بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا مقلب القلوب و الابصار یا مدبر اللیل والنھار یا محول الحول و الاحوال حول حالنا الی احسن الحال

اس سال کی بہار تین تین عیدیں لے کر آئی ہے۔ سب سے پہلے تو ولادت با سعادت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے پھر حضرت امام صادق علیہ السلام کی عید میلاد ہے اور اس کے ساتھ ہی ایرانی قوم کی عید نوروز۔ میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں سلام عرض اور آپ کو ان عیدوں کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح ملت ایران، تمام مسلمانوں اور عاشقان اہلبیت عصمت و طہارت نیز عید نوروز منانے اور سال نو کے جشن میں ایرانیوں کی خوشیوں میں شریک ہونے والی تمام قوموں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔دعا کرتا ہوں کہ یہ اچھا سال، یہ دلکش اور شاداب بہار، تمام مسلمانوں بالخصوص عزیز ملت ایران کو مبارک اور بارآور سال کی نوید سنائے۔ اپنے معروضات کے آغاز میں راہ حق کے شہیدوں کے اہل خاندان، اپنے جسمانی اعضا کا نذرانہ پیش کر دینے والے جانبازوں اور جاں نثاروں کو خصوصی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ہم گزشتہ سال تیرہ سو چھیاسی پر ایک سرسری نظر ڈالیں گے اور نئے سال تیرہ سو ستاسی پر اختصار کے ساتھ ایک نگاہ ڈوڑائیں گے۔ تیرہ سو چھیاسی کا سال ایرانی قوم کے لئے اہم واقعات والا اور سربلندی و وقار کا سال رہا۔ اس سال کے آغاز میں ہماری سرحد میں دراندازی کرنے والے بیرونی بحری فوجیوں کی گرفتاری پھر معافی اور رہائي کا واقعہ پیش آیا جو قوم کی سرفرازی کا باعث بنا، اس سے دنیا میں ہماری قوم ، طاقتور اور ساتھ ہی رحمدل قوم کی حیثیت سے پہچانی گئی۔ اس سال کے اختتام پر قوم کے ذریعے شاندار اور پر شکوہ انتخابات کا انعقاد اور پارلیمان مجلس شورای اسلامی کے لئے نمایندوں کا انتخاب، دنیا والوں کی حیرت زدہ نگاہوں کے لئے ایک بہت بڑا واقعہ اور ملت ایران کےلئے آئندہ چار برسوں کے لئے فیصلہ کن اقدام تھا۔ اس اہم مرحلے پر بھی ہماری قوم نے، ملک کا صحیح انداز میں نظم و نسق چلانے اور ملک کے انتظامی امور میں تعاون کے لئے اپنی عظمت، اقتدار، میدان عمل میں بھرپور موجودگی اور عزم راسخ کا مظاہرہ کیا۔
گزشتہ سال کے دوران، حکومت، پارلیمنٹ اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے حکام کی طرف سے بڑے اہم کام انجام پائے ہیں۔ اسی طرح قوم کے افراد نے، علمی حلقوں اور تحقیقاتی و تعلیمی اکیڈمیوں نے کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں، جن کے نتیجے میں قوم مختلف شعبوں میں پیش رفت کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ سائسنی ترقی، تعمیراتی ترقی اور ملک کی خوشحالی کے لئے انجام دئے جانے والے بڑے کام دیکھنے میں آئے، ان کا تعلق قانون سازی سے ہو یا انہیں عملی جامہ پہنانے والی مجریہ سے سب کے سب کام قوم کے لئے سودبخش اور اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق پیش رفت و بارآوری کے ضامن بنے ہیں۔ البتہ اس سال کے دوران مختلف منصوبوں میں اور بعض اہم شخصیات سے محرومی کی شکل میں ناکامیاں اور نقصانات بھی سامنے آئے لیکن زندگی اسی کا نام ہے اور ایک قوم کے لئے خوشی اور غم، تلخ و شیریں لمحات ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ قوم ایسے مختلف النوع واقعات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے ہدف پرپوری نظر رکھے اور اس کی جانب گامزن رہے۔ آخری حادثہ عزیز طلبا کے جاں بحق ہونے کا تھا جس نے ہم سب کو ملول و غمزدہ کر دیا۔
جہاں تک تیرہ سو ستاسی کے سال کا سوال ہے جو اس وقت سے شروع ہوا ہے، اس میں ہماری آگے کی راہ بڑی واضح اور امیدیں بہت قوی ہیں۔ اس سال، مقدس اسلامی جمہوری نظام اپنی زندگی کا تیسواں سال مکمل کرے گا۔ ان تین عشروں میں ملک کے دفاع، خود مختاری کے تحفظ، قومی عزت و وقار کی پاسداری اور علمی و عملی بلندیوں تک ملک کی رہنمائی میں ملت ایران اور حکام نے بڑی با ارزش زحمتیں اور کوششیں کی ہیں۔ ان برسوں میں ملت ایران کا مطمح نظر یہ رہا ہے کہ انقلاب سے قبل برسہا برس کی پسماندگی کی تلافی کرے، اس سلسلے میں بڑی کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔ اس طویل عرصے میں جو کچھ انجام پایا ہے وہ اللہ تعالی نے چاہا تو ایرانی قوم کی تاریخ میں ہمیشہ نمایاں اور یادگار رہے گا۔
نئے سال میں ہم نے سعی و کوشش کے تعلق سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ ایک تازہ دم پارلیمان میدان عمل میں قدم رکھنے جا رہی ہے دوسرے یہ کہ انتھک کوششیں کرنے والی خدمت گذار حکومت بر سر اقتدار ہے۔ اگر حکومت اور پارلیمنٹ مرضی پروردگار کے مطابق حکمت و دانشمندی اور تدبیر و تدبر کے ساتھ کاموں کو منظم کریں تو امید قوی ہے کہ ہم اس سال عظیم کارنامے انجام دیں گے۔ داخلی سطح پر بھی اور پیچیدہ عالمی میدان میں بھی قوم کو سعی و کوشش، خلاقیت اور کارناموں کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ماضی میں طاغوتی ادوار میں جو کھویا ہے اور جس کے نتیجے میں ہم پسماندگی کا شکار رہے ہیں سب کی تلافی کریں۔ اس کے لئے لازمی ہے کہ ہم اپنی رفتار کو جہاں تک ممکن ہو بڑھائیں اور اپنے ارادے کو مزید استحکام بخشیں۔ داخلی سطح پر دانشمندی، سوجھ بوجھ اور حکمت کے تناظر میں شارٹ کٹ راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم معمولی رفتار سے اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں منصوبہ بند اور منظم برق رفتاری سے آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ہم ایسے کام انجام دے سکیں جو آئندہ نسلوں کے لئے باقی رہنے والے ہیں۔ عالمی میدان میں ہمارے دوست بھی ہیں اور دشمن بھی۔ بعض ایسے ہیں جو دشمن تو نہیں ہیں لیکن ہمارے رقیب ضرور ہیں۔ اس پیچیدہ میدان میں بھی تدبیر و تدبر، ہمت وشجاعت اور عزت و وقار کے میعار پر اپنی کوششوں کو منظم کرنا ہے۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو ملک کی داخلی کامیابیوں اور عظیم ملت ایران کی پیش رفت و ترقی پر اس کا مثبت اثر پڑے گا۔
بڑی خوشی کا مقام ہے کہ قومی وقار ہمارے حکام کے پیش نظر ہے، انہیں بخوبی علم ہےکہ دشمنوں کی زور زبردستیوں سے نجات حاصل کرنے کا راستا ان کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا اور پسپا ہو جانا نہیں ہے۔ اگر دشمن زور زبردستی اور غنڈہ ٹیکس کی وصولی کی کوشش کرتا ہے تو اس کے سامنے ڈٹ جانے اور مسلسل آگے بڑھتے رہنے کی ضرورت ہے۔ ملت ایران کو اقتدار حاصل کرکے رہنا ہے۔ یہ اقتدار و قوت فوجی برتری کے معنی میں نہیں ہے بلکہ علمی، اقتصادی، اخلاقی، سماجی اور سب سے بڑھ کر روحانی و معنوی میدانوں میں اقتدار و برتری مراد ہےجو اللہ تعالی کی ذات پر توکل کے نتیجے میں کسی قوم کو حاصل ہوتی ہے۔ اگر قوم کی ایسی تقویت کے لئے آگے بڑھنا اور مطلوبہ اہداف تک رسائي حاصل کرنا ہے تو قوم اور حکومت کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہوگا اور دوستانہ تعاون کرنا ہوگا۔ جس طرح قوم اللہ تعالی کے لطف و کرم سے ہمیشہ حکام کی پشتپناہی کرتی رہی ہے، آگے بھی یہ عمل اور حکومت و قوم کا تعاون جاری رکھنا ہوگا۔
قوم کے مختلف طبقات و حلقے، خواہ وہ دانشوروں، برجستہ شخصیات اور محققین کا حلقہ ہو یا طلبا کا حلقہ، مزدوروں اور کسانوں کا طبقہ ہو یا سرمایہ کاروں اور اپنی سرمایہ کاری سے قوم کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے افراد کا طبقہ اسی طرح سرکاری و غیر سرکاری اداروں اور شعبوں کے ڈائرکٹروں کا طبقہ ہو، سب کو یہ احساس رکھنا چاہئے کہ ملک کی پیش رفت کی ذمہ داری ان کے دوش پر ہے۔ یہ الہی اور عوامی فریضہ ہے جس کا ثمرہ ہر کسی کو حاصل ہوگا۔ اس سے تمام افراد کو بالعموم اور ان فرائض کو انجام دینےوالے افراد کو بالخصوص، فائدہ پہنچے گا۔
میں اس سال دو چیزوں کی امید رکھتا ہوں ایک تو یہ کہ تمام مذکورہ شعبوں میں خلاقیت کا مظاہرہ کیا جائے۔ اقتصادی، سیاسی، سفارتی پالیسیوں میں، علم و تحقیق کی جانب ملک کی رہنمائی، ملک میں پسندیدہ فضا کے قیام، تمام طبقات بالخصوص کمزور طبقے کو خدمات بہم پہنچانے، وطن عزیز کی تعمیر و ترقی، یونیورسٹیوں، اقتصادی مراکز اور مختلف سماجی اور خدمت گذار اداروں میں خلاقیت کی ضرورت ہے۔ یہ پہلی بات ہے جس کی میں امید کرتا ہوں۔ اس سال پورے ملک پر خلاقیت کی فضا حکمفرما ہوگی اور ہر فرد صحیح طرز فکر اور درست منصوبہ بندی کے تحت خلاقیت کے مظاہرے کو اپنا فریضہ تصور کرےگا۔ میری دوسری امید یہ ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران جو کوششیں کی گئي ہیں، حکومت نے جو کام انجام دئے ہیں، عہدہ داروں اور عوام نے مادی اور معنوی و روحانی شعبوں میں جو سرمایہ کاری کی ہے وہ سب اس سال بار آور ہوں اور عوام ان کے نتائج اپنی روزمرہ کی زندگی میں محسوس کریں۔ بہت سے کام ہیں جو اس وقت شروع ہوئے ہیں لیکن ان کا ثمرہ فوری طور پر نظر نہیں آتا اسی طرح بہت سے کام جو ماضی میں یا گزشتہ برسوں میں انجام دئے گئے ہیں ان کے نتائج بتدریج عوام کے سامنے آنے چاہئیں تاکہ عوام ان سے بہرہ مند ہوں۔ ہم نے جو کچھ بویا ہے اسے بارآور ہونا چاہئے اور اس کا ثمر عوام کو ملنا چاہئے۔ لہذا میں اس سال کو خلاقیت اور پیش رفت کے سال سے موسوم کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ خلاقیت اور پیش رفت کے میدان میں ہماری قوم فرحت بخش نتائج کا مشاہدہ کرےگی اور اس سال کو اللہ تعالی کے لطف و کرم کے زیر سایہ عزت و وقار، کامیابی و کامرانی، شادابی و شادمانی کےساتھ بہترین انداز میں بسر کرےگی۔
اللہ تعالی سے اپنے عزیز عوام اور محترم عہدہ داران کی کامیابی کی دعا کرتا ہوں اور دعاکرتا ہوں کہ حضرت امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کی دعا ہم سب کے شامل حال رہے۔ ہمارے بزرگورا امام کی روح مطھرہ کہ جو ایرانی قوم کی زندگی میں نیا باب اور اس کے سامنے نیا راستہ وا کرنے والے تھےاللہ تعالی کے اولیا کے ساتھ محشور ہو۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ