بسم اللہَ الرّحمن الرّحيم
الحمد للَّہ ربّ العالمين والصّلاۃ والسّلام على البشير النذير والسّراج المنير سيّدنا ابى القاسم المصطفى محمّد و على آلہ الاطيبين الطاھرين و علىالخيرۃ من اصحابہ المنتجبين
مسلمانوں کی سب سے بڑی سالانہ ملاقات کی خوشخبری کے ساتھ حج کے ایام آ گئے ہیں، اور بجا ہوگا کہ اشتیاق سے لبریز لاکھوں دل، جنہیں ان ایام میں اللہ تعالی کے فیض قربت سے استفادے کا موقع حاصل ہوگا، مسلسل جوش و خروش اور اپنے آپ کو تیار کرنے کے ہیجان میں رہیں، اور حج کے دسیوں لاکھ خواہشمند مسلمان، جن کا نام اس سال، اس موقع سے استفادہ کرنے والوں (حج سے مشرف هونے والوں) میں نہیں ہے، سعادت حاصل کرنے والوں کے ہر دن اور ہر لمحے کو یاد کرتے ہوئے اور ان کے لیے بھی اور اپنے لیے بھی دعا کرتے ہوئے اپنے دل و دماغ کو معطر کریں، اور تمام صاحبان دل مسلمان، حج کے ایام کو کسی نہ کسی طرح حج اور اس کے جلال و جمال کی نشانیوں کے ساتھ گزاریں۔
ہر سال حج کے مناسک، ایک اہم واقعہ ہوتے ہیں اور بجا ہوگا کہ ان ایام میں پورے عالم اسلام کے لوگوں کے افکار، توجہ، غور و فکر اور احساسات کا اصلی مرکز یہی مناسک ہوں اور ہر کوئی اپنی معنوی، فکری اور سیاسی پوزیشن کے لحاظ سے ان کے بارے میں کسی نہ کسی طرح غور و فکر کرے اور اسی ماحول میں پہنچنے کی کوشش کرے۔ بہت ہی واضح سی بات ہے کہ جن افراد کو حج سے فیضیاب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ہے وہ اس ذمہ داری اور توقع کے مرکز میں ہیں اور چونکہ ان کے جسم، جان، افکار اور کوششیں حج اور اس کی برکتوں اور اثرات سے وابستہ ہیں لہذا بہتر ہے کہ وہ اس سے معنوی، روحانی، انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور خدا نے چاہا تو ایسا ہی ہوگا۔
اگرچہ حج کی برکتیں، حیات انسانی کے تمام پہلوؤں کو اپنے دائرے میں لے لیتی ہیں اور لایزال رحمت کی یہ بارش، انسان کے دل اور افکار کی خلوتوں سے لے کر سیاست اور معاشرے، مسلمانوں کے ملی اقتدار اور مسلم اقوام کے درمیان تعاون کے میدان تک کو بارور اور زندگی کو اشتیاق سے شرابور کر دیتی ہے لیکن شاید کہا جا سکتا ہے کہ ان سب کی کنجی، معرفت ہے اور اپنی آنکھوں کو حقائق کی جانب کھولنے اور سوچنے سمجھنے کی خداداد صلاحیت سے استفادہ کرنے پر مائل شخص کے لیے حج کا سب سے پہلا تحفہ، بے نظیر معرفت اور شناخت ہے جو عام طور پر حج کے علاوہ، مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو ایک ساتھ حاصل نہیں ہوتا اور کوئی بھی دوسرا دینی موقع حج میں حاصل ہونے والے شناخت کے اتنے سارے مواقع کو ایک ساتھ اسلامی امت کے حوالے نہیں کر سکتا۔
یہ معرفت، کچھ باتوں کی شناخت سے عبارت ہے؛ جن میں سے کچھ یہ ہیں:
ایک فرد کی حیثیت سے اپنی شناخت، اسلامی امت کے عظیم مجموعے کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنی شناخت، اس امت واحدہ کے نمونے کی شناخت، خدا کی عظمت و رحمت کی شناخت اور دشمن کی شناخت۔
ایک فرد کی حیثيت سے اپنی شناخت، اپنے وجود کے بارے میں غور و فکر کرنے اور اپنی کمزوریوں اور صلاحیتوں کی شناخت کرنے کے معنی میں۔
جس جگہ مادی تشخص اور مال، عہدہ، نام، زیور اور لباس اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں اور انسان فرق و امتیاز کے ان اسباب سے علیحدہ ہوکر دوسرے لاکھوں انسانوں کے ساتھ طواف، سعی، نماز، افاضے اور وقوف کرتا ہے اور امیر اور غریب، حاکم اور رعیت، عالم اور جاہل، سیاہ اور سفید سب کے سب ایک لباس میں اور ایک انداز میں خدا کی جانب رخ کرتے ہیں، اس کی جانب دست نیاز بڑھاتے ہیں اور اپنے آپ کو جمال، عظمت، اقتدار اور رحمت کے مرکز میں پاتے ہیں، اس جگہ ہر انسان غور و فکر کرکے خداوند متعال کے مقابل اپنی کمزوری اور تہیدستی اور خدا سے تقرب کے سائے میں اپنی بلندی، اقتدار اور عزت کو بخوبی سمجھ سکتا ہے، اپنے کمزور وجود کے بارے میں باطل اور غرور انگیز توہم کو دور پھینک سکتا ہے اور خودپسندی و نخوت کے شیشے کو چور چور کر سکتا ہے جو اس کی سب سے بری عادات اور اطوار کا سبب ہے۔ دوسری جانب وہ عظمت کے سرچشمے سے رابطے کی حلاوت کو چکھ سکتا ہے اور اس سے متصل ہو جانے نیز اپنے اندرونی بتوں سے دوری اختیار کرنے کو آزما سکتا ہے۔ یہ بنیادی شناخت، جو تمام عبادتوں کا جوہر اور اولیائے خدا کی دعا و مناجات کا مضمون ہے، انسان کو پاک و پاکیزہ بناتی ہے اور اسے اگلی شناخت کے لیے آمادہ اور کمال کی تمام راہیں طے کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ عام زندگی میں، دنیوی بکھیڑے، مادی جدوجہد کے لیے ضرورت سے زیادہ سرگرمیاں اور انسانوں کی روزمرہ کے زندگی میں کبھی نہ ختم ہونے والے جھنجٹ دل کو غافل بنا دیتے ہیں، اسے اس واضح و روشن معرفت سے باز رکھتے ہیں، باطل وہم و گمان کے جالوں میں پھنسا دیتے ہیں اور اس کے دل کو تاریکی اور ظلمت کی جانب کھینچ لے جاتے ہیں؛ حج ان تمام بیماریوں اور مسائل کا شافی علاج ہے۔
امت اسلامی کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنی شناخت، ان تمام حاجیوں حاجیوں، مسلمان اقوام اور اسلامی سرزمینوں کو دیکھنے کے مترادف ہے جنہوں نے اپنے لوگوں کو خانۂ خدا کے طواف کے لیے روانہ کیا ہے۔ تمام حاجیوں پر نگاہ، اس عظيم اسلامی امت پر نگاہ ہے جو آج پوری دنیا میں دسیوں اقوام اور کروڑوں انسانوں سے مل کر تشکیل پائی ہے اور زندگی اور سماجی فلاح و بہبود کے اہم ترین مادی اور معنوی وسائل سے بہرہ مند ہے۔ نیز پوری انسانیت اور صنعتی تمدن اپنے تمام تر مادی وسعت کے ساتھ، اس کے اور اس کے بے پناہ وسائل و ذخائر نیز اس کی منڈیوں اور ثقافتی و علمی ورثے کے محتاج ہیں اور اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔
اس عظیم حقیقت کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنے آپ کی شناخت، حاجی کو اپنے بھائیوں اور اقرباء کے ساتھ حقیقی اور جذباتی رشتوں سے متصل کرتی ہے اور جدائی اور تفرقے کے سحر کو باطل کر دیتی ہے جو برسوں سے کل کے استعمار اور آج کے سامراج کے ہاتھوں سے رنگ و نسل، زبان، مذہب اور قومیت کے نام پر کیا جا رہا ہے۔
طبقاتی دنیا کے سرغنہ یعنی وہ سیاستداں، جنہوں نے دنیا کو ہمیشہ طاقتور اور کمزور یا سامراجی اور پسماندہ جیسے دو طبقوں میں تقسیم کرنے اور پسماندہ اقوام کے خلاف طاقت اور اقتدار کے مرکز کو اپنے درمیان تقسیم کیے رکھنے کی کوشش کی ہے، گزشتہ دو صدیوں سے لے کر اب تک اسلامی اتحاد سے خوفزدہ رہے ہیں اور انہوں نے اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی ہیں! انہیں لوگوں نے جنہوں نے موجودہ عشرے میں بالکان کے مسلمانوں کے قتل عام یا یورپی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی رویے اور ناانصافی کے ذریعے یا ان باتوں کے سلسلے میں لاپرواہ رہ کر پورے یورپ کو عیسائي بنانے کا عزم ظاہر کیا اور عالم اسلام کے اتحاد کو مختلف قسم کے اہانت آمیز ناموں سے پکارا اور تبلیغ اور عمل کے ذریعے اس میں رکاوٹیں ڈالیں۔
فرد فرد میں اس احساس کی تقویت کہ وہ ایک عظيم مجموعے کا جزو ہے اور اس کی صحیح ہدایت کو تفرقہ ڈالنے والے تمام ہتھکنڈوں پر غلبہ کرنا چاہیے اور ساتھ ہی یہ کہ اس قومی اور مذہبی تشخص کو اسلامی امت کے مختلف میدانوں میں باقی رہنا چاہیے، اتحاد و یکجہتی کے فائدوں میں سے ہے اور اس پورے مجموعے کو بہرہ مند کرتا ہے اور اسلامی امت کے اتحاد میں پوشیدہ عزت و اقتدار، اس کے تمام اراکین اور اجزا کو حاصل ہوتا ہے۔
حج میں طواف، سعی، نماز جماعت اور تمام اجتماعی عبادتیں اور مناسک، حاجی کو یہی سبق دیتے ہیں اور اسے اس کی روح کی گہرائیوں تک میں راسخ کر دیتے ہیں۔ اس امت واحدہ کے ایک نمونے کی شناخت کا مطلب ہے، اسلامی اتحاد کے عملی جامہ پہننے کی آرزو کی راہ میں ایک عملی قدم اور عالمی سیاست کے میدان میں ایک متحدہ اسلامی طاقت کا ظہور۔
دنیا کے مختلف علاقوں سے مختلف زبانوں اور رنگوں کے ساتھ آنے والے حاجیوں کے جم غفیر کو دیکھنے سے مسلمان کی بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ ذاتی، قومی اور ملی سرحدوں سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کا اسلامی فریضہ اس کے برادرانہ رویے کو ان کے ساتھ میل جول، ہمزبانی اور یکجہتی کی راہ پر آگے بڑھاتا ہے، اقوام کی خاص خبروں کو پورے عالم اسلام تک پہنچاتا ہے اور دشمن کی تشہیراتی سازشوں کو جو ہمیشہ اور اس وقت ہمیشہ سے زیادہ حقائق کو تبدیل کرنے، جھوٹی خبریں تیار کرنے اور افواہیں پھیلانے میں مشغول ہے، ناکام بنا دیتا ہے اور علاقائیت، زبان اور اسی قسم کے خیالی فاصلوں کو ختم کر دیتا ہے۔ایک قوم کی کامیابی و کامرانی کی داستان سنا کر دوسری اقوام میں امید کی روح پھونک دیتا ہے اور ایک ملک کے تجربے کی تشریح کرکے ایک دوسرے ملک کو تجربہ کار بناتا ہے۔ افراد اور اقوام کے درمیان سے اکیلے پن اور تنہائی کے احساس اور ان کی نظروں سے دشمن کے رعب و دبدبے کو ختم کرتا ہے۔ ایک ملک کے اہم مصائب کو دوسروں سے بیان کرتا ہے اور انہیں ان کے حل کے لیے ترغیب دلاتا ہے۔
حج کے ایام میں حاجیوں کا ایک جگہ پر قیام خصوصا عرفات اور مشعر میں وقوف اور منیٰ میں شب بسری یہ سب اس مفید اور کارساز شناخت کے بھرپور مواقع ہیں۔
حج میں خداوند متعال کی عظمت و رحمت کی شناخت، اس گھر کی تعمیر پر غور کرنے کے مترادف ہے کہ جو خانۂ خدا ہونے کے ساتھ ہی لوگوں کا بھی گھر ہے ؛ انَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكََّۃ مُبَارَكًا وَ ھُدًى لِّلْعَلَمِينَ.(1) (بلاشبہ (کعبہ) لوگوں کے لیے بنایا جانے والا پہلا گھر ہے جو مکے میں ہے۔ یہ تمام عالمین کے لیے مبارک اور (باعث) رحمت ہے۔)
اسی طرح یہ، وہ جگہ ہے جہاں کا رخ حاجت مند انسان کرتا ہے، اور وہ مقام بھی ہے جہاں دین الہی کی عظمت جلوہ افروز ہوتی ہے۔ یہ شکوہ و جلال، سادگی و عظمت کا ایک نمونہ، اولین صدائے توحید کی یادگار اور اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کا مقام بھی ہے، اور وہ جگہ بھی ہے جہاں قدم قدم پر صدر اسلام کے ان مجاہدین کے نقوش پا موجود ہیں جنہوں نے اس جگہ پر عالم غربت میں جہاد کیا، مظلومیت کے ساتھ یہاں سے ہجرت کی اور بڑے ہی مقتدرانہ اور فاتحانہ انداز میں یہاں واپس لوٹے اور اسے عربوں کی جاہلیت کی نشانیوں سے پاک کر دیا۔ اسی طرح یہ جگہ، خدا کے حضور گڑگڑانے والوں کے انفاس، عبادت کرنے والوں کے سجدوں کے نشانوں اور خدا کی مدح و ثنا کرنے والوں کے حاجت مند ہاتھوں کی خوشبو سے معطر ہے۔ یہ ابتدا میں خورشید اسلام کے طلوع اور آخر میں مہدی موعود کے ظہور کا مقام بھی ہے، مضطرب دلوں کی پناہ گاہ بھی ہے اور تھک چکی روحوں کو امید عطا کرنے والا سرچشمہ بھی ہے۔
فریضۂ حج کا وجوب اور اس کے مناسک کی ترتیب، عظمت کی علامت بھی ہے اور رحمت کی آیت بھی۔ اسی شناخت کے ذریعے ہی مسجدالحرام میں کعبۂ مکرمہ کا مشاہدہ کرتے ہی دل متغیر ہو جاتے ہیں، بڑی تیزی کے ساتھ صراط مستقیم سے ملحق ہو جاتے ہیں اور انسان تبدیل ہو جاتے ہیں۔ دشمن کی شناخت، ان تمام شناختوں کا نتیجہ اور ان کا تتمہ ہے۔ اس کے بغیر مسلمان کا دل اور ذہن، بغیر کسی حفاظت والے خزانے کی مانند ہے جو رہزنوں، دھوکے بازوں اور لٹیروں کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں ہے۔ حج کے اعمال میں رمی جمرات، دشمن کی شناخت اور اس سے مقابلے کا مظہر ہے اور پیغمبر معظم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج کے موقع پر مشرکین سے برائت و بیزاری کی آواز بلند کی اور حج کے دوران برائت کی آیتوں کو امیر المومنین علیہ السلام کی آواز میں سنوایا۔ اگر کسی دن عالم اسلام اور اسلامی امت، جری دشمن کے وجود سے نجات حاصل کرلے اور یہ بات ممکن ہو سکے تو برائت کا فلسفہ بھی باقی نہیں رہے گا تاہم موجودہ دشمنوں اور دشمنیوں کی موجودگی میں دشمن کی جانب سے غفلت اور برائت کے سلسلے میں لاپرواہی بہت بڑی اور نقصان دہ غلطی ہوگی۔ اگر وہ قدیمی شناخت حاصل ہو جائے تو عالم اسلام کے دشمن بھی پہچانے جائيں گے۔ ہر وہ واقعہ یا شخص، یا حکومت و نظام کہ جو مسلمانوں کو ان کے اسلامی تشخص سے بیگانہ کردے یا انہیں بکھراؤ اور پراکندگی کی راہ پر ڈال دے یا انہیں اپنی اسلامی عزت و عظمت کے حصول کی جانب سے لاپرواہ یا مایوس کرے، وہ دشمنانہ کام کرے گا اور اگر وہ خود دشمن نہیں ہے تو دشمن کا آلہ کار ہے۔
قرآن مجید میں شیطان کو برائی، شر اور انحطاط پیدا کرنے والی ایسی طاقتوں سے تعبیر کیا گیا ہے جو انبیاء کے مخالف محاذ پر کھڑی ہیں۔
وَكَذلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَياطِينَ الاِْنسِ وَالْجِنِّ.(2) (اور اسی طرح ہم نے انسانوں اور جنات میں سے شیطانوں کو ہر نبی کے لیے دشمن بنایا۔) پورے قرآن مجید میں شیطان کے ذکر اور اس کی نشانیوں کو دہرایا گيا ہے اور نزول وحی کے پورے عرصے کے دوران شیطان کا نام لیا گيا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں کبھی بھی دشمن کے ذکر اور اس کی علامتوں کی جانب سے غفلت نہیں برتی جانی چاہیے۔
آج شیطان کی، جو وہی سامراج کا سیاسی محاذ ہے، پوری کوشش یہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے مستقبل کی جانب سے مایوس اور گرانقدر علم و ثقافت کے ذخیرے کے سلسلے میں لاپروا بنا دیا جائے۔ ہر وہ بات اور واقعہ جو مسلمانان عالم میں امید پیدا کرے اور انہیں اسلام کی بنیاد پر مستقبل کی تعمیر کے لیے ترغیب دلائے، سامراج کی نظر میں بہت بڑا دشمن اور قابل نفرت ہے۔ اسلامی ایران کے ساتھ بڑے شیطان کی دشمنی اس وجہ سے ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل اور ایک بڑی آبادی نیز لامتناہی مادی و معنوی دولت و ثروت کے ساتھ ایک وسیع و عریض ملک کا انتظام بخوبی چلائے جانے سے مسلمانوں کو اسلامی عزت و عظمت کی نوید مل رہی ہے اور ان کے دلوں میں امید کے چراغ روشن ہو رہے ہیں۔ ایران میں اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کو انیس برس گزر چکے ہیں اور اس عرصے میں پوری دنیا نے مسلم اقوام کے رویے میں امید کی علامتیں دیکھیں اور اب بھی دیکھ رہی ہیں اور جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھا اور اس عظیم موج کے مقابلے میں سامراجی دنیا کی سازشوں کو شکست ہوتی گئی اور اس امید میں مزید اضافہ ہوتا گيا ہے۔ فلسطینیوں کی بیداری اور غاصب صیہونیوں کے مقابلے میں اسلامی نعروں کے ساتھ ان کے حریت پسندانہ جہاد کے آغاز کے سبب یورپ میں مسلمان اقوام کی بیداری اور یورپ والوں کے ہاتھوں یا ان کی حامیانہ خاموشی کے سبب بوسنیا کے مسلمانوں کے لیے پیش آنے والے خونریز المیے کے باوجود، ایک مسلمان بوسنیائی ملک کی تشکیل، ترکی اور الجزائر میں مغربی جمہوریت کے مروجہ اصولوں کے مطابق اسلامی حاکمیت پر ایمان رکھنے والے افراد کا برسراقتدار آنا، البتہ دونوں ہی ملکوں میں بغاوت، غیر قانونی طاقتوں کی مداخلت اور اسلامی اقتدار کے عالمی دشمنوں کی عداوت کے سبب ان کی کامیابی ادھوری رہ گئی- سوڈان میں اسلامی بنیادوں پر حکومت کی تشکیل، کہ جو غیر ملکی سازشوں کے باوجود بحمد اللہ بدستور اسلامی اقتدار کی راہ پر گامزن ہے، ایسے بہت سے مسلمان ممالک میں اسلامی نعروں کا احیا، جہاں یہ نعرے طاق نسیاں کی زینت بن چکے تھےاور ایسی ہی دوسری متعدد مثالیں یہ سب کی سب پورے عالم اسلام اور امت مسلمہ پر ایران میں اسلامی جمہوریہ کی پیدائش کے گہرے اور روز افزوں اثرات کی نشانیاں ہیں۔
اسی وجہ سے اسلامی ایران سے سامراج کی دشمنی روز بروز زیادہ سخت اور کینہ آمیز ہوتی جا رہی ہے۔ فوجی، اقتصادی، سیاسی اور تشہیراتی سازشوں کی مسلسل ناکامی کے بعد سامراج نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے جو اس سے پہلے بھی ایران اسلامی کے خلاف سرگرم رہا ہے۔ یہ محاذ، ایک تشہیراتی جنگ کا محاذ ہے؛ اور اس کا مقصد ایرانی قوم اور حکومت پر الزام تراشی کرنا اور اس کے نتیجے میں مسلمان اقوام کے دلوں میں روشن امید کے چراغوں کو خاموش کرنا ہے!
اس تشہیراتی جنگ میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایرانی قوم، انقلاب کے سلسلے میں اپنی عظیم تحریک، اس کے نعروں اور اسلام و قرآن کی حاکمیت سے پشیمان ہو چکی ہے اور ملک کے حکام نے اسلام اور انقلاب سے منہ موڑ لیا ہے! مثال کے طور پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ایرانی حکومت، امریکی حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔ ملک کے حکام کی جانب سے اس دعوے کی بار بار تردید اور اسلام، انقلاب اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات کی پابندی کے سلسلے میں ان کی مسلسل تاکید، اس بات میں رکاوٹ نہیں ہے کہ سامراج خصوصا امریکی سامراج کے تشہیراتی ادارے حتی سیاسی حکام، زبانوں سے اور مخلتف طریقوں سے اپنے دعوے کو دہراتے رہیں اور تبصروں، خبروں نیز عالمی رپورٹوں خصوصا عالم اسلام کی سطح پر پہلے سے زیادہ اس دعوے کی تکرار کرتے رہیں۔
حج میں دشمن کی شناخت کا مطلب ان طریقوں اور ان کے محرکات کی شناخت، اور برائت کا مطلب دشمن کی سازش کا پردہ چاک کرنا اور اس سے بیزاری کا اظہار کرنا ہے۔
ایرانی قوم اور حکومت نے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم الشان قیادت میں اپنے عظیم انقلاب کے ذریعے اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اسلام و ایران کی عظمت کا پرچم لہرایا ہے اور اپنی عزت، قومی خودمختاری اور تاریخی حیات کو واپس حاصل کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کی برکت سے ایرانی قوم کو روز افزوں برائیوں، علمی و اخلاقی پستی، سیاسی آمریت اور امریکہ پر انحصار سے نجات حاصل ہوئی اور اس نے حیات اور تعمیر کے نشاط کو دوبارہ حاصل کیا۔ اسے اغیار کے پٹھو، نااہل، خیانت کار، بدکار، آمر اور ظالم مہروں سے نجات اور ایک عوامی حکومت، ہمدرد، ماہر، مومن اور امین حکام حاصل ہوئے۔ اس نے اپنے ملک کا اختیار اور اس کے قومی اور خداداد ذخائر کو، جنہیں اغیار لوٹ رہے تھے، اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس نے اپنے اندر موجود ماہر افرادی قوت کو، جو خیانت کار اور پٹھو بادشاہوں کی کمزوری اور بدعنوانی کے سبب برسوں تک عضو معطل بنی رہی تھی، زندہ کیا اور علم و عمل کے تمام میدانوں میں دو صدیوں کے پچھڑے پن کی تلافی کے لیے بڑے بڑے قدم اٹھائے۔ مستقبل کے لیے بھی اس نے اپنی بلند ہمتی، عزم مصمم اور روشن افکار کو اپنے انیس سالہ تجربے کے ساتھ، مشعل راہ بنا لیا ہے۔
ایرانیوں اور ایران پر اسلام، اسلامی انقلاب اور اس کے عظیم قائد امام خمینی کا حق زندگی کا حق ہے اور ہماری قوم و حکومت اس حقیقت کو نہ تو کبھی فراموش کرے گی اور نہ ہی اس واضح راستے اور صراط مستقیم سے پیچھے ہٹے گی۔
امریکی حکومت نے ابتدائی برسوں ہی سے، جب اس نے تقریبا پچاس برس قبل ایران کے سیاسی پلیٹ فارم پر قدم رکھا، ایران اور ایرانیوں کے ساتھ خیانت اور جفاکاری کی۔ بدعنوان اور غیر عوامی پہلوی حکومت کی حمایت کی۔ پٹھو، کمزور اور غلام ذہنیت والی حکومتوں کو اقتدار میں پہنچایا۔ ہماری قوم پر اپنے ارادوں کو مسلط کیا۔ ہمارے قومی ذخائر کی لوٹ مار کی۔ تیل اور اسلحوں کے زیاں بار سودوں کے ذریعے اس قوم کی بے پایاں دولت و ثروت کو لوٹا۔ ایران کی مسلح افواج کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ شاہ کی سکریٹ سروس اور اس کے ایذائیں پہنچانے والے افراد کو تربیت دی۔ ایران اور عربوں سمیت بہت سی مسلم اقوام کے درمیان اختلاف ڈالا۔ ایران میں برائیوں اور بے راہ روی کو ہوا دی۔ مختلف مراحل میں اسلامی تحریک کی سرکوبی کے لیے شاہ کی حکومت کے ساتھ تعاون اور اس کی رہنمائی کی اور جب ظلمت و کفر و طاغوت کے اس محاذ کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلامی انقلاب کامیاب ہو گیا تو اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے ابتدائی ایام سے ہی ایران اور اس کی انقلابی قوم کے خلاف مختلف قسم کی دشمنیاں، حملے، سازشیں اور معاندانہ اقدام شروع کر دیئے۔ آٹھ سالہ جنگ میں عراقی حکومت کی بھرپور مدد سے لے کر ایران کے مکمل اقتصادی محاصرے کے لیے سرگرمیوں، خیانت کار اور فراری عوامل کی مدد، اس سے متعلق تمام تشہیراتی اداروں میں مستقل پروپیگنڈوں، علاقائي اختلافات میں اشتعال انگیزی، ایران اور اس کے ہمسایوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی بھرپور کوششوں، سی آئی اے کے ایجنٹوں کے توسط سے ایرانی حکومت کا تختہ پلٹنے اور ایران میں دہشتگردانہ کارروائیوں، ایران اور دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان اقتصادی سمجھوتوں پردستخط کو روکنے کی جی توڑ کوششوں اور تمام ممکنہ محاذوں اور تمام شعبوں میں ایران کے خلاف موذیانہ اور دھمکی آمیز کارروائیوں تک ہر طرح کے معاندانہ اقدامات کیے گئے۔
یہ ایران اور ایرانیوں کے ساتھ امریکی حکومت کی دشمنیوں کی طویل فہرست کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ البتہ سبھی جانتے ہیں اور امریکی حکومت کے سرغنہ خود سب سے بہتر اور بڑی تلخی کے ساتھ جانتے ہیں کہ امریکی حکومت کو ان میں سے زیادہ تر میدانوں میں شکست ہوئی ہے اور وہ ناکام ہو کر الگ تھلگ ہو چکی ہے۔ ایرانی قوم خدائی امداد اور اسلام و انقلاب کی برکت سے حاصل ہونے والے قوت و عزت کے ساتھ ان میں سے بیشتر موقعوں پر اپنے دشمن کو شکست اور ناکامی کا تلخ مزہ چکھانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
ان واضح حقائق کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ایرانی قوم اور حکومت، اس دشمن کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھائے جو مسلسل شکستوں کے سبب کینے سے لبریز دل کے ساتھ بدستور ایران اور ایرانیوں پر وار کرنے کی کوشش میں ہے اور کس طرح ایرانی قوم اور حکومت اس دشمن کے زہر آگیں تبسم کے فریب میں آ سکتی ہے جس کے ہاتھ میں آج بھی زہر میں بجھا ہوا خنجر موجود ہے؟
اسلامی جمہوریہ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وہ ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو کشیدہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ خارجہ پالیسی میں عزت، حکمت اور مصلحت جیسے تین اصولوں پر مبنی مساوی تعلقات کا خواہاں ہے اور اس نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ان تعلقات میں ملک کے مادی اور معنوی مفادات، ایران کی عظیم الشان قوم کی مصلحت اور عزت کی حفاظت اور دنیا کے سیاسی ماحول میں امن و امان کا تحفظ اس کا اصل معیار اور رہنما اصول ہے۔
ہمسایوں اور یورپی ملکوں سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات ایک واضح اور ٹھوس دلیل ہے اور مسلمان ممالک کے ساتھ برادرانہ مذاکرات کے لیے ہماری دائمی کوشش، جن میں سے بعض کے بہترین نتائج کا بحمد اللہ ہم مشاہدہ بھی کر رہے ہیں، دنیا کے لوگوں کے سامنے ہے؛ تاہم ان سب کے باوجود دشمن کی شناخت اور اس کے مقابلے میں ہوشیاری اور مزاحمت کو بھی ایرانی قوم نے اپنا دائمی لائحۂ عمل بنا رکھا ہے اور وہ شیاطین کے فریب میں نہیں آئي ہے اور ان شاء اللہ آگے بھی نہیں آئے گی۔
ایرانی قوم، صیہونی دشمن کو جس نے فلسطین کی اسلامی سرزمین میں ایک غاصب حکومت قائم کر دی ہے، کسی بھی صورت میں باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرے گی اور نہ ہی اس غاصب حکومت کے خاتمے اور خود فلسطینی ملک کے عوام کے ذریعے ایک حکومت کی تشکیل کی ضرورت کے اپنے عقیدے کو کبھی بھی پنہاں نہیں کرے گی۔ اسی طرح وہ امریکہ کو، جو شیطان بزرگ اور سامراجی فتنوں کا سرغنہ ہے، جب تک اپنی موجودہ روش پر باقی رہے گا، اپنا دشمن سمجھتی رہے گی اور اس کی جانب دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھائے گی۔
پورے عالم اسلام کے محترم بھائیو اور بہنو اور عزیز ایرانی حجاج کرام! خداوند عالم سے مدد مانگ کر معرفت کو بیان کردہ وسعت کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کیجیے کہ جو حج کا سب سے بڑا ثمرہ ہے اور مذکورہ میدانوں میں نئی شناخت حاصل کرکے اپنے ملک واپس لوٹئے اور اسے مستقبل کے لیے اپنی کوششوں اور جد و جہد کی بنیاد قرار دیجئے۔ اس بار خاص طور سے کوسوو کے مسلمانوں کے آلام ایک دوسرے سے بیان کیجئے جو بلقان کے علاقوں کی خونیں داستان کا تسلسل اور بوسنیا و ہرزے گووینا جیسا ہی ایک دوسرا تجربہ ہے۔ کوسوو کے لوگوں کی کامیابی اور نجات کے لیے دعا اور ان کی مدد کے لیے اقدام کیجئے۔ اسی طرح دیگر مصیبت زدہ اسلامی علاقوں کے مسلمان عوام کے لیے راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کیجئے، ان کے لیے دعا کیجئے اور مسلمانوں کے امور کی اصلاح کے لیے خداوند قادر و رحیم کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو جائیے۔امید کہ آپ سبھی حج مقبول اور اس کے معنوی، اخلاقی اور سیاسی ثمرات کے ساتھ اپنےگھروں کو لوٹیں گے۔ والسّلام على بقيۃاللَّہ فى ارضہ و عجّلاللَّہ فرجہ۔
والسّلام عليكم و رحمۃاللّہ و بركاتہ
على الحسينى الخامنہ اى
تین ذي الحجۃالحرام 1418 ہجری قمری مطابق بارہ فروردين 1377 ہجری شمسی