں، اس بات پر توجہ رکھیں کہ قیامت کے دن خدا حساب لے گا۔ خدا کا حساب وکتاب بر حق ہے۔ ہمارا چھوٹے سے چھوٹا کام، ہماری معمولی سی بھی غفلت، ایک لمحے کی سستی، سب ہمارے نامہ اعمال میں محفوظ ہے۔ ایک ایک بات کا ہم سے حساب لیا جائےگا؛ آپ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں جو لمحہ بھی گزارتے ہیں وہ سب آپ کے نامہ اعمال میں محفوظ ہو رہا ہے۔ کام کے تعلق سے آپ کی فکرمندی، آپ کی محنت و کوشش، وہ دباؤ جو آپ کے اہل خانہ کے اعصاب پر پڑتا ہے، یہ سب خدا کے نزدیک محفوظ ہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی غفلت اور کام میں کمی ہوئی، کاموں میں پوری توجہ نہ دی گئی، عوام اور نظام کی مصلحتوں کو ملحوظ نہ رکھا گيا یا بعض ذاتی اور جماعتی باتوں کو ترجیح دی گئی تو یہ سب خدا کے پاس محفوظ رہے گا۔ ان سب کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائےگا۔
خدا کا حساب کتاب بہت سخت ہوگا۔ خدا کرے کہ ہم ہمیشہ ان باتوں کا خیال رکھیں اور اپنے کام پوری توجہ اور دقت نظری کے ساتھ انجام دیں۔ آپ سے زیادہ خود مجھے ان باتوں کی ضرورت ہے۔ ہمارا فریضہ ہے کہ اپنے چھوٹے چھوٹے سے اعمال میں، ان باتوں کا خیال رکھیں، لیکن میرا فریضہ ہے کہ آپ سے یہ عرض کروں کہ اگر آپ ایک گھنٹہ زیادہ کام کرتے ہیں اور زیادہ محنت کرتے ہیں، خدا کے نزدیک اس کا اجر ہے۔ اگر ایک لمحے کے لئے بھی کام چھوڑ دیا جائے، یا کوئی بات اس بات کا باعث بن جائے کہ انسان کو جو کام کرنا چاہئے، وہ نہ کرے تو اس کا حساب کتاب لیا جائے گا۔ اس پر توجہ رکھیں۔
میری نظر میں خاص طور پر وزرا اور ملک کے اعلی حکام اگر چاہتے ہیں کہ ان مختلف قسم کی پریشانیوں سے خود کو نجات دلائيں اور خلوص نیت کے ساتھ یہ عظیم خدمت جو انجام دے رہے ہیں، وہ بغیر کسی مشکل اور رکاوٹ کے ان کے نامہ اعمال میں درج ہو اور اس ملک کے لئے ان شاء اللہ اسی طرح کام کرتے رہیں، تو اس کا راستہ یہ ہے کہ ذاتی طور اور جماعتی سطح پر اقتصادی سرگرمیوں کے میدان میں قدم نہ رکھیں۔ آپ تو الحمد للہ کم پر قناعت کرتے ہیں۔ ایک بار جناب ہاشمی رفسنجانی صاحب نے کسی کو کوئی وزارت سونپنے کے لئے بلایا۔ اس نے آکے کہا کہ اگر میں یہاں آکے وزیر بن جاؤں تو میری زندگی رک جائے گی۔ لیکن اس وقت میری زندگی کے امور چل رہے ہیں۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ انھوں نے ان کی بات قبول کی یا نہیں۔ اصولی طور پر ایسا ہی ہے کہ اگر کچھ لوگ اپنی مہارت کے ساتھ ملک کے دوسرے شعبوں میں جاکے کام کریں، ممکن ہے کہ ان کی زندگی کے حالات بہتر ہو جائیں۔ آمدنی زیادہ اور زندگی میں آرام و آسائش زیادہ ہو۔ ظاہر ہے کہ وزارت ایسی نہیں ہے۔ اصولی طور پر نعمتیں اور وسائل، دوسرے شعبوں سے کم تر ہوں گے، اسی پر قناعت کریں۔ اس کو برداشت کریں اور اسی پر قناعت کریں۔ اس فکر میں نہ پڑیں کہ اپنی زندگی بنا لی جائے۔ البتہ میں جانتا ہوں کہ آپ اس فکر میں نہیں ہیں؛ لیکن اس وقت ہم جو کچھ آپ سے کہہ رہے ہیں، وہ درحقیقت ملک کے سبھی شعبوں کے مختلف سطح کے اعلی افسران اور عہدیداران کے لئے بھی ہے، وہ بھی اس کا خیال رکھیں۔ مختلف شعبوں کے افسران اس فکر میں نہ پڑیں کہ اپنی زندگی سنواریں۔ سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے۔ زندگی کا چلنا اور اس کا جاری رہنا بھی خدا کے اختیار میں ہے۔ اقتصادی سرگرمیوں سے خود کو جتنی دور رکھیں، اس سے پرہیز کریں، اتنا ہی آپ کے کام کے لئے بہتر ہے اور ملک کے فائدے میں ہے؛ بلکہ میرا خیال ہے کہ اپنے مخصوص کام کے علاوہ ہر چیز سے پرہیز کریں، تاکہ اپنا کام اچھی طرح انجام دے سکیں۔
میرے عزیزو! اچھے کام کی کچھ مصیبتیں بھی ہیں۔ کوئی بھی اچھا کام مصیبت اور مشکلات کے بغیر نہیں ہے۔ اعلی سطح کے تربیت یافتہ افراد، جو مخلصین میں شمار ہوتے ہیں، معنوی طبقہ بندی میں، ہماری روایات اور شرعی کتب میں ، فی خطر عظیم (1) ہیں۔ مخلص انسان وہ ہے جس کا ہر کام خد کے لئے ہو، اس کا ایک ایک لفظ، ہر قدم، ہر کام حتی کھانا پینا اور آرام کرنا، صرف خدا کے لئے اور قربت خدا کی نیت سے ہوتا ہے۔ روایت میں ہے کہ حتی یہ انسان بھی فی خطرعظیم ہے ۔ اب ہم خود کو دیکھیں کہ اخلاص سے اس طرح دور ہیں، ہماری صورتحال کیا ہے۔ مشکلات اور آفتوں سے دور رہنے کی بہت ضرورت ہے۔ زندگی اور کام کی مشکلات اور مصیبتیں بہت زیادہ ہیں۔ انسان کو ہر وقت خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ باتیں میں اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ کے اندر یہ کام کرنے کی ہمت نہ رہے۔ نہیں کاموں کے تعلق سے ایک آفت اور مصیبت یہی ہے کہ انسان کے اندر کام کی ہمت نہ رہے۔ خیال رکھیں کہ کام پوری شجاعت، قوت اور خدا پر توکل کے ساتھ انجام دیں۔ جس سطح پر بھی ہیں، آگے بڑھیں۔ ایک مصیبت یہی ہے کہ انسان کے اندر ہمت نہ رہے۔ دوسری مصیبتیں بھی ہیں جن کی طرف سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ ان شاء اللہ وہ آپ کے دامن گیر نہ ہوں۔
امید ہے کہ آپ برداران عزیز جو اچھے اور عظیم کام میں مشغول ہیں، جیسا کہ الحمد للہ جناب ہاشمی رفسنجانی صاحب نے اطمینان کا اظہار کیا ہے خدا بھی آپ سے راضی ہو، آپ کا اچھا کام اور نام باقی رہے اور یہ خدمات آپ سالہا سال تک ان شاء اللہ انجام دیتے رہیں۔ اس ملک کے لئے ایسے اچھے کام کریں جو باقی رہیں اور لوگ ان شاء اللہ ان سے فائدہ اٹھائيں۔
 
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
 
1-وسائل الشیعہ۔ جلد 12 صفحہ 49
2-مستدرک الوسائل،جلد 1 صفحہ 99