حجّ بیت اللہ الحرام کے موقع پر حجاج کرام کے نام قائد انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کا پیغام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

قٰالَ ۔۔۔ تَعالیٰ : فَاذَا قَضَیتُم مَناسکَکُم فَاذکُرُوا اللہَ کَذ کرکُم آبائَکُم اَو اَشَدَّ ذکرا´ ۔

مسلمان بھائیو اوربہنو! حج کے ایام امید و نوید کے دن ہیں ۔ ایک طرف خانۂ توحید کے مکینوں کے درمیان یکجہتی اپنی پوری شان و شوکت جلوہ نمائی کرکے ، دلوں میں امید پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف ذکر الہی کی برکت سے دل و دماغ کو ملنے والی طراوت باب رحمت کھلنے کی خوشخبری دیتی ہے۔حجاج کرام ، حج کے رمز و اسرار سے معمور مناسک اداکرنے کے بعد، جو خود ہی ذکر الہی اور خشوع و خضوع کا گہوارہ ہیں ایک بار پھر ذکر خدا کے لئے بلائے جاتے ہیں ، یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ یاد الہی افسردہ دلوں کو جلا بخشی دیتی ہے اور ان میں ایمان و امید کی کرن پیدا کرتی ہے ، اور دل جب پر امید اور باایمان ہوتا ہے تو ، آدمی کو زندگی کے پر پیچ و خم راستوں کو طے کرنے اور مادی و روحانی کمال کی چوٹیوں تک پہونچنے کی طاقت و توانائی عطا کرتا ہے ۔ حج کی معنویت و روحانیت بلاشبہ ذکر الہی میں ہے کہ جو روح کی مانند حج کے ایک ایک عمل میں رچی بسی ہے ۔ یہ مبارک سرچشمہ زمانۂ حج کے بعد بھی پھوٹتا رہے اور اس کے ثمرات جاری رہیں ۔ انسان زندگي کے مختلف امور میں غفلت کا شکار ہے ۔ جہاں بھی غفلت ہے وہاں اخلاقی تباہی ، فکری کجروی اور نفسیاتی ہزيمت بھی ہے اور یہی تباہیاں انسان کی شخصیت کے اضمحلال کے علاوہ ، قوموں کی شکست اور تہذیبوں کے بکھرنے کا باعث ہوتی ہیں ۔غفلت کو دور کرنے کے لئے اسلام کی ایک بڑي تدبیر حج ہے ۔ حج کا بین الاقوامی پہلو یہ پیغام دیتا ہے کہ امت مسلمہ اپنے اجتماعی تشخص میں بھی ، ہر مسلمان کی انفرادی ذمے داری سے ہٹ کر غفلت کو دور کرنے کی ذمے دار ہے ۔عبادتیں اور مناسک حج یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ ہم لذت ، ہوا و ہوس اور آرام و آسائش سے اپنی وابستگي اور اسیری سے خود کو کچھ عرصے کے لئے آزاد کریں ۔ احرام طواف، نماز اور سعی و وقوف ہمیں یاد خدا سے سرشار اور حریم الہی سے قریب کرتا ہے اور ہمارے کام و دہن میں خدا سے انس کی لذت پیدا کرتا ہے ۔ دوسری جانب اس بے مثال اجتماع کارعب و جلال ، ہمیں عظیم امت مسلمہ کی حقیقت سے جو قوم ونسل اور رنگ و لسان کے تفرقوں سے بڑھ کر ہے ، آشنا کرتا ہے ۔یہ متحد و ہماہنگ اجتماع ، یہ زبانیں جو سب کی سب ایک ہی کلمے کا ورد کررہی ہیں ، یہ جسم ودل جوایک ہی قبلے کی جانب رخ کئے ہوئے ہیں ، یہ انسان جو دسیوں ملک و ملت کی نمائندگي کر رہے ہیں سب ایک ہی اکائی اور ایک عظیم مجموعے سے متعلق ہیں اور وہ امت مسلمہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ غفلت کے ایک طویل دور سے گذری ہے ، آج کی سائنسی اورعملی پسماندگی اور سیاست و صنعت اور اقتصاد کےمیدانوں میں پسماندگي ان غفلتوں کا ناگوار نتیجہ ہے اور اس وقت دنیا میں جو حیرت انگيز تبدیلی آئی ہے ، یا آرہی ہے ۔اس کے ذریعے امت مسلمہ کو چاہیے کہ اپنی ماضي کی غفلتوں کی تلافی کرے اور یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ موجودہ دور کے بعض مسائل اس تلافی کے لئے ایک بنیادی اقدام کے آغاز کی نوید دے رہے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سامراجی دنیا ، مسلمانوں کی بیداری ، اتحاد اسلامی اور علم و دانش اور سیاست و ایجادات کے میدانوں میں ہماری قوم کی پیشرفت کو اپنے عالمی غلبہ و تسلط کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ شمار کرتی ہے ، اور پوری طاقت کے ساتھ اس سے نبرد آزما ہے ۔ ہم مسلمان قوموں کے سامنے استعمار اورجدید سامراج کے دور کا تجربہ ہے ۔ آج جدید سامراج کے دور میں ہمیں ماضي سے درس حاصل کرنا چاہیے اورایک بار پھر طویل عرصے تک کے لئے دشمن کواپنی تقدیر پر مسلط نہیں کرنا چاہئے ، ان تلخ و تاریک زمانوں میں مسلط مغربی طاقتوں نے مسلمان قوموں اور ملکوں کو کمزور کرنے کےلئے تمام فوجی ، سیاسی ،معاشی اور ثقافتی ہتھکنڈوں کو استعمال کیا ۔ ان پر تفرقہ و اختلاف، جہالت اور غربت کو مسلط کردیا ۔ ہماری بہت سے علمی شخصیات اور دانشوروں کی فرائض سے دوری اوربہت سی سیاسی شخصیتوں کی کمزوری ، کاہلی اورغفلت نے ان کی مدد کی ، اور اس کا نتیجہ ہماری دولت و ثروت کی لوٹ کھسوٹ ، توہین اور حتی ہمارے قومی تشخص کے انکار اورہماری خود مختاری کی تھی کی صورت میں نکلا ، مسلمان قومیں روز بروز کمزور ہوگئیں اور تسلط پسند اور لٹیرے روز بروز مزيد مضبوط ہوتے گئے ۔ اب جبکہ انقلابیوں کی فداکاری اور دنیائے اسلام کے بعض خطوں میں قائدین کی شجاعت و صداقت کے سبب اسلامی بیداری نے لہروں کو وسعت دی اور بہت سے اسلامی ملکوں میں نوجوانوں ، دانشوروں اور عوام میدان میں اتارا تو بہت سے مسلم حکمرانوں اور سیاستدانوں کے سامنے تسلط پسندوں کی غداری آشکار ہوگئی ہے ،عالمی سامراج کے سرغنہ ایک بارپھر دنیائے اسلام پر اپنا تسلط مضبوط کرنے اوراسے جاری رکھنے کے لئے جدید ہتھکنڈوں کی فکر میں ہیں ، جمہوریت اور انسانی حقوق کا نعرہ ان ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے ۔ آج شیطان اعظم ( امریکہ ) جو خود انسان کے خلاف برائیوں اور سنگدلی کا مظہر ہے انسانی حقوق کی حمایت کا علمبردار بنا ہوا ہےاور مشرق وسطی کی اقوام کو جمہوریت کی دعوت دے رہا ہے ۔ امریکہ کے نقطۂ نگاہ سے ان ممالک میں جمہوریت سے مراد یہ ہے کہ ایسے پٹھو اورکٹھ پتلی عناصر سازش ، رشوت ، اوچھے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈوں کے ذریعے ظاہرا´ عوامی اور اندر سے امریکی ایما پر بر سر اقتدار آئیں جو ناپاک سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے امریکہ کا آلۂ کار بن سکیں ۔ ان مقاصد میں سر فہرست اسلام پسندی کی لہروں کو ختم کرکے اعلی اسلامی اقدار کو ایک بار پھر پس منظر میں ڈالنا ہے ۔ امریکہ اور دیگر تسلط پسند طاقتیں آج اسلامی بیداری کی تحریک کو روکنے اور ممکنہ طور پر اس کو کچلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں لہذا مسلم اقوام کو آج پوری طرح آگاہ و ہوشیار رہنا چاہئے ۔ علمائے کرام اور مذہبی رہنماؤں ، روشن خیال دانشوروں ، ادیبوں اور شاعروں ،فن کاروں ، نوجوانوں اور ممتاز سماجی شبہات کا فرض ہے کہ سب مل کر فہم فراست اور بر وقت اقدام کے ذریعے عالمی لٹیرے امریکہ کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ عالم اسلام میں سامراجی تسلّط کے ایک نئے دور کا آغاز کرے ۔ ان غاصب طاقتوں کے جمہوریت کے نعرے قابل قبول نہیں ہیں جو برسوں تک ایشیا، افریقہ اور براعظم امریکہ میں آمروجابر حکومتوں کی حامی رہی ہیں ۔ ان لوگوں کی طرف سے تشدّد اور دہشت گردی کے خلاف جد و جہد کے دعوے نفرت انگیز ہیں جو خود صیہونی دہشت گردی کا پر چار کرتے ہیں اور عراق وافغانستان میں پر تشدّد اور خونریزي کررہے ہیں ۔ ان شیطانوں کی طرف سے شہری حقوق کی حمایت ایک نفرت انگیز اقدام اور فریب کے سوا کچھ نہیں جنہوں نے فلسطین کے مظلوم عوام پر شیرون جیسے خون آشام دہشت گرد کے جرائم کی تعریف و تمجید کے ساتھ ساتھ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ گوانتانامو بے اور ابوغریب سمیت یورپ کی خفیہ جیلوں میں جرائم کا ارتکاب کرنے والوں ، عراقی و فلسطینی قوموں کی تحقیر کرنے والوں اور افغانستان و عراق میں اسلام کے نام پر مسلمانوں کے خون بہانے کو جائز سمجھنے والے گروہوں کی تربیت کرنے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انسانی حقوق کی بات کریں ۔ امریکہ و برطانیہ کی حکومتوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہری حقوق کا محافظ قرار دیں ، کیوں کہ وہ ملزمین کی اذیت و آزار ، نیز سڑکوں پر ان کاخون بہانے کو جائز سمجھتی ہیں ، یہاں تک کہ وہ اپنے ہی شہریوں کی ٹیلیفون کال سننے کوبغیر کسی عدالتی حکم کے قانونی سمجھتی ہیں ۔ وہ حکومتیں جنہوں نے ایٹمی اور کیمیاوی ہتھیار تیار اور استعمال کرکے عصر حاضر کی تاریخ میں ایک سیاہ باب رقم کیا ہے وہ جوہری ٹیکنالوجی کے عدم پھیلاؤ کی علمبردار نہیں بن سکتیں ۔
مسلمان بہنو اور بھائیو ! آج دنیا خاص طور پر عالم اسلام ایک حساس دور سے گذررہا ہے ، ایک طرف سے بیداری کی لہر نے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور دوسری طرف سے امریکہ اور دیگر مستکبروں کے مکارانہ چہروں سے فریب و ریا کے پردے اترگئے ہیں ، ادھر تشخص اور کھوتی ہوئی شان و شوکت کی بازیابی کے لئے عالم اسلام کے بعض مقامات پرتحریک اٹھ رہی ہے اورعظیم مملکت اسلامی ایران میں آزاد اور مقامی سائنس و ٹیکنالوجی کے ثمرات حاصل ہونے لگے ہیں اور جو خود اعتمادی سیاسی اور معاشرتی امور میں انقلابی دگرگونیوں کاباعث بنی تھی، سائنس اور تعمیر و ترقی کے عمل میں بھی اس کی جھلک نظر آنے لگی ہے ۔دوسری طرف دشمنوں کی سیاسی و عسکری صفوں میں ضعف و اضمحلال پیدا ہوا ہے آج ایک طرف سے عراق ،دوسری طرف سے فلسطین و لبنان میں طاقت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود امریکہ اور صیہونیوں کی ناتوانی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے ۔ امریکہ کی مشرق وسطی کی پالیسی میں ابتدا ہی میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں اور اس پالیسی میں اس کی ناکامی ، اس کے نظر یہ پردازوں کے لئے سوہان روح بنی ہوئي ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ مسلم قومیں اورحکومتیں حالات کو پرکھتے ہوئے بڑا ارو مؤثر قدم اٹھاسکتی ہیں ۔ مظلوم فلسطینی قوم کی مدد ، عراق کی باشعور قوم کی حمایت اور شام و لبنان اور علاقے کے دیگر ممالک کی حفاظت ایک اجتماعی فریضہ ہے ۔ اس سلسلے میں ممتاز سیاسی ، دینی اور علمی شخصیات ، اکابرین قوم ، نوجوانوں اور دانشوروں کی ذمہ داریاں دوسرے طبقات سے زیادہ ہیں ۔ اسلامی فرقوں کے درمیان وحدت و یک جہتی اور فرقہ واریت و قومی اختلافات سے پرہیز ان کا نصب العین ہونا چاہیے ۔ سائنسی پیشرفت ، سیاسی ترقی اور علمی سطح پر جد و جہد اور ان بنیادی شعبوں میں طاقت توانائی کا استعمال ان کی دعوت کی بنیاد ہونی چاہیے ، عالم اسلام کوعوامی اقتدار اور انسانی حقوق کے لئے مغرب کے بار بار پامال ہونے والے غلط نسخے کی ضرورت نہیں ہے ۔ عوامی اقتدار اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے اور انسانی حقوق اعلی ترین اسلامی پیغام میں شامل ہیں ۔البتہ علم کو اس کے جاننے والوں سے جہاں سے اور جس سے ممکن ہو سیکھنا چاہیے ، لیکن عالم اسلام کو کمر ہمت باندھنا پڑے گی کہ وہ ہمیشہ طالب علم نہ رہے بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نت نئی ایجادات ، سائنسی تخلیق اور انکشافات کے لئے سعی و کوشش کرے ۔ مغربی اقدار جو مغربی ملکوں میں اخلاقی گراوٹ ، نفسانی خواہشات اور تشدد کی ترویج نیز ہم جنس پرستی اور اسی طرح کی دیگر برائیوں کو قانونی شکل دینے پر منتج ہوئی ہیں ، قابل تقلید اور مثالی اقدار نہیں ہیں ۔اسلام اپنی اعلی اقدار کے ساتھ ، انسانوں کی فلاح و نجات کااعلی سرچشمہ ہے اورقوموں کی بااثر شہادت پر ان اقدار کے احیا اوران کو فروغ دینے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اندھی اور وحشیانہ دہشت گردی جسے آج عراق پرقابض طاقتیں اسلام اور مسلمانوں پرحملے کاوسیلہ بنائے ہوئے ہیں اور جو اس اسلامی ملک پر فوجی قبضہ جاری رکھنے کا بہانہ ہے اسلامی تعلیمات کی رو سے قابل مذمت ہے ۔ ان ظالمانہ واقعات کے اصل مجرم امریکی فوجی اور امریکہ اور اسرائیل کے ادارے ہیں ، عراق میں حکومت کی تشکیل کے عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش ان کے انتہائي ناپاک منصوبوں میں سے ہے ۔
مسلمان بھائیو اوربہنو !
اللہ پر توکل قرآن مجید کےحتمی یقینی وعدے پر یقین اوراسلامی اتحاد میں استحکام ہی ،امت مسلمہ کے تمام بڑے مقاصد کی ضمانت ہے اور فریضۂ حج اللہ کے ذکر کے مفید اور مالامال سرمائے کے ساتھ اوراس کے مناسک میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع اس وسیع تحریک کا نقطۂ آغاز اور پہلا قدم ہوگا اور اس فریضے میں استکبار اور کفر کے سرغنوں سے گفتار اور کردار کے ذریعے بیزاری ، مثالی اور اس راہ میں پہلا قدم ہوگا۔ میں آپ حجاج کےلئے نیک خواہشات کا خواہاں اور تمام مسلمانوں کے لئے امام زمانہ حضرت امام مہدی (عج ) کی دعاء کا طالب ہوں ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ

سید علی خامنہ ای

ذی الحجّہ 1426 ہج ، مطابق 9 جنوری 2006 ع