رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے صدر مملکت اور قومی سلامتی کی سپریم کونسل کے سربراہ ڈاکٹر حسن روحانی کو ایک مکتوب ارسال کرکے پارلیمنٹ 'مجلس شورائے اسلامی' اور قومی سلامتی کی سپریم کونسل میں مشترکہ جامع ایکشن پلان پر باریک بینی کے ساتھ ذمہ دارانہ بحث اور اس نیوکلیائی اتفاق رائے کے قانونی مراحل طے کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے قومی مفادات اور ملک کی اہم مصلحتوں کی حفاظت و پاسداری کے لئے انتہائی کلیدی ہدایات جاری کیں اور مشترکہ جامع ایکشن پلان کے نفاذ کے سلسلے میں نو ضروری باتوں اور لوازمات کی نشاندہی کرتے ہوئے مورخہ 10 اگست 2015 کو قومی سلامتی کی سپریم کونسل کے اجلاس میں منظور ہونے والے متعلقہ بل کی، ان لوازمات کو مد نظر رکھے جانے پر تاکید کے ساتھ، موافقت فرمائی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ کے مکتوب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم ‌الله ‌الرحمن ‌الرحیم

صدر جمہوریہ ایران اور قومی سلامتی کی سپریم کونسل کے سربراہ جناب روحانی صاحب دامت توفیقاتکم
سلام علیکم
اس وقت جب مشترکہ جامع ایکشن پلان پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی، خصوصی کمیشن، دیگر کمیشنوں نیز قومی سلامتی کی سپریم کونسل میں باریک بینی کے ساتھ ذمہ دارانہ جائزے کے عمل سے گزر چکا ہے اور میری رائے کے اعلان کا انتظار ہے، چند نکات کی یاد دہانی ضروری سمجھتا ہوں تاکہ جناب عالی اور براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس سے متعلق دیگر عہدیداران کے پاس قومی مفادات اور ملک کی اہم مصلحتوں کی حفاظت و پاسبانی کا بمقدار کافی موقع رہے۔
1۔ سب سے پہلے ضروری سمجھتا ہوں کہ قدردانی کروں دشواریوں سے بھرے اس عمل کے تمام ادوار میں کردار ادا کرنے والوں؛
منجملہ؛ حالیہ مذاکراتی ٹیم کی کہ جس نے مثبت نکات کی تشریح اور ان نکات کو مسلمہ حیثیت میں لانے کے لئے اپنی ہر ممکن کوشش کی، ان ناقدین کی کہ جنھوں نے قابل ستائش باریک بینی کے ساتھ اس کے کمزور پہلوؤں کی جانب ہم سب کو متوجہ کروایا، خاص طور پر پارلیمنٹ کے خصوصی کمیشن کے سربراہ اور ارکان کی، قومی سلامتی کی سپریم کونسل کے محترم ارکان کی کہ جنھوں نے اپنے اہم تبصروں کے ذریعے خلا کو بھرنے کا کام کیا، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور ارکان کی کہ جنھوں نے بڑے محتاطانہ بل کی منظوری کے ذریعے حکومت کے سامنے اس کے نفاذ کا راستہ پیش کیا، نیز قومی میڈیا اور اخبارات و جرائد کے قلمکاروں کی، جنھوں نے اپنے تمام تر اختلاف نظر کے باوجود مجموعی طور پر رائے عامہ کے سامنے اس اتفاق رائے کی کامل تصویر پیش کی۔ ایک ایسے مسئلے کے تعلق سے جو ایسا لگتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے یادگار اور عبرت آموز مسائل میں شمار ہوگا، محنت، کوشش اور فکر و تدبر کا یہ وسیع سلسلہ قابل قدر و باعث مسرت ہے۔ اسی لئے پورے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس ذمہ دارانہ کارکردگی پر ملنے والا اجر خداوندی در حقیقت باری تعالی کی جانب سے نصرت و رحمت و ہدایت پر مشتمل ہوگا۔ کیونکہ دین خداوندی کی نصرت کی صورت میں اللہ کی جانب سے نصرت عطا کئے جانے کا وعدہ کبھی ادھورا نہیں رہتا۔
2۔ جناب عالی اسلامی جمہوریہ کے مسائل کے مرکز میں کئی دہائیوں سے موجود رہنے کی بنا پر یقینا یہ سمجھ چکے ہیں کہ دیگر مسائل سے قطع نظر خود ایٹمی مسئلے میں بھی ایران کے سلسلے میں امریکا نے مخاصمت اور خلل اندازی کے علاوہ کوئی اور رویہ اختیار نہیں کیا ہے اور مستقبل میں بھی بعید ہے کہ اس کے علاوہ کوئی روش اپنائے۔ مجھے لکھے گئے دو خطوط میں امریکی صدر کا یہ پیغام کہ وہ اسلامی جمہوریہ کا تختہ الٹنے کا ارادہ نہیں رکھتے، بہت جلد داخلی فتنوں کی ان کی جانب سے حمایت اور اسلامی جمہوریہ کے مخالفین کے لئے ان کی مالیاتی مدد سے خلاف حقیقت ثابت ہو گیا اور فوجی حملے یہاں تک کہ ایٹمی حملے کی ان کی صریحی دھمکیوں نے جن پر ان کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں تفصیلی چارج شیٹ داخل کی جا سکتی ہے، امریکی حکام کی اصلی نیت کو بے نقاب کر دیا۔ دنیا کے سیاسی مفکرین اور قوموں کی رائے عامہ آسانی سے سمجھ سکتی ہے کہ ختم نہ ہونے والی اس دشمنی کی وجہ اسلامی جمہوریہ ایران کی ماہیت و شناخت ہے جس کا سرچشمہ اسلامی انقلاب ہے۔ توسیع پسندی اور استکبار کی مخالفت میں حق بجانب اسلامی موقف پر قائم رہنا، کمزور قوموں کے خلاف جارحیت اور توسیع پسندی کی مخالفت کرنا، قرون وسطی جیسی آمریتوں کی امریکا کی جانب سے پشت پناہی اور خود مختاری قوموں کی سرکوبی کو آشکارا کرنا، ملت فلسطین اور وطن پرست مزاحمتی تنظیموں کا مستقل بنیادوں پر دفاع، غاصب صیہونی حکومت کے خلاف منطقی اور ساری دنیا کو پسند آنے والی آواز اٹھانا وہ بنیادی عوامل ہیں جن کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف ریاستہائے متحدہ امریکا کی دشمنی ناگزیر ہے اور یہ دشمنی اس وقت تک جاری رہیگی جب تک اسلامی جمہوریہ اپنی پائیدار اندرونی قوت سے ان (دشمنوں) کو مایوس نہیں کر دیتی۔
ایٹمی مسئلے اور اس سے متعلق طولانی اور تھکا دینے والے مذاکرات میں امریکی حکومت کے روئے اور انداز بیان سے واضح ہو گیا کہ یہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف ان کی ہٹ دھرم دشمنی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان کے شروعاتی بیان جو ایران کو براہ راست مذاکرات پر رضامند کرنے کی غرض سے دئے گئے اور پھر دو سالہ مذاکرات کے دوران ان کی جانب سے بار بار کی جانے والی عہد شکنی کے درمیان موجود دہرے روئے کی صورت میں ان کی فریب دہی، ان کی طرف سے صیہونی حکومت کے مطالبات کا ساتھ دینا، مذاکرات میں شامل یورپی حکومتوں اور اداروں کے سلسلے میں ان کی زور زبردستی کی سفارت کاری، ان ساری چیزوں سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ ایٹمی مذاکرات میں امریکا کا فریب دہی کے ساتھ شامل ہونا مسئلے کے منصفانہ حل کی نیت سے نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں اپنے معاندانہ اہداف کے حصول کی غرض سے تھا۔
بیشک مذاکرات کے عمل کے دوران اسلامی جمہوریہ کے عہدیداروں نے امریکی حکومت کے مخاصمانہ ارادوں کے تعلق سے ہوشیاری برتی اور جس استقامت کا مظاہرہ کیا اس سے متعدد مواقع پر سنگین نقصانات کا تدارک ہو گیا۔ لیکن اس کے باوجود مشترکہ جامع ایکشن پلان کی شکل میں مذاکرات کا جو نتیجہ سامنے آیا اس میں کچھ مبہم باتیں، ساختیاتی خامیاں اور متعدد چیزیں ایسی رہ گئی ہیں کہ اگر باریک بینی سے لمحہ بہ لمحہ توجہ مرکوز نہ رکھی گئی تو ملک کے حال و مستقبل کو بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
3- پارلیمنٹ کے حالیہ قانون کی نو شقیں اور قومی سلامتی کی سپریم کونسل کے بل کے ذیل میں درج دس تبصرے مفید اور موثر نکات کے حامل ہیں جن کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ اس کے علاوہ بعض دوسرے ضروری نکات بھی ہیں جو مذکورہ دونوں دستاویزات میں موجود نکات پر تاکید کے ساتھ ذکر کئے جاتے ہیں؛۔
اول: چونکہ مذاکرات پر ایران کی رضامندی بنیادی طور پر ظالمانہ اقتصادی و مالیاتی پابندیوں کی منسوخی کے مقصد سے انجام پائی تھی اور مشترکہ جامع ایکشن پلان میں اس منسوخی کو ایران کے اقدامات کے بعد کے وقت پر ٹال دیا گیا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ فریق مقابل کی عہد شکنی کے سد باب کے لئے اس سے مضبوط اور بمقدار کافی گیرنٹی حاصل کی جائے، منجملہ امریکی صدر اور یورپی یونین کی طرف سے پابندیوں کی منسوخی سے متعلق تحریری اعلان ہے۔ یورپی یونین اور امریکی صدر کے اس اعلان میں صراحت کے ساتھ رقم ہونا چاہئے کہ ساری پابندیاں ہٹا لی گئی ہیں۔ اس طرح کا کوئی بھی بیان کہ پابندیوں کا ڈھانچہ باقی رہے گا، مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔
دوم: پوری آٹھ سالہ مدت کے دوران مذاکرات میں شامل کسی بھی ملک کی طرف سے کسی بھی قسم کی، کسی بھی سطح پر اور کسی بھی بہانے سے (منجملہ دہشت گردی اور انسانی حقوق کے خود ساختہ اور گھسے پٹے بہانوں سے) عائد کی جانے والی پابندی مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی شمار ہوگی اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی قرارداد کی تیسری شق کے مطابق ضروری اقدامات کرے اور مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل آوری روک دے۔
سوم: بعد کی دو شقوں میں مذکور چیزوں سے متعلق اقدامات صرف اسی صورت میں شروع ہوں گے جب آئی اے ای اے موجودہ اور ماضی کے مسائل سے متعلق فائل (pmd) کے بند ہو جانے کا اعلان کر دیگی۔
چہارم: اراک کے کارخانے کی ہیوی واٹر تنصیبات کی ماہیت کو باقی رکھتے ہوئے اس کی جدیدکاری سے متعلق اقدامات اسی صورت میں شروع ہوں گے جب متبادل پروجیکٹ کے بارے میں حتمی اور قابل اطمینان معاہدہ ہو جائے گا اور اس معاہدے پر عملدرآمد کی بمقدار کافی ضمانت مل جائے گی۔
پنجم: 'یلو کیک' کے عوض افزودہ یورینیم کا سودا کسی بھی بیرونی حکومت سے اسی وقت شروع ہوگا جب اس سلسلے میں ضروری گیرنٹی کے ساتھ قابل اطمینان معاہدہ ہو چکا ہوگا۔ یہ سودا اور لین دین تدریجی طور پر اور کئی بار میں انجام پانا چاہئے۔
ششم: پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے بل کے مطابق ایٹمی انرجی کی صنعت کے میانہ مدت ترقیاتی عمل کے لئے، کہ جو اس وقت سے لیکر آئندہ پندرہ سال تک مختلف مراحل میں پیشرفت پر مشتمل ہے اور اس کے نتیجے میں ایک لاکھ نوے ہزار (swo) کی منزل تک پہنچنا ہے، ضروری منصوبہ اور مقدمات فراہم کئے جائیں اور قومی سلامتی کی سپریم کونسل میں ان کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ یہ منصوبہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے ضمیمے میں موجود بعض باتوں سے پیدا ہونے والی تشویش کو دور کرے۔

ہفتم: ایٹمی توانائی کا ادارہ مختلف میدانوں میں ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کا عملی طور پر اس طرح بندوبست کرے کہ آٹھ سالہ مدت پوری ہونے کے بعد مشترکہ جامع ایکشن پلان میں قبول کی جانے والی یورینیم کی افزودگی کے لئے ٹیکنالوجی کی کسی کمی کا سامنا نہ ہو۔
ہشتم: توجہ دی جائے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کی ابہام آمیز باتوں کے سلسلے میں فریق مقابل کی تفسیر قابل قبول نہیں ہے بلکہ معیار مذاکرات کا متن ہے۔
نہم: مشترکہ جامع ایکشن پلان میں پیچیدگیوں اور ابہامات کا موجود ہونا اور فریق مقابل بالخصوص امریکا کی جانب سے عہد شکنی، خلاف ورزی اور فریب دہی کا احتمال اس بات کا متقاضی ہے کہ امور کی پیشرفت، فریق مقابل کی طرف سے وعدوں پر عمل آوری اور اوپر جن چیزوں کو بیان کیا گيا ہے انھیں عملی جامہ پہنانے کے لئے، ایک قوی، آگاہ اور باہوش کمیٹی تشکیل دی جائے۔ اس کمیٹی کی ساخت اور اس کی ذمہ داریوں کا تعین اور اس کی منظوری کا عمل قومی سلامتی کی سپریم کونسل کے ذریعے انجام پائے۔
جو چیزیں ذکر کی گئیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی سلامتی کی سپریم کونسل کی مورخہ 10 اگست 2015 کی نشست 634 میں پاس ہونے والے بل کی توثیق کی جاتی ہے۔
آخر میں یہ کہ میں نے جیسا کہ جناب عالی اور دیگر حکومتی عہدیداروں کو یاد دہانی کرائی ہے اور عمومی جلسوں میں اپنے عزیز عوام کے بھی گوش گزار کیا ہے کہ بیشک ظلم کو رفع اور ملت ایران کے حقوق کو حاصل کرنے کے لئے پابندیوں کا ختم ہونا ضروری ہے، مگر اقتصادی آسودگی، معیشت کی بہبودی اور موجودہ مشکلات کا ازالہ مستحکم مزاحمتی معیشت پر توجہ دینے اور اس کے لئے ہمہ جہتی سعی و کوشش کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ امید ہے کہ نگرانی کی جائے گی کہ اس ہدف کے سلسلے میں پوری سنجیدگی سے کام ہو، خاص طور پر قومی پیداوار کی تقویت پر توجہ دی جائے اور آپ خیال رکھئے کہ پابندیاں اٹھ جانے کے بعد کے حالات بے تحاشا درآمدات کا باعث نہ بنیں اور خاص طور پر استعمال کی کوئی چیز امریکا سے امپورٹ کرنے سے ہرہیز کیا جائے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں جناب عالی اور دیگر عہدیداران کی توفیقات کی دعا کرتا ہوں۔

سیّد علی خامنه‌ای
۲۹/مهرماه/۹۴ (ہجری شمسی مطابق 21 اکتوبر 2015)