قائد انقلاب اسلامی نے بائیس مارچ انیس سو ترانوے کو نئے ہجری شمسی سال کی آمد پر حسب دستور قوم کے نام ایک پیغام نوروز جاری فرمایا۔ آپ نے اس پیغام میں بیتے سال کی اہم تبدیلیوں کا سرسری جائزہ لیا اور شروع ہونے والے سال کی اہم ترجیحات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے سال تیرہ سو بہتر ہجری شمسی کو منصوبہ بندی کے سال سے موسوم فرمایا اور ساتھ ہی منصوبہ بندی سے متعلق اہم نکات ذکر کئے۔ تفصیلی پیغام زیر نظر ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا مقلب القلوب والابصار ۔ یا مدبر اللیل والنہار ۔ یا محول الحول الاحوال حول حالنا الی احسن الحال

عید نوروز اور نئے سال کی آمد اور اسی طرح عید الفطر کی ایرانی قوم اور ان تمام اقوام کو جو دونوں عیدوں کی اہمیت اور احترام کے قائل ہی، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بالخصوص ان لوگوں کو جن کا احترام پوری ایرانی قوم کا فریضہ ہے اور درحقیقت سب ان کے احسانمند ہیں، یعنی محترم شہیدوں کے خاندان والوں، آزاد ہوکر آنے والے جنگی قیدیوں، لاپتہ ہونے والے افراد اور ان کے اہل خاندان اور ان جنگی قیدیوں کو جو ابھی دشمن کی جیل میں ہیں اور ان کے گھر والوں کو پرخلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اپنے عزیز امام (خمینی رہ) کی روح مطہرہ کے لئے خدا کی رحمت و برکات طلب کرتا ہوں۔
ہماری عمر کا ایک سال اور گذرگیا اور ہم اپنی عمر کے ایام کے بعد کے سال میں پہنچ گئے۔ جو گذرگیا وہ الہی امتحان تھا۔ اگر اس کی گھڑیوں، اوقات اور لمحات میں ہم نے اپنے فریضے پر عمل کیا تو جو گذرگیا اس پر حسرت نہیں ہوگی۔ امید ہے کہ ایسا ہی ہوا ہوگا اور اگر خدانخواستہ، جو سال گذرگيا اس میں ہم نے غفلت، کوتاہی اور تقصیر کی، اپنے فرائض کو اہم نہیں سمجھا، جو ہمیں کمال تک پہنچا سکتا تھا، اس کی طرف سے ہم نے غفلت برتی یا خدا نخواستہ اس راستے پر چلے جو نقصان اور افسوس پر منتج ہوتا ہے، تو اس صورت میں جو گذرگیا اس پر بہت زیادہ حسرت ہوگی، عمر ہے جو چلی گئی، سرمایہ تھا جو ختم ہوگيا اور سیاہ اعمال نامہ ہے جو ممکن ہے کہ خدانخواستہ وجود میں آیا ہو۔
امید ہے کہ آنے والا سال عبودیت، پرہیزگاری، حسن عمل، عبادات کی قبولیت، الہی عنایات اور برکات کے نزول کا سال ہوگا۔ انہیں چند ایام میں جو ماہ رمضان کے باقی رہ گئے ہیں، زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں، اس مہینے کے لحمات سے بہرہ مند ہوں اور خود کو رضائے خدا کے راستے پر قرار دیں۔
گذرنے والا سال، عالمی مسائل کے لحاظ سے حادثات سے پر تھا۔ پوری دنیا میں، ہرطرف، ممالک اور اقوام آزمائش میں مبتلا ہوئیں۔ خاص طور پر مسلمین اس سال، سخت آزمائش سے گذرے۔ اگرچہ ہم دنیا کی ان مشکلات سے جن میں سبھی گرفتار ہوئے اور اسی طرح ان مشکلات سے جو دنیا کی سامراجی طاقتوں نے ترقی پذیر ملکوں پر مسلط کی ہیں، بالکل بچے نہیں رہ سکتے تھے، مگر مجموعی طور پر مطمئن ہوسکتے ہیں کہ دنیا کے اس متلاطم سمندر میں اور اس طوفانی دنیا میں، ہمارے ملک کے حکام کو توفیق الہی نصیب ہوئی اور وہ قوم کے تعاون سے ملک کو بڑی عالمی مشکلات سے بچانے میں کامیاب رہے۔
ملک کے اندر، جو ہم کہہ ستے ہیں اور جس چیز کا واضح طور پر احساس کر رہے ہیں، یہ ہے کہ الحمدللہ ملک کے حکام نے، اس پانچ سالہ منصوبے اور اہداف کے حصول کے لئے، جس کو پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا، پوری طاقت و توانائی سے سعی و کوشش کی۔ یہ ہم دیکھ رہے ہیں اور امید ہے کہ اسے خدا کے حضور شرف قبولیت حاصل ہوگا، ان نتائج واہداف تک پہنچیں گے جو معین کئے گئے ہیں، عوام کو فائدہ پنہچے گا اور انشاء اللہ حکام تمام کوششیں بروئے کار لانے میں کامیاب رہیں گے۔
اعلی سطحی حکام کی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں، ملک کی تعمیر کی کوششوں کے آثار، پورے ملک میں دیکھے جا رہے ہیں۔
اپنی عزیز قوم کی گذشتہ سال کی کارکردگی پر نظر ڈالتے ہیں تو اطمنان اور خوشی محسوس ہوتی ہے۔ سال کے شروع میں ہی عوام ایک بڑے امتحان سے روبرو ہوئے اور انہوں نے چوتھے دور کی پارلیمنٹ کے اراکین کا پوری ذمہ داری، سنجیدگی، دلچسپی اور خلوص کے ساتھ انتخاب کیا۔ سال کے اواخر میں، عشرہ فجر اور یوم آزادی کے عظیم الشان جلوسوں میں پرشکوہ انداز میں شرکت کی اور ہم نے سیاسی و سماجی میدانوں میں ہرجگہ مستحکم عوامی اور قومی موجودگی کا مشاہدہ کیا۔
انصاف یہ ہے کہ، جہاں عوام کو حکومت کی مدد کے لئے آنا چاہئے تھا، جہاں انہیں، بلا و مصیبت میں گرفتار اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے آنا چاہئے تھا، بوسنیا کے سلسلے میں، ملک کے حالیہ حوادث میں، ہر جگہ آنے والے تباہ کن سیلاب میں، ان کی مشارکت، اطمینان بخش، دشمن شکن اور موثر رہی ہے۔
میں یہاں گذشتہ سال کے اواخر میں ملک کے متعدد علاقوں میں آنے والے سیلاب کے تعلق سے کچھ باتیں اشارتا عرض کروں گا۔ حادثہ بہت افسوسناک تھا، اس حادثے میں جن لوگوں کو نقصان پہنچا ہے اور وہ مشکلات میں گرفتار ہوئے، ان کے لئے ہم غمگین ہیں۔ دعا ہے کہ رمضان المبارک کے پر برکت ایام میں، عید الفطر اور نئے سال کی تحویل کی خوشی کے موقع پر خداوند عالم خود اپنی قدرت سے اور ہماری حکومت اور قوم کے ہاتھوں ان کی مشکلات کو دور کرے۔ لوگوں نے تعاون اور مدد کی ہے۔ مگر مجھے جو اطلاع ملی ہے اس کے مطابق، سانحہ اس سے بہت وسیع ہے جو ہم ذرائع ابلاغ عامہ میں دیکھ سکے ہیں۔ بنابریں اس سلسلے میں حکومت کی مدد ضروری ہے۔
اب ایک نظر اس سال پر ڈالتے ہیں جو شروع ہوا ہے یعنی 1372 ہجری شمسی ( 1993-94)پر ۔ امید ہے انشاءاللہ یہ سال مبارک ہوگا۔ حکومت اور حکام سے امید ہے کہ جس طرح گذشتہ سال کے دوران انہوں نے حکومت کے اعلان شدہ اہداف تک پہنچنے کے لئے بھرپور کوشش کی ہے، وہ اس سال میں بھی جاری رکھیں گے اور کوششیں بڑھائیں گے۔ یہ منصوبہ بندی کا سال ہے۔ اس سال حکومت دوسرا پنجسالہ منصوبہ تیار کرکے منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔
میں، ملک کے حکام اور منصوبہ تیار کرنے والوں سے تاکید کے ساتھ سفارش کروں گا کہ توجہ رکھیں کہ اس منصوبے میں، اصل ہدف معاشرے کے محروم طبقات کی مدد ہو۔ یہ کام ہمیں سماجی انصاف سے نزدیک کرے گا۔ ہمارے ملک میں، اسلامی جمہوری نظام میں اصل ہدف، انصاف کی فراہمی ہے جبکہ اقتصادی ترقی اور تعمیراتی کام، اس کا مقدمہ ہیں۔ ہم وہ ترقی اور اقتصادی پیشرفت نہیں چاہتے کہ جس کے نتیجے میں کچھ لوگ زیادہ رفاہ میں ہوں اور کچھ لوگ زیادہ غریب ہوجائیں۔ یہ بات نہ ہمیں منظور ہے، نہ اسلام کو قبول ہے اور نہ ہی رضائے الہی اس میں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تعمیر ہو، اقتصادی ترقی ہو اور مادی پیشرفت آئے تاکہ ہم سماجی انصاف سے نزدیک تر ہوں اور ملک میں کوئی غریب نہ رہے۔ محروم طبقات محرومیت کا احساس نہ کریں، کوئی محروم نہ رہے۔ ملک میں کوئی محروم علاقہ نہ ہو۔ امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ روز بروز کم سے کمتر ہو۔ یہ اصل ہدف ہے۔ منصوبے میں اس کو مد نظر رکھیں۔ ان پنجسالہ منصوبوں میں سے ہر ایک، انقلاب کے اہداف کی طرف حکومت اور قوم کے بڑھنے کے لئے ہے، اس میں اس جہت کا جو انقلابی جہت ہے سخت تاکید اور اصرار کے ساتھ لحاظ اور حفاظت ہونی چاہئے ۔
اپنی عزیز قوم اور حکام سے ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ ماضی میں ہمیں جو بھی کامیابی ملی ہے وہ اس لئے ملی ہے کہ ہم نے انقلاب کے اصولوں کا احترام اور پابندی کی ہے اور جہاں ناکامی ملی ہے اس کی وجہ یہ رہی ہے کہ کم و بیش الہی، اسلامی اور انقلابی اصولوں سے انحراف کیا گیا ہے۔ ہماری کامیابیاں انقلاب کے اصولوں کی برکت سے ہیں۔ البتہ ملک سے باہر ہمارے دشمن اور ملک کے اندر ان کے ایجنٹ اس کے برعکس ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوری خباثت اور موذیانہ انداز میں لکھتے ہیں اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ انقلاب کی پابندی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ جی نہیں' یہ جھوٹ اور بہتان ہے۔ انقلاب کی پابندی سے حکومت اور قوم کے مسائل حل ہوتے ہیں، راستہ کھلتا ہے اور مشکلات برطرف ہوتی ہیں۔ انقلاب اور اسلام کے اصولوں سے انحراف مشکلات پیدا کرتا ہے، چاہے یہ انحراف عمل میں ہو یافکر میں۔ ممکن ہے کہ کبھی فکر انقلابی ہو مگر عمل انقلابی نہ ہو۔ یہ مشکل ساز ہے۔
آپ آٹھ سال مسلط کردہ جنگ پر ایک نظر ڈالیں، وہاں اس قضیے نے واضح طور پر خود کو ثابت کیا ہے۔ خارجہ سیاست پر ایک نگاہ ڈالیں، وہاں بھی یہ مسئلہ آشکارا طور پر نظر آۓ گا۔ دیگر تمام امور میں بھی ایسا ہی ہے۔ منصوبہ بندی میں اس کی پابندی ہونی چاہئے۔
میں اسی بناء پر اور دیگر وجوہات کی اساس پر اپنی عزیز قوم سے سفارش کرتا ہوں کہ آئندہ سال بھی اور رواں سال میں بھی جو الحمدللہ شروع ہوچکا ہے اور مبارک ہوگا، کوشش کریں کہ اسی انقلابی و اسلامی جہت اور حکومت نیز حکام کی مدد اور ان کے ساتھ تعاون کا جذبہ باقی رکھیں اور قومی اتحاد و یکجہتی اور ہم آہنگی کی حفاظت کریں۔ یہ ملک و قوم کے مسائل کو حل کرنے والی چیزیں ہیں ۔
اگر دشمن کے پروپیگنڈوں اور کوششوں پر ایک نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ ان کی کوششیں اس بات پر مرکوز ہیں کہ ہماری قوم کی یکجہتی ختم کردیں۔ یقینا دشمن ہمارا برا چاہتا ہے۔ یک جہتی اس قوم کے مسائل و مشکلات کا علاج ہے۔ دشمن حکومت اور قوم ، حکام اور عوام کے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس سمت میں چلنا چاہئے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام اسلام اور انقلاب کے اہداف سے دور ہوجائیں۔ بنابریں یہ چیز قوم کے نقصان میں ہے اور ہمیں یہ فاصلہ کم کرنا اور اسلام اور انقلاب کی سمت میں زیادہ بڑھنا چاہئے۔
اسی بناء پر میں تاکید کرتا ہوں کہ ہمارے عزیز مومن نوجوان، تمام عوام، مسلمان خواتین اور مرد، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو فراموش نہ کریں جو دو الہی فرائض اور اہم اقدار میں سے ہیں، ملک کے مختلف حکومتی اور انقلابی ادارے بھی خود کو انقلابی و اسلامی اصول و ضوابط سے نزدیک کرنے کی کوشش کریں۔
دعا ہے کہ خدا کے تفضل و برکات اور حضرت ولی عصرارواحنا فداہ، عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی عنایات سے ملت ایران کی زندگی روز بروز شفاف، پیشرفتہ اور خدا کی رحمت اور برکت سے سرشار ہو، یہ عید آپ سب کو، تمام خاندانوں کو، نوجوانوں کو اور قوم کے ایک ایک فرد کو مبارک ہو۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ برکاتہ