بسم اللہ الرحمن الرحیم

حج میں دسیوں لاکھ مسلمانوں کا اجتماع، ایک بے نظیر اور حیرت انگیز واقعہ ہے۔ ان چند دنوں میں دنیا کی ہر جگہ سے اور ہر معاشرتی طبقے سے، تمام مسلم اقوام خانہ خدا، اسلام اور پیغمبر اسلام کی جائے پیدائش میں جمع ہوتی ہیں اور حج کے رمز و راز سے مملو اعمال بجا لاتی ہیں۔ ان پرشکوہ اور پرمعنی شعائر میں خدائے بزرگ سے قلوب کا تعلق، دلوں کے باہمی رابطے، محور توحید پر حرکت، ہمہ گیر سعی و کوشش، شیطان کو پتھر مارنا، طاغوت سے دوری، خدا کا ذکر اور اس کے حضور خضوع وخشوع، گریہ و زاری اور اسلام کے سائے میں عزت و عظمت کا احساس، یہ سب عمل کے ذریعے اور علامت کے طور پر مسلم اقوام کو سکھایا جاتا ہے؛ اور دینی بھائیوں کے ساتھ محبت و مہربانی کے ساتھ رہنا، دشمنوں کے مقابلے میں سختی و پائیداری، خود پرستی کی آلائشوں سے رہائی اور الہی عزت و عظمت کے سمندر سے اتصال حج کے اعمال میں مجسم ہوتا ہے۔
حج، امت اسلامیہ کے متحد وجود کی علامت ہے اور اس طرز عمل کی تعلیم دیتا ہے جو امت کو اپنی سعادت کے لئے اختیار کرنا چاہیئے۔ حج کو آگاہی کے ساتھ سمت واحد میں سب کی با مقصد پیش روی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس حرکت کی بنیاد یاد خدا اور بندگان خدا کا اتحاد ہے، اور اس کا مقصد انسان کی کامیاب زندگی کے لئے ایک مستحکم معنوی مرکز کا قیام ہے؛ جعل اللہ الکعبتہ البیت الحرام قیاما للناس والشہر الحرام والہدی والقلائد۔
اس وقت امت اسلامیہ کواپنی حقیقی زندگی میں حج کی طرح ایک عظیم اور بامقصد تحریک کی ضرورت ہے اور مسلم اقوام اور حکومتیں، سبھی اس ذمہ داری میں شریک ہیں ۔
گزشتہ ایک صدی میں اسلامی ممالک کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچے ہیں۔ مغرب والوں کی ملک گیری اور سامراجیت کی لہر نے سب سے زیادہ مسلم اقوام کو نقصان پہنجایا ہے جن کی دولت و ثروت اور مادی ذخائر نے انہیں سامراجی حکومتوں کی یلغار کی آماجگاہ بنایا۔
اس جارحیت کے نتیجے میں مسلمانوں کو سیاسی و اقتصادی اسارت اور علمی و مادی پسماندگی نصیب ہوئی اور سامراجی طاقتوں نے مسلمانوں کے انسانی و مادی ذرائع سے فائدہ اٹھایا اور غصب، ظلم، جنگ اور تشدد کے ذریعے اپنی دولت و طاقت میں اضافہ کیا۔
طویل برسوں کے بعد مسلم اقوام ہوش میں آئیں، پوری اسلامی دنیا میں مسلمانوں کی تحریک بیداری اور حریت پسندی و آزادی کے پرچم نے ان کے سامنے امیدوں کے نئے اف‍ق کھولے اور سرانجام ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کے قیام نے اسلامی دنیا کے لئے ایک نئے دور کے آغاز کا اعلان کیا ۔
ظاہر ہے کہ دنیا کے طاقت و دولت کے مراکز آسانی سے حق کے سامنے نہیں جھکیں گے اور مسلم اقوام کے سامنے طویل، دشوار مگر مبارک اور خوش انجام راستہ ہے ۔ اس راستے پر چلنے والے ، اگر استقامت و پائیداری سے کام لیں، تو خود کو اور اپنے بعد کی نسلوں کو پسماندگی اور سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی اسارت کی ذلت سے نجات دلائیں گے اور اسلام کے سائے میں خوشگوار زندگی سے لطف اندوز ہونگے ۔
علمی اور سیاسی مجاہدت اور اپنے حق کے طاقتور دفاع کا یہ راستہ روشن ہے ۔ اس میدان میں اپنے پامال شدہ حقوق اور عزت و شرف کے مدافع ہیں ۔ انصاف اور انسانی ضمیر، آگاہ اور سخت گیر قاضی ہے جواس مظلومانہ مجاہدت کی تائید کرتا ہے اور سنت خداوندی ان کی یقینی کامیابی کی نوید دیتی ہے ؛اذن للذین یقاتلون بانہم ظلمواوان اللہ علی نصرھم لقدیر۔
عالمی سامراج یعنی، پٹرولیم کمپنیوں کے کارٹلس، اسلحہ سازی کے کارخانوں عالمی صیہونیت اور ان سے وابستہ حکومتوں کا جال، امت اسلامیہ کی بیداری سے خطرے کا احساس کررہا ہے اور سراسیمہ ہوکر یلغار کے لئے کوشاں ہے۔ اس سیاسی، تشہراتی، فوجی اور دہشتگردانہ یلغار کے مظاہر، آج صیہونی حکومت اور ریاستہائے متحدہ امریکا پر مسلط عسکریت پسندوں کے تشدد آمیز اقوال و اعمال میں واضح طورپر دیکھے جاسکتے ہیں ۔
خون میں آغشتہ مظلوم فلسطین ہر روز غاصب حکومت کے وحشیانہ ترین حملوں کی آماجگاہ بنتا ہے۔ فلسطینی قوم پر صرف اس لئے قتل و غارتگری، تخریب کاری، ایذارسانی اور تذلیل و اہانت سمیت یہ تمام مصیبتیں ڈھائی جاتی ہیں کہ اس نے آدھی صدی گذرنے کے بعد اپنے پامال شدہ حقوق کا سنجیدگی سے مطالبہ کرنے کی جرات کی ہے ۔
عراقی قوم کو جنگ کی دھمکیاں اس لئے دی جارہی ہیں کہ امریکی حکومت تیل کی سپلائی پر تسلط، علاقے کے تیل کے باقی ماندہ ذخائر کی غارتگری اور فلسطین، ایران، شام اور سعودی عرب کی سرحدوں کے نزدیک موثر موجودگی کے لئے ضروری سمجھتی ہے کہ عراق میں اپنے قدم جمائے، اور اس کے نتیجے میں اس ملک کا انجام، جنگ میں مشرق وسطی کے تمام ملکوں کا دامنگیر ہو۔
افغان قوم نے صرف اس لئے ایک سال اور چند مہینوں سے امریکا اور برطانیہ کے اجتماعی قتل عام کے ہتھیاروں، بموں، اور ان کی مداخلت، توہین آمیز موجودگی اور غاصبانہ قبضے کوجسم و جان پر لمس کیا ہے کہ حکومت امریکا نے اپنے ناجائز مفادات کی اسی طرح تعریف کی ہے ۔
اس انسانیت مخالف سامراجی گروہ کی حرص و طمع کی کوئی حد نہیں ہے۔ اگر ڈیڑھ سو سال قبل امریکا لاطینی امریکا کے ملکوں کا مالک بننا چاہتا تھا تو وہ حالیہ پچاس برسوں سے اس علاقے کے تمام اسلامی ملکوں کا آمر مطلق اور سلطان بننا چاہتا ہے۔ امریکا کی تمام خطرناک بین الاقوامی منصوبہ بندی اور اہداف کا تعین، اس کے اس متکبرانہ مگر احمقانہ مدعا کا ثبوت ہے۔
اس میں شک نہیں کہ امریکا اور اس کے اتحادی ناکام ہوں گے اور دنیا ایک بار پھر ایک بد مست طاقتور سلطنت کا زوال دیکھے گی، جیسا کہ افغانستان میں بھی اور فلسطین میں بھی اس کے تمام اندازے غلط نکلے ہیں لیکن اگر امت اسلامیہ نے، اسلامی اقوام اور حکومتوں نے بر وقت خردمندانہ اور دلیرانہ فیصلہ نہ کیا تو ایک بار پھربھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی تلافی دیر میں ہوگی۔
امریکا نے اپنی نئی دیوانہ وار تحریک میں جس کا آغاز گیارہ ستمبر کے مشکوک حادثے کے بعد ہوا، تشہیراتی حملے بھی شروع کئے ہیں؛ یعنی ڈیموکریسی اور دہشتگردی مخالف پرچم اٹھایا اور اسلامی اقوام کے لئے کیمیائی اور اجتماعی قتل عام کے ہتھیاروں کی مذمت کی باتیں کررہا ہے۔ کیا وہ یہ نہیں سوچتا کہ ممکن ہے کہ مسلمان پوچھیں کہ یہ ہتھیار کن حکومتوں اور کمپنیوں نے عراق کی بعثی حکومت کو دیئے؟ انیس ہزار کیمیائی بم جن کے لئے تم دعوا کرتے ہو کہ عراق کی بعثی حکومت کے پاس تھے اور چونکہ تیرہ ہزار اس نے ایرانیوں پر گرائے تو چھے ہزار اس کے پاس موجود ہونے چاہئیں اور تم اس بناپر عراق پر مستقبل کے حملے کی توجیہ کرتے ہو، اتنی مقدار میں کیمیائی وسائل اور ہتھیار حکومت عراق کے پاس کہاں سے آئے ؟ کیا تمھارے اور تمھارے اتحادیوں کے علاوہ کوئی اور اس تاریخی المئے میں شریک جرم ہے ؟
کیا تم یہ نہیں سوچتے کہ دہشتگردی کے خلاف جدوجہد اور نامعلوم گروہ اور اشخاص پر الزام لگاکر مسلم اقوام کو جو دنیا کی وحشی ترین دہشتگرد یعنی صیہونی حکومت کی امریکا کی جانب سے حمایت کا مشاہدہ کررہی ہے، دھوکہ نہیں دیا جاسکتا؟ امریکا بھاری اخراجات سے اپنی اس دیوانہ وار تشہیراتی مہم کے ذریعے مسلم اقوام کی نگاہوں میں جھوٹ، فریب اور حیلہ گری کا مظہر بن چکا ہے ۔
متکبر اور مستکبر امریکا فلسطین اور افغانستان میں اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکا ہے اور ان تمام سنگین مادی اور معنوی اخراجات کا نتیجہ گھاٹے کے علاوہ اور کچھ نہ نکلا ، اور اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا، انشاءاللہ ۔
عراق میں بھی اس کا دعوا ہے کہ مقصد صدام اور بعثی حکومت کا خاتمہ ہے، یقینا وہ جھوٹ بولتا ہے اور اس کا اصل مقصد اوپک پر قبضہ کرنا، علاقے کے تیل کو لوٹنا ، صیہونی حکومت کی نزدیک سے حمایت کرنا اور ایران، شام اور سعودی عرب کے خلاف قریب سے سازش کرنا ہے۔ یہ بات مسلم ہے کہ اگرامریکا نے عراق پر جنگ کے ذریعے یا بغیر جنگ کے قبضہ کرلیا تو اس معاندانہ قبضے کی پہلی قربانی عراقی قوم اور اس تاریخی ملت کی عزت و شرف، غیرت، حمیت، ناموس اور دولت و ثروت ہوگی۔ اگر عراق کے پڑوسی ممالک ہوشیار رہیں تو یہ اہداف بھی حاصل نہیں ہوں گے ۔انشاءاللہ ۔
سامراج جانتا ہے کہ مسلم اقوام اور حکومتوں کی پائیداری کا سر چشمہ اسلام اور اس کی نجات دہندہ تعلیمات ہیں۔ بنابریں اس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وسیع نفسیاتی جنگ شروع کی ہے۔ گیارہ ستمبر کے حادثے کےبعد بےشمار قرائن صیہونیوں کے گھس پیٹھ کرنے والے خفیہ گروہوں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں مگر بہت تیزی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے نام ان میں شامل کئے گئے اور شب و روز اس کی تکرار کی گئی ۔ کچھ مسلمانوں کو امریکا، افغانستان اور دیگر مقامات سے گرفتار کرکے جیلوں اور خوفناک عقوبت خانوں کے حوالے کردیا گیا۔ نہ ان افراد پر الزام کبھی ثابت ہوا اور نہ ہی امریکیوں کی جنگ کے معروف ملزم گرفتار ہوئے ۔ مگر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفسیاتی جنگ نہ رکی اور اور شائد ابھی رکے گی بھی نہیں ۔
اسلام آزادی، عدل اور حق پسندی کا دین ہے۔ حقیقی جمہوریت وہی دینی جمہوریت ہے جو ایمان اور دینی ذمہ داری کی پشتپناہی میں سامنے آتی ہے اور جیسا کہ ایران اسلامی میں دیکھا جا رہا ہے، امریکا جیسوں کی ڈیموکریسی سے زیادہ عوامی حکومت ہے جو زیادہ صداقت کے ساتھ اورزیادہ اطمینان بخش انداز میں کام کرتی ہے۔ امریکی اسلامی اور عرب ملکوں کو جو ڈیموکریسی دینے کا وعدہ کررہے ہیں، وہ ان کے بموں میزائیلوں اور گولوں سے زیادہ تباہ کن ہے۔ دشمن اگر ہمیں ایک کھجور بھی دے تو یہ اطمینان نہیں کیا جاسکتا کہ اس کو مہلک زہر سے آلودہ نہ کیا ہوگا۔ افریقا، مشرق وسطی اور مغربی ایشیا میں امت اسلامیہ نے بارہا حتی حالیہ برسوں میں بھی اس کا تجربہ کیا ہے ۔
ان حساس اور سنگین حالات میں امت اسلامیہ کوحج کے عظیم نمونہ عمل سے پہلے سے زیادہ درس حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کے سیدھے راستے پر اور قرآنی اہداف کی جانب آگاہی کے ساتھ بڑھنے والی با مقصد، متنوع اور ہمہ گیر تحریک کی ضرورت ہے۔ قال تعالی ؛ الذین آمنوا یقاتلون فی سبیل اللہ والذین کفروا یقاتلون فی سبیل الطاغوت فقاتلوا اولیاءالشیطان ان کید الشیطان کان ضعیفا ، و قال تعالی ؛ و قال موسی لقومہ استعینوا باللہ واصبروا ان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ والعاقبۃ للمتقین و صدق اللہ العلی العظیم ۔

والسلام علیکم و رحمتہ اللہ ۔
السید علی الخامنہ ای 5 ذیحجہ 1423ھ مطابق 2003/2/7ع