آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس تقریب میں اس بنیادی اصول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران میں مسلح فورسز، ملک و قوم کے لیے ایک مضبوط فصیل اور قلعہ ہیں، کہا: جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے: "والجنود باذن اللہ حصون الرعیۃ"؛ اس چیز نے حقیقی معنی میں ہمارے ملک میں عملی شکل اختیار کی ہے اور آج مسلح فورسز، فوج، سپاہ، پولیس اور رضاکار فورس کے ادارے صحیح معنی میں اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے فوجی خطروں کے مقابلے میں دفاعی ڈھال ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک میں سلامتی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا: کسی بھی ملک کی سیکورٹی، ترقیاتی کاموں اور سرگرمیوں کی بنیادی شرط ہے۔ سلامتی سب سے اہم مسئلہ ہے جس پر مسلح فورسز کو مد نظر رکھتے ہوئے توجہ دی جانی چاہیے۔ انھوں نے کسی ملک کی سلامتی کو خود اسی کی مضبوط مسلح فورسز کے ذریعے یقینی بنائے جانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اور اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ملک کی سیکورٹی، اغیار کے قبضے میں نہیں ہونی چاہیے، کہا: جو لوگ دوسروں پر بھروسے کے وہم میں یہ سوچتے کہ وہ ان کی سیکورٹی کو یقینی بنا سکتے ہیں، انھیں جان لینا چاہیے کہ عنقریب ہی وہ اس کا خمیازہ بھگتیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یورپی ملکوں اور امریکا کے درمیان حال میں سامنے آنے والے اختلافات کی طرف اشارہ کیا اور اسے کسی بھی ملک کی سلامتی کی ذمہ داری خود اسی کے ذریعے سنبھالنے کی اہمیت کا نمونہ بتایا اور کہا: حال ہی میں یورپ اور امریکا کے درمیان جو چپقلش ہوئي اور یورپ والوں نے کہا کہ امریکا نے ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے، اس میں اصلی ماجرا یہی ہے کہ یورپ کو اس بات کی ضرورت پڑ گئی ہے کہ وہ اپنی سیکورٹی کی ذمہ داری کو، اپنی ہی فورسز کے ذریعے یعنی نیٹو سے قطع نظر جس کے سیاہ سفید کا مالک امریکا ہے، اپنے ہاتھ میں لیں۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یورپی ملکوں کی سلامتی کو اجنبی فورسز سے متعلق یا ان کے قبضے میں بتایا اور اسے ان ملکوں کی ایک کمی سے تعبیر کیا۔ انھوں نے موازنہ کرتے ہوئے کہا: یورپ کے پیشرفتہ ممالک تک کی سیکورٹی جب باہری فورسز کے قبضے میں یا ان کے ہاتھوں میں ہے، چاہے وہ باہری فورس بظاہر ان کی دشمن نہیں ہے، تب بھی وہ ممالک محرومی کا احساس کرتے ہیں اور حقیقت میں ایسا ہی ہے کہ ان میں کمی ہے۔ ان ممالک کی تو بات ہی الگ ہے جو کوئي خاص پیشرفتہ بھی نہیں ہیں اور ان کی سلامتی امریکا اور امریکا جسیے ممالک کی مسلح فورسز کے اختیار میں ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کسی ملک کے سیکورٹی مسائل میں اغیار کی مداخلت کو، اس ملک کے لیے انتہائي تباہ کن مصیبت بتایا اور کہا: دنیا کے ملکوں کے لیے ایک انتہائي تباہ کن مصیبت یہ ہے کہ اغیار ان کے سیکورٹی مسائل میں مداخلت کریں، ان کی جنگ و صلح کا منصوبہ پیش کریں اور ان کے لیے راستے کا تعین کریں۔ آج یورپی ممالک تک، جو نیٹو کی چھاؤں میں ہی سانس لیتے ہیں، خودمختاری کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خطے میں امریکا سمیت باہری ملکوں کی افواج کی موجودگي کو تباہی اور تنازعات کا باعث بتایا اور کہا: سبھی کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ملک خود مختار ہوں اور فوجیں خود مختار، اپنی اپنی قوم پر منحصر ہوں اور ہمسایہ فوجوں اور خطے کی دیگر فوجوں کے ساتھ تعاون کریں۔ اس خطے کی بھلائی اسی میں ہے۔
اس تناظر میں آیت اللہ خامنہ ای نے افغانستان میں امریکی فوج کے جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: امریکی فوج، جو مختلف طرح کے تمام روایتی و غیر روایتی ہتھیاروں سے لیس ہے، ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں داخل ہو گئي تاکہ طالبان کی حکومت کو سرنگوں کر دے۔ وہ بیس سال تک اس ملک میں رہی اور اس نے قتل عام اور جرائم کیے، غاصبانہ قبضہ کیا، منشیات کو پھیلایا اور اس ملک کے محدود اور مختصر بنیاد ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ بیس سال بعد اس نے حکومت طالبان کے حوالے کر دی اور افغانستان سے نکل گئي۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے خطے میں باہری فوجوں کو مداخلت کی اجازت نہ دیے جانے پر تاکید کی اور علاقائي ممالک سے کہا کہ ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ اغیار کی فوجیں، اپنے قومی مفادات کے لیے، جن کا علاقائي اقوام سے کوئي تعلق نہیں ہے، ہزاروں میل دور سے یہاں آئيں اور ان ممالک میں مداخلت کریں، یہان ان کی فوجی موجودگي ہو اور وہ علاقائی فوجوں میں مداخلت کریں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ خطے کی ان اقوام کی فوجیں، اس علاقے کو کنٹرول کر سکتی ہیں اور انھیں دوسروں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے شمال مغرب میں رونما ہونے والے کچھ واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات بھی، جو ہمارے ملک کے شمال مغرب میں بعض ہمسایوں کے یہاں رونما ہو رہے ہیں، یہ بھی وہی چیزیں ہیں جنھیں اسی سوچ اور منطق کے ساتھ حل کیا جانا چاہیے۔ البتہ ہمارا ملک اور ہماری مسلح فورسز، پوری عقلمندی سے کام کرتی ہیں۔
آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں خطے کی حکومتوں کو عقلمندی کے ساتھ عمل کی نصیحت کی اور کہا: بہتر ہوگا کہ دوسرے بھی عقلمندی سے کام کریں اور اس علاقے کو مشکل میں نہ پڑنے دیں۔ جو لوگ اپنے بھائيوں کے لیے گڑھا کھودتے ہیں، اس گڑھے میں وہ خود پہلے گرتے ہیں۔ "من حفر بئرا لاخیہ، وقع فیہ" یعنی جو اپنے بھائی کے لیے گڑھا کھودتا ہے، وہ خود اس میں گر جاتا ہے۔