بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمد للہ رب العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین عجّل اللہ تعالی فرجہ الشّریف و ارواحنا فداہ
خوش آمدید! برداران وخواہران عزیز! قم کے عزیز عوام، شہر قیام، شہر معرفت اور شہر جہاد، قم کے تاریخی قیام کے مجاہدین کے عزیز ورثا!
خداوند عالم کا شکرگزار ہوں کہ اس نے زندگی اور مزید ایک موقع دیا کہ 9 جنوری کے ایک اور موقع پر آپ عزیزوں سے ایک اور ملاقات اور چند جملے آپ کے سامنے عرض کر سکوں۔
نو جنوری 1978 کے واقعے، قم کے عوام کے اس قیام میں متعدد نکات پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں ہم بھی کچھ باتیں عرض کر چکے ہیں اور دوسروں نے بھی کہی ہیں۔ ان باتوں کو دوبارہ دوہرنا نہیں چاہتا لیکن بعض نکات ایسے ہیں جن کا ہماری قوم اور ملک کو ہمیشہ سامنا رہتا ہے، وہ آج کی باتیں بھی ہیں جو پرانی ہونے والی نہیں ہیں، لہذا انہیں دوہرانا مفید ہے۔
ایک بات جس کے تعلق سے میں آج چند جملے عرض کروں گا بڑے واقعات میں عوام کا کردار ہے۔ ہمیں اس کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ ہم نے خود اپنی زندگی میں اس کا تجربہ کیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسے فراموش نہ کریں بلکہ دوسروں کے لئے اس کی تشریح بھی کریں۔ آج غزہ کو ملاحظہ فرمائيں، ایک عظیم واقعے میں عوام کی موجودگی اور ان کی استقامت کا کردار ملاحظہ فرمائيں کہ ایک چھوٹے سے گروہ نے، تھوڑے سے لوگوں نے، ایک بالشت زمین، (چھوٹی سی سرزمین) کی بیس لاکھ کی آبادی نے، امریکا جیسی بڑی طاقت اور اس سے وابستہ صیہونی حکومت کو عاجز کر دیا ہے، عوام کی موجودگی کی طاقت یہ ہے۔
قم کا واقعہ اس سے بہت عظیم ہے کیونکہ قم کے عوام نو جنوری کو سڑک پر نکل پڑے، مار کھائی، کچھ لوگ شہید ہوئے، کچھ لوگ گرفتار ہوکے جیل گئے۔ لیکن انھوں نے ایسی تحریک شروع کر دی جس نے اس ملک پر مسلط ظالم اور مستکبر حکومت کو ایک سال میں ختم کر دیا۔
9 جنوری 1978 سے 11 فروری 1979 تک، کتنی مدت ہے؟ مختلف میدانوں میں عوام کی موجودگی یہ ہوتی ہے۔ میں اس کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اس کو فراموش نہ کریں۔ جب قوم کے بازو میں، قوم کی مٹھی میں ایسی طاقت ہو تو اس کی قدر کیوں نہ کی جائے؟ اس سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا جائے؟ بڑے معاملات میں اس سے کام کیوں نہ لیا جائے؟ اس کو میدان میں کیوں نہ لایا جائے؟ میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔
یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ہمیں سکھایا۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے، بے شک ہمارے عظیم امام نے– امام نے بے نظیر کام بہت انجام دیے ہیں ان میں سے ایک یہی ہے- آپ نے عوام کو دکھایا، عوام کو سکھایا کہ میدان میں ان کی موجودگی معجزہ کر سکتی ہے۔ یہ ہم لوگ نہیں جانتے تھے، دوسرے بھی نہیں جانتے تھے۔ سن 1962 اور 1963 میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اپنے عمل سے، اپنی باتوں سے، منطق سے اور استدلال سے ایرانی قوم کو دکھایا۔ انہیں سمجھایا کہ اگر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، اچھے نتائج تک پہنچنا چاہتے ہیں، تو میدان میں موجود رہیں۔ پیچھے ہٹنا، اس پر اور اس پر بھروسہ کرنا اور گوشہ نشینی اختیار کرنا بے فائدہ ہے۔ بیچ میدان میں آئيں۔ آپ خود بھی میدان میں آئے، امام پارٹیوں اور گروہوں، سیاسی تحریکوں اور اس وقت کے (بڑے بڑے) دعوے کرنے والے معروف سیاستدانوں کے ساتھ نشست و برخاست کے بجائے عوام کے درمیان آکے بیٹھے۔
میں ایک واقعہ سناؤں، ایک بار میں کسی شہر کی طرف جا رہا تھا، اس شہر کا نام نہیں لینا چاہتا، ایک بڑے عالم اس شہر میں تھے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے مجھ سے فرمایا کہ ان جناب سے کہو کہ وہاں سے اٹھیں اور قم آئيں۔ ان کی جگہ قم میں ہے۔ یہاں آئيں لیکن شرط یہ ہے کہ اس سیاسی تحریک سے اپنا رابطہ منقطع کریں۔ امام نے اس دور کی ایک معروف سیاسی تحریک کا نام لیا۔ میں گیا ان سے امام کی یہ بات کہی۔ انہیں یہ بات اچھی نہیں لگی اور قم نہیں آئے۔ انھوں نے کہا کہ میرا اس تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح کی بات کی۔
امام کی منطق یہ تھی کہ ایک عالم دین، عالم دین کی حیثیت سے، مرجع کی حیثیت سے، علم اور معرفت کے ایک محور کی حیثیت سے، ایک مفکر کی حیثیت سے آکے عوام کے درمیان رہے۔
آپ خود بھی عوام کے درمیان آئے۔ مدرسہ فیضیہ قم میں، امام وہاں آکے بیٹھے اور صراحت اور شفافیت کے ساتھ عوام سے بات کی۔ (1)
برادران و خواہران عزیز! عاشور کے دن امام کی تقریر ایک تاریخی واقعہ ہے۔ آپ پورے وجود کے ساتھ بیچ میدان میں تشریف لائے۔ آکے مدرسہ فیضیہ میں بیٹھے۔ فیضیہ میں اور عوام سے بھرے میدان میں، اس بھیڑ میں امام نے بے نظیر تقریر کی۔ آپ لوگوں کو عملی طور پر میدان میں لائے۔ آپ نے اپنے دل کی بات کسی سیاسی تحریک اور سیاستداں سے کہنے کے بجائے عوام سے کہی اور انہیں میدان میں لائے۔ عوام نے بھی انہیں (مثبت) جواب دیا۔ امام نے جس دن یہ تقریر کی اس دن سے 5 جون 1963 تک تین دن کا فاصلہ تھا۔ یعنی ان تین دنوں میں عوام، قم، تہران اور ورامین میں مارے گئے اور شہید ہوئے۔ البتہ شہیدوں کی تعداد معلوم نہیں ہے۔ اعداد وشمار زیادہ بتائے گئے ہیں (لیکن) اس سلسلے میں صحیح تحقیق نہیں ہوئی، کاش ہوئی ہوتی (تو معلوم ہوتا) کہ پانچ جون (1963 ) کو تہران قم، ورامین اور بعض دیگر شہروں میں کتنے جوان، بوڑھے، عورتیں اور مرد شہید ہوئے۔
امام لوگوں کو میدان میں لائے۔ یہ امام کا کارنامہ تھا۔ امام نے جدوجہد کا پرچم عوام کے ہاتھ میں دیا۔
عوام نے قبول کیا اور اس کی قیمت بھی ادا کی۔ 5 جون 1963 کو عوام کچل دیے گئے، امام گرفتار کر لئے گئے، رات کے وقت آپ کے گھر پر چھاپہ مارا، گرفتار کیا، تہران لائے، یہ تمام واقعات آپ جانتے ہیں اور سن رکھا ہے، لیکن عوام نے درس فراموش نہیں کیا۔ قم کا 9 جنوری کا قیام اسی واقعے کا تسلسل تھا۔ اس دن بھی عوام خود سے میدان میں آئے۔ 9 جنوری کو عوام کو میدان میں آنے کے لئے کہنے والا رہبر کون تھا؟ خود عوام کے قلوب اور ان کا اتفاق نظر(2) عوام نے امام سے جو درس حاصل کیا اس سے وہ سمجھ گئے تھے کہ انہیں میدان میں آنا چاہئے۔ پانچ جون (1963) کو امام کی گرفتاری پر میدان میں آئے اور نو جنوری (1978) کو امام کی توہین کئے جانے پر میدان میں آئے۔ عوام میدان میں آئے، جدوجہد شروع کی، اس میں برکت پیدا ہوئی، خداوند عالم نے جدوجہد میں برکت عطا فرمائی۔ قم، تبریز، یزد، شیراز، یہاں، وہاں، ہر جگہ، عوام نے قیام کیا اور 11 فروری کا واقعہ رونما ہوا۔ عوام کی موجودگی یہ ہی۔
البتہ یہ امیر المومنین علیہ السلام کا درس ہے۔ میں نے امیر المومنین (علیہ الصلاۃ والسلام) سے ایک عبارت نوٹ کی ہے۔ ہمیں نہج البلاغہ کے ان جملوں پر بہت زیادہ توجہ دینا چاہئے۔ مالک اشتر کے نام اس فرمان میں، اس کو عہد نامہ کہتے ہیں جو غلط ہے۔ یہ عہدنامہ نہیں ہے بلکہ حکومتی فرمان ہے۔ مالک اشتر کے لئے امام کا فرمان ہے۔ اس میں بڑی اہم باتیں ہیں۔ امام کے اس فرمان میں موتیوں کا سمندر متلاطم ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے: و انّما عماد الدّین و جماع المسلمین و العدّۃ للاعداء العامّۃ من الامّۃ( 3) "عماد الدین" یعنی دین کی تکیہ گاہ۔ آپ کا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے۔ امیر المومنین (اس بات کو) اپنی ملت سے فرماتے ہیں، ہم سے خطاب ہے۔ بہت اچھا، آپ کا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے، آپ کے اسلام کی تکیہ گاہ امت ہے۔ اس کا پیکر عوام ہیں۔ "جماع المسلمین" یعنی یہ معاشرے کا اصلی پیکر ہیں۔ اس اجتماع کا اصلی پیکر مسلمین ہیں۔ والعداۃ للاعداء۔ "عدہ" یعنی روزمبادا کا ذخیرہ۔ وہ چیز جو اس روز مبادا کے لئے بچاکے رکھی جائے۔ والعدۃ للاعداء دشمن کے مقابلے کے لئے ذخیرہ، کون لوگ ہیں؟ "العامّۃ من الامّۃ" یعنی عوام۔
میں نے چند سال قبل اس خط کے کچھ حصے حکام کے لئے بیان کئے تھے(4) کہ اس میں آپ (امیر المومنین) عوام اور خواص کا موازنہ فرماتے ہیں۔ خواص یعنی وہ لوگ جو نور چشم ہیں اور عوام، عام لوگ ہیں۔ آپ خواص کے لئے عجیب باتیں کرتے ہیں اور عوام کے لئے بھی عجیب باتیں بیان فرماتے ہیں۔ عوام کی بات کرتے ہیں۔ امام کی تاکید یہ ہے کہ عوام کو تکیہ گاہ بناؤ۔
جب کوئی صدر عوام سے مانوس ہوتا ہے، ان سے بات کرتا ہے، کام کرتا ہے، لوگوں کے بیچ میں جاتا ہے تو کچھ لوگ وہاں اٹھتے ہیں اور بولتے ہیں۔ یہ "پوپلزم" (یعنی عوام کو رجھانا) ہے! توہین کرتے ہیں۔ نہیں یہ عوام کا خیال رکھنا ہے۔ یہ اصلی نقطے کا بیان ہے۔ عوام سب کچھ ہیں۔ لیکن عوام کے ساتھ کام کرنا ایک بڑا آرٹ ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر ہے۔
یہاں ایک بنیادی نکتہ پایا جاتا ہے۔ یہ جو میں نے میدان میں، بیچ میدان میں عوام کی موجودگی کی بات کی، اس میں ایک بنیاد نکتہ ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ عوام کو مجاہدت کے میدان میں اس طرح لایا جائے کہ وہ سمت کو پوری باریکی کے ساتھ جان لیں اور ان کے اندر معرفت کی توانائی پیدا ہو۔
میں نے چند روز قبل بھی یہاں تقریر کی۔ (5) اس میں بھی یہی نکتہ بیان کیا۔ یعنی جس طرح آپ کے میزائل بہت دقیق ہیں اور بالکل صحیح نشانے پر لگتے ہیں اور یہ بات حریف کو عاجز کر دیتی ہے، اپنے ہدف کا پوری باریکی کے ساتھ انتخاب کرتے ہیں، ایک ہزار یا ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کے فاصلے سے (میزائل) جاکر ٹھیک اپنے ہدف پر لگتے ہیں، اسی طرح آپ بھی جو بیچ میدان میں کھڑے ہیں اور لوگوں کو دعوت دیتے ہیں تو آپ کا ہدف بھی معلوم ہونا چاہئے۔ امام نے ہدف کا تعین کر دیا تھا۔ بدعنوان اور پٹھو شاہی حکومت کا خاتمہ اور اسلامی حکمرانی کا قیام، امام نے یہ ہدف معین کر دیا تھا۔
آج ہم لوگوں کو بیچ میدان میں بلاتے ہیں تو ہدف کیا ہے؟ یہ معین ہونا چاہئے۔ دوسرے درجے کے اہداف، ذیلی اہداف پیش نظر نہیں ہیں۔
ہدف اسلام کی حکمرانی، ملی عزت و شرف، ایرانی عوام کی بھلائی، ایرانی قوم کی سربلندی اور سامراج سے مقابلہ۔ اہداف یہ ہیں۔ البتہ یہ کلی باتیں ہیں لیکن ان کے معنی و مفہوم واضح اور روشن ہیں۔
فیضیہ کے واقعے اور گیارہ فروری (1979) کے درمیان پندرہ سال کے دوران امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور ان کے ساتھیوں کا کام اس سلسلے میں حقائق کو واضح کرنا تھا۔ جو لوگ عوام سے بات کرتے تھے، جو نوجوانوں کو معلومات فراہم کر رہے تھے، مطہری اور ان کے جیسے لوگ، ان کا کام یہ تھا کہ ہدف کو واضح کریں اور عوام کو ضروری معلومات فراہم کریں۔ معلومات فراہم کرنے کی توانائی بہت اہم ہے۔ اصلی کام یہ ہے۔ ہمارے طلبہ اور ہمارے افاضل، ہمارے روشن فکر حضرات، ہمارے یونیورسٹیوں کے لوگ اور ہمارے اساتذہ اس سلسلے میں کام کریں، لوگوں کو معرفت دیں اور ان کے اندر معرفت کی توانائی پیدا کریں۔
وہ حکومت جو گیارہ فروری ( 1979) کو عوام کے ہاتھوں ختم ہوئی اور اس پاکیزہ سرزمین، اس مملکت خدا سے باہر نکالی گئی، وہ ایک پٹھو حکومت تھی جو فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں لائی گئی تھی۔ آج کچھ لوگ چالیس برس بعد اس پر یقین نہیں کرنا چاہتے۔ امریکی اور امریکیوں کے حلقہ بگوش اور امریکیوں سے وابستہ لوگ بھی اپنی تمام تر سادہ لوحی کے ساتھ، عجیب بات ہے۔ سیاستداں ہیں، ڈپلومیٹ ہیں لیکن اس معاملے میں انتہائی سادہ لوحی کے ساتھ کام کرتے ہیں! غلط اندازوں کے ساتھ اس حکومت کی جس کو پینتالیس سال پہلے عوام نے لات مار کے ملک سے نکال باہر کیا (پہلوی حکومت) پٹھو اور ایسی حکومت جو بغاوت کے ذریعے اقتدار میں لائی گئی تھی، اس کی شبیہ کی توجیہ کرتے ہیں۔
1920 میں رضا خان کی فوجی بغاوت انگریزوں کے کہنے پر اور ان کی مدد سے انجام پائی تھی۔ اس کے تین چار سال بعد اںگریزوں کی ہی مدد سے رضا خان، تخت بادشاہت تک پہنچا اور رضا شاہ ہو گیا۔ اس کے چند سال بعد اس نے ایرانی قوم کی تہذیب وثقافت ختم کرکے مغربی تہذیب رائج کرنے کی کوشش شروع کر دی اور حجاب ختم کرنے، دینی مدارس بند کرنے اور عزاداری نیز دینی رسومات اور نماز جماعت وغیرہ کا سلسلہ بند کرنے کے اقدامات کئے۔ یہ سارے اقدامات انگریزوں سے وابستہ جانے پہچانے عوامل اور رضا خان کے کارندے انجام دے رہے تھے جن کے نام میں نہیں لینا چاہتا۔ اس دور کی معروف سیاسی اور ثقافتی شخصیات تھیں۔ ان میں سے بعض کی حقیقت سے اب بھی ہمارے عوام واقف نہیں ہیں، ان کی کتابیں ہیں، تحریریں ہیں۔ وہ سب رضا خان کے گرد جمع تھیں اور ان کا کام یہ تھا کہ ایرانی عوام کی تہذیب کا استحالہ کر دیں اور مغربی تہذیب میں اس کو ہضم کر دیں۔ حجاب کے خاتمے کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں۔ یہ انگریزوں کا کام تھا۔
اس کے بعد 1941 میں رضا خان ملک سے نکال دیا گیا اور انگریزوں نے اس کے بیٹے محمد رضا کو تخت پر بٹھا دیا۔ انگلینڈ کے سفیر نے براہ راست اس میں مداخلت کی اور اسی کی کوششوں سے یہ کام ہوا۔
1953 میں جب تیل کی صنعت کو قومی تحویل میں لینے کی تحریک کے مقابلے میں محمد رضا ٹک نہ سکا اور ملک سے بھاگ گیا تو اس کو اقتدار میں واپس لانے کے لئے برطانیہ اور امریکا نے مشترکہ طور پر فوجی بغاوت کروائی اور اس کے بعد محمد رضا کی شرمناک حکومت امریکیوں کی مدد سے گیارہ فروری 1979 تک جاری رہی۔ پہلوی حکومت اس طرح کی حکومت تھی۔ شروع سے لیکر بیچ تک، شروع سے لیکر آخر تک انگریزوں کی مداخلت، امریکیوں کی مداخلت، انگریزوں کی مدد، امریکیوں کی مدد، ان سے وابستگی، ملک کو ان کے ہاتھ فروخت کر دینا۔ صرف ملک کا اقتصادی سرمایہ ہی انہیں نہیں بیچا بلکہ قوم کا تیل بھی انہیں دے دیا۔ قوم کی عزت بھی ان کے حوالے کر دی، قوم کا دین بھی انہیں بیچ دیا، قوم کا شرف بھی انہیں دے دیا، یہ تھی پہلوی حکومت۔ ایرانی عوام نے اس حکومت کو ملک سے باہر نکالا۔ امام نے یہ ہدف عوام کے سامنے رکھا تھا۔ یہ ہمارے عظیم امام کی اسٹریٹیجک سیاست ہے۔ عوام کو بیچ میدان میں لانا اور جدوجہد کا پرچم ان کے ہاتھ میں دینا۔
اس سیاست کے مقابلے میں ایک اور اسٹریٹیجک سیاست ہے۔ اس کے بالکل برعکس۔ یہ سیاست کیا ہے؟ عوام کو میدان سے باہر نکالنا، انہیں مقابلے، جنگ اور رقابت کے میدان سے باہر کھینچنا۔ یہ کس کی سیاست ہے؟ انقلاب کے دشمنوں کی سیاست ہے۔ امریکا کی سیاست ہے، دنیا کی بڑی طاقتوں کی سیاست ہے۔ صیہونیوں کی سیاست ہے۔ استحصال کرنے والی صیہونی کمپنیوں کی سیاست پوری دنیا میں یہی ہے۔ یہ کوشش چالیس سا ل سے ملک میں جاری ہے۔ آج یہ سیاست پوری رذالت کے ساتھ فعال ہے۔ اس پر توجہ دیں۔ کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کو میدان سے باہر کر دیں۔
یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس بارے میں کہ انتخابات میں حصہ لیں یا نہ لیں، (بعض لوگ کہتے ہیں) "نہیں کیا فائدہ ہے؟ " یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ وہی امریکا کی اسٹریٹیجک پالیسی ہے۔ یہ وہی انقلاب کے دشمنوں کی اسٹریٹیجک سیاست ہے۔ عوام سیاست کے میدان میں نہ رہیں، عوام ثقافت کے میدان میں نہ رہیں، عوام اقتصادی میدان میں نہ رہیں، عوام دینی میدان میں نہ رہیں، یہ دشمن کی اسٹریٹیجک سیاست ہے۔
اربعین مارچ کا مذاق اڑانا۔ تہران کی سڑکوں پرامیر المومنین (کے یوم ولادت کے) جشن یا نیمہ شعبان کے عظیم جشن کی مخالفت کہ کیوں (منایا جاتا ہے) ایران اور اس پورے علاقے کے عظیم ترین سردار، شہید جنرل قاسم سلیمانی کے احترام و عقیدت کی مخالفت! کیا اسی تہران میں ایک یونیورسٹی کی بغل میں، شہید جنرل قاسم سلیمانی کی تصویر نہیں پھاڑی گئی؟ (6) کسی کو ورغلاتے ہیں کہ یہ تصویر پھاڑو! اسّی لاکھ لوگ شہید سلیمانی کے جنازے میں شرکت کرتے ہیں، اور پھر ایک غافل نوجوان، بے اہمیت، یا اس کو پیسے دیے گئے یا برین واشںگ کی گئی، آتا ہے اور ایرانی عوام کے دسیوں لاکھ کے مجمع کے سامنے شہید سلیمانی کی تصویر پھاڑتا ہے! اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ دشمن کی اسی اسٹریٹیجک سیاست کی نشاندہی کرتا ہے۔
دشمن اس سلسلے میں بہت فعال ہے اور محنت کر رہا ہے۔ بہت محنت کر رہا ہے۔ دشمن سمجھ گئے ہیں کہ ایران کی پیشرفت، ایران کی عزت، ایران کے علاقے کی ایک ممتاز طاقت بننے اور پورے علاقے میں مزاحمتی فورسز کے وجود میں آنے کی جو اسلامی جمہوری نظام کی اسٹریٹیجک گہرائیاں ہیں، ان سب کی وجہ ایرانی عوام کی میدان میں موجود گی ہے۔
اگر جںگ مسلط کرتے ہیں تو دشمن جنگ میں شکست کھاتا ہے، اگر فوجی بغاوت کا راستہ اختیار کرتے ہیں، تو اس میں بھی شکست کھاتے ہیں، سیکورٹی حملہ کرتے ہیں تو اس میں بھی شکست کھاتے ہیں۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ عوام میدان میں موجود ہیں۔
جہاں وہ میدان میں عوام کی موجودگی روکنے میں کامیاب ہو گئے، وہاں دشمن کامیاب ہو گیا۔ بہت سے اقتصادی شعبوں میں یہی صورتحال ہے۔ ہم نے آرٹیکل چوالیس کی کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔(7) اس حکومت سے مستقل طور پر سفارش کی، کہا "ہاں کریں گے، نہیں کریں گے، کریں گے نہیں کریں گے۔" چند معاملات انجام دیے ان میں سے بھی پچاس فیصد غلط نکلا! اقتصادی مشکل اس طرح ٹھیک ہوگی؟ وہاں دشمن خوش ہوتا ہے، وہاں دشمن حمایت کرتا ہے۔ دشمن اس سلسلے میں فعال ہے اور بہت محنت کر رہا ہے۔
عوام کو میدان سے باہر کرنے کے لئے ان کا ایک کام مستقبل سے مایوس کرنا ہے۔ آپ دیکھیں کہ دشمن سے آشکارا طور پر وابستہ ابلاغیاتی ذرائع اور وہ بھی جن کی وابستگی ظاہر نہیں ہے، بعض ذرائع ابلاغ دشمن سے صراحتا وابستہ ہیں اور بعض بظاہر وابستہ نہیں ہیں لیکن باطنا وابستہ ہیں، وہ عوام کو مستقبل سے مایوس کر رہے ہیں۔ کوئی بھی منفی نکتہ مل جاتا ہے تو اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ عوام کو مایوس کر سکیں۔ زیادہ تر نوجوانوں کو مایوس کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا کیا فائدہ اور انتخابات میں شرکت کا کیا فائدہ ہے؟ اس طرح کی باتیں پھیلاتے ہیں۔ اس پر کام کرتے ہیں۔
دوسرا کام اقتصادی امور میں سختیوں اور کمیوں کو سامنا لانا ہے۔ ہاں ہمیں اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس میں شک نہیں ہے۔ مختلف کمزوریاں تھیں جو جاری رہیں، یہ اقتصادی کمزوریاں ہیں، اس میں شک نہیں ہے۔ انہیں سامنے لاتے ہیں، جبکہ اگر کسی معاملے میں دقت نظری سے کام لیا جائے، تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ بہت سی اقتصادی کمزوریاں میدان میں عوام کے موجود نہ رہنے کی وجہ سے ہیں۔ جہاں عوام موجود رہے وہاں یہ کمزوریاں کم ہیں۔
بڑی طاقتوں سے ڈرانا بھی عوام کو میدان سے باہر کرنے کا ایک حربہ ہے۔ امریکا سے ڈرانا، صیہونی حکومت سے ڈرانا، اس سے ڈرانا اس سے ڈرانا جبکہ ایرانی عوام بڑی طاقتوں سے نہ ڈرنے کا خود تجربہ کر چکے ہیں۔ اگر ہم کسی بڑی طاقت سے ڈرنے والے ہوتے تو آج اسلامی جمہوریہ کا وجود نہ ہوتا۔ آج بہت سی طاقتیں جو اس علاقے پر تسلط اور اپنی خدائی کی دعویدار تھیں ایرانی عوام سے ڈرتی ہیں۔
عوام کو میدان سے باہر کرنے کا ایک حربہ، میدان میں موجودگی، شجاعت اور طاقت کے بنیادی عوامل اور ان میں سر فہرست دینی ایمان اور شریعت سے عوام کا اعتقاد و یقین ختم کرنا بھی ہے۔ وہ کوشش کر رہے ہیں، پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، دشمن اپنے کام میں مصروف ہے۔ حکام اس سلسلے میں بھرپور کوشش کریں، جتنا ہو سکے کام کریں۔
مسئلہ حجاب اور حجاب سے متعلق معاملات میں اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ حجاب کا مسئلہ کچھ لوگ نہیں جانتے یا اس کا لحاظ نہیں کرتے۔ نہیں بلکہ کچھ لوگ، البتہ تھوڑے سے لوگ ہیں جن کے اندر اس کے ذریعے مخالفت اور تصادم کی فکر پائی جاتی ہے۔
ایک مسئلہ اختلاف پیدا کرنا ہے۔ عوام کو دو دھڑوں میں تقسیم کرنا ہے۔ دیکھئے، اختلاف دو طرح کا ہے۔ دو لوگوں میں کسی سیاسی مسئلے میں، محبت میں، بغض میں۔ ایک دوسرے کے دوست ہیں، ان میں رفاقت پائی جاتی ہے، ایک ساتھ چائے پیتے ہیں، ایک ساتھ دسترخوان پر بیٹھتے ہیں، نظریاتی اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔
کبھی نظریاتی اختلاف اس طرح ہوتا ہے کہ ایک طرف سے جو چیز بھی صادر ہو، چاہے جو بھی ہو، فکر، عمل، اچھا، برا، دوسری طرف سے اس کی مذمت ہوتی ہے اور دوسری طرف سے جو بھی ہو اس طرف سے اس کی مذمت ہوتی ہے۔ یہ دھڑے بندی ہے۔ معاشرے میں دھڑے بندی کی کوشش کر رہے ہیں۔ مقابل فریق جو بھی کرے دوسرا فریق اس کی مذمت کرتا ہے چاہے وہ اچھا ہی کیوں نہ ہو۔ یہ وہ کام ہیں جس میں آج ایرانی عوام کے مخالفین اور قوم کے دشمن مصروف ہیں۔
اس کے مقابلے کی راہ عوام کی موجودگی ہے۔ عوام کو اقتصادی امور میں دخیل ہونا چاہئے۔ سیاسی مسائل میں آنا چاہئے۔
دشمن کے سیکورٹی ایجنٹ عوام کے درمیان محلّوں میں، یہاں وہاں موجود ہیں، عوام ان کو پہچان سکتے ہیں۔ سیکورٹی کے بہت سے معاملات میں عوام نے سیکورٹی اداروں کی مدد کی اور مشکلات دور کیں۔ اس کی اطلاع ہمیں ہے۔ اس کی اطلاع ہمیں دی جاتی ہے۔
بہت سے کام کرنا چاہتے تھے۔ یہی کام جو کرمان میں ہوا (8) عوام متوجہ ہوئے، توجہ کی، ادارے متوجہ ہوئے، روک تھام کی۔ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو ہوا ہے دشمن اس کا دس گنا زیادہ انجام دینا چاہتا تھا لیکن ناکام بنا دیا گیا۔ بڑا حصہ عوام کی مدد سے (ناکام بنا دیا گیا)
یہ مسئلہ جو میں نے عرض کیا، میدان میں عوام کی موجودگی۔ یہ ملک کو صحیح طور پر چلانے، انقلاب کی پیشرفت، انقلاب کے ثمر بخش ہونے اور انقلاب کے اہداف کے حصول کے لئے ضروری ہے۔ اس کی ترویج ہونی چاہئے۔ جو بھی بول سکتا ہے، جس کے پاس بھی 'زبان گویا' ہے، جس کی باتیں سنی جاتی ہیں، جو بھی موثر ہو سکتا ہے، اس کو اس سلسلے میں کام کرنا چاہئے۔ و تواصوا بالحق (9) یہ حق ہے۔ حق کی سفارش سب کا فریضہ ہے۔ عالم دین ہو، یونیورسٹی پروفیسر ہو، خطیب ہو، ریڈیو ٹیلیویژن، سیاسی عہدیدار، اداروں کے سربراہان، علما، مراجع جو بھی ہو، سب کا فریضہ ہے۔ عوام کو میدان میں لائيں، انہیں میدان میں ڈٹ جانے کے لئے کہیں اور میدان میں موجود رہنے کے لئے ضروری باتوں سے آگاہ کریں۔
البتہ حکومت کے ذمہ داروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ عوام آمادہ ہیں (لہذا) ان کا فریضہ سنگین ہے، حکومت کے ذمہ داران اور سیاسی و ثقافتی میدانوں میں سرگرم حضرات، سبھی زمین ہموار کریں۔(10) ان شاء اللہ یہ آمادگی اسی طرح جاری رہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہو۔
میں نے عرض کیا کہ عوام تیار ہیں۔ اس کی دلیل کیا ہے؟ سلیمانی کی شہادت کی چوتھی برسی پر عوام کا یہ عظیم اجتماع ثبوت ہے۔ یہ ایک دلیل ہے۔ 11 فروری (اسلامی انقلاب کی سالگرہ) کی ریلیوں میں عوام کی شرکت، رمضان کے آخری جمعے (یوم القدس کے جلوس میں) 30 دسمبر (یوم بصیرت) اور 'ایام اللہ' کی مصداق دسیوں دیگر مناسبتوں کے (اجتماعات میں) عوام کی شرکت۔( یہ سب دلائل ہیں)
شہید سلیمانی کی شہادت کی برسی پر عوام دور دراز کے علاقوں سے ان کے مزار کی زیارت کے لئے جاتے ہیں، یہ اہندوہناک سانحہ رونما ہو جاتا ہے، دوسرے دن عوام کا اجتماع اسی جوش وخروش اور جذبے کے ساتھ جاری رہتا۔ بنابریں عوام تیار ہیں۔ ہمیں منصوبہ بندی کرنی ہے، مدد کرنی ہے، راستہ کھولنا ہے اور ہمیں زمین ہموار کرنی ہے۔
اس اندوہناک سانحے میں جو کرمان میں رونما ہوا اور اس نے حقیقی معنی میں پوری قوم کو غمزدہ کر دیا، ہم کسی پر الزام لگانے پر مصر نہیں ہیں، لیکن تاکید کرتے ہیں کہ اس سانحے کے پس پردہ سرگرم عناصر کا پتہ لگا کر ان کی سرکوبی کریں۔ ان شاء اللہ محترم حکام جو سنجیدگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں، مجھے قریب سے اطلاع ملی ہے کہ بہت اچھا کام کیا ہے، بہت اچھی طرح کام کر رہے ہیں، جو لوگ اس سانحے میں دخیل رہے ہیں، جن لوگوں نے پس پردہ رہ کر کام کیا ہے، ان شاء اللہ حکام انہیں کیفر کردار تک پہنچائيں۔
غزہ کے مسئلے میں بھی چند باتیں عرض کروں گا کہ پیش گوئیاں پوری طرح سامنے آ رہی ہیں۔ شروع سے ہی حالات پر نظر رکھنے والوں نے یہاں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی یہ پیش گوئی کی تھی اس قضیے میں فلسطین کی استقامتی تحریک فاتح ہوگی۔ اس جنگ میں شکست، خبیث اور ملعون صیہونی حکومت کو ہوگی۔ یہ ہو رہا ہے اور سبھی اس کو دیکھ رہے ہیں۔ تین مہینے سے صیہونی حکومت جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ جرائم تاریخ میں باقی رہیں گے۔ حتی صیہونی حکومت کے ختم اور نابود ہو جانے اور توفیق الہی سے روئے زمین سے اس کے مٹ جانے کے بعد بھی اس کے جرائم فراموش نہیں ہوں گے۔ اس وقت بھی بھلائے نہیں جائيں گے، اس وقت بھی کتابیں لکھی جائيں گی کہ ایک زمانے میں اس علاقے میں ایک گروہ حکومت میں آیا تھا اس نے اس طرح جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ چند ہفتے کے اندر کئی ہزار بچوں اور خواتین کا قتل عام کیا تھا! اس کو لکھیں گے اور بتائيں گے۔ یہ فراموش نہیں ہوگا۔ سب سمجھ جائيں گے کہ عوام کے صبر اور فلسطین کی استقامتی تحریک کی پائیداری نے اس حکومت کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔
صیہونی حکومت تقریبا سو دن سے جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے لیکن اپنا کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر سکی ہے۔ شکست اور کیا ہوتی ہے؟ شکست یہی ہے۔ اس نے کہا کہ حماس کو ختم کر دیں گے، نہ کر سکی، کہا کہ غزہ کے لوگوں کو کہیں اور منتقل کر دیں گے نہ کر سکی، کہا کہ استقامتی تحریک کے اقدامات کو روک دیں گے، نہ کرسکی۔ استقامتی تحریک زندہ ہے، تازہ دم ہے، آمادہ ہے۔ وہ حکومت تھکی ہوئی، سرنگوں، پشیمان ہے اور اپنی پیشانی پر اپنے جرائم کا داغ لئے ہوئے ہے۔ آج اس کی یہ حالت ہے۔
یہ عبرت ہے۔ یہی روش جاری رہنی چاہئے، ظلم کے مقابلے میں، زور زبردستی کے مقابلے میں، استکبار کے مقابلے میں، غصب کے مقابلے میں استقامت۔ یہی روش جاری رہنی چاہئے۔ استقامتی تحریک کو اسی طرح اپنی طاقت و توانائی کو باقی رکھنا چاہئے۔ تیار رہنا چاہئے، دشمن کی چالوں سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ ان شاء اللہ یہ کام ہوگا اور وہ دن ان شاء اللہ آئے گا اور ایرانی قوم اور دیگر مسلم اقوام اور پوری دنیا کے مومنین کی جماعتیں، دشمنوں اور شیاطین عالم پر استقامت اور خدا پر توکل اور صبر کی طاقت کا غلبہ دیکھیں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1۔ صحیفہ امام جلد1 صفحہ 243 ، تین جون 1963 کو قم کے عوام اور علما کے اجتماع سے خطاب
2۔ غیر اعلانیہ اتفاق رائے
3۔نہج البلاغہ خط نمبر 53
4۔ 9-10-2005 کو صدر اور کابینہ کے اراکین سے خطاب
5۔ 2-1-2024 کو مداحان اہل بیت (علیہم السلام) سے خطاب
6۔ 8-1-2020 کو اینٹی ایئر کرافٹ کی غلطی سے یوکرین کا مسافر طیارہ نشانہ بن کر تباہ ہو جانے کے بعد تہران کی امیر کبیر اور شریف یونیورسٹیوں کے طلبا کی ایک تعداد نے اس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے سوگ میں منعقدہ ایک پروگرام میں غلط نعرے لگائے اور شہید جنرل قاسم سلیمانی کی تصویر نذر آتش کی۔
7۔ 22-5-2005 کو آئين کی دفعہ 44 کے تحت کلی پالیسیوں کا سرکولر
8۔ 3 جنوری 2024 کو شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی برسی پر ان کے مزار کے زائرین کے درمیان دو خود کش دھماکوں میں بہت سے لوگ شہید اور زخمی ہو گئے
9-سورہ عصر آیت نمبر 3۔۔۔۔ اور ایک دوسرے کو حق کی سفارش کی
10۔ حاضرین کا نعرہ " ای رہبر آزادہ ! آمادہ ایم آمادہ" (یعنی اے حریت پسندوں کے رہبر ہم آمادہ ہیں)