فکر و نظر

اسلام میں نجی مالکیت

اسلام میں اقتصادی آزادی اسلام میں نجی مالکیت کی حدود اسلامی معیشت میں انفاق کام اور پیداوار میں نجی سیکٹر سے استفادہ اقتصادی آزادی کی دیکھ بھال آزاد معیشت اور معاشرے کا سیاسی مستقبل سرمایہ داری کی عصری اصطلاح مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی اقتصادی آزادی سوشیلسٹ ممالک کی معیشت اسلام میں نجی مالکیت اسلام میں اقتصادی آزادی اسلامی معاشرے میں اقتصادی سرگرمیوں کے لئے آزادی ہے لیکن یہ مطلق آزادی نہیں بلکہ اس کی کچھ حدود ہیں۔ ہر طرح کی آزادانہ فعالیت اور حرکت کی کچھ نہ کچھ حدود اور ضوابط ہوتے ہیں۔ اسلام میں یہ حدود خاص طرح کی ہیں۔ سوشیلسٹ معاشروں میں بھی دولت و ثروت رکھنے کی کچھ حدود و قیود ہیں لیکن وہ حدود اسلامی حدود سے مختلف ہیں اور اسی مقدار میں اقتصادی سرگرمیوں کی آزادی کے سلسلے میں اسلام کا نقطہ نگاہ کمیونسٹ اور مارکسسٹ نظرئے سے مختلف ہے۔ شاید یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ اسلامی نقطہ نگاہ بھی سرمایہ دارانہ مکتب فکر سے بھی اتنا ہی مختلف ہے جو مغرب میں اس وقت رائج ہے اور جس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ آج جو صورت حال مغرب میں ہے اسلام کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔ سرمایہ داری جس مفہوم میں مغرب میں رائج ہے اسلام اس کی قطعی تائید نہیں کرتا بلکہ متعدد احکام ایسے ہیں جو اس کے مقابلے اور سد باب کا عندیہ دیتے ہیں۔ اسلامی اقتصاد کے تعلق سے جو باتیں بتائی گئی ہیں ان کا نمونہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام میں موجود نہیں ہے۔ اسلامی معاشرے میں آزاد اقتصادی فعالیت کی حدود وہ چیزیں ہیں جنہیں فقہ کی کتابوں میں حرام کمائی اور حرام مال قرار دیا گيا ہے، یعنی سود کا لین دین، لاعلمی و فریب کا سودا، وہ سودا جس میں کسی کو دھوکا دیا جا رہا ہو یا نقصان پہنچایا جا رہا ہو۔ وہ تجارت جو حرام آمدنی سے کی جائے، ذخیرہ اندوزی جس سے کچھ لوگ بڑے مالدار بن جاتے ہیں، اس کے ذریعے سودا حرام ہے۔ اسی طرح دیگر چیزیں جو اسلام کی مقدس شریعت میں بیان کی گئی ہیں۔ یہ اسلامی معاشرے میں آزاد اقصادی سرگرمیوں کی حدود ہیں۔ بعض چیزوں کا سودا حرام ہوتا ہے، مثلا شراب یا دیگر حرام اور نجس چیزیں، کچھ استثنائی مواقع کو چھوڑ کر ان کا سودا نہیں کیا جا سکتا۔ یا اسی طرح وہ مال جو کسی شخص کا نہیں بلکہ اسلامی حکومت کا ہے جیسے انفال کچھ مخصوص مواقع کے علاوہ اس کا سودا عام لوگوں کے لئے یا غیر حکومتی سطح پر ناجائز ہے۔ اسلامی فقہ میں اسی طرح کی کچھ اور چیزیں بھی ہیں جنہیں معین کیا گيا ہے اور بتایا گيا ہے کہ یہ آزادانہ تجارتی سرگرمیاں کس حد تک جائز ہیں اور کہاں ناجائز اور حرام و ممنوع ہیں۔ اسلامی معاشرے میں اقتصادی آزادی یہ ہے کہ اسلامی حکومت ایسی پالیسی اختیار کرے اور ایسے قانون وضع کرے جس کی بنا پر معاشرے کے تمام افراد آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے پر قادر ہوں اور معاشرے کے تمام طبقات کو اقتصادی سرگرمیاں کرنے کا موقع حاصل ہو۔ یہ اسلام کے اقتصادی نظام اور مغربی نظام کا ایک بڑا فرق ہے۔ معاشرے میں حقیقی معنی میں آزاد معیشت وجود میں لانے کا طریقہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کے انحصار اور اجارہ داری کو توڑا جائے۔ ایسی سہولتیں فراہم کی جائيں کہ معاشرے کے اکثر و بیشتر افراد، معاشرے کے بیشتر طبقات یا سارے کے سارے لوگ جو کام کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، زمین، سمندر، میدانوں اور چراگاہوں کے وسائل و امکانات سے استفادہ کر سکیں۔ امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام فرماتے ہیں: ما رئیت نعمۃ موفورۃ الا و فی جانبھا حق مضیع یعنی میں نے کہیں بھی نعمتوں کی کوئی ایسی ذخیرہ اندوزی نہیں دیکھی جس میں کسی کی حق تلفی نہ کی گئی ہو۔ اس حدیث کا ایک بڑا لطیف مفہوم ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جہاں بھی نعمتوں کی فراوانی ہے وہ کچھ لوگوں کا حق غصب کئے جانے اور چوری کا نتیجہ ہے اور اس غاصب کا نشانہ بننے والے کچھ کمزور اور مظلوم افراد بھی ہیں۔ پھر اس حدیث پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض ایسے لوگوں کے پاس دولت ہے جنہوں نے چوری کی نہ کسی کا مال غصب کیا ہے بلکہ اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔ اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں۔ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جہاں بھی نعمتوں کی فراوانی ہے، دولت زیادہ ہے، وسائل کی بہتات ہے، وہاں در حقیقت یہ دولت اور ثروت اپنے مالک کو زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے بہت زیادہ وسائل فراہم کر دیتی ہے اور ان وسائل کو دوسروں کی دسترسی سے نکال دیتی ہے۔ معاشرے میں جس کے پاس دولت زیادہ ہے وہ زیادہ دولت کما سکتا ہے اور ان چیزوں سے زیادہ بہتر استفادہ کر سکتا ہے جن کا تعلق عام لوگوں سے ہے، جبکہ یہ غریب کے بس کی بات نہیں ہے۔ لہذا جس کے پاس زیادہ دولت ہے اس کے پاس زیادہ مواقع ہیں، زیادہ وسائل ہیں۔ اقتصادی سرگرمیوں کا میدان اس کے پاس ہے۔ اکثر ممالک میں ایسے ہی افراد اور طبقے کی منشاء کے مطابق قانون سازی کی جاتی ہے۔ اس طرح عوام کی اکثریت جس کے پاس اتنی دولت نہیں ہے، مواقع سے محروم رہتی ہے۔ بنابریں اس حدیث کا صحیح مفہوم یہی ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرے میں آزاد معیشت کا راستہ یہ نہیں ہے کہ یہ آزادی صرف ان لوگوں کے قبضے میں رہے جو اقتصادی و مالی توانائی رکھتے ہیں، بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ جن افراد کے پاس مالی و اقتصادی طاقت ہے وہ اس انداز سے کام کریں کہ معاشرے اور نظام کی حالت اور معاشرے کے اندر پائے جانے والے تعلقات و روابط ایسی شکل اختیار کریں کہ جن کے پاس بھی کام کرنے کی طاقت ہے وہ آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں کریں اور اپنے کام سے مستفید ہوں۔ ٹاپ اسلام میں نجی مالکیت کی حدود اسلام میں نجی مالکیت کا احترام کیا جاتا ہے لیکن اس کی حد بھی معین کر دی گئی ہے۔ حد کا مطلب یہ نہیں کہ کتنا ریال، کتنا ڈالر، کتنا دینار یا کتنا درہم معین کر دیا جائے۔ کیونکہ یہ مقدار تو ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔ ملکیت کے لئے ضرر و ضرار کی حد رکھی گئی ہے۔ یعنی اگر کسی کی ذاتی دولت اور سرمائے سے امت مسلمہ یا مسلمانوں کی ایک تعداد کو نقصان پہنچنے لگے تو اس ملکیت کو ضرررساں بننے سے قبل کی حد پر روک دیا جائے گا۔ اسلام میں ذاتی اور نجی ملکیت کا احترام ہے اس وقت تک کہ جب تک وہ ذخیرہ اندوزی، استحصال، تفریق، انسانوں کی بے حرمتی اور سرکشی پر منتج نہ ہو جائے۔ بری بات استحصال، سرکشی، اسراف اور زیادہ روی ہے۔ ان چیزوں کے باعث ذاتی ملکیت بری ہو جاتی ہے۔ دولت بذات خود بری چیز نہیں ہے۔ تو نجی ملکیت کی یہ حدیں ہیں۔ اسلام نے ان برائیوں کی روک تھام پر توجہ دی ہے، اسراف کو مسترد اور اسراف کرنے والے کو قابل مذمت قرار دیا ہے اور اسلامی حاکم اور حاکم شرع کو اسراف، استحصال، تفریق، سرکشی اور ذخیرہ اندوزی کو روکنے کی اجازت دی ہے۔ بنابریں اسلامی حاکم اور اسلامی حکومت کے سربراہ کو یہ اختیار ہے کہ اپنے حکم سے اس زیادہ روی کو روکے۔ اسلامی نظام نجی ملکیت کو قبول کرتا ہے، لوگوں کی اقتصادی کوششوں اور سرگرمیوں کو بھی مانتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ضرورتمندوں اور محتاج لوگوں کے رفاہ و آسائش کے لئے بھی معاشرے کو ایک اک قدم آگے لے جاتا ہے۔ آزاد اسلامی معیشت میں اقتصادی آزادی کے تقاضے کے مطابق معاشرے کے اقتصادی امور کی ذمہ داری اور اقتصادی امور کا سنگین بار عوام کے دوش پر ہوتا ہے۔ ٹاپ اسلامی معیشت میں انفاق اسلامی نظام میں لوگوں کو آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے کا حق ہوتا ہے، سب حکومت کے ملازم نہیں ہیں، لوگ خود کام کر سکتے ہیں، اپنے طور پر سعی و کوشش کر سکتے ہیں، خود اپنی آمدنی کا انتظام کر سکتے ہیں۔ معاشرے کا مالی و اقتصادی خلا بھی خود عوام کے ذریعے بھرا جانا چاہئے۔ یعنی انفاق کیا جائے۔ قرآن میں جو انفاق کا ذکر موجود ہے وہ معاشرے کی آزادانہ اقتصادی سرگرمیوں کی ہی بنا پر ہے۔ جب لوگ خود پیسہ کما رہے ہیں تو انہیں معاشرے کی ضرورتیں بھی پوری کرنا چاہئے۔ خلا کو پر کرنا چاہئے۔ انفاق کا مطلب اسی خلا کو پر کرنا ہے۔ انفاق ایک اسلامی اصول ہے۔ انفاق کرنا، پیسہ دینا، اقتصادی ضرورتوں کو پورا کرنا اور اقتصادی خلا کو بھرنا براہ راست عوام اور لوگوں کی ذمہ داری ہے جو معاشرے میں آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں اگر کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے جس کے باعث حکومت کو پیسے کی ضرورت پڑ جائے تو اس پیسے کا انتظام عوام کو کرنا ہوتا ہے۔ معاشرے کو کوئی جنگ پیش آ جائے، کوئی تخریبی واقعہ ہو جائے، کوئی بیماری پھیل جائے، کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہو جائے تو اس سلسلے میں اسلام کا کہنا یہ ہے کہ عوام حتی الوسع مدد کرنے کی کوشش کریں۔ البتہ چونکہ سارے لوگوں کی استطاعت یکساں نہیں ہے اس لئے جو زیادہ خوشحال ہیں، جن کے پاس زیادہ وسائل و امکانات ہیں ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں۔ دولت اندوزی، عدم انفاق اسلام کی نظر میں غیر اخلاقی فعل اور گناہ ہے، اسے گناہ کبیرہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو اپنے سرمائے کے ذریعے کام کرنے کا اختیار دیا گيا ہے تو انہیں حق ہے کہ وہ جائز طریقوں سے دولت کمائے اور جمع کرکے رکھ لیں خواہ معاشرے کو ان کے سرمائے اور ان کے وسائل کی شدید احتیاج ہو، وہ اللہ کی راہ میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے پیسہ خرچ نہ کریں۔ اسلام میں انفاق یعنی ضرورتمندوں پر پیسہ خرچ کرنا ایک اصول اور حکم ہے۔ اللہ کی راہ میں پیسہ خرچ کرنا چاہئے۔ یہ نہیں کہا گيا ہے کہ سودا نہ کیجئے، پیسہ نہ کمائیے۔ کمائیے لیکن خرچ بھی کیجئے۔ اسلام لوگوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ انہوں نے جو حاصل کیا ہے اس میں سے اپنی ضرورت اور احتیاج کے مطابق خرچ کریں۔ ایسا بھی نہیں کہ عسرت و تنگدستی میں زندگی بسر کریں، ایک عام سطح کی زندگی ایک حد تک آسا‎ئش و رفاہ کے ساتھ، اتنا اپنے اوپر خرچ کریں، اس کے بعد جو بچے اسے معاشرے میں رفاہ عامہ کے لئے صرف کریں۔ اگر کسی نے دولت حاصل کی اور اسے اسراف کے ساتھ، فضول خرچی کے ساتھ، ٹھاٹ باٹ، گراں قیمت غذا، گراں قیمت کپڑوں، گراں قیمت سواری، گراں قیمت رہائش پر خرچ کر دیا یا سارا پیسہ جمع کرکے بیٹھ گيا تو یہ اسلام کی نظر میں مذموم ہے۔ عدم انفاق مذموم اور منفور ہے اور اگر اس کے ساتھ ذخیرہ اندوزی بھی ہو تو حرام ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ واللہ لا یحب کل مختال فخور الذین یبخلون و یامرون الناس بالبخل جو لوگ بخل اور کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کا راستہ دکھاتے ہیں، دوسروں کو بھی انفاق فی سبیل اللہ سے روکتے ہیں اور خود بھی اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ نہیں کرتے۔ اس بخل کا مطلب یہی نہیں ہے کہ وہ شرعی حقوق ادا نہیں کرتے بلکہ شرعی حقوق کے آگے کی بھی چیزیں روک لیتے ہیں۔ اگر معاشرے کو ضرورت ہے اور کسی انسان کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ مال ہے تو اسے شریعت کی جانب سے معین کردہ مقدار سے زیادہ خرچ کرنا چاہئے۔ کچھ لوگ ہیں جنہوں نے عمومی وسائل کے ذریعے دولت جمع کر لی ہے۔ دولت صحیح اور جائز راستے سے جمع کی گئی ہے لیکن اگر معاشرے کو اس کی ضرورت ہے اور وہ اسے دبائے بیٹھے ہیں تو یہ چیز قابل قبول نہیں ہے۔ اسلام سے یہ درس نہیں ملا ہے بلکہ اسلام اس کے برعکس عمل کی تعلیم دیتا ہے۔ معروف آیۃ کریمہ ہے: الذین یکنزون الذھب والفضۃ و لا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم جو لوگ سیم و زر کا خزانہ جمع کر لیتے ہیں، ذخیرہ تیار کر لیتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتے- یہ صرف سونے اور چاندی سے مختص نہیں بلکہ پیسہ، سرمایہ اور دولت کا بھی یہی حکم ہے- جمع کرکے رکھتے ہیں جبکہ معاشرے کو اس کی شدید احتیاج ہوتی ہے لیکن وہ راہ خدا میں اسے خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے ان پر بھی یکنزون الذھب و الفضۃ کا ہی اطلاق ہوگا۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: فبشرھم بعذاب الیم اگر یہ (ذخیرہ اندوزی) گناہ نہیں، اگر یہ گناہ کبیرہ نہیں تو فبشرھم بعذاب الیم کیوں کہا گیا؟ انہیں دردناک عذاب کی نوید سنا دیجئے۔ یعنی ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی کے دردناک عذاب ک لئے تیار رہیں، یہ دردناک عذاب دنیا میں ان کے ان اعمال کے فطری نتیجے اور عواقب کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے، جس کے اثرات خود انہی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے عواقب آخرت میں سامنے آئیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں جگہ سامنے آئیں۔ یعنی اس کام پر دردناک عذاب دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی ملے گا۔ بنابریں انفاق واجب و ضروری فعل ہے۔ ٹاپ کام اور پیداوار میں نجی سیکٹر سے استفادہ نجی سیکٹر کو کام اور پیداوار کے میدان میں اترنے کے لئے ترغیب دلائی جانی چاہئے۔ ملک کی بیشتر پیداواری یونٹیں حکومت کے ہاتھ میں ہیں۔ البتہ ایک معینہ مقدار خود آئین نے مختص کی ہے جو اس موجودہ مقدار سے بہت کم ہے۔ حکومتی سیکٹر میں اس بھیڑ کی وجہ بعض پالیسیوں کی خرابی ہے۔ اس مقدار کے علاوہ جسے آئین نے معین کیا ہے اور جس کا حکومت کے ہی اختیار میں ہونا لازمی قرار دیا گيا ہے، بقیہ شعبوں میں نجی سیکٹر کو روزگار اور پیداوار کی ذمہ داری سنبھالنا چاہئے۔ البتہ یہ چیز واضح رہے کہ نجکاری صرف یہ نہیں ہے کہ حکومتی کمپنیوں کو کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی طرح، ملک کا مفاد مد نظر رکھے بغیر غیر سرکاری سیکٹر کے حوالے کر دیا جائے۔ سرمایہ کار کو ترغیب دلانا چاہئے کہ میدان میں اترے۔ ذخائر اور وسائل کی اس طرح نشاندہی کی جانی چاہئے کہ نجی سیکٹر کو ترغیب ملے۔ یہ کام درست انداز میں اور معیاری سطح پر ہونا چاہئے۔ اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ یہ یونٹیں پیداواری صلاحیت و توانائی رکھتی ہیں یا نہیں۔ اپنی پیداواری صلاحیت بڑھا سکتی ہیں یا نہیں۔ اگر ان میں یہ صلاحیت و توانائی ہے تب تو انہیں اس کا موقع دیا جانا چاہئے۔ بنابریں صلاحیت کے مطابق انتخاب کیا جائے، رشتہ داری، ناتے داری اور سیاسی دوستی و قربت کی بنا پر نہیں۔ اگر ان چیزوں کا خیال رکھا جائے تو نجی سیکٹر کو ترغیب ملے گی اور وہ میدان میں اترے گا۔ ٹاپ اقتصادی آزادی کی دیکھ بھال اسلامی معاشرے میں ہر طرح کی آزادی اسلامی حاکم کی دیکھ بھال میں ہونی چاہئے۔ اس دیکھ بھال کا کیا مقصد ہے؟ مقصد یہ ہے کہ یہ آزادی بد عنوانی اور فساد پر منتج نہ ہو۔ یہ آزادی دوسروں کے اختیارات سلب ہو جانے کا باعث نہ بنے۔ اظہار خیال کی آزادی، سیاسی آزادی اور ثقافتی آزادی کے سلسلے میں بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر اقتصادی آزادی کا یہ مفہوم اخذ کیا جائے کہ جن افراد کے پاس اقتصادی سرگرمیوں کی طاقت و توانائی ہے وہ جس چیز کی چاہیں پیداوار کریں، جس طرح چاہیں چیزوں کو بازار میں لائیں، جب چاہیں سپلائی کریں، جیسے چاہیں فروخت کریں اور جس طرح چاہیں استعمال کریں، تو یہ یقینی طور پر اسلام کا نظریہ نہیں ہے۔ اسلام نے اقتصادی آزادی اور نجی مالکیت کے ساتھ جو اس نے معاشرے کے ہر فرد کو عطا کی ہے، ان سارے امور پر حکومت کی نظارت و نگرانی کو لازمی قرار دیا ہے۔ یعنی حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ اس آزادی کا غلط استعمال نہ ہونے پائے۔ چیزوں کے خرچ میں بھی اس بات پر نظر رکھے کہ اسراف نہ ہونے پائے۔ البتہ ایک حد تک اسراف ذاتی اور انفرادی گناہ ہے، اپنے گھر میں کوئی کسی چیز کو فضول خرچی کے ساتھ استعمال کرے تو یہ یقینا ایک فعل حرام ہے، ایک گناہ ہے لیکن یہی چیز اس حد تک بڑھ جائے کہ اس سے معاشرے کے اقتصادی نظام کو خطرات لاحق ہو جائیں، معاشرے میں اس سے غربت و افلاس بڑھنے لگے، عوام کا بہت بڑا طبقہ محرومی کا شکار ہونے لگے، جو چیزیں انسانوں کی کد و کاوش کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اسے تلف اور ضائع کیا جائے تو پھر اسلامی حکومت پر یہ فرض آن پڑتا ہے کہ اس اسراف کا سد باب کرے، اس فضول خرچی کا مقابلہ کرے۔ البتہ یہ چیز ایک معاشرے تک محدود نہیں ہے۔ عالمی سطح پر بھی اسلام کا یہی سبق ہے۔ اس وقت جو ممالک غذائی اشیاء کے استعمال میں اسراف کر رہے ہیں، دنیا کے بعض دولتمند ممالک دنیا کی ستر فیصد غذائی اشیا استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کی مجموعی آبادی دنیا کی پینتیس چھتیس فیصدی ہے، اگر دنیا میں منصفانہ اقتصادی نظام ہو، اگر دنیا میں طاقتور مالیاتی ادارے ہوں تو ان چیزوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر دنیا میں کچھ با ضمیر حکومتیں اور کچھ تنظیمیں سامنے آئیں اور اپنی طاقت دنیا کی قوموں اور انسانوں کے مفاد میں استعمال کریں ، مثلا ان حرکتوں کو روکیں کہ امریکا ہر سال کئی ملین ہکٹیئر زراعتی زمین پر کھیتی نہیں ہونے دیتا تاکہ غلے کی قیمت گرنے نہ پائے، جبکہ دنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے کئی ہزار بچے روزانہ بھکمری کا شکار ہوکر تلف ہو رہے ہیں، جبکہ دنیا کے دس سے پندرہ فیصدی عوام خشکسالی کی مار جھیل رہے ہیں، دنیا کی بہت بڑی آبادی غذائی اشیاء کی قلت سے دوچار ہے۔ یا مثلا اس جیسے اقدامات کو روکا جائے کہ کئی سال قبل یورپ کے مشترکہ بازار نے بہت بڑی مقدار میں غذائی اشیاء اور غلے کو سمندر میں پھنکوا دیا تاکہ اناج کی قیمت میں گراوٹ نہ آئے اور عالمی منڈیوں میں قیمتییں نیچے نہ جائیں۔ بنابریں اسراف، پیسے کے ضیاع کو روکنا اور عالمی اقتصادی نظام میں زیادہ روی اور اسراف سے مقابلہ اسلام کی نظر میں اتنا ہی اہم ہے۔ معلوم ہوا کہ آزاد معیشت اور نجی مالکیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی شخص جتنا چاہے خرچ کرے جبکہ اس کے اس اسراف سے بہت سے افراد بھکمری کا شکار ہیں، بہت سے لوگ بیماری میں مبتلا ہیں، بہت سے لوگ بنیادی ترین ضروتوں سے محروم ہیں۔ اسلام کی نظر میں یہ درست نہیں ہے اور اس سے سختی سے روکا گيا ہے۔ ٹاپ آزاد معیشت اور معاشرے کا سیاسی مستقبل اسلام میں ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں معاشرے کے سیاسی مستقبل کو متاثر کریں اور ساسی نظام میں مداخلت شروع کر دیں۔ اس وقت مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام والے ممالک میں جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ بڑے ملکوں کو حقیقی معنی میں بڑے سرمایہ دار ہی چلا رہے ہیں۔ ان کے کچھ عناصر حکومتی نظام کے اندر بھی موجود ہوتے ہیں جو تیل اور دیگر بڑی کمپنیوں کے بڑے شیئر ہولڈر ہوتے ہیں۔ اگر ان کے افراد حکومت میں نہ بھی ہوں تو وہ پردے کے پیچھے رہ کر انتخابات کو کنٹرول کرتے ہیں، صدر کا تعین کرتے ہیں۔ سیاسی میدان میں کسی شخص کی ترقی یا تنزلی سنیٹ یا ایوان نمایندگان میں کسی کا جانا یا باہر نکلنا ان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ جو قوانین وضع کئے جاتے ہیں انہی کے مرضی کے مطابق ہوتے ہیں، ان کے مفادات کے تناظر میں ہوتے ہیں۔ بنابریں مغربی دنیا کو سرمائے کی حکمرانی کی دنیا کہنا چاہئے۔ کیپیٹلزم کے معنی سرمایہ داری بتائے جاتے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ بہتر ترجمہ سرمائے کی محوریت اور سرمائے کی حکومت اور معاشرے کے امور پر کمپنیوں، دولتمندوں اور سرمایہ داروں کا کنٹرول ہے۔ یہ چیز اسلام کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔ جس عمل کا بھی یہ نتیجہ ہے ہو اس کا سد باب کیا جانا چاہئے۔ ٹاپ سرمایہ داری کی عصری اصطلاح سرمایہ داری یعنی عوام کے استحصال سے جمع کی جانے والی دولت کا استعمال، یعنی وہ سرمایہ جس کے ذریعے استحصال کیا جائے، وہ سرمایہ جس کا مالک کچھ نہ کرے بس بیٹھ کر اس کے ذریعے دوسروں کا استحصال کرے، دوسروں کو لوٹے، استحصال ظلم ہے اور ظلم حرام ہے۔ اس طرح کی سرمایہ داری کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے۔ آج دنیا میں سرمایہ داری کا یہی مفہوم ہے۔ اگر نجی ملکیت فساد و ظلم و تفریق و امتیاز کا باعث بن سکتی ہے تو سرکاری مالکیت بھی ایسی ہو سکتی ہے۔ جن ملکوں میں سرکاری مالکیت کا رواج ہے وہاں بھی بد عنوانی و ظلم و تفریق ہے لیکن ایک الگ شکل میں اور کچھ دوسرے طبقات کے درمیان۔ ٹاپ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی اقتصادی آزادی مغربی نظام حکومت میں جیسا کی دعوی کیا جاتا ہے آئین کی رو سے عوام اقتصادی سرگرمیوں کے لئے آزاد ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ آزادی سبھی لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ یہ عظیم ذخائر، یہ سمندر، یہ قدرتی ذخائر، یہ زرخیز میدان، یہ معدنیات، یہ سارے وسائل جنہیں معاشرے کی عمومی دولت کہا جاتا ہے۔ یہ چیزیں آسانی سے معاشرے کی ہر فرد کو دستیاب نہیں ہوتیں اور ہر طبقے کو بآسانی اس پر کام کرنے اور فائدہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ عملی طور پر تو یہ آزادی بس انہی لوگوں کو ہوتی ہے جن کے پاس دولت کا انبار لگا ہوا ہے۔ جن کے ہاتوں میں معاشرے کی اقتصادی شہ رگ ہی نہیں سیاسی باگڈور بھی ہوتی ہے۔ قدرتی ذخائر اور سرمائے پر در حقیقت انہی کا تسلط اور قبضہ ہوتا ہے، وہی اس سے منمانے انداز میں استفادہ کرتے ہیں۔ انہوں نے معاشرے کے عام لوگوں کے لئے ان وسائل کے استفادے کا راستہ محدود کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام ہے خواہ وہ دولتمند ممالک ہوں یا تیسری دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام والے غریب ممالک، ان میں عوام غربت و افلاس کی مار جھیل رہے ہیں۔ آبادی کا بیشتر حصہ تو غربت، بے روزگاری، محرومیت اور رہائش کی مشکلات سے دوچار ہے، بس ایک مخصوص طبقہ آزادنہ سرگرمیاں کر رہا ہے، دولت جمع کر رہا ہے، اس کے پاس کانیں موجود ہیں اور وہ مزید کانیں حاصل کرتا جا رہا ہے۔ کارخانے موجود ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر کی دولت سے استفادہ کر رہا ہے۔ در حقیقت تمام قدرتی ذخائر معاشرے کے اسی مخصوص طبقے کے پاس ہیں۔ بقیہ طبقات جن میں نوکری پیشہ افراد، مزدوروں کا طبقہ، کان کنوں کا طبقہ، کارخانوں میں کام کرنے والے افراد اور زراعتی کاموں میں مصروف افراد شامل ہیں، سب کے حصے میں بس وہی چیزیں آتی ہیں جو اس مخصوص طبقے سے بچ گئی ہیں اور جن کی اسے ضرورت نہیں ہے۔ ان لوگوں کو پیداواری سرگرمیاں انجام دینے، ذخائر سے استفادہ کرنے، امکانات سے بہرہ مند ہونے اور حقیقی معنی میں دولت کمانے اور اکٹھا کرنے کا موقع نہیں ملتا، انہیں اس کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ٹاپ سوشیلسٹ ممالک کی معیشت سوشیلزم اور مارکسسٹ نظرئے پر استوار دیگر مکاتب فکر میں نجی مالکیت کے لئے کچھ حدیں رکھی گئی ہیں لیکن یہ حدیں اسلامی حدود سے مختلف ہیں۔ ان مکاتب فکر میں پیداوار کے ذرائع کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتے۔ یعنی کوئی بھی فرد زمین، کارخانے اور اس جیسی چیزوں کا مالک نہیں بن سکتا جو پیداوار کی ذریعہ ہیں۔ مارکسسٹ نظرئے اور سوشیلسٹ معیشت میں خرید و فروخت، بیع و شراء اور سودا ایک مذموم فعل ہے، ایک غیر اخلاقی عمل تصور کیا جاتا ہے۔ ان مکاتب فکر کے مطابق، جس شخص کے پاس سرمایہ ہے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، خرید و فروخت ممنوع ہے۔ مارکسسٹ نظرئے کی رو سے خرید و فروخت اور سودا مذموم دلالی اور نا پسندیدہ فعل ہے۔ سوشیلسٹ ممالک اور ایسے معاشروں میں جہاں حکومت تمام کارخانوں، زمینوں اور پیداواری ذرائع کی مالک ہوتی ہے اور عوام اس کے ملازم، عوام سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر معاشرے میں جنگ، زلزلہ، بیماری یا اسی طرح کی کوئی اور افتاد آن پڑے تو حکومت کے یہ ملازمین کیا کریں گے؟ ان کے پاس اپنے جسم و جان کے علاوہ دینے کے لئے کیا ہوگا؟ ٹاپ