سنہ 1839 میں دو فرانسیسی مصور، فراعنہ کی سرزمین کی تصویر کشی کی امید میں مصر گئے اور وہاں سے بیت المقدس پہنچے، یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے سب سے پہلے اس شہر کے مذہبی مناظر کو کیمرے میں قید کیا۔ "سرزمین مقدس" کی تصویریں لینے کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوا اور ایک دہائی سے بھی کم کے عرصے میں پوری دنیا سے سینکڑوں فوٹوگرافر فلسطین پہنچے جو تمام بڑے آسمانی مذاہب کے لیے ایک مقدس سرزمین ہے۔

لیکن ابتدائی فریموں میں لوگوں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ طے یہ پایا تھا کہ یہ تصویریں مقدس کتاب کی لازوال سرزمین کی داستان سنائيں، نہ کہ اس کے زندہ اور متحرک لوگوں کو دکھائيں۔ عمارتوں اور فنِ تعمیر کو فریموں میں جگہ ملی تاہم فلسطینی باشندے تصویروں میں کہیں دور دور تک دکھائي نہیں دیے۔ اگر کبھی کوئی چہرہ دکھائی دیتا بھی، تو صرف عمارت کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے ایک علامت کے طور پر۔ یہ سرزمین یورپی فریموں میں، مقدس تو تھی لیکن انسانوں سے عا ری تھی۔ ناقابل یقین طور پر، انہی خالی فریموں نے دنیا کے ذہن میں سرزمین مقدس کی ایک نئی داستان کو مستحکم کیا۔ ایک ایسی سرزمین جو ہمیشہ خیالوں میں رہنے والی تھی؛ بغیر قوم والی، بغیر چہرے کی، اور اگلی بار بھی غصب ہونے کے لیے پوری طرح تیار۔

ابتدائی فریمز، جب حقیقت کی جعلسازی ہوئی

سنہ 1850 اور 1860 کے عشرے، فوٹوگرافی کے عروج کا دور تھا۔ امریکا کی خانہ جنگی نے فوٹوگرافی کو ایک مؤثر ذریعۂ ابلاغ بنا دیا لیکن سرزمین مقدس میں کیمرے کا ایک دوسرا ہی مشن تھا: انجیل کی کہانیوں کے ٹھوس ثبوتوں کی تلاش۔ فریمز، شروع ہی سے تصویروں میں سے لوگوں کو ہٹا کر تیار کیے گئے، فوٹوگرافر وہ لوگ تھے جو صلیبی جنگوں کی راکھ سے نکلے تھے تاکہ ایک بار پھر اس سرزمین کو ایک ایک فریم فتح کر سکیں۔ اس دوران، فلسطین پر عثمانیوں کی صدیوں کی حکمرانی کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ یہودیوں کی ہجرت کا آغاز ہو چکا تھا۔ تصویریں، لوگوں کو دکھائے بغیر، مہاجروں کے لیے سرزمین مقدس کی ایک تصویر پیش کر رہی تھیں۔ فلسطینی باشندوں سے عاری ان فریمز میں "بے سرزمین کی قوم کے لیے، بے قوم کی سرزمین" کی پہلی داستان نے جنم لیا۔ فوٹوگرافی، حقیقت کو درج کرنے کے ایک وسیلے سے، حقیقت پر قبضے کا ہتھیار بن گئی۔ ہر چیز کو نگل جانے والے عفریت کی حیثیت رکھنے والی پہلی جنگ عظیم، بالفور اعلامیے اور اسرائیل کے جنم پر منتج ہوئی۔ انگریز سپاہی بیت المقدس کی گلیوں میں مارچ کر رہے تھے اور یہودی-یورپی کیمروں کے شٹر کی آوازیں دوبارہ فضا میں گونجنے لگيں۔ نئی تصاویر، وہی پرانے مناظر دکھا رہی تھیں لیکن اس بار ایسے کیپشنز کے ساتھ جو ان کی شناخت بدل رہے تھے۔ حقیقت، الٹ گئی۔ لوگوں کو حذف کر دیا گیا، تاریخ مٹا دی گئی اور فریم، ایک نوآبادیاتی ہتھیار بن گیا۔

تصویر پر قبضہ، زمین پر قبضہ

لیکن اسی بیت المقدس کے قلب میں، انیسویں صدی کے آخری عشرے میں، ایک چھوٹا سا اسکول قائم ہوا، ایک ایسا اسکول جو سینٹ جیمز چرچ کے کیمپس میں قائم کیا گیا اور جس نے فلسطینی فوٹوگرافروں کی پہلی نسل کو پروان چڑھایا۔ اس اسکول کے ایک محنتی طالب علم، گارابُد گریگورین نے یافا اسٹریٹ پر فلسطینیوں کا پہلا اسٹوڈیو قائم کیا اور لوگوں کی تصویریں کھینچی، ان کے چہروں کی، رسومات کی، زندگی کی۔ برسوں بعد، فلسطینی فوٹوگرافروں کی ایک نئی نسل سامنے آئی، فضیل سابا، خلیل رعد اور کریمہ عبود۔ ان لوگوں نے اپنے پیشروؤں کے برخلاف اسٹوڈیوز سے باہر نکل کر اپنے کیمروں کے ساتھ گھروں اور سڑکوں کی حفاظت کی۔ تصویر کھینچنا ان کے لیے مشغلہ اور تفریح نہیں بلکہ دفاع تھا، اس حقیقت کا دفاع، جو دوسرے فریموں سے حذف کر دی گئی تھی۔

فضیل سابا نے، جنھوں نے رسومات اور عین العذرا چشمے سے پانی لے جانے والی عورتوں کی تصویر کشی کی تھی، زندگی کو فریم میں لوٹایا۔ وہ رسم، جو ناصرہ کے لوگوں کو افزائش نسل کی یاد دلاتی تھی، ان کے فریم میں ایک قوم کے تسلسل کے ثقافتی اظہار میں بدل گئی۔ خلیل رعد، یافا کے مالٹے کے باغوں کے محافظ، ان جعلی فریموں کے مقابل ڈٹ گئے، جو باغوں کو یہودیوں کی ملکیت بتا رہے تھے۔ فلسطینی مزدوروں اور کسانوں کی ان کی تصاویر، تصویر پر قبضے کے خلاف ایک پُرسکون اور صابرانہ جواب تھیں۔ بیت لحم کی بیٹی کریمہ عبود، پہلی فلسطینی خاتون فوٹوگرافر بنیں جنھوں نے بلاوجہ ممنوع بنا دی گئیں روایات کو توڑا۔ انھوں نے اس کیمرے کو لے کر جو ان کے والد نے ان کے لیے خریدا تھا، فلسطین کے شہروں کا سفر کیا اور اپنی سرزمین کی عورتوں اور مردوں کی آوازوں کو فریموں میں جگہ دی۔ جب ان کے بھائی نے انگریزوں کے تشدد میں اپنی جان گنوا دی تو کریمہ نے آخری سانس تک تصویر کھینچنے کا عہد کیا۔ انھوں وصیت کی کہ ان کا کیمرا ان کے ساتھ دفن نہ کیا جائے بلکہ اسے رہنے دیا جائے تاکہ وہ ان چیزوں کو دیکھ سکے جو اب وہ خود نہیں دیکھ پائیں گی۔

بیدار ہو جانے والی آنکھیں

یوم نکبہ کے بعد، فلسطین میں کیمرے خاموش نہ رہے۔ کیغام جغلیان نے غزہ پر قبضے کے دنوں میں، اپنے گھر کی کھڑکی کے کمبلوں کے پیچھے سے تصویریں کھینچیں۔ انھوں نے بے گھر ہونے والوں، کھانا لینے کی قطاروں اور کھنڈرات میں کھیلتے بچوں کی تصاویر لیں۔ ان کے فریم، شہروں کے چہرے بدلنے کے زندہ ثبوت تھے؛ خوشی سے لے کر ویرانی تک لیکن جب فلسطینیوں کے نظریے کو نظرانداز کیا گیا تو مغربی کیمرے واپس لوٹ آئے۔ میشا برعام اور لائف اور ٹائم میگزین کے فوٹوگرافروں نے اسرائیل کی فتح کے فریمز دنیا کے سامنے پیش کیے۔ چھے روزہ جنگ اور فتح کی تقریبات کی رنگین تصاویر نے مصائب اور دربدری کے فریموں کی جگہ لے لی۔ حقیقت ایک بار پھر طاقت کے اسٹوڈیوز میں تیار کی گئی۔

دوسری جانب اس تاریکی کے درمیان ایک نئی نسل ابھری۔ وہ نوجوان جو کیمپوں میں بڑے ہوئے تھے اور اب پتھر اور کیمرے سے اپنے تشخص کا اعلان کر رہے تھے۔ انتفاضہ، ان آنکھوں کا اٹھ کھڑا ہونا تھا جو بیدار ہو گئی تھیں۔ اسامہ سلوادی انھی میں سے ایک تھے۔ انھوں نے جنگلی پھولوں سے فوٹوگرافی کا آغاز کیا اور انتفاضہ کے خون اور غیظ و غضب کے ساتھ اسے جاری رکھا۔ اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینی خواتین کے تصادم، مظاہروں اور سڑکوں پر لگائے جانے والے فلک شگاف نعروں کے ان کے فریمز پوری دنیا میں پھیل گئے۔ ان کی فوٹوگرافی کو ایک اسنائپر کے کام سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، زندگی اور موت کے لمحات کا شکار۔ سلوادی نے برسوں تک بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنے کے بعد اپنا خواب بُنا: ایک ایسی نیوز ایجنسی جس میں سبھی کام کرنے والے فلسطینی ہوں تاہم جن گولیوں نے ان کے جسم کو چھلنی کیا، انھوں نے وادی کو ویل چیئر پر بٹھا دیا۔ اس کے باوجود انھوں نے پھر بھی فوٹوگرافی جاری رکھی؛ اب وہ فلسطین کے ورثے اور ثقافت کی تصویریں لے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دشمن زمین پر قبضہ کر لے تو شاید کسی دن اسے واپس حاصل کیا جا سکے گا لیکن اگر شناخت، تشخص اور ثقافت ختم ہو جائے، تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔

فلیش اور خون کا ورثہ

آج، جب ایک بار پھر غزہ اور فلسطین میں جنگ کی آگ بھڑک رہی ہے، دنیا تصویریں دیکھ رہی ہے لیکن اس بار، انھیں خود فلسطینی پیش کر رہے ہیں۔ فاطمہ شبیر، محمد سالم اور بہت سے دیگر نوجوان فوٹوگرافروں نے کریمہ عبود، خلیل رعد اور کیغام جغلیان کی وراثت کو آگے بڑھایا ہے۔ ان کے فریم، اسی تاریخ کا تسلسل ہیں؛ جنگ کی ٹھنڈک میں بچوں، غمزدہ ماؤں، گرتی ہوئی دیواروں اور مالٹے اور زیتون کے باغات کے فریم۔

یہ تصویریں پکار رہی ہیں: ہم یہیں ہیں اور یہ ہماری سرزمین ہے۔

اس جذبے کی توصیف میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کہتے ہیں: آپ کا یہ سوچنا خام خیالی ہے کہ کسی قوم کو صفحۂ تاریخ سے مٹایا اور اس کی جگہ ایک جعلی قوم کو لا کر بسایا جا سکتا ہے! فلسطینی قوم کی ایک ثقافت ہے، تاریخ ہے، ماضی ہے، تمدن ہے، اس قوم نے اس ملک میں ہزاروں سال زندگی گزاری ہے۔ دنیا میں ایسی کوئی بھی طاقت نہیں ہے جو فلسطین کے لوگوں کے جذبۂ حریت اور وطن واپسی کے جذبے کو دنیا، مسلم اقوام اور خاص طور پر فلسطینی قوم کے دل سے محو کر سکے۔ (رضاکار فورس بسیج کے ارکان سے خطاب، 20 اکتوبر 2000)

فلسطین کے فریم، صرف تصویر نہیں بلکہ ایک قوم کی زندہ تاریخ ہیں، وہ تاریخ جو خون، فلیش اور نیگیٹوز سے لکھی گئی ہے۔ پیرس کے ڈارک رومز سے لے کر غزہ کی اجڑی ہوئی سڑکوں تک، ایک راستہ ہمیشہ موجود ہے: دیکھنے کی کوشش، اپنی سرزمین میں رہنے کی کوشش، بات پہنچانے کی کوشش۔ جس دنیا نے ابتدائی فریمز سے ہی یہ سیکھا کہ کس طرح حقیقت تیار کی جاتی ہے، اسی دنیا میں فلسطینیوں نے سیکھا کہ کس طرح حقیقت کو واپس لیا جائے۔

وہ اب بھی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، کھنڈروں کی ہر تصویر میں، فریم سے باہر دیکھتے ہوئے ہر چہرے کی تصویر میں، گویا فلسطین کی تاریخ کے فوٹوگرافروں کی روح، ان کی اگلی نسل میں پھونک دی جاتی ہے۔

دبیز غبار میں ایک ایسا نور ہے جو اب بھی جگمگا رہا ہے اور خون سے گزرنے والے ہر نیگیٹو میں آبائی سرزمین کی ایک زندہ تصویر موجود ہے۔

فلسطین، اپنے تمام فریمز کے ساتھ۔

یہ تحریر، "فلسطینی فریمز" نامی دستاویزی فلم کی بنیاد پر تحریر کی گئي ہے۔ اس کے ڈائریکٹر سعید فرجی ہیں اور یہ سنہ 2024 میں تیار ہوئی تھی۔