بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

خداوند عالم کے شکر گزار ہیں کہ وہ ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے شہید سلیمانی کا دنیوی اجر اس عظیم انسان اور اس ممتاز شخصیت کو عطا فرما رہا ہے۔ آپ ان کے نام اور ان کے تذکرے کی یہ جو آفاقیت اور ہمہ گیریت دیکھ رہے ہیں وہ ان بزرگوار کا دنیوی اجر ہے۔ اخروی اجر تو ہمارے تصور سے بالاتر ہے، ہمارے فہم و ادراک کی رسائی سے اوپر ہے۔ یہ ان کا دنیوی اجر ہے۔ میرا خیال یہی ہے کہ جس دن سے وہ شہید ہوئے ہیں تا حال شہید سلیمانی کا نام، شہید سلیمانی کا تذکرہ اور شہید سلیمانی کی خصوصیات لوگوں کے درمیان ان کی زندگی کے دور کی نسبت کئی گنا زیادہ عام ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو کسی موقع پر کسی نے کہی تھی کہ 'شہید سلیمانی' ہمارے لئے 'قاسم سلیمانی' سے زیادہ خطرناک ہیں۔ یہ بات فریق مقابل نے کہی تھی۔ انہوں نے صحیح کہا تھا۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ یعنی اس شہید کے چہرے پر فراموشی کا غبار جمع ہونا تو در کنار، ان کی درخشندگی دن بہ دن بڑھتی گئی ہے، ان کی نورانیت میں اضافہ ہوتا گیا ہے، ان کا ظہور بڑھتا گیا ہے اور ان شاء اللہ بڑھتا ہی جائے گا۔ یہ لطف خداوندی ہے۔

اس کی کیا وجہ ہے؟ میرے خیال میں اس کی وجہ شہید سلیمانی کا اخلاص عمل ہے۔ یعنی وہی چیز جس میں ہمیں عام طور پر مشکلات در پیش ہوتی ہیں۔ کام انجام پاتا ہے لیکن کام کی روح اخلاص عمل ہوتا ہے۔ اس شہید کے کاموں میں واقعی یہ روح ہوتی تھی۔ یعنی واقعی اخلاص عمل کے ساتھ کام کرتے تھے۔ ہم جو ان کے کاموں سے متصل تھے، اس چیز کو بخوبی محسوس کرتے تھے۔ ان کے کاموں میں خود نمائی کا عنصر نہیں ہوتا تھا، دکھاوا نہیں ہوتا تھا، انانیت نہیں تھی۔ اللہ کے لئے کام کرتے تھے، اللہ کے لئے قدم بڑھاتے تھے۔ میرے نظر میں یہی اخلاص عمل ہے جس نے ان کے دنیوی اجر کو اس قدر نمایاں کر دیا۔ یہ چیز ہم نے امام خمینی کے سلسلے میں بھی دیکھی۔ امام خمینی کی بھی یہی خصوصیت تھی۔ امام خمینی کی تدفین کو تین یا چیر دن ہوئے تھے کے ان کے مرقد پر، جہاں ہنوز کوئی تعمیر نہیں ہوئی تھی بس ایک حصار کھینچ دیا گیا تھا، بہت بڑا جلسہ ہوا۔ ہم بھی وہاں جا رہے تھے۔ میں ہیلی کاپٹر میں جا رہا تھا۔ یونہی بیابان پر جب نظر پڑتی تھی، اب تو وہاں تعمیرات ہو گئی ہیں، اس وقت وہاں بیشتر حصہ بیابان تھا۔ میں نے دیکھا کہ جم غفیر ہے جو پیدل چلا جا رہا ہے۔ انہیں کون وہاں لے جا رہا تھا؟ کون سی مقناطیسیت تھی جو انہیں وہاں کھینچ رہی تھی؟ میں نے کہا کہ یہ امام خمینی کا اخلاص عمل ہے جو ان تمام لوگوں کو اس طرح وہاں کھینچ رہا ہے، لے جا رہا ہے۔ ہمارے یہ پیارے شہید بھی اسی طرح بڑے اخلاص والے انسان تھے۔

ان محترمہ (2) نے فرمایا کہ ہمیں کوئی نصیحت کیجئے۔ ٹھیک ہے، نصیحت یہی ہے: اپنے کام اخلاص کے ساتھ انجام دیجئے۔ یعنی اپنے جذبات میں اور اپنے اقدامات میں نفسانی خواہشات کا کوئی شائبہ بھی پیدا نہ ہونے دیجئے۔ اخلاص یعنی صرف اور صرف اللہ کے لئے کام کرنا۔ جہاں بھی نظر آئے کہ خواہشات نفس شامل ہو رہی ہیں، اس سے پیچھے ہٹ جائیے۔ یعنی انسان وہ کام ترک کر دے، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ انسان اس لئے کام کرے کہ لوگوں کی نظر میں آئے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ اخلاص کا نکتہ۔

ایک بات شہید سلیمانی کے کاموں کی اہمیت و کلیدی حیثیت کے بارے میں عرض کر دوں۔ اس بارے میں باتیں ہوتی ہیں، بیان کی جاتی ہیں، اس نکتے پر توجہ دینا ضروری بھی ہے،  وہ ہے علاقے میں مزاحمتی محاذ کے احیاء میں شہید سلیمانی کا کردار۔ اگر کوئی اس چیز کو بیان کر رہا ہے تو لازم ہے کہ قاعدے سے بیان کرے۔ شہید سلیمانی کا علاقے میں مزاحمتی محاذ کو زندہ کرنے میں بڑا اہم کردار ہے، انہوں نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ کسی علاقے میں کوئی مزاحمتی تنظیم سرگرم ہوتی ہے۔ یہ صورت حال شہید سلیمانی سے پہلے تھی۔ لیکن کبھی یہ ہوتا ہے کہ پورا ایک محاذ تیار ہو جاتا ہے۔ ہم ہمیشہ سے یہی چاہتے تھے۔ کیونکہ فریق مقابل محاذ بندی کرتا ہے تو جواب میں اس طرف بھی محاذ بندی ہونی چاہئے۔ آج اگر یہ محاذ نہ ہوتا تو غزہ اتنی مزاحمت نہیں کر سکتا تھا۔ یہ مزاحمتی محاذ قضیے سے وابستہ فورسز کو تقویت پہنچاتا ہے۔ اگر چار یونٹیں آپس میں متحد ہو جائيں، پانچ یونٹیں آپس میں متحد ہو جائیں تو ان کی طاقت ایک یونٹ کے مقابلے میں چار پانچ گنا بڑھ جاتی ہے، ایک نئی تصویر بن جاتی ہے۔ یہ نئی تصویر بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ شہید الحاج قاسم سلیمانی کا اس مسئلے میں بڑا اہم رول تھا، انہوں نے بڑا کام کیا۔ عوام شام کے پہاڑوں پر ان کی موجودگی، خطرات سے ان کے نہ گھبرانے بلکہ خطروں کے جبڑے میں گھس جانے کا نظارہ کرتے ہیں۔ یہ چیز حد درجہ اہم ہے لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسی آمد و رفت سے، اسی موجودگی سے اور اسی محنت سے انہوں نے اس محاذ کا احیاء کر دیا، اسے زندہ کر دیا، مضبوط کر دیا۔

خداوند عالم ان شاء اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ وہ اپنی تدبیروں سے، اپنی سیاست، اپنی فراست، اپنے اخلاقیات، اپنے اقدامات اور بلا وقفہ محنت و مشقت سے اس ہدف کی تکمیل میں مصروف تھے۔ یہ بہت اہم چیز تھی اور آج بھی اہم ہے۔ امید کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ ان شاء اللہ جاری رہے۔ یقینا جناب قاآنی (3) واقعی بنحو احسن کام انجام دے رہے ہیں۔ ان کا کام واقعی بہت اچھا ہے الحمد للہ۔ مزاحمتی محاذ کو مستحکم کرنے کا عمل جس کے سلسلے میں شہید بڑی محنت کرتے تھے، جو بہت نمایاں بھی تھا اور اس قضیے میں جس کی پوزیشن بہت اہم ہے، ان شاء اللہ اسی طرح جاری رہے۔

خداوند عالم ان شاء اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ محترمہ (4) کی حفاظت فرمائے۔ شہید سلیمانی کے مواقف اور عزائم میں آپ کا اہم کردار ہے۔ شاید بیس سال قبل یا تیئیس چوبیس سال پہلے کی بات ہے کہ یہیں آنگن میں سپاہ پاسداران انقلاب کے افراد، سپاہ کے کمانڈروں کے ساتھ، شاید ان کی تعداد تقریبا بیس تھی، ہم نے نماز پڑھی۔ نماز کے بعد میں اسی زینے پر بیٹھ گیا۔ بڑی پر تپاک اور پر کشش گفتگو کی۔ پہلے سے میں نے اس پر سوچا بھی نہیں تھا۔ خدائے تعالی یونہی اپنی بات کہہ رہا تھا! در حقیقت زبان میری تھی لیکن باتیں خدا کی تھیں۔ بڑی عجیب نشست تھی۔ بڑی اثر انگیز باتیں تھیں۔ اس نشست کے بعد ان میں سے کچھ لوگ میرے پاس آئے۔ ان میں ایک الحاج قاسم تھے۔ انہوں نے آکر ایک جملہ ان (محترمہ) کا نقل کیا۔ کہا کہ میری اہلیہ یہ کہتی ہیں۔ اسی نہج کی باتیں جو میں نے بیان کی تھیں۔ میں نے محسوس کیا کہ بیوی کا اثر کتنا زیادہ ہے۔ یعنی ان محترمہ کا الحاج قاسم کی شخصیت پر بڑا اثر تھا۔ لہذا الحاج قاسم کی زحمات و خدمات میں آپ بھی شریک ہیں۔ اس کے ساتھ ہی خاندانوں کی محرومیت، شوہر کا چلا جانا، باپ کا چلا جانا، یہ بہت اہم ہے۔ ان چیزوں کو برداشت کر لینا بہت اہم ہے۔ انہوں نے تحمل کیا۔

ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کو اجر دے، توفیقات عنایت کرے۔ آپ سب کی حفاظت فرمائے۔ ان شاء اللہ کامیاب و کامران رہئے۔

  1. اس ملاقات کے آغاز میں جو شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی چوتھی برسی کے موقع پر ہوئی شہید سلیمانی کی بیٹی محترمہ زینب سلیمانی نے نوجوان نسل میں شہید سلیمانی کی خصوصیات منتقل کرنے کے لئے انجام پانے والے ثقافتی و فنی اقدامات کی رپورٹ پیش کی۔
  2. شہید سلیمانی کے خانوادے کی ایک فرد
  3. سردار اسماعیل قاآنی اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر
  4. شہید سلیمانی کی اہلیہ