پہلا باب: اسلام میں انسانی حقوق

اسلام میں انسانی حقوق کا معیار
اسلامی نظام میں انسانی حقوق کی بنیاد
اسلام، انسانی حقوق کا ضامن

اسلامی انسانی حقوق میں عورت کا مقام

   اسلام میں عورتوں کے سیاسی حقوق
   معاشرے میں عورت کا کردار
   خاندان میں عورت پر ظلم
   عورتوں کا بنیادی مسئلہ
   عورت اور مرد کے حقوق کا توازن

سامراج کی جانب سے انسانی حقوق کے بہانے، اسلام کی مخالفت
تشدد اور عدم تشدد

دوسرا باب: مغرب میں انسانی حقوق

انسانی حقوق کے سلسلے میں مغرب کی سیاہ کارکردگی
انسانی حقوق کے نام پر مفادات کا حصول
مغرب میں عورت کا مقام و مرتبہ
امریکی معاشرے کے اقدار
انسانی حقوق کی حمایت کا جھوٹا دعوی
یورپ اور انسانی حقوق کی پامالی
برطانوی انسانی حقوق

تیسرا باب: ایران اور انسانی حقوق

اسلامی جمہوری نظام میں انسانی حقوق:

اسلامی نظام میں پرنٹ میڈیا کی آزادی:

   جمہوری نظام میں عوام کو آگاہ رکھنے کی اہمیت:
   ایران کے اسلامی جمہوری نظام میں پرنٹ میڈیا کا مقام:
   سرمایہ دارانہ نظاموں کے پرنٹ میڈیا کی آزادی:
   اخبارات و جرائد کی کثرت کی شرط:
   اسلامی نظام میں اخبارات و جرائد کا اولیں فریضہ:
   اخبارات و جرائد کی نگرانی کی ضرورت:

انسانی حقوق کے معاملے میں سیاسی پسپائی سے اجتناب:
ایران اور مغرب میں انسانی حقوق کی دو طرفہ نگرانی:

انسانی حقوق

پہلا باب: اسلام میں انسانی حقوق

اسلام میں انسانی حقوق کا معیار

مکتب اسلام یعنی انسانیت اور انسانی اقدار کی حمایت کا مکتب، مروت و ہمدردی کی ترویج کا مکتب، اخوت و بھائی چارے کی حمایت کا مکتب، یہ وہ مکتب ہے جوسماجی حقوق کا معیار ہے: لن تقدس امۃ لا تؤخذ للضعیف فیھا حقہ من القوی غیر متمتع صورت حال یہ ہو کہ معاشرے میں کوئی ایسا شخص جس کے ہاتھ دولت اور پیسے سے خالی ہوں وہ بھی طاقتور سے اپنا حق بغیر کسی دقت کے حاصل کر لے۔ یہ اسلام کا پیغام ہے۔ یہ حقیقی اسلامی معاشرہ ہے۔ آج یہی پیغام قوموں کو گرویدہ بنا رہا ہے۔ دنیا کے کس گوشے میں یہ اصول نافذ ہے؟ کون سی جمہوریت، کون سا لبرلزم اور کون سے انسانی حقوق ہیں جن کے بارے میں بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، جو اس چیز کو پیش کر سکتے ہوں اور اس منزل کی سمت حرکت کر رہے ہوں؟ آج اس کے بالکل بر عکس عمل کیا جا رہا ہے۔

ٹاپ

اسلامی نظام میں انسانی حقوق کی بنیاد

اسلامی جمہوری نظام نے دنیا کے سامنے جو نظریہ پیش کیا وہ بالکل نیا اور پوری طرح دین سے ماخوذ ہے۔ مادی تجزیوں اور نظریات میں یہ بات عام ہو گئی تھی کہ جدیدیت کو دینی افکار اور معنوی سوچ سے الگ رکھا جائے بلکہ ان کو ایک دوسرے کا متضاد سمجھا جائے۔ دین و مذہب اور روحانیت و معنویت سے متعلق باتوں کو خواہ وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی رجعت پسندی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ جس چیز کو بھی ماڈرن اور جدید قرار دیا جاتا اس کے بارے میں یہی تاثر ابھرتا تھا کہ یقینی طور پر یہ غیر مذہبی اور غیر روحانی چیز ہے۔ دین کے سلسلے میں یہ غلط تصور عام تھا۔

آج اس کے بالکل بر عکس اسلامی جمہوریہ نے جو سماجی انصاف پیش کیا ہے اور اسلامی روش کے تحت انسانی حقوق کا جو نظریہ متعارف کرایا ہے وہ جمہوری دنیا میں پیش کئے جانے والے نظریات سے بدرجہا بہتر و بلندتر ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا سماجی انصاف نام نہاد سوشیلسٹ دنیا سے کہیں زیادہ جدید اور ماڈرن ہے۔ ایران میں انسانی حقوق اور آزادی نام نہاد جمہوری دنیا سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور دنیا اس کی معترف بھی ہے۔

ٹاپ

اسلام، انسانی حقوق کا ضامن

عالم اسلام کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے سلسلے میں مغرب کے غلط آئیدیل کی ضرورت نہیں ہے جس کی بارہا خلاف ورزی بھی کی جا چکی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا مقام بہت نمایاں ہے۔

اسلام، انسانی حقوق و حرمت کا پاسباں، اخلاقیات و صفات حسنہ کا ضامن اور امن و سکون کا علمبردار ہے۔ بد ترین دروغگوئی اور پست پرین الزام تراشی کے مرتکب تو وہ افراد ہو رہے ہیں جو اسلام کو انسانی حقوق، تہذیب و تمدن اور امن و سلامتی کا مخالف قرار دیتے ہیں اور اسے مسلم اقوام پر اپنی ظالمانہ جارحیت و توسیع پسندی کا جواز بنا کر پیش کرتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر کے نام اپنے معروف (نہج البلاغۃ، 331 ویں) خط میں ہدایات دیتے ہیں کہ عوام کے ساتھ ایسا برتاؤ کرو، ایسا سلوک کرو، وحشی بھیڑیئے کی مانند ان پر ٹوٹ نہ پڑو۔ اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں: فانھم صنفان عوام دو طرح کے ہیں۔ اما اخ لک فی الدین و اما نظیر لک فی الخلق یا تمہارے دینی بھائی ہیں یا انسانیت میں تمہارے شریک ہیں، یعنی تمہاری طرح انسان ہیں۔ بنابریں مظلوم کے دفاع اور انسان کو اس کا حق دلانے کے سلسلے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے نزدیک اسلام کی شرط نہیں ہے۔ ( آپ کی نظر میں) مسلم اور غیر مسلم دونوں اس سلسلے میں مساوی ہیں۔ ذرا غور تو کیجئے کہ یہ کتنی بلند فکر ہے اور کتنا عظیم پرچم ہے جو تاریخ میں حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے پیش کیا ہے۔ اس وقت کچھ لوگ دنیا میں انسانی حقوق کی رٹ تو لگاتے ہیں، لیکن یہ سراسر جھوٹ اور دکھاوا ہوتا ہے۔ کہیں بھی، حتی خود ان کے ملکوں میں بھی انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا، پوری دنیا کی تو بات ہی الگ ہے! حقیقی معنی میں انسانی حقوق کو اس طرح حضرت علی علیہ السلام نے متعارف کرایا اور اس پر عمل کیا۔

اسلام تو مجرمین کے حقوق کا بھی خیال رکھے جانے کا قائل ہے۔ کسی کو بھی اس شخص سے بد کلامی کی اجازت نہیں جسے پھانسی دی جانے والی ہے۔ کیونکہ یہ زیادتی ہوگی، گالی دینا ظلم شمار ہوگا، گالی دینا اس کی حق تلفی ہوگی لہذا اس (گالی دینے والے) کو روکا جانا چاہئے۔ یہ ہے سزائے موت کے مجرمین کے ساتھ سلوک کا انداز تو پھر جیل کی سزا پانے والے اور اس شخص کی بات ہی الگ ہے جس پر عائد الزام ابھی ثابت نہیں ہوا ہے یا وہ شخص جس کے خلاف تہمت کی حقیقت ابھی واضح اور ثابت نہیں ہوئی ہے، صرف اس کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق اور لوگوں کے لئے اللہ تعالی کی جانب سے معین کردہ حق کا ہر ایک کے سلسلے میں پاس و لحاظ کیا جانا چاہئے۔

ٹاپ

اسلامی انسانی حقوق میں عورت کا مقام

اسلام میں عورتوں کے سیاسی حقوق

اسلام میں خواتین کی بیعت، خواتین کی مالکیت، سیاسی و سماجی میدانوں میں عورتوں کا کردار ایک مسلمہ چیز ہے۔ اذا جائک المؤمنات یبایعنک علی ان لا یشرکن باللہ عورتیں آکر پیغمبر اسلام کی بیعت کرتی تھیں۔ پیغمبر اسلام نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ مرد آکر بیعت کریں اور پھر مردوں کی رائے اور فیصلے کے مطابق عورتیں بھی عمل کریں۔ عورتوں کو بھی اس حاکمیت کو قبول کرنے اور اس سیاسی و سماجی نظام کو تسلیم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ مغرب والے اس لحاظ سے اسلام سے تیرہ سو سال پیچھے ہیں۔

ٹاپ

معاشرے میں عورت کا کردار

اگر ملک میں خواتین کے طبقے کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ان معارف اور حقائق سے روشناس کرا دیا جائے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے تو ملک کی ترقی و پیشرفت میں کئی گنا کا اضافہ ہو جائے گا۔ جس میدان میں بھی عورتیں ذمہ داری اور فرائض کے ساتھ وارد ہوں گی، اس میں ترقی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ مختلف میدانوں میں خواتین کی موجودگی کی خصوصیت یہ ہے کہ جب گھر کی عورت کسی میدان میں قدم رکھتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے شوہر اور بچے بھی اس میدان میں اتر گئے ہیں۔ مرد کا وارد ہونا اس چیز کا ضامن نہیں ہے لیکن عورت کی موجودگی اس کی ضامن ہے۔

ٹاپ

خاندان میں عورت پر ظلم

اگر عورتوں کو علم و دانش کے حصول کا پورا موقع نہ دیا گیا تو یہ ان پر ظلم ہے۔ اگر بہت زیادہ مصروفیات اور کاموں کی بنا پر عورت اپنے اخلاق، اپنے دین اور معرفت کی فکر نہ کر سکے تو یہ اس کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اگر عورت کو اس کی نجی ملکیت سے اس کے ارادے کے مطابق آزادانہ استفادے کا موقع نہ دیا جائے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ شادی کے وقت اگر عورت پر شوہر کو مسلط کر دیا جائے یعنی شوہر کے انتخاب میں اس کا کوئی کردار نہ ہو اور اس کا ارادہ و خواہش اس میں دخیل نہ ہو تو یہ سراسر ظلم ہے۔ ازدواجی زندگی کے دوران یا شوہر سے الگ ہو جانے کے بعد اگر عورت کو بچوں کے سلسلے میں اس کے جذبات کی تسکین کا موقع نہ دیا جائے تو یہ ظلم ہے۔ اگر عورت کے اندر صلاحیتیں ہیں، مثلا علمی صلاحیت، تحقیق و ایجادات کی صلاحیت، سیاسی توانائی، سماجی کاموں کی صلاحیت اور اسے اس استعداد سے استفادے اور اس صلاحیت کو نکھارنے کا موقع نہ دیا جائے تو یہ اس پر ظلم ہے۔

ٹاپ

عورتوں کا بنیادی مسئلہ

عورتوں کا بنیادی مسئلہ و معاملہ یہ نہیں ہے کہ انہیں روزگار ملا ہے یا نہیں۔ عورت کی بنیادی ضرورت، وہ جو بد قسمتی سے آج مغرب میں نظر انداز کر دی گئی ہے، سلامتی ہے۔ اسے احساس تحفظ کی ضرورت ہے، احساس طمانیت کی ضرورت ہے، صلاحیتوں کو نمایاں کرنے کے امکانات فراہم کئے جانے کی ضرورت ہے، معاشرے، ماں باپ کے گھر اور شوہر کے گھر میں ظلم اور نا انصافی سے محفوظ رکھے جانے کی ضرورت ہے۔

ٹاپ

عورت اور مرد کے حقوق کا توازن

اسلام انسانیت کے تکامل کی حمایت کرتے ہے۔ اس زاوئے سے اسلام کی نظر میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ عورت اور مرد اسانیت کے وجود کے دو پہلو ہیں۔ انسانی اور روحانی پہلو سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ عورتوں کے حقوق کے دفاع سے اسلام کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں پر ظلم نہ ہو اور مرد خود کو عورتوں کا حاکم تصور نہ کریں۔ خاندانی زندگی میں کچھ حدیں اور حقوق ہوتے ہیں۔ مرد کے بھی حقوق ہیں تو عورت کے بھی کچھ حقوق ہیں اور یہ حقوق بڑے منصفانہ اور متوازن انداز میں بیان اور معین کئے گئے ہیں۔ اسلام میں انسانی اخلاق کو اہمیت دی گئی ہے، صلاحیتوں کو اہمیت دی گئی ہے۔ بنی آدم کی ہر فرد کے لئے کچھ فرائض رکھے گئے ہیں۔ بنابریں مزاج کو پہچاننا ضروری ہے۔ اسلام مرد اور عورت کے مزاج پر پوری توجہ دیتا ہے۔ اسلام نے توازن پر زور دیا ہے۔ یعنی انسانوں منجملہ مرد اور عورت کے درمیان عدل و انصاف کے تقاضوں کا پاس و لحاظ کرنا۔ اسلام میں مساوی حقوق کی بات کی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ بعض مقام پر عورتوں اور مردوں کے احکام الگ الگ ہوں کیونکہ بعض چیزوں کے لحاظ سے عورت اور مرد کا مزاج مختلف ہوتا ہے۔ بنابریں عورت اور مرد کے سلسلے میں مزاج اور خصلتوں کی بیشترین معلومات اور حقائق اسلامی تعلیمات میں موجود ہیں۔

ٹاپ

سامراج کی جانب سے انسانی حقوق کے بہانے، اسلام کی مخالفت

عالمی دشمنوں یعنی امریکا کی سرکردگی میں سامراج اور دیگر چھوٹے بڑے دشمنوں کی جانب سے دنیا کے ہر گوشے میں ایران کی مخالفت کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے خلاف محاذ کھولنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کے مخالف ہیں کیونکہ اسلام کو غارتگروں کی راہ میں حائل پاتے ہیں اس لئے اسلام کے مخالف ہیں۔ ملکوں کی ثروت لوٹنے والے آوارہ کتوں کو اسلام سے پڑنے والی دتکار دیکھتے ہیں تو اسلام کی مخالفت کرنے لگتے ہیں اور اسے انسانی حقوق کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اسلام لوگوں کے نظروں سے اتر جائے۔ جبکہ اسلام تو انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔ انسانی حقوق کسے کہتے ہیں؟ کیا وہ فلسطینی جو اس سردی کے موسم میں خبیث صیہونیوں کے ہاتھوں آوارہ وطن کر دئے گئے، انسان نہیں ہیں؟! کیا ان کے کچھ حقوق نہیں ہیں؟ ان کے سلسلے میں انسانی حقوق کا اصول لاگو نہیں ہوتا۔ انسانی حقوق کے جس منشور کا یہ صاحبان بڑا دم بھرتے ہیں کیا اس کی اہم ترین شق یہ نہیں ہے کہ ہر انسان اپنے گھر کے انتخاب کے سلسلے میں آزاد ہے اور اپنی رہائش کے انتخاب کا حق رکھتا ہے؟ تو کیوں ان (فلسطینیوں) کے گھر میں درانہ گھس گئے اور انہیں ان ہی گھر سے نکال باہر کیا؟! کیا فلسطین، فلسطینیوں کا گھر نہیں؟ اسی کو انسانی حقوق کہتے ہیں؟ فلسطینی، انسان نہیں ہیں؟ آج کون ہے جو انسانی حقوق کے دعویداروں کے ان جھوٹے اور شیطانی حربوں سے واقف نہ ہو؟

ٹاپ

تشدد اور عدم تشدد

عدم تشدد اور تشدد یوں تو ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ کہیں تشدد سے کام لینا پڑتا ہے اور کہیں عدم تشدد کو اپنایا جاتا ہے۔ بعض افراد جو عالمی سطح پر عدم تشدد اور انسانی حقوق کے دعوے کرتے ہیں وہی بد ترین تشدد اور انسانوں کے قتل عام کے مرتکب ہوتے ہیں اور بعد میں عدم تشدد کی اور نرم ولطیف برتاؤ کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ تشدد اور عدم تشدد کے بارے میں بہت تصنع اور ریاکاری سے کام لیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر سخت برتاؤ کرنا پڑتا ہے اور کچھ چیزوں کو نظر انداز اور ان سے چشم پوشی کرنا ممکن اور مناسب نہیں ہوتا۔ لیکن کچھ مقامات پر نرمی اور احترام سے پیش آنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ دونوں ہی چیزیں موجود ہونا چاہئیں۔

ٹاپ

دوسرا باب: مغرب میں انسانی حقوق

انسانی حقوق کے سلسلے میں مغرب کی سیاہ کارکردگی

انسانی حقوق کی سیاہ کارکردگی والے مغربی ممالک آج عالم اسلام کو انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کا درس دینے کی کوشش کر رہے ہیں، امن و آشتی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ جن لوگوں نے بیس سال کے اندر دو عالمی جنگیں برپا کر دیں اور دسیوں لاکھ انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ جن لوگوں نے ایٹم بم بنایا اور اس سے ہزاروں انسانوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا، جن لوگوں نے افریقا میں، لاطینی امریکا میں اور ایشیا میں بے شمار جرائم کئے، انسانوں کا قتل عام کیا، جن کے جرائم کو ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا، ہندوستان میں کوئی بھی فرنگیوں کو فراموش نہیں کرے گا اور نہ الجزائر میں کوئی فرانسیسیوں کو بھلا سکے گا۔ کیمیاوی ہتھیار بنانے والے، انہیں استعمال کرنے والے اور ان ہتھیاروں سے صدام کو مسلح کرنے والے آج دنیا میں کیمیاوی ہتھیاروں کو کنٹرول کرنے والے داروغا کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں! یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے سب سے بڑے اسمگلر کو اسمگلنگ روکنے کا کام سونپ دیا جائے۔!

ٹاپ

انسانی حقوق کے نام پر مفادات کا حصول

صیہونزم اور امریکا بلکہ در حقیقت دنیا کے لٹیرے سرمایہ داروں سے وابستہ تشہیراتی ادارے پوری عالمی برادری کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ گویا جمہوریت کے بڑے طرفدار ہیں جبکہ سراسر جھوٹ بولتے ہیں۔ خود کو انسانی حقوق کا طرفدار ظاہر کرتے ہیں جبکہ یہ سراسر غلط بیانی ہے۔ یہ سفید جھوٹ ہے۔ یہ کمپنیاں، یہ ٹرسٹ جس چیز کی ذرہ برابر فکر نہیں کرتے اور جس چیز کا ان کی نظر میں کوئی احترام نہیں ہے وہ قوموں کے حقوق ہیں، وہ انسانی حقوق ہیں۔

ٹاپ

مغرب میں عورت کا مقام و مرتبہ

یورپ اور مغربی ممالک میں کچھ عرصہ قبل تک عورتیں مالی لحاظ سے خود کفیل نہیں ہوتی تھیں۔ بیسویں صدی کے اوائل تک، تمام تر دعوؤں کے باوجود، مغرب میں روز بروز عجیب و غریب انداز سے بڑھنے والی بے پردگی کے باوجود، اس بے لگام جنسی آزادی کے باوجود، جسے وہ عورت کے احترام کا معیار قرار دیتے ہیں، مغرب میں عورتوں کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنی ذاتی دولت کا آزادانہ استعمال کریں۔! شوہر کے سامنے اس کے اپنے مال پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا۔ یعنی جو عورت شادی کر لیتی تھی اس کا سارا مال و اسباب اس کے شوہر کا ہو جاتا تھا۔ اس کو اپنا یہ مال خرچ کرنے کا بھی حق نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بیسویں صدی کے اوائل سے عورتوں کو مالکانہ حقوق ملنے شروع ہوئے۔ حالانکہ یہ چیز انسانی حقوق کی بالکل بنیادی چیزوں میں ہے۔ مغربی دنیا کو چاہئے کہ ہمیں اس بات کا جواب دے کہ اس نے گزشتہ ادوار میں عورتوں کی اتنی توہین کیوں کی۔

ٹاپ

امریکی معاشرے کے اقدار

آپ کیا سمجھتے ہیں، امریکی اقدار کیا ہیں؟ امریکی کچھ اصولوں کو امریکی اصول کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عالمی اصول ہیں۔ ان اصولوں میں انسانوں کی آزادی، فکر و نظر کی آزادی، انسانی وقار، انسانی حقوق وغیرہ جیسی چیزیں ہیں۔ کیا واقعی یہ امریکی اصول ہیں؟! کیا امریکی معاشرے کے یہی اوصاف ہیں؟! کیا آج امریکی حکومت کی یہی شناخت ہے جو آپ نے ذکر فرمائی ہے؟! کیا یہی حکومت نہیں تھی جس نے امریکی سرزمین کے اصلی باشندوں کا قتل عام کیا؟! جس نے امریکی ریڈ انڈینس کو نابود کر دیا؟ کیا اسی حکومت کے با اثر عناصر نہیں تھے جنہوں نے دسیوں لاکھ افریقیوں کو انہی کی سرزمین میں غلامی کی زنجیر پہنا دی۔ ان کے جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اغوا کر لیا اور ان کے ساتھ برسہا برس تک ظالمانہ برتاؤ کیا؟ uncle Tom`s cabin یا چچا ٹام کی کیبن نامی ناول شاید دنیا کی نہایت غم انگیز داستان ہے جس میں امریکا میں غلاموں کی زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ دو سو سال کے بعد بھی یہ ناول موجود ہے۔ امریکا اور امریکی حکومت کی اصلی تصویر یہ ہے۔ امریکی نظام کی اصلی تصویر اور پہچان یہی ہے، آزادی اور انسانوں کی برابری نہیں۔ کیسی برابری؟! آپ آج بھی سیاہ اور سفید فاموں کے درمیان مساوات کے قائل نہیں ہیں۔ آج بھی آپ کی نظر میں کسی محکمے کے لئے کسی شخص کے انتخاب میں اس کے ماں باپ میں سے کسی ایک کا بھی ریڈ انڈین ہونا اس کے لئے منفی پہلو سمجھا جاتا ہے۔ دعوی کرتے ہیں کہ امریکی اصولوں کی گیرائی عالمی ہے۔ آپ کون ہوتے ہیں انسانیت کے لئے ہمہ گیر اصول وضع کرنے والے؟! یہ کون سی منطق ہے کہ جو ہمارا اصول ہے وہی عالمی اصول ہے۔ اگر دنیا میں کوئی اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دے تو اسے جاکر ایٹم بم سے نابود کر دیا جائے؟! یہ کسی حریت پسند قوم کا طرز فکر ہے؟! کیا واقعی یہ اس حکومت کا طرز فکر ہو سکتا ہے جو حقیقی معنی میں انسانی وقار کی قائل ہے؟! آپ اس طرح انسانی معاشرے سے جھوٹ بولتے ہیں؟!

ٹاپ

انسانی حقوق کی حمایت کا جھوٹا دعوی

کس کو نہیں معلوم ہے کہ وائٹ ہاؤس کے حکام کے انسانی حقوق اور جمہوریت کی حمایت کے دعوے فریب اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں ہیں؟

ان برسوں میں قتل عام کی بد ترین مثالیں پیش کرنے والی امریکی حکومت، جس نے ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کی خود مختار حکومتوں کے خلاف سازشیں کیں، جس نے بغاوت کرنے والی اور عوام پر مسلط کر دی جانے والی رجعت پسند حکومتوں کی بھرپور حمایت کی، جس نے دنیا بھر میں مہلک ترین ہتھیاروں کی سپلائی کی، جس نے خطرناک ترین دہشت گردوں کو خود میدان میں بھیجا یا اپنی آغوش میں پالا، جس نے بے شمار عام شہریوں کو خاک و خوں میں غلطاں کیا، جس نے دنیا کی سب سے مظلوم قوم یعنی فلسطینیوں کو ان کے بنیادی ترین حقوق سے محروم کر دیا، جس نے درندہ صفت صیہونی حکومت کی سب سے زیادہ مدد کی، جس نے جابر و بد عنوان پہلوی حکومت کو دسیوں سال باقی رکھا اور ملت ایران کے ساتھ اقتصادی، دفاعی اور سیاسی شعبوں میں بد ترین نا انصافی اور خیانت کی، آج وہی، ایران کے آزاد و خود مختار اور عوامی نظام پر دہشت گردوں کی حمایت، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ہتھیاروں کی پیداوار اور تجارت کا الزام لگاتی ہے۔

امریکی حکومت نے انیس سو پینتالیس سے اب تک چالیس خود مختار حکومتوں کو گرانے میں کردار ادا کیا جو امریکی حکومت کی تابع و فرمانبردار نہیں تھیں اور اس نے بیس سے زائد مواقع پر فوجی مداخلت کی! بلا شبہ ان مداختلوں کے دوران بڑے پیمانے پر قتل عام ہوئے اور بڑے المئے رونما ہوئے۔ البتہ بعض مواقع پر اسے کامیابی ملی اور بعض مواقع پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ منجملہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے وقت جاپان پر ایٹمی بمباری ہے۔ ویتنام کی خونیں جنگیں، وہ بھیانک لڑائياں، وہ ناقابل فراموش المئے جو آخرکار امریکا کی شکست پر ختم ہوئے۔ چلی کی مثال لے لیجئے، خود ایران کی مثال لے لیجئے کہ اٹھائیس مرداد مطابق انیس اگست کو امریکی نمائندہ ایران آتا ہے اور منصوبہ بندی میں جٹ جاتا ہے، یہ سب خود انہی کی جانب سے بعد میں منظر عام پر لایا گيا اور آج یہ اطلاعات سب کی دسترسی میں ہیں۔ اسی طرح دوسری جگہوں پر بھی ہوا۔ یہ سب کارستانیاں تھی بڑی اقتصادی کمپنیوں کی، امریکا کے بڑے سرمایہ داروں کی، جاہ طلب جماعتوں کی، با اثر صیہنی عناصر کی اور فکری و اخلاقی لحاظ سے بیمار ان شخصیات کی جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے۔ یہ بڑے سنگین جرائم کا ریکارڈ ہے، یہ بڑا شرمناک ماضی ہے۔ یہ معمولی چیزیں نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے لئے انسانی جانوں کا ضیاع، ذخائر کی نابودی اور انصاف کی خلاف ورزی اور کسی انسانی المئے کا رونما ہو جانا کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ چیزیں ان کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنتیں۔ البتہ تصنع اور ریاکاری کے لئے ان کے پاس وسیع تشہیراتی وسائل اور ذرائع ابلاغ عامہ بھی موجود ہیں جسے بلندتر آواز کہنا مناسبت ہوگا۔ وہ اپنی اس بلند تر آواز کے ذریعے دنیا کی فضا کو ایسی شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کے ہاتھوں رونما ہونے والے المئے کی پردہ پوشی ہو جائے، انہیں امن و جمہوریت اور انسانی حقوق کے حامی کے طور پر پہچانا جائے۔

سینئر بش کے دور صدارت میں سیاہ فاموں پر جو آشکارا مظاہم ہوئے ان کےنتیجے میں امریکا کی بعض ریاستوں میں بڑے پیمانے پر بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ پولیس ان پر قابو نہ پا سکی تو فوج کو تعینات کیا گيا۔ اس کے بعد والے صدر کے زمانے میں مسیحی مذہب کی ایک شاخ داؤدیہ یا ڈیوڈین فرقے کے اسی افراد کو، جو حکومت کی پالیسیوں کے مخالف تھے اور ایک عمارت میں جمع تھے اور پولیس کے الٹی میٹم پر بھی باہر نہیں نکل رہے تھے، عورتوں اور بچوں کی آنکھوں کے سامنے آگ میں زندہ جلا دیا گيا اور ان کی ابرو پر بل تک نہیں پڑے! انسانی حقوق کی پاسداری کا ان کا یہ انداز ہے! جونیئر بش کے دور صدارت میں شمالی افغانستان میں، جب وہ افغانستان پر قبضہ کر رہے تھے، لوگوں پر جو بم برسائے گئے، شہروں میں جو دردناک المئے برپا کئے وہ سب اپنی جگہ، ایک جیل میں قید بہت سے قیدیوں پر گولیاں برسا کر ان کا قتل عام کر دیا گیا۔ یہ خبر پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی بھی لیکن صحافتی ڈکٹیٹروں نے ان خبروں کو زیادہ دیر تک منظر عام پر رہنے نہیں دیا، فورا اس کے بارے میں گفتگو بند کر دی کہ کہیں لوگوں کہ ذہن نشین نہ ہو جائے۔ امریکا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور دنیا بھر میں امریکیوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات بے شمار ہیں لیکن وہ الٹے دنیا کے عوام، ملت ایران، حکومت ایران اور اسلامی نظام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزام عائد کرتے ہیں! انسانی حقوق کا پرچم ان افراد نے بلند کیا ہوا ہے جو در حقیقت سب سے زیادہ انسانی حقوق کو پامال کر رہے ہیں۔

ٹاپ

یورپ اور انسانی حقوق کی پامالی

گزشتہ صدی کے دوران یورپی ممالک نے سب سے بڑھ کر انسانی حقوق کو پامال کیا ہے۔ اگر کوئی سو سال سے قبل کی تاریخ کا جائزہ لے تو وہاں بھی یہی صورت حال نظر آئے گی۔ ان سو سالوں میں ان یورپی حضرات نے دو خانماں سوز عالمی جنگیں برپا کیں۔ یہ دونوں عالمی جنگیں دسیوں سال قبل ہوئی تھیں، خود موجودہ دور میں بھی کن لوگوں نے عراق میں کیمیاوی اسلحے کا کارخانہ تیار کیا جس سے اتنا بھیانک المیہ رونما ہوا؟ انہی یورپی ملکوں نے۔ کس نے عراق میں ایٹم بم بنانے کے لئے ایٹمی تنصیبات کی تعمیر کی جس سے پورے خطے کے لئے خطرات پیدا ہو گئے تھے؟ انہی یورپی ملکوں نے۔ کون اسرائیل کے جرائم کے لئے زمین ہموار کر رہا ہے جس کی بنا پر وہ آئے دن نئے نئے جرائم انجام دے رہا ہے؟ یہی مغربی ممالک۔

ٹاپ

برطانوی انسانی حقوق

انگریزوں نے خود کو پوری دنیا میں رواداری اور درگذر کے لئے مشہور کر رکھا ہے۔ ویسے لوگوں نے اس تسامح اور درگذر کا مشاہدہ عراق میں کر لیا ہے! اسلحے کے ساتھ لوگوں کے گھروں میں گھسنا، پرسکون زندگی کو جہنم بنا دینا، کمسن بچوں کو دہشت زدہ کر دینا، بغداد اور موصل میں اسی طرح دیگر جگہوں پر جن کی خبریں ہمیں موصول نہیں ہوئیں، عوامی مظاہروں پر گولیاں برسانا، یہی جمہوریت، انسان دوستی، ڈیموکریسی اور انسانی حقوق کی پاسداری ہے؟! یہ عبرت کا مقام ہے۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ٹاپ

تیسرا باب: ایران اور انسانی حقوق

اسلامی جمہوری نظام میں انسانی حقوق:

انسانی حقوق، اسلام اور اسلامی حکومت کے زیر سایہ یقینی بنتے ہیں۔ اسلام ہے جو کہتا ہے: ان الحکم الا للہ امر الا تعبدوا الا ایاہ یہ حکم ہر ظالم حکومت کی نفی کرتا ہے۔ کسی کو عوام پر حکمرانی کا حق نہیں ہے سوائے اس کے جو مسلمہ معیاروں پر پورا اترے اور عوام میں اسے پذیرائی حاصل ہو۔

اسلام انسانی حقوق کا طرفدار ہے، کسی بھی مکتب فکر میں انسان کو وہ وقار، ارزش اور اہمیت نہیں دی گئی ہے جو اسلام نے دی ہے۔ اسلام کے تعارف کے موقع پر ایک اصول ہمیشہ پیش کیا جاتا ہے کہ انسان کی توقیر ایک بنیادی اصول ہے۔ اسلام کے زیر سایہ انسانی حقوق کا دفاع ہوتا ہے اور انسانی حقوق کو معنی و مفہوم حاصل ہوتا ہے۔ اسلام ہے جو اپنے احکام کے ذریعے، خواہ وہ عدالتی احکامات ہوں یا تعزیراتی احکامات، شہری احکامات ہوں، سماجی احکامات ہوں یا سیاسی مسائل و امور، انسانی حقوق کا دفاع کرتا ہے۔ لیکن اس کا دفاع نہیں جسے ان (مغرب کے) لوگوں نے عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کا نام دے دیا ہے۔

مغربی ممالک اسلامی جمہوریہ پر بہتان اور تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کا پاس و لحاظ نہیں کرتا۔ ان کا اشارہ اسلامی حدیں جاری کئے جانے کی طرف ہوتا ہے، کیونکہ اسلامی جمہوریہ میں اسلامی حدیں جاری کی جاتی ہیں۔ قرآن کہتا ہے: وتلک حدود اللہ و من یتعد حدود اللہ جو بھی الہی حدود سے تجاوز کرتا ہے اللہ تعالی کے غضب و عقاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔

اسلامی جمہوری نظام انسانی حقوق کا حامی و طرفدار ہے اور اس انتظار میں بیٹھنے والا نہیں کہ مغرب والے آکر اسے انسانی حقوق کی تعلیم دیں یا اسے انسانی حقوق کا پاس و لحاظ کرنے کی نصیحت کریں۔ اسلامی جمہوریہ اسلام کے احکامات و فرامین کے مطابق انسانی حقوق کی حمایت کرتا ہے کیونکہ یہ اسلامی اصولوں میں شامل ہے۔ مغرب والے جو بات کہتے ہیں وہ محض فریب اور دھوکہ ہے۔ تو وہ رہی عورتوں کے حقوق کی ان کی طرفداری اور یہ ہے انسانی حقوق کے لئے ان کی حمایت کا حال! دنیا کے استبدادی و سامراجی عناصر اور لٹیرے، قوموں کے حقوق کو در خور اعتنا نہ سمجھنے والے، کمزور قوموں کے مفادات کو کچل دینے والے اور کمزور ممالک پر غاصبانہ قبضہ کر لینے والے آج انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے نام نہاد دفاع کا پرچم اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمان قومیں ان پر بھروسہ کرنے والی نہیں ہیں۔

اسلام کے نورانی احکام کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ موجودہ دور میں، ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر سمت سے انحرافی تشہیرات اور پروپیگنڈوں کا سیلاب جاری ہے، مسلمان عورت اس شجاعت و فکری آزادی کے ساتھ اپنی توانائیوں کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ یہ اسلام کی برکتیں ہیں۔ مسلمان عورت کی اسلامی و انقلابی تربیت اسلامی جمہوریہ کا طرہ امتیاز اور قابل فخر کامیابی ہے۔

ٹاپ

اسلامی نظام میں پرنٹ میڈیا کی آزادی:

جمہوری نظام میں عوام کو آگاہ رکھنے کی اہمیت:

عوامی نظام، جس کے ڈھانچے میں عوام کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہو، عوام کی آگاہی سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، یعنی اس نظام کے عوام کو مطلع رکھنا ضروری ہے۔ ان میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ انہیں ضروری و مفید اطلاعات و معلومات اور لازمی فہم و ادراک کا مالک بنانا ضروری ہوتا ہے۔ ایسے نظام کے لئے اطلاع رسانی کا عمل پانی اور ہوا کی مانند لازمی ہوتا ہے۔ ہمارا نظام ایسا ہی نظام ہے۔ اس میں عوام کو جتنا زیادہ با خبر رکھا جائے گا اسلامی جمہوری نظام کو اتنا ہی زیادہ نفع پہنچے گا۔ بنابریں یہ نظام کی ضرورت ہے کہ عوام کو آگاہ و باخبر رکھا جائے۔

ٹاپ

ایران کے اسلامی جمہوری نظام میں پرنٹ میڈیا کا مقام:

ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے لئے اخبارات و جرائد اشرافیہ کا مشغلہ اور کوئی آرائشی چیز نہیں ہے۔ بنابریں اس میں اضافہ، اس میں تنوع، ان کا معیاری ہونا اس نظام کے بنیادی امور میں شامل ہے۔ میں اپنے معاشرے اور اچھی زندگی گزارنے کے خواہاں ہر سماج کے لئے اخبارات و جرائد کو ضروری و لازمی سمجھتا ہوں۔ اور میری نظر میں پرنٹ میڈیا کے تین اہم فرائض ہیں۔ تنقید و نگرانی، شفافیت و صداقت کے ساتھ خبر رسانی، معاشرے میں افکار و نظریات کا تبادلہ۔ میرا نظریہ ہے کہ آزادی قلم و بیان، عوام اور پرنٹ میڈیا کا مسلمہ حق ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ آئين کے انتہائی واضح قوانین میں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی معاشرہ آزاد اور ترقی کی راہ پر گامزن میڈیا اسی طرح آزاد اور با شعور قلم سے محروم ہو جائے تو وہ اس کے ساتھ ہی متعدد چیزوں سے محروم ہو جائے گا۔ آزاد میڈیا قوم کی ترقی و بالندگی کی علامت بلکہ در حقیقت ترقی کی بنیاد ہے۔ یعنی جہاں ایک طرف معاشرے کی آزادی و ترقی میڈیا کو وجود میں لاتی ہے وہیں میڈیا بھی قوم کے نشو نما میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ہی میرا یہ بھی نظریہ ہے کہ کچھ قدریں اور حقائق ایسے ہیں جو آزادی بیان اور میڈیا کی آزادی کے نام پر پامال نہیں ہونا چاہئے۔ اب کمال کی بات یہی ہے کہ آزادی کی بھی حفاظت ہو اور حقیقت کا صحیح ادارک بھی عمل میں آئے۔ پرنٹ میڈیا آزاد بھی رہے اور ضرررساں پہلوؤں سے پاک بھی رہے۔ روش ایسی ہونا چاہئے۔

ٹاپ

سرمایہ دارانہ نظاموں کے پرنٹ میڈیا کی آزادی:

پ یورپ اور امریکہ کے کسی ایک اخبار کا نام بتائیے جو سرمایہ داروں کی ملکیت نہ ہو۔ میرا یہ سوال ہے کہ کون سا اخبار ہے جو متوسط طبقے اور غریب طبقے سےتعلق رکھتا ہے جس کے ذریعے انسان اس طبقے کی آزادی کا اندازہ کر سکے؟ اخبارات کس کی ملکیت ہیں؟ تمام (اخبارات ) کا تعلق بڑے ٹرسٹوں اور سرمایہ دارو‎ں سے ہے۔ یعنی یہ سرمایہ دار جب پوری آزادی سے کام کرتا ہے تو جب جس کی شبیہ کو چاہتا ہے خراب کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ رای عامہ کو اپنی مرضی کے مطابق سمت اور رخ عطا کر دیتا ہے۔ یہ تو کوئی آزادی نہیں ہوئی۔

ٹاپ

اخبارات و جرائد کی کثرت کی شرط:

میڈیا کا حقیقی سرمایہ عوام کا اعتماد ہوتا ہے جو اقدار اور لوگوں کے عقائد کے لحاظ، نظام کی عزت و شان کی حفاظت اور بیان میں صداقت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اگر پرنٹ میڈیا، جیسا کہ آئین میں کہا گیا ہے، لوگوں کے ذہن کھولنے کا فریضہ ادا کرے، ملک کے مفادات کو ملحوظ رکھے، قلم کا استعمال عوام کے مفاد میں کرے، دین کے مفاد میں قلم کا استعمال کرے تو اس کی تعداد میں جتنا زیادہ اضافہ ہو بہتر ہے۔

ٹاپ

اسلامی نظام میں اخبارات و جرائد کا اولیں فریضہ:

اسلامی نظام میں پرنٹ میڈیا کا سب سے اہم پہلو اس انقلابی قوم کے اقدار و اہداف کی حمایت و وضاحت اور عوام کی آگاہی کی سطح کو بلند کرنے کے سلسلے میں ثقافتی کردار کا ادا کرنا ہے۔ موجودہ دور میں، خاص طور پر مارکسزم کی شکست کے بعد مغربی سامراج انقلابی قوموں پر اپنا سیاسی و الحادی تسلط قائم کرنے کے لئے ثقافتی حربوں کا استعمال کر رہا ہے۔ مغرب کی اس ثقافتی یلغار کا مختلف پہلوؤں سے مناسب جواب اور سد باب میڈیا کا اولیں مشن ہونا چاہئے۔

ٹاپ

اخبارات و جرائد کی نگرانی کی ضرورت:

میں میڈیا سے جو بار بار سفارش کرتا ہوں کہ ملک کے معاملات کے سلسلے میں ذمہ داری کے ساتھ عمل کرے، اس کی وجہ یہی ہے۔ ہمیں دشمن کا حربہ نہیں بننا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے عمل سے دشمن کا کام آسان ہو جائے اور وہ حسب منشاء ہمارے معاشرے کی فکری و ثقافتی فضا میں جو چاہے تبدیلی کر دے اور آپ ملک کے اندر اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے اسے عوام کے حلق سے نیچے اتارنے کی کوشش کریں۔ یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اگر یہ عمل عمدا اور واقفیت کے ساتھ انجام پائے تو بہت بڑی خیانت ہے اور اگر غفلت میں ہو جائے تو بہت بڑی غلطی ہے۔ بہت زیادہ ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس بنا پر پرنٹ میڈیا کی نگرانی بہت اہم اور ضروری فریضہ ہے۔ یہ آئین، پرنٹ میڈیا سے متعلق قوانین اور عام قوانین کا تقاضہ بھی ہے۔ نظارت کے بغیر پرنٹ میڈیا سے قومی مفادات اور تقاضوں کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ بعض افراد سمجھتے ہیں کہ رای عامہ ایک آزاد میدان ہے جہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے اس کے ساتھ جو دل میں آئے برتاؤ کیا جا سکتا ہے۔ رای عامہ تجربہ گاہ کا چوہا تو نہیں ہے کو جو جیسا چاہئے اس پر تجربہ کرے۔ غلط تجزیوں، افواہوں اور تہمت و دروغگوئی سے لوگوں کے جذبات، عقائد اور مقدسات کی توہین کی جاتی ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟ بنابریں نظارت لازمی ہے تاکہ یہ حرکتیں نہ ہوں۔ یہ (نظارت) ایک فریضہ ہے۔

ٹاپ

انسانی حقوق کے معاملے میں سیاسی پسپائی سے اجتناب:

آج کل سیاسی اور ثقافتی امور میں سامراجی طاقتیں یہ حربہ اپناتی ہیں کہ دوسروں کو مغرب کے طر‌ز فکر کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا کر دیں۔ عورتوں کا مسئلہ ہو، انسانی حقوق کا معاملہ ہو، جمہوریت کی بات ہو یا حریت پسند تحریکوں کا موضوع، اپنے فریق کو پسپائی پر مجبور کرنے کے لئے مغربی حکومتیں بھاری ہنگامہ آرائی کرتی ہیں۔ اس طرح بات کرتی ہیں کہ ان کی مرضی معلوم کی جائے، یہی پسپائی ہے۔

جو لوگ در حقیقت انسانی حقوق کو ہرگز کوئی وقعت نہیں دیتے انہوں نے اسے دوسروں کو ہانکنے والا ڈنڈا بنا لیا ہے! امریکا دنیا میں انسانی حقوق کا ٹھیکیدار بن بیٹھا ہے۔ جنگ کے آغاز سے قبل تک امریکا کی نظر میں عراقی حکومت دہشت گردی کی حامی حکومتوں کی ہمنوا و مددگار تھی، انیس سو اکاسی- بیاسی میں ایرانی جیالے دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر لے گئے اور انہوں نے اسے اپنی سرحدوں سے باہر نکال دیا۔ عراقی دشمن ایرانی بہادروں کا مقابلہ کرنے کے لئے کیمیاوی اور عام تباہی کے اسلحے استعمال کرنے یعنی جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے پر تیار ہو گیا، اسی موقع پر امریکی حکومت کو یہ احساس ہوا کہ عراقیوں کی مدد کرنا چاہئے تاکہ عراق کی بعثی حکومت اسلامی جمہوری نظام کے خلاف اپنا خیانت آمیز کردار کامیابی سے ادا کر سکے۔ انہی برسوں میں عراقی حکومت نے کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ اور ان لوگوں (امریکیوں) نے عراق کا نام دہشت گردی کی حامی حکومتوں کی فہرست سے نکال دیا! انسانی حقوق کے لئے ان کی حمایت کی حقیقت یہ ہے!

دنیا میں جہاں کہیں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے وہاں اس عمل کی سب سے زیادہ حمایت یہی امریکا جیسی سامراجی حکومتیں ہی کر رہی ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہی انسانی حقوق کی ٹھیکیدار بھی بنی بیٹھی ہیں اور اسے ان حکومتوں اور قوموں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں جو ان سے بھڑ جاتی ہیں۔ ان حالات میں اگر کچھ لوگ آکر (ٹکرا جانے والی حکومتوں اور قوموں کو) منانے کی کوشش کریں تو یہ بالکل غلط پالیسی ہے کیونکہ اس کا مطلب دشمن کے مقابلے میں پسپائی ہے۔

حقوق نسواں کے سلسلے میں بھی یہی چیز ہے۔ بر حق حکومت کی تشکیل کے بعد اسلامی ملک ایران میں اللہ تعالی کے فضل و کرم سے عورتیں بڑی حد تک اپنا تشخص بحال کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ وہ مختلف شعبوں میں کردار ادا کرنے اور مسلمان عورت کے جذبات کی عظمت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور مغرب والے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام میں عورتوں کے حقوق کی پامالی و خلاف ورزی کی ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ مغربی دنیا کو چاہئے کہ اپنا نقطہ نگاہ اسلامی جمہوریہ کے نقطہ نگاہ کے قریب اور اس سے ہم آہنگ کرے۔ مغرب والوں کو چاہئے کہ حقوق نسواں، انسانی حقوق، آزادی اور جمہوریت کے بارے میں اپنے غلط نقطہ نگاہ کی اصلاح کریں اور اسے اسلامی نظریات کی کسوٹی پر پرکھیں۔ ملت ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ دشمن کے ڈھیٹ پنے، توسیع پسندی اور تسلط پسندی کے سامنے ایک قدم بھی پسپائی اختیار کرنے والی نہیں ہے۔ یہ بڑی اچھی روش ہے۔

ٹاپ

ایران اور مغرب میں انسانی حقوق کی دو طرفہ نگرانی:

اگر انسانی حقوق کے سلسلے میں تشویش ہے، جیسا کہ ہم بھی یورپی ملکوں میں انسانی حقوق کی صورت حال کی بابت تشویش میں مبتلا ہیں تو فریقین اپنے اپنے نمائندے بھیجیں اور نگرانی کریں، دیکھیں۔ وہ لوگ یہاں آئیں اور ہم اپنے نمائندے ان کے ہاں بھیجیں جو یہ دیکھیں کہ جیلوں اور حکومتی و سماجی و شہری اداروں اور محکموں میں انسانی حقوق کی کیا صورت حال ہے اور انسانی حقوق کا کتنا پاس و لحاظ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک منطقی و معقول تجویز ہے۔ ان اقدامات سے اسلامی جمہوریہ ایران اور مغرب کا باہمی رابطہ بھی فروغ کی منزلیں طے کرےگا۔ تشویش ناک باتوں کا جائزہ دونوں فریقوں کی جانب سے لیا جانا چاہئے۔

ٹاپ