دلچسپ بات یہ ہے کہ شہر قم کی پیدائش بھی ایک جہادی اقدام کا نتیجہ ہے جو بصیرت کے ساتھ انجام دیا گیا۔ یعنی اشعریوں کا خاندان جب یہاں آیا اور اس علاقے میں قیام پذیر ہو گيا تو در اصل اس نے معارف اہلبیت علیہم السلام کی ترویج کے لئے، ایک ثقافتی جد وجہد یہاں شروع کی تھی۔ اشعریوں نے اس سے پہلے کہ وہ قم آئیں، میدان جنگ میں جہادی کارنامے بھی انجام دئے تھے۔ اشعریوں کے بڑوں نے جناب زيد ابن علی ( علیہما السلام ) کی قیادت میں رہ کر جہاد کیا تھا۔ یہی وجہ تھی حجاج ابن یوسف ان پر غضبناک ہوا اور یہ لوگ یہاں آنے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے اپنی کوششوں سے، اپنی بصیرت سے، اپنے علم و دانش سے اس علاقے کو علم کا گہوارا قرار دیا اور یہی چیز باعث بنی کہ حضرت فاطمۂ معصومہ سلام اللہ علیہا جب اس علاقے میں پہنچیں تو آپ نے قم آنے کی خواہش ظاہر کی۔ یہاں ان ہی اشعریوں کے بزرگوں کے سبب، لوگ گئے ان کا استقبال کیا، حضرت معصومۂ ( قم) کو اس شہر میں لے آئے اور یہ نورانی بارگاہ اس دن سے، اس عظیم ہستی کی وفات کے بعد سے ہی اس شہر قم میں نورافشانی کر رہی ہے۔ اہل قم نے جو اس عظیم ثقافتی تحریک کے وجود کا باعث بنے تھے اسی دن سے اس شہر میں معارف اہلبیت علیہم السلام کا مرکز تشکیل دیا اور سیکڑوں عالم، محدث، مفسر اور اسلامی و قرآنی احکام کے مبلغ عالم اسلام کے مشرق و مغرب میں روانہ کئے۔ قم سے ہی خراسان کے خطے میں اور عراق و شامات کے مختلف حصوں میں علم پھیلا۔ روز اول سے ہی قم والوں کی بصیرت کا یہ عالم ہے، کیونکہ قم کی پیدائش ہی جہاد و بصیرت کی بنیاد پر ہوئي ہے۔
امام خامنہ ای
19 اکتوبر 2010