قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اکیس مارچ انیس سو اکانوے کو نئے ہجری شمسی سال تیرہ سو ستر کے آغاز پر حسب معمول پیغام نوروز جاری فرمایا۔ آپ نے اس پیغام میں بیتے سال کے اہم واقعات و حوادث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان سے سبق اور تجربہ حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عوام کی جانب سے حکومت کے ساتھ تعاون کے جاری رہنے کی ضرورت پر تاکید کی اور نئے سال میں سرعت کے ساتھ منصوبوں پر عمل آوری کی امید ظاہر کی۔
پیغام نوروز مندرجہ ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا مقلب القلوب والابصار، یا مدبر اللیل و النھار، یا محول الحول والاحوال ، حول حالنا الی احسن الحال

اپنے تمام ہموطنوں، بالخصوص شہیدوں کے اہل خاندان، اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں اور ان کے کنبے والوں کو عید نوروز کی جو اس سال رمضان المبارک کے ساتھ آئی ہے، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ الحمد للہ کہ خداوند عالم نے ہم پر احسان کیا کہ ہمارے جنگی قیدیوں کو ان کے خاندان کے آغوش میں لوٹا کے ہماری عظیم الشان قوم کو عیدی دی ہے۔ خدا وند عالم سے عاجزانہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے بقیہ جنگی قیدیوں کو بھی جو عراقی جیلوں میں ہیں، صحیح و سلامت وطن واپس لوٹائے اور بقیہ خاندانوں کے دلوں کو بھی ان کے عزیزوں کی واپسی کی خبر سے شاد کرے اور ہمارے معذور جانبازوں کو صحت و تندرستی عطا فرمائے۔
گذشتہ سال پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں جو امت اسلامیہ کے لئے حادثات سے پر تھا۔ خلیج فارس اور ہمارے علاقے میں بھی اور دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی متعدد حادثات رونما ہوئے، خاص طورپر عراقی قوم کے لئے یہ سال بہت سخت تھا۔ ان حادثات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تیسری دنیا کی دیگر اقوام کی طرح مسلم اقوام کو بھی آزادی و خود مختاری اور اس بات کی کتنی ضرورت ہے کہ ان کی تقدیر جاہ طلب طاقتوں اور ان لوگوں کے اختیار میں نہ رہے جو اپنے فائدے کے علاوہ کسی اور چیز کی فکر میں نہیں رہتے۔ یہ حوادث تلخ تھے۔ لیکن ہماری قوم اور دیگر اسلامی اقوام کو ان سے بڑے تجربات ہوئے۔ ہمیں ان تجربات سے ہمیشہ فائدہ اٹھانا چاہئے اور ان حادثات سے جو درس ملے ہیں انہیں کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
چو باتیں ایرانی قوم دس برسوں سے کہہ رہی تھی، پروردگار کی عنایت سے گذشتہ سال کے دوران، ان کی حقانیت دنیا والوں پر عیاں ہوگئی اور دنیا کے لوگوں کی نگاہ میں ایرانی قوم کو وہ عزت اور مقام مل گیا جس کی یہ قوم مستحق تھی۔
گذشتہ سال، ہماری قوم ملک کے اندر بھی حادثات سے دوچار رہی۔ سب سے المناک اور غم انگیز حادثہ ملک کے شمالی حصے میں آنے والا زلزلہ تھا۔ اسی طرح سیستان کا سیلاب، اسی قسم کے دیگر حوادث سے ہماری قوم دوچار رہی۔ یہ حوادث ناگوار اور سخت تھے لیکن یہی حوادث ہماری قوم کے لئے آزمائش اور تجربے کا میدان بھی تھے کہ دیکھیں کہ یہ قوم کتنی مدد کرنے والی ہے، حکومت کے ساتھ کتنا تعاون کرتی ہے اور کتنی ہمدرد اور زخموں پر مرہم رکھنے والی ہے۔
ان حوادث میں ہماری عزیز قوم نے حکومت اور مصیبتوں میں گرفتار لوگوں کی ایسی مدد کی جو تاریخ میں بے نظیر ہے۔ ہم نے بہت سے زلزلے دیکھے ہیں، ماضی قریب اور بعید میں قدرتی بلاؤں اور حوادث کا بہت مشاہدہ کیا ہے۔ ملک کے شمالی علاقے میں جو زلزلہ آیا ہے اس طرح کے حوادث اس سے پہلے بھی رونما ہوچکے ہیں لیکن کبھی بھی، ناگوار حوادث کے منفی اثرات اتنی تیزی کے ساتھ زائل نہیں ہوئے ہیں جس طرح اس بار ہوا ہے۔ البتہ ان علاقوں میں ابھی بہت سی چیزوں کی کمی ہے لیکن زلزلے کے متاثرین کی مدد اور انہیں رہائش وغیرہ فراہم کرنے میں جوکچھ کام ہوا ہے وہ حکومت کے ساتھ عوام کے بھر پور تعاون اور حکومت اور قوم کی کوششوں سے انجام پایا ہے۔
الحمدللہ گذشتہ سال حکومت نے اپنے منصوبوں اور اپنی پالیسیوں میں پیشرفت کے لئے کافی کوششیں کی ہیں جس کے عوام کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور مزید مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن ہمارے سامنے بہت لمبا راستہ ہے اور ہمیں کافی مجاہدت اور سعی و کوشش کی ضرورت ہے۔ ضرورت ہے کہ حکومت اور عوام متحد ہوکے ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملا کے، ملک اور انقلاب کے اعلی اہداف کی طرف بڑھیں اور مشکلات کو دور کریں۔
ایک نظر (ایرانی کیلنڈر کے ہجری شمسی سال) تیرہ سو ستر پر بھی جس کا آغاز ہوا ہے، ڈالتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ مبارک سال ہوگا۔ یہ سال آغاز رمضان المبارک کے ساتھ شروع ہوا اور خدا وند عالم نے اس سال کے آغاز میں ہی بارش کی نعمت کی شکل میں اپنا لطف و کرم تقریبا ملک کے ہر حصے میں نازل فرمایا، اس کے پیش نظر ہمیں امید ہے کہ یہ سرسبز و شاداب سال ہوگا، اس سال پیداوار اچھی ہوگی، یہ ہماری قوم کے لئے عزت و عظمت اور تمام خاندانوں اور عوام کے لئے خوشیوں کا سال ہوگا۔
ہم روشن صبح کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہم محسوس کررہ ہیں کہ ایرانی قوم مرضی پروردگار سے پیشرفت کر رہی ہے۔ اس قوم کی آزادی، خودمختاری اور تمام میدانوں میں نظر آنے والی اس کی دلیری وشجاعت، اخلاص و تندہی، ہمدردی و ہمدلی، انقلابی جذبے اور دلچسپی کے ساتھ خدمت انجام دینے والے حکام کا وجود، اس قوم کے رشد و بالیدگی کا نتیجہ ہے۔ یہ اس قوم کی غنی تاریخ کا نتیجہ ہے۔ ہم جانتے ہیں۔ البتہ عوام کا تقوائے الہی، پرہیزگاری، خوف خدا اور اہداف الہی کی جانب ان کی پیشرفت ان کی مدد کرے گی کہ یہ راستہ آسانی اور تیزی کے ساتھ طے کریں اور بفضل الہی اعلی اہداف تک پہنچیں۔
ماہ رمضان، دعا اور پرہیزگاری کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہمیں عبادت اور اپنے پروردگار پر توجہ کی برکت سے روحانی و معنوی طاقت حاصل کرنی چاہئے اور اس روحانی و معنوی طاقت سے صعب العبور پتھریلے راستوں کو آسانی اور تیزی کے ساتھ طے کرنا چاہئے۔
امید ہے کہ ایرانی عوام ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے درمیان، برادری، تعاون اور ہمدلی کو بڑھائیں گے اور ان کی قدر کریں گے۔ عوام ایکدوسرے کے ساتھ مہربان رہیں، ایک دوسرے کی مدد کریں، خاص طور پر ان ایام میں حاجتمندوں کی مدد کریں۔ جن کے پاس استطاعت ہے اور وہ دوسروں کی مدد کرسکتے ہیں، وہ ناداروں اور حاجتمندوں کی ضرور مدد کریں۔ ہماری قوم کے اندر تعاون اور امداد باہمی کا یہ جذبہ جو ہماری قدیم روایت اور اسلام کے اعلی احکام میں سے ہے، بہت اہم ہے۔ اس کو محفوظ رکھیں۔ خاص طور پر عید نوروز اور رمضان المبارک کے ان ایام میں اس کو زیاہ اہمیت دیں۔ عوام کی محبت، ایثار و فداکاری کا جذبہ دوسروں کی فکر اور دوسروں کے کام آنے کا جذبہ، وہ جذبہ ہے جو ہماری قوم کو اس تحریک کے نتائج و اہداف تک پہنچائے گا۔
جس طرح اب تک آپ حکومت اور حکام کے ساتھ رہیں ہیں اسی طرح اس ہم دلی کو باقی رکھیں، مدد کریں۔ دشمن آپ کے سامنے ہے، سب ایک مورچے پر رہیں۔ سن تیرہ سو ستر میں انشاء اللہ ملک کی تعمیر کے لئے اس مجاہدت میں زیادہ رشد اور سرعت آئے گی اور ہم اس سال کے اختتام تک کافی پیشرفت کا مشاہدہ کریں گے۔ خدا کی توفیق اور نصرت آپ سب کے شامل حال رہے۔
میں ایک بار پھر ملت ایران، ‏ایرانی کنبوں، گرانقدر حکام، شہیدوں کے اہل خاندان، معذور جانبازوں، آزاد ہوکر آنے والے جنگی قیدیوں، جو لوگ وطن سے دور ہیں اور ملک سے باہر ہیں ان سب کو پرخلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آپ سب کے لئے خدا وند عالم سے توفیقات کی دعا کرتا ہوں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ