بسم اللہ الرحمن الرحیم
دین کی بنیاد توحید پر ہے۔ جب توحید ہی محفوظ نہیں تو دین کیسے رہ سکتا ہے۔ یہی توحید ہے جو امت کو ایک نقطے پر مجتمع کرتی ہے۔ یہاں رنگ و نسل، قوم و ملت اور وہ تمام چیزیں جو تقسیم کرنے والی ہوتی ہیں، ختم ہو جاتی ہیں۔ یقینا ہم روزانہ انّ اکرمکم عند اللہ اتقاکم کا پیغام عملی زندگي میں اس وقت دیکھتے ہیں جب ایک غریب اور وہ شخص جس کا خاندانی پس منظر کمزور ہوتا ہے لیکن علم و معرفت و آگہی اور تقوے کے سبب امامت کرتا ہے اور بادشاہ اور حکمراں اس کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ جی ہاں! یہ انسان سجدے میں سر نہیں جھکاتا ہے بلکہ دلوں میں، ذہنوں میں اور معاشرے میں جو بت ہیں انھیں توڑ دیتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب عملی تبلیغ کی تو اس وقت بھی وہ معاشرے کے بت ہی توڑ رہے تھے، فتح مکہ تک بت ہی توڑے گئے ہیں۔ حج کے موقع پر دنیا بھر کے لوگوں کو ایک مرکز پر جمع کر کے بتا دیا کہ ذات خدا ہی امت کی وحدت کا سبب ہے، شہر خدا بھی اور بیت خدا بھی۔ لیکن افسوس کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کچھ لوگ ابھی بھی اس کی روحانیت اور معنویت کو نہیں سمجھ سکے ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے واضح الفاظ میں کہا کہ حج مشرکین سے برائت کا نام ہے اور اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوگا۔ آیت اللہ خامنہ ای بھی اسی روش پر یعنی قرآن و حدیث، سیرت اہلبیت علیہم السلام اور مؤسس انقلاب اسلامی ایران کی روش پر چلتے ہوئے یہی پیغام دے رہے ہیں۔
محض ظاہری شیطان کو کنکریاں مارنے کا نام دین نہیں ہے۔ حج کے موقع پر مسلسل تین دن شیطان کو کنکریاں مارنے کا حکم دے کر خدا بتا رہا ہے کہ اگر تم معاشرے میں، اطراف میں، باہر شیطان کو کنکریاں مار رہے تو اپنے نفس کے شیطان کو بھی کنکریاں مارو۔ کنکریاں یہی ہیں، شیطان کے اثر و نفوذ سے باہر نکلو، ہر طرح کی برائيوں سے خدا کی طرف ہجرت کرو، یعنی دل بھی صاف ہو، ذہن بھی صاف ہو، پتہ نہیں کیسے ہم لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ اگر لباس صاف ہوگا تو ہماری بات صاف ہو جائے گي، گھر صاف ہوگا تو ہم سے متعلق چیزیں صاف ہو جائيں گي، شہر کو صاف ستھرا رکھیں تو ایک ترقی یافتہ قوم کہلائيں گے لیکن کتنی گھٹن ہے اس معاشرے میں کیونکہ دلوں میں نفرت بھی ہے، حسد بھی ہے، بغض بھی ہے تو آئيے ان تمام چیزوں کا خاتمہ کریں۔ حج، ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ شیطان کے اثر سے نکلنا ہے، دوسرے الفاظ میں شیطان کی ولایت سے نکل کر رحمن کی ولایت کی طرف جانا ہے۔ یہ حج کا پیغام ہے کہ نفس اور شہوت کے غلبے سے نکل کر عقل کی اطاعت کرنی ہے۔ جسے بہترین الفاظ میں مولائے کائنات نے بیان کیا ہے کہ العقل ما عبد الرحمن واکتسب بہ الجنان۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حکمت ہر کسی کو عطا نہیں ہوتی۔ قرآن مجید کی آیت ہے کہ من یؤتی الحکمۃ فقد اُوتِی خیراً کثیراً یعنی جسے حکمت د ے دی گئی، اسے خیر کثیر دے دیا گيا۔ اسی حکمت اور بصیرت کا نام دین ہے اور یہ چیز حج میں دکھائی دیتی ہے۔ قرآن مجید نے اسی لیے کہا ہے کہ تم "مَنافِع" کو دیکھو۔ سب ایک نقطے پر جمع ہوں اور منافع کو دیکھیں اور امت کے منافع کا خیال رکھیں۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور رہبر معظم نے بارہا زور دے کر کہا ہے کہ امت مسلمہ کے مفادات، مسلمانوں کے اتحاد سے ہی حاصل ہوں گے اور حج، امت کے اتحاد کا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔