پہلی فصل: اسلامی نظام، راہ انسانیت کی مشعل
اسلام، امت مسلمہ کا عظیم سرمایہ
اسلامی نظام کی عالمگیریت
اسلامی بیداری کے جھونکے
دوسری فصل: اسلامی بیداری کا مفہوم اور اس کی اہمیت
اسلامی بیداری کا مفہوم
اسلامی بیداری از آغاز تا امروز
مسلمانوں کے اسلامی تشخص کا احیاء
اسلامی بیداری کی اہمیت
اسلام کی جانب قوموں کا روز افزوں رجحان
اقوام کی بیداری میں اسلامی انقلاب کی تاثیر
تیسری فصل: اسلامی بیداری، چیلنج اور خطرات
اسلامی بیداری کے خلاف مغربی سرگرمیاں
قوموں کی بیداری، استعمار کی لگام
اسلامی بیداری کو در پیش خطرات
اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں احساس کمتری
اسلامی بیداری کے خلاف استکبار کی نفسیاتی جنگ
امت مسلمہ کے سامنے چیلنج اور انحرافات
چوتھی فصل: اسلامی بیداری کے تعلق سے قوموں کی ذمہ داریاں
مغرب کی سیاسی و ثقافتی سازشوں کے مقابلے کی ضرورت
نسیم بیداری اور ہمارا فریضہ
اسلامی اصولوں اور بنیادوں کی جانب واپسی
قوموں کی طاقت ان کے ارادے و امید میں مضمر ہے!
تمام اہداف کے حصول تک بیداری کی راہ پر سفر
استعمار کے مقابلے کا ایک نسخہ
اسلامی بیداری
پہلی فصل: اسلامی نظام، راہ انسانیت کی مشعل
اسلام، امت مسلمہ کا عظیم سرمایہ

 

امت مسلمہ کا عظیم سرمایہ دین و آئین اسلام اور انسانی زندگی کے لئے اس دین کے جامع احکامات، پختہ تعلیمات اور فصیح و بلیغ معارف ہیں۔ اسلام نے کائنات اور نوع بشر کے بارے میں عقلی معیاروں سے ہم آہنگ عمیق نقطہ نگاہ پیش کرکے اور توحید کے خالص نظرئے کی تبلیغ، حکمت آمیز اخلاقی و معنوی دستور العمل کے تعارف، مستحکم و ہمہ گیر سیاسی و سماجی نظام اور اصول و ضوابط کی نشاندہی اور عبادی و شخصی فرائض و اعمال کے تعین کے ذریعے بنی نوع بشر کو دعوت دی ہے کہ وہ اپنے باطن کو برائیوں، کمزوریوں، پستیوں اور آلودگیوں سے نجات دلائيں اور اسے ایمان و اخلاص، محبت و الفت اور امید و نشاط کے جذبات سے آراستہ کریں ساتھ ہی گرد و پیش کے ماحول اور دنیا کو بھی غربت و جہالت، ظلم و تفریق، پسماندگی و جمود، جبر و تسلط اور تحقیر و فریب سے آزادی دلائیں۔
اسلام زندگی و وجود کو معنی عطا کرکے، صحیح راستے کی نشاندہی کرکے انسان کی حقیقی معنی میں سعادت بخش زندگی گزارنے میں مدد بہم پہنچاتا ہے، اسے اللہ کی جانب سے معین کردہ صراط مستقیم سے آشنا کرتا ہے۔ تمام اسلامی احکامات اور تعلیمات، اسلام کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام کے بنیادی اصول اور دین اسلام کے تمام شخصی و اجتماعی احکامات اور عبادات اسی حیات بخش اور سعادت آفریں نظام زندگی کے ایک دوسرے سے متصل اجزا ہیں۔ (1)

ٹاپ

 

اسلامی نظام کی عالمگیریت
معرض وجود میں آنے کے وقت سے ہی اسلامی نظام کو عالمی چیلنجوں کا سامنا ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا کے اقتدار پرست اور صاحبان مال و دولت جو ہمیشہ اپنے مفادات کی فکر میں لگے رہتے ہیں دنیا میں کسی ایسی نئی طاقت کا وجود برداشت نہیں کر سکتے تھے جو ان کے ناجائز مفادات کے خلاف وجود میں آئے اور پھلے پھولے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح اور اسلامی نظام کی تشکیل کے ساتھ ہی اس طاقت کو وجود مل گیا۔ صرف اس حکومت اور اس نظام کا قیام استکبار کے لئے خطرہ نہیں تھا۔ اس سے زیادہ خطرہ اسے عالم اسلام میں اسلامی بیداری سے تھا۔ یہی خطرہ آج استکبار کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے۔ چنانچہ اس کے معاندانہ اقدامات عالم اسلام اور خاص طور پر دنیائے اسلام کے مرکز یعنی اسلامی نظام پر مرکوز ہیں۔
دوسری اہم چیز خالص اسلامی ثقافت، دینی فکر اور اس نظرئے کی ترویج ہے جو عالم اسلامی میں بیداری پر منتج ہوا۔ پورے عالم اسلام میں دین اسلام کا نام تھا، ہر جگہ یہ حقیقت موجود تھی البتہ اس کی گہرائی کم اور کہیں زیادہ تھی لیکن پوری امت مسلمہ کو عظیم وجود واحد، بے پناہ صلاحیتوں سے مالامال اور بیدار ہونے اور آگے بڑھنے کی توانائی سے آراستہ ایک امت واحدہ کے طور پر دیکھنا۔ یہ ایسا نظریہ ہے جو ایران میں پیدا ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اسلام کو اس زاویہ نگاہ سے دیکھنا، عالم اسلام میں اس طرز فکر کی ترویج کرنا، ایسا طرز فکر جس کی بنیاد پر ایک حکومت قائم ہو چکی ہے، جس نے اسلامی مفاہیم اور تعلیمات کے تناظر میں عوامی رائے پر استوار جمہوری حکومت کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، یہ ایسی چیز ہے جس کی تمام عالم اسلام میں ہمارے زمانے میں اور گزشتہ صدیوں میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ (2)

ٹاپ

اسلامی بیداری کے جھونکے
سوشیلزم اور مارکسزم جیسے بیرونی متنازعہ نظریات کی ناکامی اور بالخصوص لبرل ازم پر مبنی مغربی جمہوریت کے مکر و فریب کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد، اسلام کا انصاف و مساوات اور حریت و آزادی پر مبنی چہرہ ہر دور سے زیادہ نمایاں ہوا اور یہ ایسے واحد مکتب فکر کے طور پر نمودار ہوا ہے جو عدل و انصاف اور آزادی و حریت کے متوالوں کی امنگوں کے مطابق ہونے کے علاوہ اہل فکر و نظر کے معیارات پر بھی کھرا اترسکتا ہے ۔
بڑی تعداد میں اسلامی ممالک کے نوجوان اور بلند ہمت افراد اسلام کے نام پر اور عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت کی آرزوئيں لئے ہوئے سیاسی، سماجی اور علمی میدانوں میں جد وجہد کرنے لگے ہیں اور اپنے معاشروں میں غیر ملکی سامراجی طاقتوں کے ظلم و تسلط کے خلاف استقامت و ثابت قدمی کے عزم و ارادے کی تقویت کر رہے ہیں۔
عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں جن میں مظلوم ملک فلسطین سر فہرست ہے، بہت سے مرد و زن اسلام کے پرچم تلے، خود مختاری اور سربلندی و آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے آئے دن زندۂ جاوید رزمیہ داستانیں رقم کر رہے ہیں اور دنیا پرست سامراجی طاقتوں کو اپنی جرات و بہادری سے قعر مذلت میں پہنچا رہے ہیں ۔
جی ہاں! اسلامی بیداری کی لہر نے سامراج کے اندازوں پر خط بطلان کھینچ دیا ہے اور سامراجیوں کے وضع کردہ توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
دوسری طرف سیاست اور سائنس کے میدانوں میں اسلام کے زریں اصولوں اور جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر جدید اسلامی نظریات اور ان کے ارتقا نے عملی طور ثابت کر دیا ہے کہ اسلام ایک زندہ جاوید نظریہ حیات ہے جو عالم اسلام کے اہل نظر اور روشن فکر افراد کے لئے راہیں وضع اور مقرر کر سکتا ہے۔
کل کی استعماری اور آج کی سامراجی طاقتیں جو اپنی مکارانہ پالیسیوں کے ذریعے اسلامی معاشروں کو ایک طرف جمود و رجعت پسندی اور دوسری جانب غلامی اور اغیار کی نظریاتی تقلید کے درمیان الجھا کر رکھنا چاہتی تھیں، آج وہ خود اسلامی فکر کے اس ارتقائی عمل کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہیں۔ ان طاقتوں کے یہ معاندانہ اقدامات ان کی طاقت اور خود اعتمادی کی نشانی نہیں ان کی سراسیمگی اور بے چینی کی علامت ہیں۔ وہ اسلامی بیداری کو بھانپ چکی ہیں۔ اسلامی سیاست کے ہمہ گیر نظرئے اور اسلام کی فرمانروائی سے انہیں خطرہ ہے۔ یہ طاقتیں اس دن کا تصور کرکے کانپ جاتی ہیں جب امت اسلامیہ پورے اتحاد اور بھرپور امید و نشاط کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوگی۔ اس دن امت اسلامیہ اپنی قدرتی دولت، عظیم تاریخی و ثقافتی میراث، جغرافیائی وسعت اور بے شمار افرادی قوت کے سہارے ان تسلط پسند طاقتوں کے ہاتھ مروڑ دے گی جو دو سو سال سے اس کا خون چوستی اور اس کے وقار کو پامال کرتی آ رہی ہیں۔ اس کے بعد ان طاقتوں میں اپنی حارجیت اور خودسری جاری رکھنے کی سکت باقی نہیں رہے گی۔ (3)

ٹاپ

دوسری فصل: اسلامی بیداری کا مفہوم اور اس کی اہمیت
اسلامی بیداری کا مفہوم
اسلامی تحریک اور اسلامی انقلاب سے مراد جاہلانہ اقدار اور طاغوتی نظاموں کے خلاف اعلان بغاوت جو انسانیت کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے ظلم و فساد، تفریق و نسل پرستی، عمومی فحاشی، عام انسانوں کی مجبوری اور قوموں کی بدبختی کا باعث بنے ہوئے ہیں اور ارباب دولت و اقتدار کی ظالمانہ حکمرانی اور منفعت پر سب کچھ قربان کر رہے ہیں۔ یعنی صحیح اسلامی تحریک در حقیقت دو طرز فکر اور دو متضاد قسم کے نظاموں کے درمیان مقابلہ آرائی سے عبارت ہے۔ ایک طرز فکر انسانیت کو زنجیروں میں جکڑ دینے کی بات کرتا ہے اور دوسرے طرز فکر میں انسانیت کی نجات کو نصب العین قرار دیا جاتا ہے۔ لہذا کوئی بھی اسلامی تحریک ہو اسے دنیا کی ظالم و جابر طاقتوں سے مقابلے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے، کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔
کئی صدیوں کے انحطاط، جمود اور ذلت و رسوائی کے بعد اس وقت عالم اسلام کے گوشے گوشے میں مسلمان قومیں بیداری اور قیام فی سبیل اللہ کی طرف گامزن ہیں۔ آزادی و خود مختاری، قرآن و اسلام کی سمت واپسی کی خوشبو بہت سے اسلامی ممالک کی فضاؤں میں گشت کرنے لگی ہے۔ لہذا مسلمانوں کو اس وقت چاہئے کہ اپنے درخشاں اور معجز نما ماضی سے صدر اسلام کے قیام فی سبیل اللہ اور اسلامی مجادہت کے دور سے اپنا رابطہ بہت مستحکم کر لیں۔ اس سرزمین میں پنہاں اسلامی یادیں ہر صاحب فکر مسلمان کے لئے کیمیا کا حکم رکھتی ہیں جو اسے زبوں حالی، بد گمانی اور مایوسی سے نجات دلا سکتی ہیں۔ اسے اسلام کے اعلی اہداف تک رسائی کی راہ دکھا سکتی ہیں جو ہمیشہ ہر صاحب فکر و نظر شخص کی زندگی کے اہم ترین اہداف سمجھے جاتے ہیں۔ (4)
اسلامی بیداری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام قومیں اور افراد جو اس بیداری میں شریک ہیں وہ پورے منطقی اور فکری دلائل کی روشنی میں اسلامی نظام کی فکری بنیادوں سے واقف اور روشناس ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر جگہ مسلمانوں میں اسلامی تشخص کا احیاء ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ (5)

ٹاپ

اسلامی بیداری از آغاز تا امروز
انسانوں کی آزادی، مساوات، سماجی انصاف، معاشرے کی بیداری و آگاہی، کجروی اور برائی کا مقابلہ، ذاتی خواہشات پر اعلی انسانی اہداف کو ترجیح دینا، ذکر خدا کرنا، شیطانی تسلط کی نفی کرنا اسی طرح اسلامی نظام کے دیگر اصول اور ذاتی اخلاق و کردار اور سیاسی و منصبی تقوا یہ سب کے سب کائنات اور انسان کے بارے میں اسی مکتب فکر اور آئيڈیالوجی کے احکامات و تعلیمات ہیں۔ اسلام استبداد و جبر پر مبنی نظام، ظلم و جہل، گھٹن کا ماحول پیدا کرنے والے نظام، انسانوں کی تحقیر، نسلی امتیاز اور لسانی تفریق پر استوار نظام کی نفی کرتا ہے، انہیں غلط سمجھتا ہے۔ ان لوگوں کا منہ توڑ جواب دیتا ہے جو اسلامی نظام کے خلاف جنگ پر کمربستہ ہوں۔ اس کے علاوہ ہر متنفس سے بلا تفریق مذہب و ملت محبت و ہمدردی سے پیش آنے کا درس دیتا ہے۔ انہی بنیادوں پر اور انہی اہداف کے ساتھ ایران میں اسلامی انقلاب آیا اور اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ (6)
گزشتہ ایک صدی میں اسلامی ممالک کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچے ہیں۔ مغرب والوں کی توسیع پسندی اور سامراجیت کی لہر نے سب سے زیادہ مسلم اقوام کو نقصان پہنچایا ہے جن کی دولت و ثروت اور مادی ذخائر باعث بنے کہ سامراجی حکومتیں انہیںاپنی یلغار کی آماجگاہ بنائیں۔
طویل برسوں کے بعد مسلم اقوام ہوش میں آئیں، پوری اسلامی دنیا میں مسلمانوں کی تحریک بیداری اور حریت پسندی و آزادی کے پرچم نے ان کے سامنے امیدوں کے نئے اف‍ق کھولے اور سرانجام ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کے قیام نے اسلامی دنیا کے لئے ایک نئے دور کے آغاز کا اعلان کیا۔ (7)
آج اسلامی بیداری ایک ناقابل انکار حقیقت بن چکی ہے۔ آج مسلمانوں کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ دنیا میں، عالمی برادری میں، اپنی تقدیر کے تعین میں موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جب یہ احساس ایک خاص درجے تک پہنچ جائے گا تو مجسم ہوکر نظروں کے سامنے آ جائے گا اور بہت سے حقائق کو جنم دے گا۔ (8)
آج انسانی معاشروں کو جو جابر و دولت پرست طاقتوں کے ہاتھوں معنوی و روحانی خلاء، گوناگوں سماجی و شخصی مشکلات سے دوچار ہیں اسلام اور اس دین کی عظیم تعلیمات اور ہدایات کی ضرورت ہے۔ اسلام کی دعوت صرف ان قوموں کے لئے ضروری نہیں جو غربت و افلاس کی آگ میں جھلس رہی ہیں بلکہ اسلام ترقی یافتہ اور امیر ممالک میں روحانی و معنوی خلاء میں مبتلا، ہدف و مقصد سے عاری زندگی کے گرداب میں ہاتھ پاؤں مارنے والے انسانوں کے لئے بھی اتنا ہی پرکشش، امید بخش اور دل نشیں ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کی مادیت میں ڈوبی فضا میں اضطراب و آزردگی کے شکار نوجوانوں میں اسلام کی جانب بڑھتا رجحان و میلان جس کا اندازہ اعداد و شمار اور تحقیقات سے ہوتا ہے، اس کشش اور جاذبیت کی دلیل ہے۔
دنیا کے مسلمان اس عظیم سرمائے کی قدر و قیمت سے واقفیت اور اس کی صحیح شناخت کی صورت میں اپنی زندگی میں حقیقی تبدیلی پیدا کرنے پر قادر ہوں گے اور مسلمان ممالک کو پسماندگی، انحطاط، اغیار پر انحصار اور ضعف و ناتوانی سے جس میں وہ آج گرفتار ہیں نجات دلائيں گے۔ (9)
ایک اہم مسئلہ بعض عرب اور افریقی ملکوں میں اسلامی تحریکوں کا ہے۔ یہ عالم اسلام کے نوید بخش ترین واقعات ہیں کہ کوئی قوم اپنے نوجوانوں کی مدد سے، اپنے دانشوروں کے تعاون سے، کوچہ و بازار کے لوگوں اور عوام کی شراکت سے اسلامی احکام کے نفاذ اور اسلامی حکومت کے قیام کا دعوا کرے اور اس راہ میں آگے بڑھے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے طلوع ہونے اور اسلامی حکومت قائم ہونے سے دوستوں میں یہ امید اور توقع پیدا ہوئی ہے اور سامراجی کیمپ میں جس میں امریکا سب سے آگے ہے، یہ تشویش پائی جاتی تھی کہ ایران کا اسلامی انقلاب پورے عالم اسلام میں مسلمانوں کی کا میابی کا سر آغاز بن جائےگا ۔ (10)
علاقے میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات، مصر کے واقعات، تیونس کے واقعات، لیبیا کے تغیرات، بحرین کی تبدیلیاں۔ یہ انتہائی اہم واقعات ہیں۔ اس اسلامی اور عرب خطے میں بڑی بنیادی قسم کی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ یہ امت مسلمہ کی بیداری کی نوید ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران دسیوں سال سے جو نعرہ بلند کرتا آیا ہے، آج ان ممالک کے اندر متن زندگی میں اس کے اثرات عملی شکل میں نظر آنے لگے ہیں۔(11)
ان تغیرات کی دو اہم خصوصیتیں ہیں۔ ایک ہے عوام الناس کی براہ راست موجودگی اور دوسری خصوصیت ہے ان تحریکوں کی دینی ماہیت۔ یہ دونوں ہی بنیادی عناصر ہیں۔ عوام کا براہ راست میدان میں آنا بالکل وہی چیز ہے جو اسلامی انقلاب کے سلسلے میں رونما ہوئی۔ پارٹیاں، بیوروکریٹس، فلک بوس ٹاوروں کے مکیں اور ذہنی جولان گاہوں کے شہ سوار کچھ بھی نہ کر سکے۔ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا معجزہ یہ تھا کہ آپ عوام الناس کو میدان میں لے آئے۔ جب عوام الناس میدان میں اتر پڑے، دل و جان سے بھرپور ارادے اور بلند ہمتی کے ساتھ وارد عمل ہو گئے تو مشکلیں حل ہونے لگیں، بند دروازے کھلنے لگے۔ آج یہی عمل دوسرے ملکوں میں بھی دوہرایا جا رہا ہے۔ مصر اور تیونس میں عوام میدان میں اترے، ورنہ روشن خیال لوگ اور بلند و بالا عمارتوں کے مکیں تو ہمیشہ موجود تھے، ہمیشہ باتیں کرتے تھے، بسا اوقات عوام کو بھی دعوت دیتے تھے لیکن کوئی ان کی بات پر خاص اعتنا نہیں کرتا تھا۔ اس دفعہ خود عوام میدان میں آئے ہیں اور ان کا رجحان و میلان بھی دینی ہے۔ نماز جمعہ ادا کی جا رہی ہے، نماز جماعت قائم ہو رہی ہے، زبانوں پر اللہ کا نام ہے، علمائے دین پیش پیش ہیں، مبلغین دین اور بعض ممالک میں جدید دینی فکر کے بانی منظر عام پر ہیں۔ یہ لوگ میدان میں آئے تو عوام نے بھی ان کی تقلید کی۔ اس قضیئے کی اہم خصوصیت یہی ہے۔ یہ لوگ کیوں میدان میں آئے؟ جو چیز انہیں میدان میں لائی وہ نمایاں طور پر ان کی عزت نفس اور انسانی وقار تھا۔ مصر میں، تیونس میں اور دیگر ممالک میں عوام کی غیرت و حمیت کو ان ظالم حکام نے کچل کے رکھ دیا۔ (12)

ٹاپ

مسلمانوں کے اسلامی تشخص کا احیاء
اس وقت دنیا میں چند اہم حقائق ہیں جن کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ پہلی حقیقت عالم اسلام کی بیداری ہے۔ اس میں کسی بھی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں خواہ وہ اسلامی ممالک ہوں یا وہ ریاستیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، مسلمانوں کے اندر اسلام کی جانب رغبت اور اپنے اسلامی تشخص کی بازیابی کی چاہت بڑھ رہی ہے۔ اب عالم اسلام کے روشن خیال افراد اشتراکیت اور مغربی مکاتب فکر سے دل برداشتہ ہوکر اسلام کی جانب مائل ہیں۔ وہ انسانیت کے رنج و الم کا مرہم اسلام میں تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، رہنمائی کے طالب ہیں۔ آج مسلمانوں کے اندر اسلام کی طرف جو رجحان اور جس طرح کا میلان پیدا ہوا ہے گزشتہ کئی صدیوں میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ اسلامی ممالک پر دسیوں سال تک مغرب و مشرق کی طاقتوں کا گہرا سیاسی و ثقافتی غلبہ و قبضہ رہا ہے لیکن آج عالم اسلام کے نوجوانوں کی نگاہیں اسلام پر مرکوز ہیں، اسلام ان کا مطمح نظر بن چکا ہے۔ یہ ایک اٹل سچائی ہے جس کا اعتراف مغرب والوں اور دنیا کی سامراجی طاقتوں کو بھی ہے۔ انہوں نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ اگر اسلامی ممالک میں سے کسی بھی ملک میں آزادانہ انتخابات کروائے جائیں تو عوام کے ذریعے وہی افراد منتخب ہوں گے جو اسلام پر عقیدہ رکھنے والے، اسلامی احکام کے پابند اور دین اسلام کی ترویج کرنے والے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کا جمہوریت نوازی کا دعوی تضاد کا شکار نظر آنے لگا ہے۔ ایک طرف تو ان کے ہاتھ میں جمہوریت نوازی اور ڈیموکریسی کی حمایت کا پرچم ہے لیکن دوسری طرف وہ یہی پرچم حقیقی معنی میں عالم اسلام میں لہرانے سے ہراساں ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جس اسلامی ملک میں بھی عوامی ووٹوں اور عوامی انتخاب کو اہمیت حاصل ہو گئی وہاں زمام اقتدار فورا اسلام پسند افراد کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔ عوام کے منتخب افراد وہی ہوں گے جنہیں اسلام سے پیار ہے۔
دوسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی استکباری طاقتیں اس اسلامی بیداری اور اسلام کی جانب بڑھنے والے رجحان کی، اس حریت پسندی کی سب سے بڑی دشمن ہیں۔ اس دشمنی کی وجہ بالکل واضح ہے۔ اسلام تسلط پسندی کا مخالف ہے، باہری طاقتوں پر قوموں کے انحصار کی اجازت نہیں دیتا۔ علمی و عملی پسماندگی کا مخالف ہے جسے ان طاقتوں نے برسوں سے عالم اسلام پر مسلط کر رکھا ہے۔ اسلام کی یہ خصوصیات استعماری و استکباری طاقتوں کی ان پالیسیوں کی ضد ہیں جو دو سو سال یا اس سے بھی زیادہ کے طویل عرصے تک مسلمانوں پر مسلط کی جاتی رہیں۔ ان طاقتوں نے عصر حاضر میں بھی علاقے میں اپنے کچھ مفادات معین کر رکھے ہیں۔ اسلامی بیداری ان کے عزائم کے بالکل برعکس سمت میں بڑھتی ہے لہذا یہ طاقتیں پوری قوت و طاقت سے اس کی مخالفت کر رہی ہیں، اس کے خلاف سیاسی و تشہیراتی طاقت استعمال کر رہی ہیں۔
تیسری حقیقت، جس سے واقف سب ہیں لیکن بہت سے لوگ اس کے بارے میں تجاہل عارفانہ کرتے ہیں، یہ ہے کہ اسلامی بیداری کے مظہر وہ افراد قطعی نہیں ہے جو عالم اسلام میں دہشت گردی کی علامت بنے ہوئے ہیں، جو عراق میں مجرمانہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں، جو لوگ عالم اسلام میں اسلام کے نام پر مسلمانوں کے ہی خلاف سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، جو لوگ شیعہ سنی کے نام پر یا پھر قومیتوں کے نام پر مسلمانوں کے اندر تفرقے اور نفاق کا بیج بو رہے ہیں۔ یہ عناصر کسی بھی طرح اسلامی بیداری کا مظہر نہیں ہو سکتے۔ اس حقیقت سے سامراجی طاقتیں بھی واقف ہیں۔ جو لوگ مغربی دنیا میں اسلام کا تعارف کرانے کے لئے دہشت گرد اور رجعت پسند گروہوں کو نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں انہیں بھی معلوم ہے کہ حقیقت کچھ اور ہے۔
جو اسلام اس وقت مسلم دنیا میں بیداری کی لہر پیدا کر رہا ہے وہ فکر و تدبر کی دعوت دینے والا اسلام ہے، ایک نیا پیغام پیش کرنے والا اسلام ہے، انسانیت کی مشکلات کو حل کرنے کے موثر طریقوں کی نشاندہی کرنے والا اسلام ہے، نہ کہ رجعت پسند اور کورانہ اسلام اور نہ ہی فکری آزادی سے بے بہرہ اسلام۔ استکباری طاقتیں بھی یہ بات جانتی ہیں۔ (13)

ٹاپ

اسلامی بیداری کی اہمیت
اس میں کوئی شک نہیں کہ سامراجی دنیا، مسلمانوں کی بیداری، اتحاد اسلامی اور علم و دانش اور سیاست و ایجادات کے میدانوں میں ہماری قوم کی پیشرفت کو اپنے عالمی غلبہ و تسلط کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ شمار کرتی ہے اور پوری طاقت کے ساتھ اس سے نبرد آزما ہے۔ ہم مسلمان قوموں کے سامنے استعمار اورجدید سامراج کے دور کا تجربہ ہے۔ آج جدید سامراج کے دور میں ہمیں ماضي سے درس حاصل کرنا چاہیے اور ایک بار پھر طویل عرصے تک کے لئے دشمن کو اپنی تقدیر پر مسلط نہیں کرنا چاہئے۔
اب جبکہ انقلابیوں کی فداکاری اور دنیائے اسلام کے بعض خطوں میں قائدین کی شجاعت و صداقت کے سبب اسلامی بیداری نے لہروں کو وسعت دی اور بہت سے اسلامی ملکوں میں نوجوانوں، دانشوروں اور عوام کو میدان میں اتارا تو بہت سے مسلم حکمرانوں اور سیاستدانوں کے سامنے تسلط پسندوں کی غداری آشکار ہو گئی ہے، عالمی سامراج کے سرغنہ ایک بار پھر دنیائے اسلام پر اپنا تسلط مضبوط کرنے اور اسے جاری رکھنے کے لئے جدید ہتھکنڈوں کی فکر میں ہیں۔
ان مقاصد میں سر فہرست اسلام پسندی کی لہروں کو ختم کرکے اعلی اسلامی اقدار کو ایک بار پھر پس منظر میں ڈالنا ہے۔ امریکہ اور دیگر تسلط پسند طاقتیں آج اسلامی بیداری کی تحریک کو روکنے اور ممکنہ طور پر اس کو کچلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔
آج دنیا خاص طور پر عالم اسلام ایک حساس دور کی دہلیز پر ہے، ایک طرف سے بیداری کی لہر نے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور دوسری طرف سے امریکہ اور دیگر مستکبروں کے مکارانہ چہروں سے فریب و ریا کے پردے اتر گئے ہیں، ادھر تشخص اور کھوتی ہوئی شان و شوکت کی بازیابی کے لئے عالم اسلام کے بعض مقامات پرتحریک اٹھ رہی ہے اور عظیم مملکت اسلامی ایران میں آزاد اور مقامی سائنس و ٹکنالوجی کے ثمرات حاصل ہونے لگے ہیں۔ جو تحریک سیاسی خود اعتمادی اور معاشرتی امور میں انقلابی دگرگونیوں کاباعث بنی تھی، سائنس اور تعمیر و ترقی کے عمل میں بھی اس کی جھلک نظر آنے لگی ہے۔ دوسری طرف دشمنوں کی سیاسی و عسکری صفوں میں ضعف و اضمحلال پیدا ہوا ہے۔ آج ایک طرف سے عراق، دوسری طرف سے فلسطین و لبنان میں طاقت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود امریکہ اور صیہونیوں کی ناتوانی کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ کی مشرق وسطی کی پالیسی میں ابتدا ہی میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہو گئی ہیں اور اس پالیسی میں اس کی ناکامی، اس کے نظریہ پردازوں کے خلاف ہی ایک موثر ہتھیار میں تبدیل ہو گئی ہے۔ (14)

ٹاپ

اسلام کی جانب قوموں کا روز افزوں رجحان
سامراجی نظام اور خاص طور پر امریکہ یہ دیکھ کر چراغ پا ہے کہ پورے عالم اسلام میں اسلامی بیداری روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ انہیں امید تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اسلامی جمہوریہ کے نعرے پرانے اور بے اثر ہو جائيں گے لیکن وہ دیکھ رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔ انہیں امید تھی کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد جو دنیا بھر کے پروانوں کے لئے شمع فروزاں تھے، اسلامی نعرے بے اثر ہوکر طاق نسیاں کی زینت بن جائيں گے لیکن انہیں نظر آ رہا ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔
اسی پر دشمنوں کو بڑا غصہ آ رہا ہے۔ کہاں انہیں یہ امید تھی کہ اسلامی جمہوریہ کے اندر اس چراغ کی لو رفتہ رفتہ کم ہوتے ہوتے ختم ہو جائے گی! لیکن یہاں یہ عالم ہے کہ اس کی روشنی پوری دنیا میں پھیلتی جا رہی ہے۔ آج وہ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے اندر اور باہر اسلامی فضائل و کمالات کا سورج چمک رہا ہے اور شیطانوں سے بالعموم اور شیطان بزرگ (امریکہ) سے بالخصوص جہاد کا جذبہ بڑھ رہا ہے اور الہی و اسلامی اقدار کی جانب حرکت میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ (15)
آج کی دنیا میں اسلامی بیداری کا بڑھتا دائرہ ایسی حقیقت ہے جو امت اسلامیہ کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔ تین عشروں قبل اسلامی انقلاب کی فتح اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے ساتھ ہی اس تحریک کا آغاز ہوا۔ ہماری قوم تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوئی، اس نے راستے کی رکاوٹیں ہٹائیں اور نئے نئے مخاذ سر کئے۔ آج استکبار جو پرپیچ و خم معاندانہ وسائل کو بروئے کار لا رہا ہے اور اسلام دشمنی پر بے تحاشہ دولت خرچ کر رہا ہے اس کی وجہ یہی پیشرفت ہے۔ اسلام کو خوفناک ظاہر کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر جاری تشہیراتی مہم، اسلامی فرقوں کے درمیان نفاق ڈالنے اور فرقہ وارانہ جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لئے کی جانے والی عجلت پسندانہ کوششیں، شیعوں کو اہل سنت کا اور اہل سنت کو شیعوں کا دشمن ظاہر کرنے کے اقدامات، مسلم حکومتوں کے درمیان تفرقہ انگیزی، ان کے نظریاتی اختلافات کو ہوا دیکر انہیں با قاعدہ دشمنی اور لا ینحل بحران میں تبدیل کرنا، نوجوانوں میں فسق و فجور اور بدکاری و اخلاقی بے راہروی کی ترویج کے لئے خفیہ اداروں کو استعمال کرنا یہ سب کچھ امت اسلامی کی بیداری، خود مختاری اور عزت نفس کی جانب پروقار پیش قدمی پر (استکبار کی جانب سے) سراسیمگی اور بے چینی میں ہونے والا رد عمل ہے۔ (16)

ٹاپ

اقوام کی بیداری میں اسلامی انقلاب کی تاثیر
اس وقت بحمد اللہ اسلامی معاشروں کو اسلامی نظام کی اہمیت کا بخوبی ادراک ہو گیا ہے۔ برسوں کے طویل عرصے میں بڑے مصنفین اور مقررین کی توجہات اس سمت میں مبذول ہوئی ہیں۔ اسلامی بیداری کا آغاز ہو چکا ہے، اسلامی معاشروں کو ان عظیم ذخائر کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے جو ان کے پاس موجود ہیں۔ البتہ دشمنان اسلام کی معاندانہ کارروائياں بھی اسی رفتار سے بڑھی ہیں۔ وہ مسلسل مسلم اقوام کے درمیان تفرقہ اور نفاق ڈالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تاکہ قومیتی، نسلی اور فرقہ وارانہ تعصب کی آگ بھڑکا کر ہر فرقے کو ایک الگ سمت میں لے جائیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دشمن کو خوب معلوم ہے کہ دنیا کے مسلمان نشین علاقوں میں اسلامی آگاہی اور اسلامی بیداری اپنا کام کر دکھائے گی۔ یہ حقیقت بھی ہے۔ یہی چیز مسلمان قوموں کو اسلامی نظام اور امت واحدہ کی تشکیل کی منزل پر پہنچائے گی اور یہی حتمی مستقبل ہے۔ یہ دشمنیاں بھی کچھ بگاڑ نہیں سکیں گی۔ اسلام کی طاقت بہت بالاتر ہے۔ جیسا کہ ایران میں یعنی دنیا کے اس حصے میں جس کے بارے میں کوئي سوچ بھی نہیں سکتا تھا، جذبہ ایمانی نے عوام کو متحد کر دیا، دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا، اسلامی عقیدہ اس تحریک کی مضبوط بنیاد بن گيا اور یہاں ایک اسلامی نظام معرض وجود میں آ گیا۔ یہ حقیقت آج سامنے ہے۔ (17)
ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے جو تحریک شروع کی اس نے دنیا کو ایک عظیم دائرے میں پہنچا دیا ہے جہاں مشرق و مغرب اسی تحریک کے ارد گرد چکر لگا رہے ہیں۔ دنیا کے یہ واقعات و تغیرات براہ راست یا بالواسطہ ہمارے اسلامی انقلاب سے ربط رکھتے ہیں۔ یہ جو دو قطبی نظام میں سے ایک قطب دنیا کے سیاسی منظر نامے سے ناپید ہو گيا اور آج اشتراکیت اور مشرقی بلاک نام کی کوئي چیز باقی نہیں رہی، یہ جو بڑی طاقتوں، حکومتوں، چھوٹے ممالک، مختلف قوموں اور حکومتوں کے درمیان روابط کا انداز یکسر تبدیل ہو گيا ہے اس کا تعلق ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح اور پرچم دین کا بلند ہو جانے سے ہے، اس کا تعلق مسلمانوں کی بیداری اور ضمیروں میں دینی جذبات کے حرکت میں آ جانے سے ہے۔ (18)
دشمن تشہیراتی حربوں اور ماحول سازی کے ذریعے آپ کو اسلامی حکومت اور اسلامی نظام سے ڈرانا چاہتا ہے کہ شاید بعض سادہ لوح افراد یہ سوچنے لگيں کہ امریکہ اور دیگر مغربی حکومتوں کی ناراضگی سے بچنے کے لئے بہتر ہے کہ تقاریر اور خطبات میں اعلانیہ اسلامی حکومت کا نام لینے سے گریز کیا جائے۔
اس سلسلے میں میری سفارش یہ ہے کہ مصلحت کے عین خلاف اس طرح کی مصلحت کوشی سے آپ دور رہیں۔ اسلامی نظام کی تشکیل اور اسلام و قرآن کی حکمرانی کے ہدف و مقصد کو آپ بغیر ہچکچائے دو ٹوک انداز میں خواہ کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں بار بار بیان کیجئے۔ آپ اسلام کے مقدس نام سے عدول کرکے دشمن کے حوصلے نہ بڑھائیے اور اپنے ہدف کو مبہم اور غبار آلود نہ بنائیے۔ (19)

ٹاپ

تیسری فصل: اسلامی بیداری، چیلنج اور خطرات
اسلامی بیداری کے خلاف مغربی سرگرمیاں
ایک اور اہم حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا اپنی تمام تر توانائیوں کے باوجود اسلامی بیداری کو قابو میں نہیں کر سکی۔ مختلف اسلامی ممالک میں اسلام کے خلاف، اسلامی جمہوریہ کے خلاف، بزرگ اسلامی رہنماؤں اور مصلحین کے خلاف اور اسلامی احکامات کے خلاف بڑی زہر افشانی کی گئی، اسلام کو برا بھلا کہنے، اسے مورد الزام ٹھہرانے اور اسلامی احکامات پر سوالیہ نشان لگانے کے لئے فوجی طریقے بھی آزمائے گئے، اقتصادی وسائل بھی بروئے کار لائے گئے، تشہیراتی ذرائع کو تو بڑے ہی عجیب و غریب انداز میں استعمال کیا گيا لیکن اب تک انہیں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ اسلامی ممالک میں نوجوانوں میں اسلام اور اسلامی طرز فکر کی ترغیب اور دلچسپی روز بروز بڑھ رہی ہے۔
ان حقائق کا تقاضہ ہے کہ عالم اسلام معروضی حالات کی اہمیت کو سمجھے۔ اس وقت عالم اسلام کے پاس مسلم اقوام کے مفادات کی حفاظت کا واحد راستہ اسلام کی بنیاد پر متحد ہو جانا اور دشمنوں اور استکباری طاقتوں کے عزائم کی نفی کر دینا ہے۔ استکبار کا ہدف و مقصد عالم اسلام اور خاص طور پر مشرق وسطی کے علاقے میں قومی اور دینی تشخص کو مٹانا ہے۔ اس سازش کے مقابلے کا واحد راستہ زیادہ سے زیادہ اتحاد، بھرپور ہم آہنگی، اسلام سے تمسک، اسلام کی ترویج کرنا اور امریکہ سمیت دنیا کی تمام استکباری طاقتوں کی ہوس کے سامنے ثابت قدمی سے ڈٹ جانا ہے۔ آج دنیا میں امریکہ کی ساکھ مٹی میں مل چکی ہے۔ امریکیوں نے اپنی حرکتوں سے اپنے تمام نعروں کو روند کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت عراقی قوم پر امریکیوں کا دباؤ، عراق میں چھائی بد امنی، قاتل و خونخوار صیہونیوں کی بھرپور اعانت و حمایت، افغانستان میں رسوا کن اقدامات، اسلامی حکومتوں پر ان کا شدید دباؤ، ان ساری چیزوں سے عالم اسلام میں امریکہ کا انتہائی نفرت انگیز اور کریہ المنظر چہرہ سامنے آیا ہے۔ اس وقت عالم اسلام اس توسیع پسند طاقت کا ڈٹ کا مقابلہ کر سکتا ہے اور اسے کرنا چاہئے! اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ (20)
اس وقت عالمی استکبار، دنیا کے سیاسی غنڈے اور سامراجی حلقے پوری دنیا میں انحطاط اور بد عنوانیوں میں غرق ہیں۔ وہ اسلام اور اسلامی نظام کے دشمن بنے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی پول کھولنے والا اسلام اور مسلمانوں کی بیداری ہے۔ (21)
استکباری طاقتوں نے حالیہ برسوں میں دنیا کے مختلف خطوں میں جو شقی القلبی دکھائی ہے وہ در اصل قوموں کی بیداری اور شجاعت پر ان کا رد عمل ہے۔ تحقیر کا سامنا کرکے تھک چکی قومیں جب اپنے اوپر سے تحقیر کی گرد جھاڑنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو انہیں بہت محتاط رہنے پڑتا ہے۔ ان پر ضرب لگانے کی کوشش ہونا یقینی ہوتا ہے، یہ کوشش ہوئی بھی اور آئندہ بھی ہوگی۔ اسلامی معاشروں میں انقلابی اسلام کی جانب رغبت ایک لہر کی شکل اختیار کر چکی ہے جسے کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ بے شک سرکوبی اور کڑائی کی جا رہی ہے، تہمتیں لگائی جا رہی ہیں، انہیں دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ دشمن یہ سارے کام کر رہا ہے لیکن جو چیز اس کے بس اور توانائي کے باہر ہے وہ ہے قوموں کے اندر انقلابی اسلام کے سلسلے میں پیدا ہونے والی رغبت اور دلچسپی کا خاتمہ۔ وہ یہ کام نہیں کر سکتے۔ اب تک انہیں ناکامی ہوتی رہی اور آئندہ بھی وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ (22)
اسلام کے خلاف استکبار کی جنگ، ایران، ایرانی عوام اور اسلامی جمہوری نظام کے خلاف جو اقدامات انجام دئے گئے وہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اسلام دشمنی اس سے وسیع تر دائرے میں سیاسی و تشہیراتی چالوں کے ذریعے اور ثقافتی امور کی مدد سے پوری سنجیدگی کے ساتھ جاری ہے۔ اسلامی ممالک میں امریکہ کی گماشتہ حکومتوں کی جانب سے مسلمان دانشوروں، حریت پسندوں اور مجاہدین کے خلاف سختیاں اور غیر مسلم ممالک میں مسلمان اقلیتوں کے ساتھ زیادتیاں اسلام کے خلاف جاری سیاسی جنگ کی نمایاں مثالیں ہیں۔ اسلام کی توہین میں کتابیں لکھنا، مقالے چھاپنا، فلمیں بنانا اور پھر اسلامی اور غیر اسلامی علاقوں میں ان کی تشہیر کرنا اسلام کے خلاف ثقافتی جنگ کی مثالیں ہیں۔ اس وقت امریکہ، برطانیہ اور ان جیسے دیگر ممالک کی حکومتیں اس مجرمانہ عناد کی راہ میں بڑا سرمایہ خرچ کر رہی ہیں۔ بد قسمتی سے ایسے مصنف، مقالہ نگار اور فنکار بھی دستیاب ہیں جو مادی مفادات کی خاطر اپنے قلم و بیان اور اپنے فن کا سودا کر لیتے ہیں، اپنے فنکار ضمیر کو کچل کر بڑی طاقتوں کے پلید و ناپاک عزائم کی تکمیل میں مدد بہم پہنچاتے ہیں۔ (23)

ٹاپ

قوموں کی بیداری، استعمار کی لگام
عالمی استکبار کی سرکشی اور خود سری کی لگام کسنے والی ایک ہی شئے ہے اور وہ ہے قوموں کا ارادہ اور ان کی بیداری۔ اگر کوئی قوم بیدار ہے، اپنے حقوق سے پوری طرح واقف ہے، دشمن کی بھی شناخت رکھتی ہے، اس کے عزائم کو بھانپ چکی ہے اور پھر وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑی ہوئی ہے تو اب استکبار اور امریکہ کے تمام فوجی ساز و سامان دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ پھر امریکہ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ یہ بنیادی نکتہ ہے جسے روز اول سے ہی اسلامی انقلاب نے مد نظر رکھا ہے اور اسی نظرئے کی بنیاد پر اسلامی نظام کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔ (24)

ٹاپ

اسلامی بیداری کو در پیش خطرات
استبداد، استعمار، تسلط پسند اور اسلام دشمن حکومتوں نے مسلمانوں کو صدیوں کمزور بنائے رکھا۔ آج جب کہ مسلمانوں کی بیداری اور عزت کا دور ہے، یقینا دشمن راستے میں گھات لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ان کی طرف سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ایک خطرے کی طرف میں اشارہ کروں گا اور وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے۔ اسلامی مذاہب اور فرقوں میں اختلاف اور مسلم اقوام کے درمیان تفرقہ۔
آپ دیکھیں کہ اسلامی دنیا میں کہاں خیانت کار عناصر، تفرقہ اور اختلاف ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں؟ کون سی ایسی جگہ ہے جہاں سامراجی منصوبہ سازی کرنے والے ذلیل عناصر کو ان کے اہداف کے لئے کام کرنے والے سادہ لوح اور کمزور فکر افراد نہ مل جاتے ہوں؟ اسلامی مذاہب اور مسلم فرقوں کے درمیان اتحاد و وحدت ہمارا سب سے بڑا ہدف ہے۔ بعض لوگوں کا مشن اسلام کی عزت آفریں تحریک کو نقصان پہنچانے کے لئے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا ہے۔ ان عناصر کو پہچانیں اور پوری ہوشیاری کے ساتھ ان سے نمٹیں۔ اگر مسلمان ہوشیار ہوں اور اسلام کی عزت میں ہی اپنی عزت اور اسلام کے استحکام میں اپنی قوت تلاش کریں تو یقینا یہ تحریک اپنے ہدف میں کامیاب رہے گی۔ (25)

ٹاپ

اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں احساس کمتری
افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی ممالک کے سیاستداں اپنی قوموں کے اندر پنہاں عظیم توانائیوں سے بے اعتنائی کے نتیجے میں غیر طاقتوں کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا ہیں اور وہ اسلامی انقلاب کی فتح کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عظیم مواقع سے استفادہ کرنے اور امریکہ و یورپ سے اپنے نادرست اور توہین آمیز تعلقات پر نظر ثانی کرنے کے بجائے اس با برکت اور نجات بخش انقلاب کے خلاف جس نے ان کی قوموں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے معاندانہ موقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اپنی قوم کی نفرت اور دنیا کی شیطانوی قوتوں کی جابرانہ و توسیع پسندانہ پالیسیوں کے جال میں پھنستے ہی چلے جا رہے ہیں۔ انہوں نے قرآن کے اس بیان کو کہ فان العزۃ للہ جمیعا یکسر نظر انداز کرتے ہوئے امریکہ سے عزت کی بھیک مانگنے کا راستہ چنا ہے۔ ان کی اس کج فہمی اور بد اعمالی کا نتیجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ ہمیشہ اپنے اور اپنی حکومتوں کے انجام کی بابت جو کسی قابل اعتماد ستون پر استوار نہیں ہیں ہراساں اور تشویش میں مبتلا رہیں اور روز بروز ان پر یہ حقیقت آشکار ہوتی جائے کہ خطرے کی گھڑی میں امریکہ اور دیگر استکباری طاقتیں انہیں نجات دینے پر قادر نہیں ہیں اور اس بے بنیاد تصور کی کہ امریکہ جو چاہے کر سکتا ہے قلعی کھلتی جائے۔(26) ایک اہم نکتہ جو تمام مسلمانوں کو جاننا، اس سے مقابلہ کرنا اور اس کے سلسلے میں احساس ذمہ داری کرنا چاہئے، یہ ہے کہ آج تقریبا دنیا میں ہر جگہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استکباری طاقتوں کی جانب سے سخت اور سازشی مہم جاری ہے۔ اگرچہ خود یہ مہم نئی نہیں ہے اور اس کی نشانیاں، یورپی سامراج کی تاریخ میں نمایاں ہیں، لیکن اس کے طریقوں کا متنوع ہونا، اس کا آشکارا ہونا اور بعض معاملات میں درندگی کے ہمراہ ہونا ایسی چیز ہے جس کی اب تک کوئی اور مثال نہیں ملتی اور یہ اس (جدید) دور کی پیداوار ہے۔ عالم اسلام کے موجودہ حالات پر ایک نظرڈالنے سے اس نئی صورتحال یعنی اسلام کے خلاف مہم کے شدید ہونے کی وجہ معلوم ہو جاتی ہے۔ یہ وجہ مسلمانوں میں بیداری پھیلنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالیہ ایک دو عشرے کے دوران عالم اسلام کے مشرق و مغرب میں حتی غیر اسلامی ملکوں میں، مسلمانوں نے حقیقی اور عمیق تحریک شروع کی ہے جس کو تجدید حیات اسلام کی تحریک کا نام دینا چاہئے۔ آج یہ نوجوان اور تعلیم یافتہ نسل، زمانے کے علوم سے بہرہ مند ہے۔ جس نے کل کے سامراجیوں اور آج کے استکباریوں کی توقع کے برخلاف نہ صرف یہ کہ اسلام کو فراموش نہیں کیا ہے بلکہ پر جوش ایمان کے ساتھ، انسانی علوم سے فائدہ اٹھا کر پہلے سے زیادہ تیز بیں اور گہری نظر رکھنے والی ہو گئی ہے۔ اسلام کا رخ کیا ہے اور اپنے گمشدہ خزانے کو اس میں تلاش کر رہی ہے۔ ایران میں اسلامی جہوری نظام کا قیام اور اس کا روز افزوں استحکام اس مضبوط اور جوان تحریک کا نقطہ عروج ہے جس نے بذات خود مسلمانوں کی بیداری کی وسعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو استکبار کو جو اقوام کے عقائد اور مقدسات کی مخالفت کو آشکارا کرنے سے پرہیز کرتا رہا ہے، مجبور کر رہی ہے کہ اسلام کی مخالفت میں آشکارا طور پر تمام ممکن روشوں سے اور بعض اوقات تشدد اور درندگی کے ساتھ میدان میں آئے۔ امریکا اور یورپی ممالک میں ایسے متعدد سربراہوں اور سیاستدانوں کو پہچانا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنے بیانات میں کم سے کم ایک بار صراحت کے ساتھ اسلامی ایمان پھیلنے کو بڑا خطرہ قرار دیکر اس کے مقابلے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ایمان اور اسلامی عمل کی جانب مسلمان نوجوانوں کے رجحان میں جتنی وسعت آئی دشمنی اور گھبراہٹ کی عکاسی کرنے والے ان کے بیانات واضح تر ہوتے گئے اور اب نوبت یہ آ گئی ہے کہ بعض اسلامی ملکوں کے سربراہ اور سیاستداں بھی، جو ہمیشہ اسلام سے دشمنی کو نفاق کے پردے میں چھپاتے رہے ہیں، اپنے امریکی اور یورپی آقاؤں کی پیروی میں کھلے عام اسلام کے خطرے کا راگ الاپ رہے ہیں اور جن لوگوں پر حکومت کر رہے ہیں ان کے مقدس ایمان کو اپنے لئے خطرہ بتاتے ہیں۔ (27)

ٹاپ

اسلامی بیداری کے خلاف استکبار کی نفسیاتی جنگ
استکباری طاقتیں جن کے مفادات اور اہداف اسلامی بیداری سے خطرے میں پڑ گئے ہیں، اس روز افزوں لہر کو روکنے کے لئے سب سے اہم ہتھیار کے طور پر نفسیاتی حربے کا استعمال کر رہی ہیں۔ مایوسی پھیلانا، تشخص کی تحقیر کرنا، اپنی طاقت اور مادی وسائل کی دھونس جمانا۔ اب تک اور آئندہ بھی مسلمانوں کو ان کے درخشاں مستقبل کی طرف سے مایوس کرنے اور اپنی پلید نیتوں کے مطابق انہیں خاص انجام کی طرف لے جانے کے لئے ہزاروں تشہیراتی حربے استعمال کئے گئے ہیں اور کئے جاتے رہیں گئے۔ یہ نفسیاتی جنگ استعمار کے پورے دور میں سب سے موثر حربہ اور اسلامی ممالک پر مغرب کے تسلط کا بہترین ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔ یہ زہر آلود تیر سب سے پہلے مرحلے میں دانشور طبقے اور روشن خیال افراد پر برسائے جاتے ہیں اور پھر عوام کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے کا واحد راستہ مغرب کی مسلط کردہ ثقافت سے روگردانی ہے۔ دانشوروں اور روشن خیال افراد کے ذریعے مغربی ثقافت کا تنقیدی جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اس کی مفید باتوں کو قبول اور تخریبی و ضرر رساں عناصر کو اسلامی معاشروں کے ذہن و عمل سے دور کرنا چاہئے۔ اس جائزے کے سلسلے میں اسلامی ثقافت اور قرآن و سنت کی بارور، رہنما اور مشکل کشا تعلیمات کو کسوٹی قرار دینا چاہئے۔ یہ ہمہ جہتی اور نیک انجام تک پہنچنے والی مجاہدت کا ایک بنیادی باب ہے جس کی ذمہ داری عالم اسلام کے علمائے کرام، دانشور حضرات اور سیاسی شخصیات پر ہے۔ (28)
اس وقت امریکہ اور مغرب کی دیگر سامراجی طاقتیں اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ پوری دنیا پر حکمرانی کے ان کے منصوبے کے مد مقابل استقامت و بیداری کا مرکز دنیا اور خاص طور پر مشرق وسطی کے علاقے کے مسلمان ممالک اور اقوام ہیں۔ اگر چند برسوں کے اندر اقتصادی، سیاسی، تشہیراتی اور فوجی حربوں سے اسلامی بیداری کو قابو میں نہ کیا گيا اور اسے کچل نہ دیا گيا تو دنیا پر حکمرانی اور عالمی برادری پر مادی برتری اور صنعت کا پہیہ چلانے والے واحد وسیلے یعنی تیل اور گیس کے ذخائر پر ان کے بلا شرکت غیر تسلط کے سارے خواب چکناچور ہو جائيں گے۔ اس کے نتیجے میں مغربی اور صیہونی سرمایہ دار جو تمام استکباری حکومتوں کی باگڈور اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں اپنے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ (29)

ٹاپ

امت مسلمہ کے سامنے چیلنج اور انحرافات
تاریخ کے نشیب و فراز میں عظیم امت مسلمہ کو متعدد چیلنجوں اور انحرافات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہم نے خود کو اسلام سے دور کرکے ایسی چیزوں میں الجھا دیا کہ جن سے اسلام نے ہمیں سختی سے روکا تھا۔ اس طویل تاریخ کے دوران، ہم خانہ جنگیاں کرتے رہے، طاغوتی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عظیم امت مسلمہ ابتدائی صدیوں کے بعد کے طولانی دور میں خود کو اس ہدف و منزل تک نہیں پہنچا سکی جس کا تعین اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالی کا لطف یہ رہا کہ اس نے اسلامی ممالک میں مادی دولت و ثروت کے ذخیرے قرار دئے جو ہماری ترقی و پیش رفت کا وسیلہ بن سکتے تھے لیکن علم و صنعت اور ترقی کے دیگر میدانوں میں ہم پسماندگی کا شکار رہے۔ اسلام نے ہمیں یہ نہیں سکھایا تھا۔ یہ وہ انجام تھا جو ہماری بد اعمالیوں، غفلتوں اور طرز عمل سے سامنے آیا۔ ما اصابک من سیئۃ فمن نفسک زمانے میں ہماری غفلتوں نے ہمیں اس حالت پر پہنچایا۔ (30)
یہ بات بالکل درست ہے کہ کسی بھی معاشرے کی اندرونی کمزوری دشمن کے حملے کا مقدمہ ہوتی ہے لیکن دشمن کبھی اپنے وسائل اور امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے اچھے خاص صحتمند معاشرے میں یہ کمزوریاں پیدا کر دیتا ہے۔ ہمیں کسی غلط فہمی میں نہیں پڑنا چاہئے۔ اسلامی معاشرے کی حرکت کا رخ آج بھی استکبار اور تسلط پسند طاقتوں کے برخلاف سمت میں ہونا چاہئے جنہوں نے عالم اسلام پر پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ جو اسلام کی دشمن ہیں، جو مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہیں۔ اسلامی مملکت ایران سے ان کی دشمنی کی ساری وجہ اس ملک کی اسلام نوازی ہے۔ ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ دنیا میں اسلامی تحریک کی لہر اٹھنے نہ پائے۔ اس دشمنی و عناد میں امریکہ کی ظالم و جابر حکومت پیش پیش ہے اور اس کے پیچھے چھوٹی بڑی طاقتوں کی قطار ہے جو اسلام سے دیرینہ رنجش رکھتی ہیں یا اسلام سے ان کے مفاد ٹکرا رہے ہیں یا پھر وہ اسلام سے وہ ہراساں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے بھی ان کی دشمنی کی یہی وجہ ہے کہ اسلامی بیداری کا چشمہ یہیں سے جاری ہوا ہے اور دنیا بھر میں مسلمان قوموں کو اسی تحریک سے اور اسی کامیاب انقلاب سے حوصلہ مل رہا ہے اور وہ مضبوطی سے قدم بڑھا رہی ہیں اور آگے بڑھ رہی ہیں۔ اگر یہ طاقتیں اسلام کو خاکم بدہن اس جگہ پر شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں تو پوری دنیا میں پھیلنے والی اسلامی بیداری کی لہر کے مقابلے میں یہ ان کی سب سے بڑی فتح ہوگی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جو نظروں کے سامنے ہے۔ (31)

ٹاپ

چوتھی فصل: اسلامی بیداری کے تعلق سے قوموں کی ذمہ داریاں
مغرب کی سیاسی و ثقافتی سازشوں کے مقابلے کی ضرورت
برسوں تک مغرب کی فرومایہ ثقافت بغیر کسی روک ٹوک کے اسلامی ممالک میں فسق و فجور کی ترویج کرتی رہی۔ افسوس کا مقام ہے کہ بد عنوان اور اغیار پر منحصر حکومتیں دشمنوں کی سیاسی و ثقافتی سازشوں کے مقابلے میں کوئی مضبوط دیوار نہیں کھڑی کر سکیں جو اہلیت و لیاقت رکھنے والی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی ممالک کے حکام سیاسی تسلط اور اقتصادی لوٹ کھسوٹ کے ساتھ ہی اسلامی ممالک میں اپنی پست، فرومایہ اور رسوا کن ثقافت کی ترویج بھی کرنے لگے اور کوئی انہیں روکنے والا نہیں تھا۔
استکباری حکومتیں سمجھتی ہیں کہ ہمارے اوپر آٹھ سالہ جنگ مسلط کرکے، ہمارا اقتصادی بائیکاٹ کرکے اور دنیا میں ہمارے خلاف زہریلے پروپیگنڈے اور الزام تراشی کے ذریعے ہم پر ضرب لگانے میں کامیاب ہو جائیں گی لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ مسلمانوں کی بیداری اور اسلام نے ان کے ایوان اقتدار کی چولیں ہلا دی ہیں اور جیسے جیسے دن گزریں گے اسلامی بیداری کی طاقتور لہریں وقت کے فرعونوں کے تخت و تاج کو اور بھی متزلزل کرتی جائيں گی۔ (32)

ٹاپ

نسیم بیداری اور ہمارا فریضہ
امت اسلامیہ اس وقت ان کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجربہ کر رہی ہے۔ ان اہم واقعات کے سلسلے مین مسلمان حکومتوں اور قوموں دونوں پر بڑی اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ عالم اسلام اپنی تاریخ کے انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ فرائض سے واقفیت اور ان کے تئیں التزام تاریخ اسلام کے کمزوری اور بد بختی کے ورق کو پلٹ کر مسلمانوں کی عزت و عظمت اور عالم اسلام کی مادی و روحانی درخشندگی کا باب وا کر سکتا ہے۔ آج مغربی دنیا، جو اسلامی ممالک کی پسماندگی اور کمزوری کو شدید سے شدید تر کرتی رہی ہے، بہت بڑی اور لا ینحل دشواریوں میں گرفتار ہے۔ مادہ پرستی اور سرمایہ دارانہ نظام کے تباہ کن اثرات اس مادہ پرست تہذیب کی بنیادوں میں بتدریج آشکارا ہوتے جا رہے ہیں۔ صنعت و سرمائے کی چکا چوندھ میں چھپی ہوئی لا علاج بیماریاں رفتہ رفتہ ابھر رہی ہیں اور قریب آتے بحران کی خبر دے رہی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف عالم اسلام اپنے ستم دیدہ پیکر پر اسلامی بیداری کی نسیم کے حیات افزا جھونکوں کا احساس کر رہا ہے اور اس کے آثار عالم اسلام میں جگہ جگہ اور خاص طور پر سربلند و مجاہد مملکت ایران اسی طرح فلسطین اور لبنان میں نمایاں ہیں۔ ہر جگہ نوجوانوں کے دلوں میں امید کے چراغ جل اٹھے ہیں اور مغرب کی بالادستی اور حکمرانی کا طلسم ٹوٹ چکا ہے۔ (33)
آج دنیائے اسلام کو اتحاد و یکجہتی اور قرآن سے تمسّک و وابستگی کی ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ دوسری طرف ترقی و پیشرفت اور عظمت و سر بلندی کے لئے عالم اسلام کی توانائیاں پہلے سے زیادہ آشکارا ہو چکی ہيں اور امت مسلمہ کی عظمت و شوکت آج پورے عالم اسلام کے نوجوانوں اور اہل علم افراد کی خواہش و آرزو بن گئی ہے۔ مستکبروں کے منافقانہ نعرے اپنا بھرم کھو چکے ہیں اور امتِ مسلمہ کے لئے ان کے ناپاک عزائم رفتہ رفتہ آشکار ہوتے جا رہے ہيں۔ دوسری جانب یہ استکباری آدم خور جو پوری دنیا پر حاکمیت کا سودا اپنے سر میں پال رہے ہيں، امت مسلمہ کی بیداری اور اتحاد سے خوفزدہ ہیں اور اسے اپنے تباہ کن ارادوں کے آگے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں نیز اس سے آگے بڑھ جانے اور اسے روکنے کی کوششوں میں مصروف ہيں۔ (34)

ٹاپ

اسلامی اصولوں اور بنیادوں کی جانب واپسی
آج عالم اسلام میں حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ پوری دنیا میں اسلامی بیداری صاف محسوس کی جا رہی ہے۔ پورے عالم اسلامی میں مختلف مراحل پر استوار ایک عظیم تحریک اور گہما گہمی کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے، اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی جانب میلان کی تحریک جو مایہ عز و شان اور ضامن پیشرفت و ترقی ہے۔
عالم اسلام کے علما، دانشوروں اور ارباب سیاست کو چاہئے کہ اس عمل کی تقویت کریں۔ یہ تصور غلط ہے کہ نوجوانوں میں اٹھنے والی اسلامی بیداری کی لہر اسلامی حکومتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ جی نہیں، اسلامی بیداری کی برکت سے مسلم حکومتیں اپنا وہ وقار بحال کر سکتی ہیں جو سامراجی طاقتوں نے ان سے سلب کر لیا ہے۔ (35)

ٹاپ

قوموں کی طاقت ان کے ارادے و امید میں مضمر ہے!
اگر دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے دنیا بھر میں قوموں نے خود اعتمادی کے ساتھ اپنی اسلامی شناخت و ثقافت کی جانب واپسی کا سفر شروع کر دیا ہے تو اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ ملت ایران کی فداکارانہ مجاہدات نے اس استعماری و استکباری پروپیگنڈے پر کہ مشرقی اور مسلمان قومیں یورپی طاقتوں اور امریکہ کو پسپا نہیں کر سکتیں خط بطلان کھینچ دیا اور اپنی حقیقی طاقت و قوت کو منوا لیا۔ اصلی قوت صاحب ایمان عوام ہوتے ہیں جن کے مقابلے میں کوئی بھی مادی طاقت، خواہ وہ کتنی ہی بڑی اور وسائل سے کتنی ہی آراستہ کیوں نہ ہو، منمانی نہیں کر سکتی۔ (36)
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ترقی و پیشرفت، ریڈیو اور ٹی وی جیسے وسائل کی فراہمی، تشہیراتی ذرائع، صنعتی امکانات اور سرمائے کے ذریعے قوموں اور ان کے جملہ امور زندگی پر سامراجی طاقتوں کا تسلط اور غلبہ روز بروز بڑھتا چلا گيا ہے لیکن قدرت کا فیصلہ یہ تھا کہ قومیں بیدار ہوں اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ قومیں روز بروز بیدار ہو رہی ہیں اور اس کی وجہ مستقبل کے تئيں امید کا وہ جذبہ ہے جو ان کے اندر موجزن ہے۔ یہ امید قوموں میں بیداری پھیلا رہی ہے اور بیشک ان گزشتہ برسوں میں قوموں کے اندر امید جاگنے کا سبب ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح، عوامی حکومت کی تشکیل، مشرقی و مغربی بلاکوں کے تسلط سے آزاد حکومت کا قیام اور استکباری طاقتوں کے مقابلے میں استقامت و مزاحمت کی حکمت عملی کی کامیابی رہی ہے۔ ان واقعات سے دنیا کے لوگوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے اندر امید کی کرن جاگی ہے اور ان میں بیداری آئی ہے۔ یہ قدرت خداوندی کا کرشمہ ہے۔ (37)

ٹاپ

تمام اہداف کے حصول تک بیداری کی راہ پر سفر
آج عالم اسلام کی بیداری اور اسلام دشمن طاقتوں کی رسوائی نظروں کے سامنے ہے۔ اس سلسلے کو آگے بڑھانا چاہئے۔ یہ وہی راستہ ہے جو امت اسلامیہ کو اس کے مطلوبہ اہداف اور منزلوں یعنی عزت و وقار، روحانیت و معنویت، رفاہ و آسودگی، علمی عظمت اور ان تمام چیزوں تک پہنچا سکتا ہے جن کی ایک قوم کو ضرورت اور چاہت ہوتی ہے۔ یہ صحیح راستہ جس پر فرزندان انقلاب اور فرزندان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے قدم رکھے ہیں ہمیں اس منزل تک پہنچائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ استقامت و ثابت قدمی سے کام لیا جائے۔ یہاں استقامت سے مراد ہے راستے سے نہ بھٹکنا، مادی رنگینیوں میں گم نہ ہونا، خواہشات کا اسیر نہ بننا، روحانی و اخلاقی فرائض اور اسلامی آداب کو خیرباد نہ کہنا اور تعیش و آرام طلبی میں غرق نہ ہونا۔ یہ ساری بنیادی چیزیں ہیں۔ (38)
ایشیا میں اور افریقہ میں اسلام، اسلامی لہر اور اسلامی تحریک کے خلاف انجام پانے والی مربوط کوششوں اور سرگرمیوں کے باوجود اسلامی تحریک کی یہ لہر اسلامی بیداری کی یہ موج بدستور پھیلتی جا رہی ہے اور اب دشمن کچھ بھی کرنے پر قادر نہیں ہے۔ یہ آپ (ملت ایران) کے شجاعانہ، مومنانہ اور دلیرانہ قیام اور انقلاب کی برکت ہے۔ (39)

ٹاپ

استعمار کے مقابلے کا ایک نسخہ
خاص طور پر اس وقت جس پر غور و فکر ضروری ہے، اپنی تاریخ سے امت اسلامیہ کے منسلک ہونے کا مسئلہ ہے اور اسی طرح اس انجام کے بارے میں بھی غور و فکر ضروری ہے جو امت اسلامیہ کو خود اپنے لئے رقم کرنا ہے۔ امت اسلامیہ کا ماضی ایسا ہے کہ سامراج نے ایشیا اور افریقا میں اپنی آمد کے بعد اسے مخدوش کرنے اور اس بات کی بہت کوشش کی کہ اس کو فراموش کر دیا جائے۔ اسلامی ملکوں کے مادی اور افرادی قوت کے ذخائر پر تسلط اور مسلمان اقوام کے امور پر قبضے کا جو اٹھارھویں صدی کے اواخر سے سامراجیوں کا براہ راست اور بالواسطہ ہدف رہا ہے، تقاضا تھا کہ مسلمان اقوام کا تشخص اور ان کے اندر پایا جانے والا احساس عظمت ختم کر دیا جائے اور انہیں ان کے پرشکوہ ماضی سے بالکل الگ کر دیا جائے اور اس طرح انہیں اپنے اخلاقی اصول و ثقافت کو چھوڑ کے مغربی ثقافت اور سامراجی تعلیم کو قبول کرنے پر مائل کیا جائے۔ اسلامی ملکوں میں حکمفرما بدعنوان اور استبدادی حکومتوں کے تسلط سے پیدا ہونے والے ساز گار حالات میں یہ حیلہ کارگر ہوا اور مغربی ثقافت اور ان تمام چیزوں کا سیلاب شروع ہو گیا کہ جنہیں سامراج مسلم اقوام پر اپنے سیاسی اور اقتصادی تسلط کے لئے ان کے درمیان پھیلانا ضروری سمجھتا تھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی ممالک دو سو سال تک مغربی لٹیروں کی لوٹ مار کی آماجگاہ بنے رہے اور کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ انہوں نے براہ راست حکمرانی سے لیکر، قدرتی ذخائر پر قبضے، یہاں تک کہ قومی زبان کے رسم الخط کی تبدیلی، فلسطین جیسے ایک اسلامی ملک پر مکمل قبضے اور اسلامی مقدسات کی توہین تک سب کچھ کیا اور مسلمانوں کو علمی و ثقافتی نشو نما سمیت، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی خودمختاری کی تمام برکات سے محروم کر دیا۔ (40)
عظیم ملت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان دلی قربت پیدا ہونا چاہئے۔ تفرقے اور اختلاف کی باتیں جو دشمنوں نے مسلمان اقوام کے درمیان پھیلائی ہیں اسلامی بیداری کے ان معروضی حالات میں بے اثر بنا دی جانی چاہئے۔ مسلمانوں کے درمیان علاقائی و جغرافیائی فاصلے، نسلی و لسانیاتی فرق کے باوجود ہمدلی، ہمفکری اور سعی باہم کا ماحول ہونا چاہئے اور سب کو عظیم اسلامی اہداف کی جانب ایک ساتھ بڑھنا چاہئے۔ (41)
آج ہمارے عوام میں ہر شخص اپنے آپ میں عظمت و جلالت کا مالک ہے۔ اسلامی معاشرے میں کوئی بھی شخص اگر اسلام اور انقلاب پر ایمان و ایقان رکھتا ہے تو وہ خود کو کبھی بھی بے وقعت تصور نہیں کرے گا۔ یہ بڑی عظیم شئے ہے۔ اسلامی معاشرہ ایسا ہی ہونا چاہئے۔ دشمنوں کی یہ کوشش رہی کہ مسلمانوں کو اندر سے کمزور بنا دیں اور ان کے اندر بے وقعتی کا احساس پیدا کر دیں۔ اسلامی انقلاب آیا تو اس نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی، قوموں کے اندر حقارت کا یہ احساس جاتا رہا، خود کو حقیر تصور کرنے والی پسماندہ و ستم رسیدہ قومیں اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد قدرے بہتر حالت میں پہنچیں اور انہیں محسوس ہوا کہ ان کا اپنا بھی ایک وجود ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ اس قوم اور اس انقلاب نے کس طرح دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کو کس طرح خاطر میں نہ لاتے ہوئے انہیں بے دست و پا کر دیا اور مقابلے میں انہیں دھول چٹا دی؟ یہ منظر دنیا کی پسماندہ قوموں نے بھی دیکھا، بڑی قوموں کی بھی نگاہ اس پر پڑی اور تیسری دنیا والوں نے بھی اس کا مشاہدہ کیا۔ نتیجتا ان کے اندر ایک نیا جوش انگڑائياں لینے لگا۔ (42)

ٹاپ

مآخذ

1: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 28/12/1377ہجری شمسی 19/3/1999 عیسوی

2: ماہرین کی کونسل مجلس خبرگان سے خطاب کا اقتباس 19/6/1382 ہجری شمسی مطابق 10/9/2003 عیسوی

3: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 8/11/1382 ہجری شمسی  مطابق 28/1/2004 عیسوی

4: وزارت خارجہ کے عہدیداروں سے خطاب کا اقتباس 25/5/1383 ہجری شمسی مطابق 15/8/2004 عیسوی

5: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 26/3/1370 ہجری شمسی مطابق 16/6/1991 عیسوی

6: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کا اقتباس 31/6/1366 ہجری شمسی مطابق 22/9/1987عیسوی

7: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 18/11/1381 ہجری شمسی مطابق 7/2/2003 عیسوی

8: ملک کے اعلی عہدیداروں سے خطاب کا اقتباس 27/12/1380 ہجری شمسی مطابق 18/3/2002 عیسوی

9: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 28/12/1377ہجری شمسی مطابق 19/3/1999 عیسوی

10: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 26/3/1370 ہجری شمسی مطابق 16/6/1991 عیسوی

11: فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں خطاب کا اقتباس 1/1/1390 ہجری شمسی مطابق 21/3/2011 عیسوی

12: فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں خطاب کا اقتباس 1/1/1390 ہجری شمسی مطابق 21/3/2011عیسوی

13: عید بعثت کے موقع پر حکام سے خطاب کا اقتباس 11/6/1384 ہجری شمسی مطابق 2/9/2005 عیسوی

14: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 19/10/1384 ہجری شمسی مطابق 9/1/2006 عیسوی

15: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 17/8/1389 ہجری شمسی مطابق 8/11/2010 عیسوی

16: ولادت حضرت امام حسین کے موقع پر خطاب کا اقتباس 10/12/1368 ہجری شمسی مطابق 1/3/1990 عیسوی

17: ولادت رسول اسلام کے موقع پر خطاب کا اقتباس 10/4/1378 ہجری شمسی مطابق 1/7/1999 عیسوی

18: علمائے کرام اور دینی طلبہ سے خطاب کا اقتباس 2/12/1368 ہجری شمسی مطابق 21/2/1990عیسوی

19: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 26/3/1370 ہجری شمسی مطابق 16/6/1991 عیسوی

20: عید بعثت کے موقع پر حکام سے خطاب 11/6/1384 ہجری شمسی مطابق 2/9/2005عیسوی

21:  اساتذہ اور طلبہ کی ایک تقریب سے خطاب کا اقتباس 26/3/1368 ہجری شمسی مطابق 16/6/1989 عیسوی

22 شہیدوں کے خاندانوں سے خطاب کا اقتباس 13/10/1368 ہجری شمسی مطابق 3/1/1990عیسوی

23: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 14/4/1368 ہجری شمسی مطابق 5/7/1989 عیسوی

24: اہواز کے نوجوانوں سے خطاب کا اقتباس 8/5/1382 ہجری شمسی مطابق 30/7/2003 عیسوی

25:  امام خمینی کی برسی کے موقعے پر غیر ملکی مہمانوں سے خطاب کا اقتباس 15/3/1370 ہجری شمسی مطابق 5/6/1991عیسوی

26: عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن کی مناسبت سے پیغام کا اقتباس 13/8/1369 ہجری شمسی مطابق 4/11/1990عیسوی

27: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 28/2/1372 ہجری شمسی مطابق 18/5/1993عیسوی

28: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 12/12/1379 ہجری شمسی مطابق 2/3/2001 عیسوی

29: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 29/10/1383 ہجری شمسی مطابق 18/1/2005عیسوی

30: ولادت رسول اسلام کے موقع  پر حکام سے خطاب کا اقتباس 29/2/1382 ہجری شمسی مطابق 19/5/2003 عیسوی

31: علمائے دین سے خطاب کا اقتباس 7/5/1371 ہجری شمسی مطابق 29/7/1992 عیسوی

32: رہبر کبیر انقلاب کے چہلم کی تقریب سے خطاب کا اقتباس 22/4/1368 ہجری شمسی مطابق 13/7/1989 عیسوی

33: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 12/12/1379 ہجری شمسی مطابق 2/3/2001 عیسوی

34: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 29/10/1383 ہجری شمسی مطابق 18/1/2005 عیسوی

 35: ولادت رسول اسلام کے موقع  پر حکام سے خطاب کا اقتباس 29/2/1382 ہجری شمسی مطابق 19/5/2003 عیسوی

36: عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن کی مناسبت سے پیغام کا اقتباس 13/8/1369 ہجری شمسی مطابق 4/11/1990 عیسوی

37: نیمہ شعبان کے موقع پر مختلف شعبوں کے عہدیداروں سے خطاب22/12/1368 ہجری شمسی مطابق 13/3/1990عیسوی

38: : ولادت حضرت امام حسین کے موقع پر خطاب کا اقتباس 17/7/1381 ہجری شمسی مطابق 9/10/2002 عیسوی

39: قم کے عوام سے خطاب کا اقتباس 19/10/1379 ہجری شمسی مطابق 8/1/2001 عیسوی

40: حجاج کرام کے نام پیغام کا اقتباس 26/3/1370 ہجری شمسی مطابق 16/6/1991 عیسوی

41: : رہبر کبیر انقلاب کے چہلم کی تقریب سے خطاب کا اقتباس 22/4/1368 ہجری شمسی مطابق 13/7/1989عیسوی

42: شہیدوں کے خاندانوں سے خطاب کا اقتباس 13/10/1368 ہجری شمسی مطابق 3/1/1990عیسوی