بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین (ارواحنا فداه).
بہت بہت خوش آمدید! آج میرے لئے بڑی خوشی کا دن ہے۔ آپ دلاوران انقلاب اور دلاوران پاسبانی حق و حقیقت کا دیدار میرے لئے بہت دلنشین ہے۔ سپاہ کے قابل احترام کمانڈر اور محترم نمائندہ ولی فقیہ کی تقاریر کا شکرگزار ہوں، بہت اچھا بیان تھا۔
میرے معروضات کا ایک حصہ سپاہ کے بارے میں اجمالی گفتگو پر مشتمل ہوگا۔ میں سپاہ کے بارے میں جو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں، شاید بارہا کہی گئي ہوں گی، لیکن اس کے باوجود ہمارے عوام، ہمارے نوجوانوں اور خود سپاہ کے جوانوں کے لئے ان باتوں کو سننا ضروری ہے۔ ہمیں اپنی شناخت فراموش نہیں کرنی چاہئے۔ شیاطین عالم کا ایک ہدف یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو فراموش کر دیں۔ یہ نہ ہونے دیں۔ سپاہ کے بارے میں اختصار کے ساتھ، مختصر عرض کروں گا۔ چند جملے انقلاب کے بارے میں بھی عرض کروں گا جس کی پاسبانی سپاہ اپنا فریضہ سمجھتی ہے۔ یہ انقلاب جس کے آپ پاسبان ہیں، کیا خصوصیات رکھتا ہے؟ چند جملے اس بارے میں بھی عرض کروں گا۔
سپاہ کے بارے میں، چند نکات لکھے ہیں جنہیں عرض کروں گا۔ پہلا نکتہ ہے کہ ابتدائے انقلاب میں سپاہ کی تشکیل، دنیا کے بڑے انقلابوں کی تاریخ میں منفرد واقعہ ہے۔ انقلاب فرانس اور سوویت یونین کے بالشویک انقلاب میں، اوائل میں کچھ گروہ وجود میں آئے جنہوں نے انقلاب کی طرفداری میں سر اٹھایا، کچھ کام کئے، لیکن سپاہ سے ان گروہوں اور تنظیموں کا موازنہ ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تخریبکار تھے، خود سر تھے، بے نظم تھے، کسی اصول اور قاعدے کے پابند نہیں تھے، سپاہ ایسی نہیں ہے۔ سپاہ ابتدائے تشکیل سے ہی – یہ اہم ہے- مرکزیت انقلاب کی نگرانی میں تشکیل پائی۔ اس کی منتظمہ کونسل اور کمان متمرکز تھی۔ (سپاہ کی کمان) مرکز میں تھی۔ ملک میں ہر جگہ موجود تھی، لیکن اس کی کمان حقیقی معنی میں مرکز کے پاس تھی۔
سپاہ کی تشکیل کے آغاز سے ہی، سپاہ کے اراکین اور عناصر دینی اور انقلابی اصولوں کے پابند تھے، جیسے ایثار، جیسے فداکاری، جیسے دن رات جہادی موجودگی، جیسے امام بزرگوار(امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کی اطاعت، یہ باتیں کہیں اور نہیں دیکھی گئيں۔ میں شروع سے ہی حاضر و ناظر تھا۔ سپاہ کے مسائل کو دیکھتا تھا۔ سپاہ اپنے آپ میں ہمیشہ منفرد رہی ہے۔ اس کے افراد میں پاکیزگی رہی ہے، تقوا رہا ہے۔ میں مبالغہ نہیں کرنا چاہتا، نقائص اور کمزوریاں سبھی لوگوں میں ہوتی ہیں۔ کچھ نقائص رہے ہیں، کمزوریاں بھی رہی ہیں، لیکن قرائن و شواہد کے مطابق، ہمارے ملک کی تاریخ میں اس دن تک کوئی فوجی ادارہ اتنا سالم نہیں دیکھا گیا۔ یہ سلامتی انسانی بھی ہے اور خدائی بھی۔ ملک کی پوری تاریخ میں، جہاں تک میں جانتا ہوں، میں کسی ایسے فوجی ادارے کو نہیں جانتا جس میں ایسی معنوی، اخلاقی اور سیاسی پاکدامنی پائی جاتی ہو۔ یہ ایک نکتہ ہے۔ سپاہ کی تشکیل ایسی تھی۔
دوسرا نکتہ، سپاہ کا اندرونی رشد و نمو ہے۔ یہ بھی بے نظیر ہے۔ سپاہ جب تشکیل دی گئی تو چند سو افراد پر مشتمل تھی۔ لیکن دوسال سے بھی کم مدت میں، ایک وسیع فوجی ادارے، منظم تنظیم اور منظم فوجی یونٹوں اور بریگیڈوں پر مشتمل فورس میں تبدیل ہو گئي۔ یہ بڑی اہم بات ہے۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو بریگیڈوں میں منظم کیا۔ ایک چھوٹی سی بے نام تنظیم، دستے بنائے، بٹالینیں تشکیل دے اور بریگیڈ تیار کر لئے۔ یہ سارے کام دو سال سے بھی کم عرصے میں انجام پائے اور یہی چیز اس بات کا باعث بنی کہ مختصر مدت کے اندر اس نے فوج کی ہمراہی اور تعاون سے کئي بڑے اور فیصلہ کن فوجی آپریشن انجام دیے۔ آپریشن ثامن الائمہ، آپریشن طریق القدس، آپریشن فتح المبین اور آپریشن بیت المقدس۔ یعی اس وقت فتح المبین جیسا آپریشن سپاہ کی فیصلہ کن شرکت سے انجام پایا۔
یعنی مارچ 1982 میں، جب کہ ابھی سپاہ کی تشکیل کو دو سال اور چند ماہ ہوئے تھے۔ اتنی ترقی، اتنی پیشرفت، ایسے کمانڈر، ایسے حیرت انگیز اقدامات (انجام پائے) میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی جب کہ اس بارے میں اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے، مسائل کی تفصیلات اور عظمت پوری طرح روشن نہیں ہوئی ہے، صحیح طور پر بیان نہیں ہوئی ہے۔ سپاہ نے فداکاری سے – اس منزل میں، ذہنی، فکری اور روحانی آمادگی بھی تھی اور عملی فداکاری بھی – دشمن کو انقلاب کی عظیم دفاعی طاقت دکھا دی اور یہ فیصلہ کن بات تھی۔
نهد جان در یکی تیر و رهانَد - ز ننگ تیره روزی کشوری را (2)
( یعنی تیر میں اپنی جان رکھی اور ملک کو تیرہ بختی سے نجات دلائی)
یہ حالت پیدا ہوئی۔ یہ اقدام، یہ تشکیل اور یہ استحکام بے نظیر ہے۔ یہ ایک بے نظیر تحریک ہے۔ اس کی کوئي مثال ہمارے پاس نہیں ہے۔ یہ بے نظیر اور منفرد تحریک جاری رہی، رکی نہیں۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ ایک تحریک شروع ہوئي، آگے بڑھی اور پھر رک گئی۔ نہیں آج تک جاری ہے۔ آج تقریبا چار عشرے گزر جانے کے بعد ہمارے پاس دنیا کا سب سے بڑا، مںظم اور مسلح انسداد دہشت گردی دفاعی اور فوجی ادارہ موجود ہے۔ آج سپاہ دنیا کا سب سے بڑا انسداد دہشت گردی ادارہ ہے۔ ایک منظم اور مسلح فوجی ادارہ ہے۔ ایک کارآمد اور مستقل ادارہ ہے جو ایسے کارنامے انجام دینے پر قادر ہے جس سے دنیا کی بہت سے بڑی فوجیں عاجز ہیں۔ یہ (سپاہ کی) تشکیل اور پیشرفت ہے۔
ایک اور نکتہ سپاہ کی کارکردگی ہے۔ یہ بھی بہت ہی دلکش اور کثیر جہتی امر ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سپاہ نے پہلے دن سے آج تک جو اہم ترین کام کئے ہیں، وہ دشمنوں کے پیدا کردہ بحرانوں سے نمٹنا ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ میں ایک تاریخی بات بیان کروں۔ انقلاب کی کامیابی سے تھوڑا پہلے ، تقریبا ایک ماہ قبل، دقیق عرض کروں جنوری 1979 میں امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی، چار ملکوں کے سربراہان ایک کانفرنس میں جمع ہوئے، بقول خود ان کے ایک نشست میں، جو فرانس کے جزیرہ گوادا لوپ میں منعقد ہوئي اور بعد میں یہ نشست کانفرنس گوادا لوپ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کانفرنس میں بحث کا موضوع انقلاب ایران تھا، اسلامی انقلاب تھا۔ یہ نشست یہ غور کرنے کے لئے منعقد ہوئي کہ " کیا کریں؟ اس انقلاب کے مقابلے میں کیا تدبیر اختیار کریں؟ " وہ دیکھ رہے تھے کہ انقلاب کامیاب ہو رہا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اب کٹھ پتلی شاہی حکومت کو بچانا ناممکن ہے۔ یہ پہلا نتیجہ تھا۔ کہا کہ یہ کام ہونے والا نہیں ہے۔ ناممکن ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ تھا کہ اپنے آپ کو یہ خوش خبری دی اور کہا کہ ہاں، یہ انقلاب تو کامیاب ہوگا لیکن اس انقلاب کو بحرانوں کا سامنا ہوگا- یہ مذکورہ کانفرنس کی جاری ہونے والی دستاویزات میں کہا گیا ہے- کہ انقلاب کے بعد برسر اقتدار آنے والی کوئی بھی حکومت ان بحرانوں کا مقابلہ کرنے پر قادر نہيں ہوگی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے۔ اس کانفرنس کی جو رپورٹ باہر آئي وہ یہ ہے۔ کہا کہ انقلاب کے بعد جو حکومت بھی بر سراقتدار آئے گی وہ جاری نہیں رہے گی۔ بعد میں امریکی جاسوسی اڈے کی دستاویزات سامنے آئيں ( تہران میں امریکی سفارتخانہ انقلاب کے خلاف جاسوسی کے مرکز میں تبدیل ہوگیا تھا اور انقلابی طلبا نے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہاں سے ملنے والی دستاویزات کتابی شکل میں شائع کی گئيں۔ مترجم) امریکی جاسوسی اڈے سے ملنے والی دستاویزات میں وضاحت کی گئی تھی کہ مغرب والوں نے ایسی سیاسی اسٹریٹیجی تیار کی تھی کہ یہ انقلاب باقی اور جاری نہ رہ سکے۔ یہ اسٹریٹیجک پالیسی یہ تھی کہ پے در پے حوادث رونما ہوں اور بحران کھڑے کئے جائيں۔ دیکھئے! اوائل انقلاب میں ملک کے مغرب میں ہمیں مشکلات کا سامنا تھا، شمال مغرب میں مشکلات کا سامنا تھا، شمال مشرق میں مشکلات تھیں، جنوب میں مشکل تھی، جنوب مشرق میں مشکلات تھیں۔ یعنی ملک کے اطراف میں مستقل طور پر بحرانوں کا سامنا تھا۔ اس رپورٹ سے ان حوادث کے علل و اسباب ہمارے لئے واضح ہو جاتے ہیں کہ یہ حوادث خود بخود وجود میں نہیں آئے تھے۔ یہ وہی پے در پے بحران تھے۔ اس کے کچھ ہی دن بعد جنگ اور صدام کا حملہ شروع ہو گیا۔ ان بحرانوں، ان حوادث اور ان شورشوں کی کس نے سرکوبی کی اور ملک کو ان سے نجات دلائی؟ کس نے کردستان کے عوام کو، بلوچستان کے عوام کو اور ملک کے مختلف علاقوں کے عوام کو ان شورشوں کے شر سے نجات دلائی؟ کس نے تہران کے لوگوں کو دہشت گردانہ حملوں سے نجات دلائی؟ سپاہ۔ سپاہ نے۔ وہ تنظیم جس نے پے درپے بحرانوں کی اس پالیسی کو جس کی انھوں نے انقلاب کو شکست دینے کے لئے بیٹھ کے منصوبہ بندی کی تھی ناکام بنایا، سپاہ تھی۔ اس آگ کو انھوں (سپاہ کے جوانوں) نے خاموش کیا۔ دشمن کا ہدف یہ تھا کہ ان بحرانوں کے ذریعے رمق انقلاب سلب کر لیں اور جب انقلاب کمزور ہو جائے تو انیس اگست ( 1953) کی فوجی بغاوت کی طرح ایک بغاوت کے ذریعے اس کا قصہ تمام کر دیں۔ سپاہ نے انیس اگست جیسی بغاوتوں کا راستہ روک دیا۔ ملک میں جو صحیح تحریک شروع ہوئی تھی، اس کو دشمن کی سازشی سیاست سے ناکام ہونے سے سپاہ نے بچایا۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ مغرب والوں کو سپاہ اتنی بری لگتی ہے اور وہ سپاہ سے اتنا کینہ اور بغض رکھتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے۔ یہ سپاہ کی کارکردگی کا ایک گوشہ ہے۔
دفاع مقدس میں سپاہ کی کارکردگی کا باب الگ، بہت اہم اور مفصل ہے جس کے بارے میں کچھ باتیں لکھی گئي ہیں، کتابیں اور بہت اچھی رپورٹیں تیار کی گئي ہیں۔ اس وقت میں اس بحث کو نہیں چھیڑوں گا ( اس لئے کہ) یہ خود الگ اور طولانی باب ہے۔
سپاہ کی کارکردگی کا ایک پہلو اس کی روز افزوں توانائیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ سپاہ کی ترقی و پیشرفت رکی نہیں ہے بلکہ اس کی توانائیوں میں روز افزوں اضافہ ہوا ہے۔ اس میں خود سپاہ کی اندرونی کاوشوں کے ساتھ ہی تنظیم سے ماورا تعاون بھی دخیل رہا ہے۔ توانائيوں میں اضافے کے تعلق سے صرف اس بات کو نہ دیکھیں کہ ہم اسلحے کا ذخیرہ بڑھا رہے ہیں، اسلحے میں اضافہ ہو رہا ہے اورنئی نئي ایجادات کر رہے ہیں۔ بلکہ اس میں ملک کی ڈیٹرنس پاور بھی شامل ہے، ملک کی سلامتی کا تحفظ بھی ہے۔ دشمن کو یہ احساس ہو کہ آپ کمزور ہیں تو اس کے اندر حملے کی ہمت پیدا ہوتی ہے اور جب اس کو احساس ہو کہ آپ طاقتور ہیں تو حملہ کا ارادہ رکھتا ہو تو اپنے فیصلے پر نظر ثانی پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اسی لئے فرمایا جاتا ہے کہ: تُرهِبونَ بِهِ عَدُوَّ اللَهِ وَ عَدُوَّکُم۔(3) یہ آمادگی اور استعداد بڑھانا جس کی قرآن میں تاکید کی گئی ہے، «تُرهِبونَ بِهِ عَدُوَّ اللَه» ہے، ملک کے لئے سلامتی پیدا کرنا ہے۔ اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ ایک مدت تک مسلسل کہتے تھے کہ "سبھی آپشن میز پر ہیں" (اب) کچھ عرصے سے اس بات کی تکرار نہیں ہو رہی ہے۔ سمجھ گئے ہیں کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، یہ بات ہلکی اور بے معنی ہو چکی ہے۔ یہ آپ کی توانائیوں کی وجہ سے ہے۔ جب آپ اپنے اندر تونائیاں بڑھاتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے۔
سپاہ کی کارکردگی کا ایک پہلو مختلف میدانوں میں سپاہ کی تعمیراتی سرگرمیاں ہیں۔ یہ اس کا درخشاں باب ہے، بہت اہم بات ہے، اس کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انفرا اسٹرکچر کے امور ميں سپاہ کی بات سب سے اوپر ہے۔ بہت کم ادارے ایسے ہیں جو ملک کے انفرا اسٹرکچر کے امور میں- سڑکوں، شاہراہوں، ڈیموں اور ریفائنریوں وغیرہ کی تعمیر میں – سپاہ کے برابر کام کر سکے ہوں۔ معمول سے بہت کم خرچ میں اور معمول سے زیادہ تیزرفتاری کے ساتھ اتنے کام، یہ سپاہ کی کارکردگی کا ایک قابل فخر باب ہے۔
سپاہ کی کارکردگی کا ایک اور پہلو، عوامی خدمات کے شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔ سپاہ مختلف شعبوں میں عوام کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ صحت کے شعبے میں – جو بہت اہم ہے- سپاہ نے بڑے عظیم کارنامے انجام دیے ہیں۔ قدرتی حوادث اور آفات وغیرہ کے موقع پر جیسے زلزلے، سیلاب اور کورونا وبا کے مواقع پر سپاہ نے بنیادی مدد کی ہے۔ محرومیتوں کو دور کرنا۔ سپاہ کی خدمات کا وہ حصہ ہے جس سے اب بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اب بھی اس کی صحیح اور دقیق رپورٹ عوام تک نہیں پہنچی ہے، عوام کے کمزور طبقات کی محرومیت ختم کرنے میں سپاہ کے اقدامات۔ ( اس شعبے میں) بہت بڑے اور وسیع کام ہوئے ہیں۔
سپاہ کی کارکردگی کا ایک اور باب جس پر توجہ ضروری ہے، ملک کے عام ماحول اور فضا پر سپاہ کے اثرات سے تعلق رکھتا ہے۔ فطری بات ہے کہ سپاہ جیسا ادارہ اپنی ان خصوصیات کے ساتھ جو بیان کی گئيں، نوجوان نسل کے لئے پر کشش ہوگا اور واقعی پر کشش ہے۔ نوجوان نسل اس ادارے پر نظر ڈالتی ہے اور دیکھتی ہے کہ یہاں علم و عمل ایک ساتھ ہیں۔ ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر دونوں طرح کی توانائیاں ایک ساتھ ہیں۔ ہارڈ ویئر کی توانائی، اس کی میزائل اور ڈرون کی توانائی ہے اور سافٹ ویئر کی توانائی، عوام کے درمیان آنے کی صلاحیت، عوام سے بات کرنے کی توانائی اور عوام کی مدد، یہ دونوں ایک ساتھ (ہیں)۔ امنگوں پر نگاہ کے ساتھ حقائق پر توجہ اور حقائق کو اہمیت دینا سپاہ کے اندر موجود ہے۔ عوام کے ساتھ رابطہ، عوام کے ساتھ رضاکارانہ موجودگی۔ ان باتوں کو جب نوجوان نسل ایک ادارے میں دیکھتی ہے تو اس کی طرف کھنچتی ہے۔ یہ باتیں نوجوانوں کے لئے کشش رکھتی ہیں۔ اگر دفاع حرم کے شہیدوں کی شرح حال وغیرہ پر آپ نگاہ ڈالیں – شہدائے دفاع حرم اور شہدائے دفاع سلامتی جو ان برسوں کے دوران درجہ شہادت پر فائز ہوئے- ان کی شرح حال جب انسان پڑھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ ان کی تحریک ان کے اقدام اور ان شخصیتوں کے ابھر کے سامنے آنے میں، اہم ترین اور موثر ترین عامل سپاہ کی کارکردگی اور اس کے اندر پائی جانے والی کشش ہے۔ نوجوان ان کو آپنا آئیڈیل بناتے ہیں اور ان کا اثر قبول کرتے ہیں۔ ایک ایسا ادارہ جو احساس ذمہ داری پر استوار ہے، جو اصول پسند بھی ہے، میدان میں موجود بھی ہے اور اپنے عمل میں اصولوں کا پابند بھی ہے۔ ایسا ادارہ پر کشش ہوتا ہے۔ صرف ادارہ پرکشش نہیں ہے (بلکہ) اس کے لوگ اور افراد بھی پرکشش ہیں، اس کے افراد میں بھی ہر اچھے دل کے لئے کشش ہوتی ہے۔ شہید سلیمانی جیسے اعلی مرتبت سردار اپنی جگہ پر شہید حججی جیسا فداکار جوان اپنی جگہ، ابراہیم ہادی جیسا سادہ 'پاسدار' اپنی جگہ، یہ سبھی اپنی اپنی جگہ پرکشش ہیں۔ ان میں سے ہر ایک آئیڈیل ہے، یہ ایسے نمونہ ہائے عمل ہیں جو ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں۔ یہ بھی سپاہ کی کارکردگی کا ایک پہلو ہے۔
اب اگر ملک کی سرحدوں سے ماورا حدود میں داخل ہوں تو، بحث بہت طولانی ہے۔ دوسرے ملکوں کے نوجوانوں پر، سپاہ کی تحریک، سپاہ کی امنگوں، سپاہ کے رخ اور سپاہ کے اقدامات کے اثرات کا جائزہ لیں تو بحث بہت طولانی ہو جائے گی اور میں بھی اس بحث کو چھیڑنا نہیں چاہتا لیکن یہ بہت اہم ہے۔ یہ بھی سپاہ کی کارکردگی کا ایک گوشہ ہے۔
اب آپ ملاحظہ فرمائیں کہ دشمن کی سرگرمیوں کا ایک حصہ سپاہ کی شبیہ بگاڑنے پر مرکوز ہے۔ بسیج کی شبیہ مسخ کرنے پر مرکوزہے۔ کیوں؟ اسی وجہ سے، کیونکہ سپاہ میں کشش ہے۔ بسیج میں کشش ہے۔ جھوٹی خبروں، جھوٹی افواہوں اور انواع و اقسام کے حیلوں اور چالوں سے کام لے کر اس کوشش میں ہیں کہ سپاہ کو آئیڈیل نہ بننے دیا جائے، اس کو نمونہ عمل نہ بننے دیا جائے اور اس سے کچھ نہ سیکھا جائے۔ یہ بھی سپاہ کی کارکردگی کا ایک باب ہے۔ بنابریں سپاہ کی تشکیل، سپاہ کا نمو اور ترقی اور سپاہ کی کارکردگی، میں نے یہ تین باب بیان کئے گئے۔
سپاہ کا ایک اہم باب، مسئلہ پاسداری ہے، انقلاب کی نہیں بلکہ خود اپنی۔ قبل اس کے کہ سپاہ کے ذریعے انقلاب کی پاسداری کو دیکھیں، اس کی بات کریں اور اس پر توجہ دیں، خود سپاہ کی اپنی پاسداری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سبھی انسانوں سے لغزش ہو سکتی ہے۔ سبھی اداروں سے لغزش ہو سکتی ہے۔ سبھی اداروں میں سستی، کاہلی، مغرور ہو جانے اور گوناگوں گمراہ کن رجحانات کا خطرہ ہوتا ہے۔ معصوم کو چھوڑ کر سبھی کے لئے یہ خطرات موجود ہیں۔ سبھی سربراہان، سبھی کمانڈروں، ہم سب، ہم سبھی کے لئے یہ خطرات ہیں۔ بنابریں ہمیں خود اپنی حفاظت کی ضرورت ہے۔ ہمیں سب سے پہلے خود اپنی پاسداری کی ضرورت ہے۔ اپنی اور اپنی قرآنی ثقافت کی پاسداری جس کا نام "تقوا" ہے۔ تقوا یعنی یہی، یعنی اپنی پاسداری۔ ہم خود اپنی حفاظت کریں۔ یہ ادارے کی ذمہ داری ادارے کی حیثیت سے ہے اور ہم میں سے ایک ایک فرد کی ذاتی ذمہ داری بھی ہے۔ میں اور آپ ( سبھی)۔ ایک اہم کام جس پر ہمیشہ ہماری توجہ رہنی چاہئے، یہی اپنی حفاظت ہے۔ ہمارے اندر کمزوریاں ہیں۔ ہر انسان کے اندر اپنی شخصیت میں کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں۔ بعض اوقات یہ کمزوریاں انسان کے ذہن کی اندرونی تہوں میں، انسان کے وجود اور روح انسان میں پنہاں رہتی ہیں۔ پھر جب ان کو نکلنے کا موقع ملتا ہے تو نکل کے سامنے آ جاتی ہیں۔ ہم میں سے بعض کے اندر پیسے کی محبت ہے، بعض میں عہدے کی چاہت ہے، انواع و اقسام کی خواہشات ہیں جو ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ کبھی ہم ان سے غافل ہوتے ہیں، اکثر اوقات ہم ان خصوصیات سے غافل رہتے ہیں۔ پھر جب ان کو موقع ملتا ہے تو سامنے آ جاتی ہیں، ظاہر ہو جاتی ہیں، ہمیں مغلوب کر لیتی ہیں۔ اگر ان کا مقابلہ نہ کریں تو ہمیں مغلوب کر لیتی ہیں اور ہمیں شکست دے دیتی ہیں۔ لہذا ہمیں خود اپنی پاسداری کرنا چاہئے۔
سپاہ کے اقدار اور اس کی نمایاں خصوصیات بہت اہم ہیں۔ ان کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ اس کی پاسداری کی ضرورت ہے۔ سپاہ کے مختلف درجوں پر فائز عہدیداروں کا فریضہ ہے کہ اس سلسلے میں فعال رہیں، دھیان رکھیں، یہ تشویش (ذہن میں) رکھیں۔ اگر یاد خدا سے غفلت ہوئی تو یہ خطرہ بڑھ جائے گا۔ اگر کسی بھی وجہ سے جہادی جذبہ کم ہوا تو یہ خطرہ بڑھ جائے گا۔ اگر کامیابیوں نے ہمیں مغرور کر دیا تو یہ خطرہ بڑھ جائے گا۔ خطرہ پیدا کرنے والے عوامل یہ ہیں : خدا سے غفلت، کامیابیوں پر مغرور ہو جانا، جہادی کام سے تھک جانا، خدائی نعمتوں سے بے توجہی۔ جو عظیم نعمتیں خدا نے ہمیں دی ہیں، (اگر) ان سے غفلت برتی تو ایسا ہرج و مرج پیدا ہوگا جو ہمیں مایوس کر دے گا۔ ایسی مشکل پیش آئے گی کہ ہم فراموش کر دیں گے کہ خدا نے ہماری سو مشکلیں دور کی ہیں۔ یہ بھی ایک مشکل ہے۔ (یہ) کیا اہمیت رکھتی ہے۔ دعاؤں میں ہمیں سکھایا گیا ہے : اَللهُمَّ تَمَّ نُورُکَ فَهَدَیتَ فَلَکَ الحَمدُ رَبَّنا و بَسَطتَ یَدَکَ فَاَعطَیتَ فَلَکَ الحَمدُ رَبَّنا وَ عَظُمَ حِلمُکَ فَعَفَوتَ فَلَکَ الحَمدُ رَبَّنا۔(4) خدا کی نعمتوں کو یاد کرو۔ جیسے ہی ہمارے راستے میں کوئي پتھر آتا ہے(رکاوٹ آتی ہے) تو ہم بھول جاتے ہیں کہ کتنی عظیم چٹانیں ہمارے راستے میں تھیں جو دور ہوئیں، خدا نے دور کیں۔ ہم فراموش کر دیتے ہیں۔ تردد میں پڑ جاتے ہیں۔ شک میں پڑ جاتے ہیں۔ سستی میں مبتلا ہو جاتے ہیں، نا امید ہو جاتے ہیں۔ یہ مہلک بیماریاں ہیں۔ ان بیماریوں کی طرف سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
اسی سلسلے میں ہمیں توجہ رکھنی چاہئے کہ بعض طبقات ایسے ہیں کہ اگر ان سے ایک خطا سرزد ہو تو خداوند عالم دو خطا شمار کرتا ہے۔ ہم عمامے والے اسی طبقے میں آتے ہیں۔ ہماری ایک خطا دو خطا ہے۔ خدا وندعالم ازواج پیغمبر سے فرماتا ہے: یا نِساءَ النَّبیِّ مَن یَأتِ مِنکُنَّ بِفاحِشَةٍ مُبَیِّنَةٍ یُضاعَف لَهَا العَذابُ ضِعفَین۔(5) پیغمبرکی ازواج سے! ازواج پیغمبر ام المومنین ہیں، ان کا مرتبہ اتنا بلند ہے۔ خداوند عالم انہیں محترم خواتین سے فرماتا ہے کہ اگر تم نے خطا کی تو یُضاعَف لَهَا العَذابُ ضِعفَین۔ تمہیں دوگنا عذاب دیں گے۔ مواخذہ کریں گے۔ البتہ «وَ مَن یَقنُت مِنکُنَّ لِلّهِ وَ رَسُولِهِ وَ تعمَل صالِحاً نُؤتِها اَجرَها مَرَّتَین»۔(6) اگر اچھے کام کرو تو تمہیں انعام بھی دوگنا دیں گے۔ آپ پاسداران بھی ایسے ہی ہیں۔ اگر اچھا کام کریں تو انعام دوگنا پائيں گے۔ ایک انعام اپنے اچھے کام کا اور ایک انعام دوسروں کے لئے نمونہ عمل بننے کا۔ ہم عمامے والے بھی اسی طرح ہیں: دوگنا۔ دوسری طرف اگر ہم سے کوئی خطا ہوئی تو وہ بھی اسی طرح: ایک گناہ خود گناہ کا اور ایک گناہ اس بیرونی اثر کا جو ہمارے گناہ سے مرتب ہوتا ہے۔ اس پر توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
میں سپاہ کی نئي نسل سے – الحمد للہ آج دسیوں ہزار جوان ان برسوں کے دوران سپاہ میں آئے ہیں، بڑے اہداف کے لئے کام کر رہے ہیں، انہوں نے قابل فخر کارنامے انجام دیے ہیں۔ بڑے کارنامے انہیں جوانوں نے انجام دیے ہیں- (ان سے) میں تاکید کے ساتھ سفارش کرتا ہوں کہ کوشش کریں کہ اپنی معنوی، علمی اور عملی نیکیوں کو اپنے اسلاف سے اوپر لے جائيں۔ آپ کے اسلاف بہت اچھے لوگ تھے۔ وہ نوجوانی میں یونیورسٹیوں سے مختلف علاقوں سے آئے اور جنگ میں شامل ہوئے، اپنی جان ہتھیلی پر لے کر اس دن میدان جنگ میں اترے جب کامیابی کی امید نہیں تھی۔ واقعی کامیابی کی امید نہیں تھی۔ جب مقدس دفاع شروع ہوا، مختصر مدت کے بعد جب لوگ جنگی علاقوں میں جاتے تھے، تو حزن و ملال اور تاریکی و تیرگی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ اس ماحول میں ان نوجواںوں نے جانبازی کی، میدان میں آئے، ثابت قدمی کے ساتھ استقامت کی اور ورق پلٹ دیا، ہدایت و نصرت پروردگار کا رخ اپنی طرف موڑ دیا۔ وَ الَّذینَ جاهَدوا فینا لَنَهدِیَنَّهُم سُبُلَنا۔(7) جو لوگ جہاد کرتے ہیں، خداوند عالم انہیں ہدایت، مدد اور نصرت عطا فرماتا ہے۔
یہی آیات جن کی تلاوت کی گئي ــ «تُؤمِنونَ بِاللَهِ وَ رَسُولِهِ وَ تُجاهِدونَ فی سَبیلِ اللَهِ بِاَموالِکُم وَ اَنفُسِکُم» الی «یُدخِلکُم جَنّاتٍ تَجری مِن تَحتِهَا الاَنهارُ ... وَ اُخرىٰ تُحِبّونَها نَصرٌ مِنَ اللَهِ وَ فَتحٌ قَریب»(8)- ( فرماتا ہے) خداوند عالم نصرت بھیجتا ہے۔ دوسری طرف اگر خطا کریں، تو اس کا اثر اگلی صف میں خطرے کے موقع پر فورا دیکھیں گے: اِنَّ الَّذینَ تَوَلَّوا مِنکُم یَومَ التَقَى الجَمعانِ اِنَّمَا استَزَلَّهُمُ الشَّیطانُ بِبَعضِ ما کَسَبوا۔(9) جنگ احد میں جن کے پیروں میں لغزش ہوئی اور انھوں نے فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا اور محاذ حق کو وہ بڑا نقصان پہنچایا، اِنَّمَا استَزَلَّهُمُ الشَّیطانُ بِبَعضِ ما کَسَبوا، مشکل پہلے سے تھی۔ ان کا عمل اچھا نہیں تھا، اس کا اثر محاذ پر حساس علاقے میں، اس حساس موڑ پر ظاہر ہوتا ہے۔ بنابریں یہ باب، بہت اہم باب ہے۔ خود اپنی حفاظت اور اپنی پاسداری کا باب۔
اب آتے ہیں انقلاب کی پاسداری کی طرف: "سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی" پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی انقلاب میں کیا خصوصیات ہیں کہ اس کو دشمن اپنے حملوں کی آماجگاہ بناتا ہے کہ اس کی پاسداری کی ضرورت ہو تاکہ اس کی حفاظت کریں؟ اسلامی انقلاب کا کون سا پہلو ہے جو اس بات کا موجب بنتا ہے کہ خفیہ اور آشکارا دشمن اس کے مقابلے میں صف آرائی کریں اور ہم اس کی پاسداری پر مجبور ہوں تاکہ انقلاب کی حفاظت اور پاسداری کریں؟ اس سوال کا جواب واضح ہے۔ جواب ہے: انقلاب کی سیاسی حاکمیت۔ اسلام دنیا میں بہت سی جگہوں پر ہے۔ اسلام کو استعماری طاقتوں، استحصال کرنے والوں، سامراجیوں، مستکبرین اور ان کمپنیوں کی گائے بھینس اور بھیڑ بکریوں سے تو کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ انہیں بھی اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اگرچہ اس وقت ان میں سے بھی بہت سوں کے دل صاف نہیں ہیں لیکن انہیں بہت اہمیت نہیں دیتے۔ وہ چیز جو دشمن کو اسلام کے مقابلے پر صف آرائي کے لئے اکساتی ہے وہ، اس کی سیاسی حاکمیت ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو ایرانی قوم کی ہمت سے اس بے نظیر انسان کی رہبری میں – ہمارے امام بزرگوار(امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ) واقعی حقیقی معنی میں بے نظیر تھے- یہاں عمل میں آئي اور دشمنوں نے اس کے مقابلے پر صف آرائی کی۔ اسلام کی سیاسی حاکمیت۔
اس کے بعد سوال یہ ہے کہ اسلام کی سیاسی حاکمیت کی کیا خصوصیات ہیں جو انہیں حساس کرتی ہیں اور انہیں ردعمل پر مجبور کرتی ہیں؟ وہ کیا ہے؟ یہ اہم ہے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں اسلامی انقلاب کے بارے میں ہمارا فہم و ادراک جتنا گہرا ہوگا، جتنا دقیق ہوگا، جتنا روشن ہوگا ہمارے اندر اس کی پاسداری کا جذبہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ البتہ اس سلسلے میں اگر بحث کریں تو یہ ایک دو گھنٹے کی بحث نہیں ہے۔ اسلامی نظام، اسلامی معاشرے اور اسلامی سیاست کی خصوصیات کی بحث بہت طولانی ہے۔ میں صرف چند نکات کی طرف اشارہ کروں گا۔
اسلام کا سیاسی نظام ظلم کا مخالف ہے، ظالم کا مخالف ہے۔ بہت سادہ سی بات ہے۔ حکم دیا ہے کہ «کونا لِلظّالِمِ خَصماً»۔ ہم سے کہا ہے کہ «کونا لِلظّالِمِ خَصماً». امیر المومنین (علیہ السلام) مظہر اسلام حقیقی ہیں، عزیزترین افراد عالم یعنی اپنے بیٹوں سے آپ کی وصیت یہ ہے کہ ظالم کے دشمن رہیں۔ ظالم سے دشمنی کریں۔ وَ لِلمَظلومِ عَوناً۔(10) یہ پہلی بات۔ اب اگر دنیا کی کوئي سیاست، دنیا کا کوئی نظام، دنیا کی کوئی طاقت ظلم پر استوار ہو تو معلوم ہے کہ وہ اس نظام کی مخالف ہوگی۔ اس لئے کہ جانتی ہے کہ یہ نظام اس کا دشمن ہے۔ صیہونی حکومت کی بنیاد ظلم ہے۔ وہ ظلم پرکھڑی ہے۔ ایک پوری قوم کو اس کے وطن اور گھر سے باہر کر دیا ہے وہ بھی پیسے دیکر اور دخواست کرکے نہیں بلکہ بندوق کی نوک پر، طاقت سے ان کے گھر پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس کی بنیاد ہی ظلم ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حکومت اس نظام کی مخالف ہوگی جس نے «کونا لِلظّالِمِ خَصماً» کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔ یہ فطری بات ہے۔
اسلامی نظام اقوام کے مفادات پر دست درازی کا مخالف ہے۔ حتی اگر وہ عقیدے اور عمل میں مختلف ہوں تب بھی۔ . وَ لَا یَجرِمَنَّکُم شَنَآنُ قَومٍ عَلَىٰ اَلّا تَعدِلُوا۔(11) اقوام سے عدل و انصاف کے ساتھ پیش آؤ، حتی اگر وہ تمھارے ہم عقیدہ نہ ہوں تب بھی۔ شَنَآنُ قَومٍ، یعنی حتی اگر وہ تمھارے مخالف ہوں تب بھی ان سے بے انصافی نہ کرو۔ اب جن حکومتوں کی بنیاد ہی بے عدالتی ہے، وہ فطری طور پر مخالف ہوں گی۔ برطانیہ ایک دن یورپ کا امیر ترین ملک تھا۔ یہ دولت کہاں سے لایا تھا؟ ہندوستان سے، برصغیر ہند کے مشرقی خطے سے۔ جب امریکا برطانیہ کے قبضے میں تھا اس وقت امریکی سرزمینوں سے۔ یہ دولت اس نے دوسروں کو لوٹ کے حاصل کی تھی۔ فرانس دولت مند ہو گیا، علمی کام کر سکا۔ وہ دولت کہاں سے لایا تھا؟ الجزائر سے، مراکش سے، تونس سے افریقا کے ان علاقوں سے جہاں فرانسیسی تھے، لاطینی امریکا سے۔ دوسرے بھی اسی طرح۔ ان کا کام استحصال تھا۔ چونکہ جہازرانی سے واقف تھے، سمندر کے ساحل پر تھے، یہاں سے وہاں جا سکتے تھے، شروع میں حیلے اور فریب سے اور پھر بندوق کی نوک پر اقوام کی دولت لوٹی۔ ظاہر ہے کہ وہ اس نظام کے مخالف ہیں۔ یہ صورتحال ہے۔ اب اگر کوئی نام نہاد سیاسی تجزیہ نگار تجزیہ کرتا ہے کہ اسلامی انقلاب نے، اسلامی نظام نے، اسلامی جمہوریہ نے فلاں فلاں اور فلاں ملکوں کے ساتھ کیا کیا ہے کہ وہ اس کے مخالف ہیں۔ اس کے تجزیے کی ضرورت ہے؟ ظاہر ہے، اصل مسئلہ یہ ہے: سامراج کا شیطانی نظام اسلامی نظام جیسے کسی نظام کو برداشت نہیں کر سکتا۔
ایک بات یہ ہے کہ اسلامی نظام انسان کی عزت و کرامت کا قائل ہے۔ جو بھی انسان ہو۔ کسی خاص علاقے کے انسان، کسی خاص نسل کے انسان اور کسی خاص رنگ کے انسان کے لئے نہیں (بلکہ جو بھی انسان ہے) . وَ لَقَد کَرَّمنا بَنی آدَم۔(12) ہم نے بنی آدم کو عزت عطا کی۔ یہ قرآن ہے۔ سیاہ فاموں کی سرزمین کا سیاہ فام انسان بھی بنی آدم ہے۔ کوئي فرق نہیں ہے۔ یہ نسلی امتیاز کی بات جو مغرب والوں نے بہت ہی بے شرمی اور ذلت آمیز طریقے سے پھیلائي اور اس پر عمل کیا اور آج تک اس کو جاری رکھا ہے، سو فیصد قرآن اور اسلام کے مخالف ہے۔ اسلامی نظام اس کا مخالف ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ امریکا جو آج بھی امریکا میں یورپ والوں کے آنے کے دو سو سال تین سو سال اور چار سو سال بعد اب بھی وہاں نسلی امتیاز موجود ہے یہ حکومت اسلامی نظام کے لئے مہربان ہو جائے؟ اسلامی نظام ان چیزوں کا مخالف ہے۔ یہ ایک خصوصیت۔
اسلامی نظام کی دوسری خصوصیت (یہ ہے کہ) اسلام نظام کا نظریہ ہے کہ اگر کوئی ملک، کوئی حکومت، اس سے دشمنی نہیں رکھتی، اس سے دشمنی نہیں چاہتی اور کہتی ہے کہ آؤ ہم جنگ نہ کریں، تو اسلامی نظام کو یہ بات قبول کرنی چاہئے۔ وَ اِن جَنَحوا لِلسَّلمِ فَاجنَح لَها وَ تَوَکَّل عَلَى اللَه.(13) فریق مقابل ایک ایسی حکومت ہے جو آپ کی ہم فکر اور ہم عقیدہ نہیں ہے لیکن دشمنی نہیں رکھتی، کہتی ہے کہ آؤ مل کے رہیں، آشتی کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاں رفت و آمد رکھیں۔ کوئی حرج نہیں ہے۔ لا یَنهاکُمُ اللَهُ عَنِ الَّذِینَ لَم یُقاتِلوکُم فِی الدّینِ وَ لَم یُخرِجوکُم مِن دِیارِکُم اَن تَبَرّوهُم وَ تُقسِطوا اِلَیهِم»۔(14) اگر آپ سے جنگ نہیں کی، آپ کو آپ کے گھر سے آپ کے وطن سے نہیں نکالا، آپ سے لڑائي نہیں کی ہے، تو قبول کریں۔ لیکن اگر دیکھیں کہ فریق قابل اعتماد نہیں ہے، جھوٹ بولتا ہے، حیلہ کر رہا ہے، تو نہیں۔ لا تَهِنوا وَ تَدعوا اِلَى السَّلم۔(15) اگر ایسا ہے تو آپ کو یہ حق نہیں ہے۔ اگر آپ نے محسوس کیا، سمجھا، شواہد نے بتایا کہ فریق مقابل سچا نہیں ہے، جھوٹ بول رہا ہے، بظاہر آپ کی طرف اس نے ایک ہاتھ بڑھایا ہے کہ آپ سے ہاتھ ملائے لیکن دوسرے ہاتھ میں اس نے زہر آلود خنجر لے رکھا ہے تو، فَلا تَهِنوا وَ تَدعوا اِلَى السَّلم۔ ہرگز قبول نہ کیجئے۔ یا اس سے معاہدہ کیا: وَ اِن نَکَثوا اَیمانَهُم مِن بَعدِ عَهدِهِم،(16) تو آپ بھی وہی کیجئے جو وہ کرے۔ اس نے اگر معاہدہ توڑ دیا تو آپ بھی توڑ دیجئے۔ دیکھئے! یہ اسلامی نظام کے درس ہیں۔ یہ درس شیطانوں کے مقابلے میں، دشمن ساز ہیں۔ جی ہاں!جو لوگ شیطان نہیں ہیں، ان کے اندر خباثت نہیں ہے، رذالت نہیں ہے، ان کا بڑھا ہوا ہاتھ قبول ہے لیکن وہ دشمن جس میں خباثت ہے، رذالت ہے، جو کینہ پرورہے، عہد شکن ہے، جھوٹا ہے، وہ تو ہر حال میں دشمن ہی ہوگا۔ لہذا اسلامی نظام میں جو چیزیں دشمن ساز ہیں وہ یہی ہیں۔ اسی طرح کی چیزیں ہیں۔
حملہ کس کی طرف سے ہے؟ اس کی طرف سے جو ان خصوصیات کا مخالف ہے۔ تو ہم نے دشمن کو جان لیا۔ جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو پاسداری کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے اور ہم یہ بھی سمجھ لیتے ہیں کہ کس سے اپنے انقلاب کی پاسداری کرنا ہے۔ فریق مقابل کو پہچان لیں گے تو غلطی نہیں کریں گے۔ ایک مصیبت جس میں ہم بعض اوقات گرفتار ہوئے ہیں اور ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ اس میں مبتلا نہ ہوں، یہ ہے کہ دشمن کو پہچاننے میں غلطی ہو جاتی ہے۔ امام (خمینی) رضوان اللہ علیہ اپنی اس چشم بصیرت کے ساتھ – یعنی واقعی اس عظیم انسان کے لئے اس سے بہتر کوئی اور تعبیر نہیں ہو سکتی، فرمایا - بصیرت حقیقی معنی میں (یہ ہے) – پنہاں تہوں تک پہنچ کر حقیقت کو دیکھ لیا کرتے تھے، کہا :"غصہ امریکا پر نکالو"(17) تو معلوم ہو گیا کہ اس انقلاب سے دشمنی کی وجہ کیا ہے اور اس سے دشمنی کرنے والے کون ہیں۔
ایک اور نکتہ دشمنی کے تعلق سے یہ ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ مثالی نہ ہوتی تو یہ دشمنی کم ہوتی لیکن اسلامی جمہوریہ مثالی بن گئی، آگے بڑھ گئی۔ اسلامی جمہوریہ اس حساس علاقے میں استقامتی تحریک کا سرخیل بن گئی۔ مسئلہ یہ ہے۔ یہ بھی ایک اہم بات ہے۔ دیکھئے! انقلاب سے پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ حقیر صیہونی حکومت نے چھے دن کے اندر اپنے اطراف کے نسبتا چند طاقتور ملکوں کو شکست دے دی۔ مصر، شام اور اردن کو 1967 کی چھے روزہ جںگ میں صیہونی حکومت کی فوج نے ان تین ملکوں کی مسلح افواج کو شکست دے دی اور ان کی سرزمین کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ ان تینوں ملکوں کا سیکڑوں مربع کلومیٹر رقبہ ہتھیا لیا۔ بالکل یہی صورتحال 1973 میں پیش آئي۔ اس سال مصر اور شام نے صیہونی حکومت کی غفلت سے فائدہ اٹھایا اور کچھ اقدامات کئے۔ لیکن اس نے پھر ان کا محاصرہ کر لیا اور پھر انہیں شکست دے دی۔ یعنی صیہونی حکومت ایسی تھی کہ تین ملکوں کی فوجیں ایک ساتھ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں۔ چھے دن کے اندر وہ انہیں شکست دے دیتی ہے۔ انقلاب کے بعد نوبت یہ ہو گئي کہ اسی حکومت نے تینتیس روزہ جںگ میں بھر پور کوشش کر لی کہ حزب اللہ لبنان کو شکست دے دے، نہ دے سکی اور ذلت کے ساتھ فرار پر مجبور ہو گئی۔ حزب اللہ کے مقابلے پر نہ ٹک سکی۔ انقلاب سے پہلے اور بعد کا فرق، چھے روزہ اور تینتیس روزہ جنگوں کا فرق ہے۔ آج تو صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے اندر، غرب اردن کے علاقے میں، فلسطینی نوجوان اس طرح تحریک چلا رہے ہیں، اس طرح حملہ کرتے ہیں کہ صیہونی حکومت کو عاجز کر دیتے ہیں اور عاجز کر دیا ہے۔ انقلاب یہ ہے۔ ظاہر ہے کہ دشمنی پیدا ہوگی۔
اب آخری نکتہ بھی عرض کر دوں۔ پیشرفت اور ترقیاں بہت ہیں۔ اچھے کام فراوان ہیں، توانائیاں روز افزوں ہیں- سپاہ کے محترم کمانڈر نے سپاہ کی توانائیوں اور اس کے اوصاف کو بہت اچھی طرح بیان کیا- یہ سب ہے، شاید بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جن کا ذکر رپورٹوں میں نہیں ہوتا ہے، لیکن میں عرض کرتا ہوں کہ اپنی توانائیوں اور پیشرفتوں پر مغرور نہ ہوں۔ خیال رکھیں جو ہے اس کی وجہ سے غرور میں مبتلا نہ ہوں۔ اس کی قدر کو سمجھیں، اہمیت کو سمجھیں، جان لیں کہ پے در پے بحران پیدا کرنے کی وہ اسٹریٹیجک سیاست جس کا فیصلہ گوادا لوپ کانفرنس میں کیا گیا، اب بھی جاری ہے، اس سیاست پر اب بھی عمل ہو رہا ہے۔ وہ اس سیاست سے دست بردار نہیں ہوئے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کے نظام میں، ہمارے ملک عزیز کے اندر مستقل طور پر بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ کبھی انتخابات کے بہانے، کبھی پیٹرول کے بہانے، کبھی عورت کے نام پر، مختلف بہانوں سے بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ آج ان کے پاس وسائل بھی جدید ترین ہیں۔ ظاہر ہے۔ ان بحرانوں سے دشمن کا ہدف پہلے درجے میں یہ ہے کہ ملک کی سلامتی ختم کر دے۔ سلامتی نہیں ہوگی تو معیشت بھی نہیں ہوگی، سلامتی نہیں ہوگی تو علم بھی نہیں ہوگا، یونیورسٹی بھی نہیں ہوگی، تحقیقاتی مراکز بھی نہیں ہوں گے۔ سلامتی نہیں ہوگی تو روزگار بھی نہیں ہوگا۔ سلامتی نہیں ہوگی تو بنیادی ڈھانچے (انفرا اسٹرکچر) تیار کرنے کے کام بھی نہیں ہوں گے۔ سلامتی نہیں ہوگی تو کارخانے بھی بند ہو جائيں گے۔ سلامتی اصلی چیز ہے۔ ان بحرانوں کا ہدف ملک کی سلامتی کو مخدوش کرنا ہے۔ اس کو ایک حقیقت سمجھیں اور اس کے تعلق سے اپنے فریضے کا تعین کریں۔ دشمن ملک کی سیکورٹی پر قـبضہ کرنا چاہتا ہے۔ عوام کی زندگی میں خلل ڈالنا چاہتا ہے۔ دشمن کا مشن یہ ہے۔ اس کے اصلی عوامل بھی معلوم ہیں۔ اصلی عوامل یہ سی آئي اے، موساد اور ایم آئي سکس جیسی جاسوسی کی تنظیمیں ہیں۔ البتہ ان کے کارندے بھی ہیں، کارندے اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی ہیں۔ مغرب پرست عناصر، لا ابالی لوگ، یہ ان کے کارندے ہیں۔ لیکن اصل مرکز وہاں ہے، ڈور کا اصلی سرا وہاں ہے۔
آج ہمارا فریضہ انقلاب کی مستقل پاسداری ہے۔ آج ہمارا فریضہ وحدت ملی ہے۔ ملی وحدت اہم ہے۔ آج ہمارا فریضہ عوام کو شریک کرنا ہے۔ عوام کی مدد کرنا ہے۔ خاص طور پر کمزور طبقات کی مدد کرنا ہے۔ آج ہمارا فریضہ حکام کا جہادی کام ہے۔ یہ سپاہ سے مخصوص نہیں ہے، ملک کے سبھی ذمہ دار عہدیداروں کا فریضہ ہے کہ جہادی کام کریں، شب و روز کام کریں، انتھک محنت کریں۔ ہم نے مفصل مرحلے کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ چڑھائی، یہ سخت چڑھائي عبور کر لی ہے، چوٹی کے نزدیک پہنچ گئے ہیں۔ تھک کے رکنا نہیں چاہئے۔ آج نہ تھکن محسوس ہونی چاہئے نہ ہی ناامیدی کو پاس آنے دینا چاہئے۔ آج شوق و ذوق کا دن ہے، امید کا دن ہے، آگے بڑھنے کا دن ہے۔ ملک کے مختلف شعبوں میں حکام کو اس جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ اعتماد ہونا چاہئے، یہ نہیں کہتا کہ تنقید نہ کی جائے۔ تنقید اعتماد کے ساتھ ہونی چاہئے۔ تنقید کرنا چاہتے ہیں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن بھروسہ رکھنا چاہئے۔ حکام کام کر رہے ہیں۔ اخلاص کے ساتھ، شوق و ذوق کے ساتھ، خدا پر توکل کے ساتھ، پوری توانائی کے ساتھ۔ ان پر اعتماد ہونا چاہئے، اگر تنقید ضروری ہو تو کریں میں تنقید کا مخالف نہیں ہوں۔ اگر اس راستے پر چلتے رہے اور الحمد للہ آج تک چلے ہیں، فضل الہی سے آئندہ بھی خدا کی توفیق سے اس پر آگے بڑھیں گے، تو دشمن پر کامیابی یقینی ہے۔
والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
1۔ یہ ملاقات سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈروں اور عہدیداروں کی سپریم اسمبلی کے چونتیسویں اجلاس کی مناسبت سے انجام پائي اور اس میں پہلے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں نمایندہ ولی فقیہ حجت الاسلام والمسلمین عبداللہ حاج صادقی اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کماندر جنرل حسین سلامی نے تقاریر کیں۔
2۔ مہرداد اوستا
3۔ سورہ انفال، آیت نمبر 60۔"۔۔۔۔ تاکہ اس (تیاری) سے اپنے اور خدا کے دشمن کو خوفزدہ کرو۔۔۔۔ "
4۔ من لا یحضرہ الفقیہ جلد 1 صفحہ 488 (نماز وتر کی دعائے قنوت)
5۔ سورہ احزاب آیت نمبر۔ 30 " اے ازواج پیغمبر تم میں جو بھی آشکارا برا کام کرے، اس کو دوہرا عذاب ہوگا۔۔۔۔۔ "
6۔ سورہ احزاب، آیت 31۔ " اور جو بھی تم میں سے خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اور اچھا کام کرے، اس کو انعام دو ہرا دیں گے۔۔۔۔ "
7۔ سورہ عنکبوت، آیت نمبر 69۔ " اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ہے، یقینا ہم انہیں اپنا راستہ دکھائيں گے۔۔۔۔ "
8۔ سورہ صف، آیت نمبر 11 سے 13۔ " خدا اور اس کے رسول سے ملحق ہو جاؤ اور راہ خدا میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو۔۔۔۔۔ اوردوسری (رحمت) جو تمہیں پسند ہے، وہ خدا کی نصرت اور کامیابی نزدیک ہے۔۔۔۔ "
9۔ سورہ آل عمران، آیت نمبر 155۔ " جب دو گروہ ( احد میں) آمنے سامنے آئے، تم سے جن لوگوں نے (دشمن کو) پیٹھ دکھائی، وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ جو کچھ انھوں نے (اپنے گناہ سے) حاصل کیا تھا، اس کے نتیجے میں شیطان نے انہیں لغزش میں مبتلا کر دیا۔۔۔۔۔ "
10۔ نہج البلاغہ خط نمبر 47
11۔ سورہ مائدہ آیت نمبر 8۔ "۔۔۔۔۔ البتہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کسی گروہ کی دشمنی تمہیں انصاف کرنے سے روک دے۔۔۔۔ "
12۔ سورہ اسرا آیت نمبر 70
13 سوره انفال، آیت نمبر 61
14سوره ممتحنه، آیت نمبر 8
15۔ سوره محمّد، آیت نمبر 35
16۔ سوره توبه، آیت نمبر 12۔ " اور اگر انھوں نے عہد کے بعد اپنی قسم توڑ دی۔۔۔۔۔۔ "
17۔ صحیفہ امام جلد 11 صفحہ 121، پاسداران تہران کے اجتماع سے خطاب
25-6-1979