امریکا میں قرآن کریم کی بے حرمتی کے نفرت انگیز واقعات کے بعد قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملت ایران اور عظیم ملت اسلامیہ کے نام اپنے پیغام میں امریکی حکومت کے اندر موجود صیہونی عناصر کو اس مذموم سازش کا ذمہ دار قرار دیا اور اسلام و قرآن کے تئیں صیہونیوں کی کینہ توزی کے خفیہ عزائم کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکی حکومت کو اس سازش میں اپنا ہاتھ نہ ہونے کا ثبوت دینے کے لئے چاہئے کہ اس عظیم مجرمانہ حرکت کے اصلی ذمہ داروں اور منظر عام پر اس کا ارتکاب کرنے والوں کو جنہوں نے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو رنجیدہ کیا ہے، قرار واقعی سزا دے۔ ولی امر مسلمین کے پیغام حسب ذیل ہے؛

 

بسم الله الرحمن الرحیم


قال الله العزیز الحكیم: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ1

عزیز ملت ایران، با عظمت امت اسلامیہ!

امریکا میں قرآن مجید کی جنون آمیز، نفرت انگیز اور قابل مذمت انداز سے بے حرمتی جو اس ملک کی پولیس کے تحفظ میں انجام پائی، بہت تلخ اور بڑا سانحہ ہے جسے چند بے مایہ اور بکے ہوئے عناصر کی احمقانہ حرکت پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ان مراکز کی جانب سے منصوبہ بند اقدام ہے جو برسوں سے اسلام کی مخالفت اور اسلامو فوبیا پھیلانے پر کاربند ہیں اور سیکڑوں طریقوں اور ہزاروں تشہیراتی حربوں کے ذریعے اسلام و قرآن کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ یہ اس شرمناک سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا آغاز کافر مرتد سلمان رشدی کی خائنانہ حرکت سے شروع ہوا اور خبیث ڈنمارکی کارٹونسٹ کی حرکتوں اور ہالیوڈ کی سیکڑوں اسلام مخالف فلموں کی شکل میں آگے بڑھتے ہوئے اب اس نفرت انگیز منظر تک پہنچا ہے۔ ان شر پسندانہ حرکتوں کے پیچھے کیا ہے اور کون ہے؟
اس شر پسندانہ روش کا جائزہ لینے سے، جو ان برسوں میں افغانستان، عراق، فلسطین، لبنان اور پاکستان میں مذموم اقدامات کے ساتھ جاری رہی ہے، کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا کہ ان کے تار تسلط پسندانہ نظام اور صیہونی تھنک ٹینک سے جڑے ہوئے ہیں جن کا امریکا کی حکومت اور صیہونی و فوجی اداروں اسی طرح برطانوی حکومت اور بعض یورپی حکومتوں پر گہرا اثر و رسوخ ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں کہ گیارہ ستمبر کو ٹاوروں پر ہونے والے حملوں کے معاملے میں آزادانہ تحقیقاتی کارروائيوں کے نتیجے میں شک کی سوئی جن کی جانب گھومتی جا رہی ہے۔ اس واقعے سے اس وقت کے جرائم پیشہ امریکی صدر کو افغانستان اور عراق پر حملے کا بہانہ میسر آیا اور اس نے صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا اور رپورٹوں کے مطابق اسی شخص نے کل اعلان کیا ہے کہ میدان میں کلیسا کے اتر آنے کے بعد یہ صلیبی جنگ مکمل ہوئی ہے۔
تازہ نفرت انگیز اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف عیسائی معاشرے میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لڑائی عمومی سطح تک پھیل جائے اور کلیسا اور پادری کی مداخلت کے ذریعے اسے مذہبی رنگ اور دینی تعصب کا سہارا مل جائے اور دوسری جانب دیگر مسلم قوموں کو جو اس مذموم جسارت سے خشمگیں ہوں گی اور جن کے جذبات مجروح ہو جائیں گے، انہیں عالم اسلام اور مشرق وسطی کے مسائل اور تبدیلیوں سے غافل کر دیا جائے۔
یہ کینہ توزی ایک نئے سلسلے کی شروعات نہیں بلکہ صیہونزم اور امریکا کی سرکردگي میں جاری اسلام دشمنی کے طویل سلسلے کا ایک نیا مرحلہ ہے۔ اس وقت تمام عمائدین سامراج اور ائمہ کفر اسلام کے مد مقابل کھڑے ہو گئے ہیں۔ اسلام انسان کی آزادی اور معنویت و روحانیت کا دین ہے اور قرآن رحمت و حکمت اور عدل و انصاف کی کتاب ہے۔ دنیا کے تمام حریت پسندوں اور ادیان ابراہیمی کے پیروکاروں کی ذمہ داری ہے کہ اس نفرت انگیز طریقے سے انجام دی جانے والی اسلام دشمنی کی مذموم سیاست کا مقابلہ کریں۔ امریکی حکومت کے عمائدین اپنی فریبانہ اور کھوکھلی باتوں سے اس مذموم حرکت سے خود کو مبرا ظاہر نہیں کر سکتے۔ برسوں سے افغانستان، پاکستان، عراق، لبنان اور فلسطین میں دسیوں لاکھ مسلمانوں کے حقوق اور مقدسات کو پامال کیا جا رہا ہے۔ لاکھوں ہلاکتیں، دسیوں ہزار مردوں اور عورتوں کی گرفتاری اور انہیں دی جانے والی ایذائیں، ہزاروں اغوا شدہ عورتیں اور بچے اور دسیوں لاکھ معذور، بے گھر اور بے سہارا لوگ کس چیز کی قربانی بنے ہیں؟ ان تمام مظلومیتوں کے بعد بھی مغربی میڈیا میں کیوں مسلمانوں کو تشدد پسند اور قرآن و اسلام کو انسانیت کے لئے خطرہ ظاہر کیا جاتا ہے؟ کون شخص اس پر یقین کر سکتا ہے کہ یہ وسیع سازش امریکی حکومت کے اندر موجود صیہونی عناصر کی مدد اور مداخلت کے بغیر ممکن ہوئی اور اسے رو بہ عمل لایا گيا ہے؟
ایران اور پوری دنیا کے مسلمان بھائیو اور بہنو!
میں ہر ایک کو ان چند نکات کی جانب متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں؛
اول: یہ سانحہ اور اس سے قبل پیش آنے والے واقعات سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ آج عالمی سامراجی نظام کے نشانے پر جو چیز ہے وہ دین اسلام اور قرآن مجید ہے۔ اسلامی جمہوریہ سے سامراج کی آشکارا دشمنی سامراج سے اسلامی مملکت ایران کی صریحی دشمنی کا جواب ہے اور اسلام اور دیگر مسلمانوں کی دشمنی سے خود کو مبرا ظاہر کرنے کی ان (سامراجی طاقتوں) کی کوشش بہت بڑا جھوٹ اور شیطانی فریب ہے۔ وہ اسلام اور اس دین سے وابستہ تمام افراد نیز مسلمانوں کی شناخت کے دشمن ہیں۔
دوم: اسلام اور مسلمانوں سے کینہ توزی کا یہ سلسلہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ کئی عشروں سے لیکر اب تک نور اسلام ہمیشہ سے زیادہ تابندہ اور عالم اسلام بلکہ مغرب میں بھی دلوں میں اس کا اثر و نفوذ ہمیشہ سے زیادہ وسیع تر ہو گیا ہے، یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ امت اسلامیہ ہمیشہ سے زیادہ بیدار ہو گئی ہے اور مسلمان قوموں نے دو صدیوں کی سامراجی و استعماری طاقتوں کی زنجیر کو توڑ دینے کا تہیہ کر لیا ہے۔ قرآن اور عظیم الشان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں گستاخی کا سانحہ اپنی تمام تر تلخیوں کے باوجود اپنے اندر ایک عظیم بشارت بھی چھپائے ہوئے ہے؛ قرآن کا درخشاں سورج روز بروز زیادہ بلند اور زیادہ تابناک ہوتا جائے گا۔
سوم: ہم سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس تازہ سانحے کا کلیسا اور عیسائيت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چند احمق اور بکے ہوئے پادریوں کی بچکانہ حرکت کو تمام عیسائيوں اور ان کے مذہبی پیشواؤں سے نہیں جوڑنا چاہئے۔ ہم مسلمان دوسرے ادیان کے مقدسات کے سلسلے میں ہرگز ایسا کوئي قدم نہیں اٹھائیں گے۔ عوامی سطح پر مسلمان-عیسائی تنازعہ دشمنوں اور اس جنونی سازش کے منصوبہ سازوں کی خواہش ہے لیکن ہمیں قرآن سے ملنے والا سبق اس کے بالکل بر عکس ہے۔
چہارم: مسلمانوں کا احتجاج آج امریکی حکومت اور ان کے سیاستدانوں سے ہے۔ اگر وہ اپنی عدم مداخلت کے دعوے میں سچے ہیں تو انہیں چاہئے کہ اس عظیم مجرمانہ کارروائی کے اصلی ذمہ داروں اور منظر عام پر سرگرم عناصر کو کہ جنہوں نے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو رنجیدہ کیا ہے قرار واقعی سزا دیں۔

و السلام علی عبادالله الصالحین
سیّدعلی خامنه‌ای
22/شهریور/1389

2010/9/13

1. الحجر، آیه 9: بے شک ہم نے اس قرآن کو بتدریج نازل کیا ہے اور حتمی طور پر ہم اس کی حفاظت کریں گے۔