انھوں نے فرمایا کہ یہ حوزہ جدتآفریں، پرورشیافتہ، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ، نئے پیدا ہونے والے مسائل کا جواب دینے والا، بااخلاق، ترقی اور جہد کی روح سے مالامال، انقلابی شناخت کا حامل اور معاشرے کے نظم و نسق کے لیے منصوبہ بندی کی صلاحیت رکھنے والا ہونا چاہیے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ حوزے کا سب سے اہم فریضہ "بلاغ مبین" ہے جس کی اعلیٰ ترین مثال اسلامی تہذیبِ نو کے بنیادی اور فرعی خطوط کی ترسیم، اس کی تشریح و ترویج اور معاشرے میں اس کی ثقافتی تشکیل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام کے آغاز میں قم کے حوزۂ علمیہ کے قیام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے چودہویں صدی ہجری شمسی کے ابتدائی اہم اور پرآشوب واقعات کے تناظر میں نیز آیتاللہ الحاج شیخ عبدالکریم حائری کے حوزے کی بنیاد رکھنے، اسے پائیدار بنانے اور ترقی دینے میں کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا: حوزۂ علمیۂ قم کا ایک بڑا اعزاز یہ ہے کہ اس سے امام خمینی جیسے آفتابِ عالمتاب نے جنم لیا اور اس حوزے نے چھے دہائیوں سے بھی کم عرصے میں اپنی روحانی قوت اور عوامی مقبولیت کو اس بلندی تک پہنچا دیا کہ اس نے عوام کے ہاتھوں خائن، فاسد اور بدکار شاہی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور صدیوں بعد اسلام کو ملک کی سیاسی حکمرانی کے عرش پر بٹھا دیا۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ حوزۂ علمیہ صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ علم و تربیت اور سماجی و سیاسی افعال کا ایک مرکز ہے، کچھ اہم نکات بیان کیے جو حوزے کو حقیقی معنی میں "پیش رو اور سربرآوردہ" بنا سکتے ہیں۔
انھوں نے اس سلسلے میں پہلے نکتے کی تشریح کرتے ہوئے حوزۂ علمیۂ قم کو شیعہ علم کا ایک عظیم مرکز بتایا جو ہزار سال سے فقہ، کلام، فلسفہ، تفسیر اور حدیث جیسے علوم میں ہزاروں علماء کی تحقیقات و افکار کا نتیجہ ہے۔
انھوں نے آج کے دور میں انسانی زندگی کے متعدد پیچیدہ مسائل اور نئے سوالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن کا جواب دینے کے لیے فقہ کو تیار رہنا چاہیے، کہا کہ آج اسلامی نظام کی تشکیل کے بعد بنیادی سوال یہ ہے کہ شریعت انسانی زندگی کے فردی و اجتماعی پہلوؤں کو کس نظر سے دیکھتی ہے اور فقیہ کا ہر فتویٰ اس کلی نظریے کا عکاس ہونا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ایک گرانقدر اور ہزار سالہ علمی تجربہ رکھنے والے مرکز کی حیثیت سے حوزۂ علمیہ کی ایک اہم ذمہ داری اسلامی حکمرانی اور معاشرے کی تدبیر سے متعلق مسائل کا جواب دینا ہے۔ مثلاً حکومت و عوام کے تعلقات، بین الاقوامی تعلقات، اقتصادی نظام، اسلامی حکومت کی بنیادیں، عدل کا مفہوم، اور ایسے ہی دیگر اہم معاملات جن کے لیے فقہی جوابات درکار ہیں۔
انھوں نے پیشرو اور ممتاز حوزے کی دوسری اہم خصوصیت بیان کرتے ہوئے اس بات پر تاکید کی کہ حوزہ بنیادی طور پر باہر کی دنیا پر نظر رکھنے والا مرکز ہے جس کا نتیجہ ہر سطح پر معاشرے کی فکر و ثقافت کی خدمت ہے اس لیے اس کی سب سے بڑی ذمہ داری "بلاغ مبین" ہے جس کے لیے تربیت یافتہ اور قابل افراد کی ضرورت ہے۔
آیتاللہ العظمی خامنہای نے کہا کہ "بلاغ مبین" کا دائرہ توحید کی بلند تعلیمات سے لے کر شرعی فرائض، اسلامی نظام کی وضاحت، طرز زندگی، ماحولیات اور دیگر انسانی شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حوزے کی ایک کمی یہ ہے کہ اس کی تبلیغی کوششیں عوامی فکری و ثقافتی حقائق خصوصاً نوجوانوں کی ضروریات کے مطابق نہیں ہیں اور حوزے میں لکھے جانے والے سیکڑوں مقالے، گفتگو، مکالمے اور اسی طرح کی دوسری چیزیں غلط فہمی پیدا کرنے والے پروپیگنڈوں کے مقابلے میں بلاغ مبین کی کما حقہ ذمہ داری کو پورا نہیں کر سکتیں۔
انھوں نے کہا کہ "بلاغ مبین" کی صحیح ادائیگی کے لیے "تعلیم" اور "تہذیب" دو اہم ستون ہیں اور جدید تقاضوں کے مطابق پیغام رسانی کے لیے مضبوط دلائل، مکالمے کی صلاحیت، عوامی رائے اور میڈیا سے برتاؤ، اور مخالفین کے ساتھ نظم و ضبط سیکھنا ضروری ہے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ تبلیغ میں دفاعی کی بجائے مثبت اور حتی کہ جارحانہ موقف اہم ہے اور اس مقصد کے لیے حوزہ کو " ثقافتی مجاہد" تیار کرنے ہوں گے اور اسی کے ساتھ نظام اور ملک کی تدبیر کے لیے بھی اہل افراد کی تربیت ضروری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حوزے کی "جہادی شناخت" کی حفاظت اور تقویت کو پیشرو اور ممتاز حوزے کی تیسری اہم خصوصیت بتایا اور سنہ 1988 میں علماء کے نام امام خمینی کے معنی خیز اور ہلا دینے والے پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی نے اس پیغام میں علماء کو جہاد اور مظلوموں اور ملک کی حمایت میں پیش پیش رہنے والا بتایا تھا اور ساتھ ہی اس بات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا کہ رجعت پسندی اور تقدس نمائی حوزۂ علمیہ کو دین کو سیاست اور سماجی سرگرمیوں سے جدا کر دیتی ہے اور پیشرفت کی صحیح راہ کو بند کر دیتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ دین کی تقدس جہاد فکری، سیاسی اور نظامی میں سب سے زیادہ جلوہ گر ہوتی ہے۔ حوزہ علمیہ کو معاشرے اور اس کے بنیادی مسائل سے کبھی جدا نہیں ہونا چاہیے اور ضرورت پڑنے پر ہر قسم کے جہاد کو اپنا فرض سمجھنا چاہیے۔
انھوں نے معاشرے کے نظاموں کی تشکیل و تشریح میں حوزے کی شمولیت کو پیشرو اور ممتاز حوزے کی چوتھی اہم خصوصیت بتاتے ہوئے کہا کہ حوزے کو اس خلا کو پر کرنا چاہیے اور یہ حوزۂ علمیہ کے حتم فرائض میں سے ایک ہے اور آج فقاہت کو بعض جاہلو کی طرح صرف انفرادی و عبادتی احکام میں غرق رہنے تک محدود نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ "امت ساز فقہ" کا دائرہ عبادتی احکام اور انفرادی فرائض تک محدود نہیں ہے۔
آیتاللہ العظمی خامنہای نے دنیا کے جدید علوم سے حوزے کی آگاہی اور یونیورسٹیوں کے ساتھ اس کے تعاون کو سماجی نظاموں کی تیاری کے لیے ضروری ہے۔
انھوں نے پیشرو اور ممتاز حوزے کی پانچویں اہم خصوصیت کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ حوزے کو اسلام کے عالمی پیغام کے تناظر میں تمدنی جدت طرازی کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ حوزۂ علمیہ سے سب سے بڑی توقع "اسلامی تمدن کی تشکیل" ہے جس میں علم، ٹیکنالوجی، انسانی و طبیعی وسائل، حکومت، سیاست اور تمام ترقیات اجتماعی عدل، عوامی بہبود، معنوی تربیت اور ایمان کی مضبوطی کے لیے استعمال ہوں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی تمدن کو موجودہ بے راہ رو مادی تمدن کے بالکل برخلاف بتاتے ہوئے کہا کہ آفرینش کی حتمی سنت کی بنیاد پر یہ باطل تمدن فنا ہونے والا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس باطل تمدن کو ختم کرنے اور اس کے متبادل تمدن کی تشکیل میں فکری و عملی طور پر اپنا کردار ادا کریں۔ انھوں نے کہا کہ اس میدان میں حوزۂ علمیہ کی اہم ذمہ داری ہے جس میں پہلے مرحلے میں جدید اسلامی تمدن کے خطوط متعین کرنا، پھر اس کی تشریح و ترویج کرنا اور معاشرے میں اس کی ثقافت کو پروان چڑھانا ہے اور یہ بلاغ مبین کے سب سے برتر مصادیق میں سے ایک ہے۔
انھوں نے اجتہاد میں زمان و مکان کے عنصر کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ جدت طرازی کو شریعت کے ناخالص بننے کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ انھوں نے حوزۂ علمیۂ قم کی موجودہ صورت حال کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہزاروں اساتذہ، مصنفین، محققین، طلباء اور علماء کی موجودگی، علمی جرائد کا اجراء، تخصصی مضامین کی تصنیف، انقلابی اور حتی کہ فوجی میدانوں میں سرگرم شرکت، عالمی سطح پر تبلیغ اور مختلف قوموں کے طلباء کی تربیت، نئے فقہاء کی عصری مسائل پر توجہ، نوجوان علماء کا قرآن مجید اور دیگر معتبر اسلامی متون میں غور و فکر، اور خواتین کے حوزوں کا قیام، یہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ حوزۂ علمیۂ قم ایک زندہ و پُرتحرک ادارہ ہے۔
انھوں نے اپنے پیغام کے آخر میں حوزے کو "پیش رو و سربرآوردہ" بنانے کے لیے کچھ تجاویز پیش کیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں: حوزہ کا جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا، ہر شعبے میں اہل افراد کی تربیت، عوام کے ساتھ حوزے کے افراد کے تعلقات میں اضافہ، حوزے کے مدیروں کا معاندانہ پروپیگنڈے کا مدبرانہ مقابلہ، نوجوان نسل کے ساتھ خوش گمانی اور مثبت تعاون، حوزے کے دروس کو روشن بین، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ، واضح فلسفے اور سماجی اثرات کی حامل فقہ پر مبنی بنانا، زہد، تقویٰ، قناعت، اللہ پر توکل، ترقی اور جہاد کے لیے تیاری کی روح کو فروغ دینا۔