یہ چیز کافی وقت سے چل رہی تھی۔ ٹرمپ کی احمقانہ حرکتیں، جو زیادہ تر ان کے یہودی اور سفید فام مسیحی ڈونروں کی ترغیب کا نتیجہ ہوتی تھیں، قابض سامراجی حکومت کے لیے ایک موقع کے طور پر سامنے آئیں۔ بائیڈن کی جانب سے اسی منصوبے کو آگے بڑھا کر، جو ایک بار پھر امریکا میں لابی کے مفادات کی چال تھی، اسے مضبوط کرنے کی کوشش کی گئي لیکن استقامتی محاذ چوکنا تھا۔
خلیج فارس کے عمائدین کے ہاتھوں فلسطینیوں کو جس غداری کا سامنا کرنا پڑا، اس نے انھیں کچھ دیر کے لیے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ نام نہاد ابراہیم معاہدہ، فلسطینیوں کے خون سے لکھا گیا۔ غلط طریقے سے یہ سوچ لیا گیا تھا کہ فلسطینی اسے پوری طرح قبول کر لیں گے۔ سفارتی زبان میں کہا جائے تو خیانت اور غداری، منافقوں کا وطیرہ رہا ہے۔ تاہم زیادہ دیر تک مایوس ہونے کے بجائے فلسطینیوں نے استقامتی محاذ کی مدد سے ایک جوابی کارروائي کی تیاری کی اور یہ کیسی شاندار تیاری ثابت ہوئي۔ موجودہ حالات کو اسی شکل میں باقی رکھنے کی پوری سازش کو، جس کے تحت صیہونی شاندار زندگی گزارتے رہیں جبکہ فلسطینی غاصبانہ قبضے میں بدحالی کی زندگي گزاریں، ناکام بنا دیا گیا اور مسئلۂ فلسطین کو ایک بار پھر سب سے اوپر لاکر کر رکھ دیا گيا۔
اس بات نے خلیج فارس اور دیگر اسلامی ممالک کے سامنے صرف ایک انتخاب ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ وسیع و عریض اسلامی دنیا میں اپنی ساکھ کھونے کی قیمت پر صہیونیوں سے روابط قائم کریں۔ یہ موجودہ سیٹ اپ کو بدلنے کا بھی اچھا وقت ہے جس میں کچھ ممالک صرف اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے خود کو عالم اسلام کا قائد سمجھتے ہیں۔ یہ ماڈل ناپائیدار ہے۔ عالم اسلام کے اندر ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ جو ممالک، اپنے مفادات کو عالم اسلام کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں، انھیں عالم اسلامی کی سربراہی کا کوئی حق نہیں ہے۔ اب ایک ایسا ڈھانچہ بنانے کا وقت آ گیا ہے جس میں فیصلے، جمہوری طریقے سے کیے جائيں اور جس میں فیصلے ان لوگوں کی خواہش کے مطابق کیے جائيں جن کے نام پر عالم اسلام میں مقام اور پوزیشن حاصل کی جاتی ہے۔

میں اصل موضوع سے ذرا ہٹ گیا، آئيے اس راستے کے بارے میں بات کرتے ہیں جو فلسطینیوں کے سامنے ہے۔ نام نہاد دو ریاستی فارمولے کا عفریت اب اپنی موت مر چکا ہے۔ وہ مٹھی بھر زمین جو مغرب فلسطینیوں کو دینا چاہتا تھا، اسے لینے کے لیے اب کوئي تیار نہیں ہے سوائے ان معدودے بدعنوان افراد کے جو غاصبوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ اوسلو معاہدے پر صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں نے بدنیتی کے ساتھ دستخط کیے تھے۔ فلسطینیوں نے نیک نیتی سے دستخط کیے تھے لیکن ان کی سادگي کے سبب ان کے ساتھ دھوکا ہو گيا۔ وہ معاہدے اور قراردادیں جن پر مغربی دنیا نے دستخط کیے ہیں، ان کی قدروقیمت ان کاغذوں جتنی بھی نہیں ہے جن پر دستخط ہوئے ہیں۔ ایسے معاہدے ہمیشہ بدنیتی سے ہی کیے جاتے ہیں۔ ان کی دو تازہ مثالیں ایران کے ساتھ ہوا ایٹمی معاہدہ (جے سی پی او اے) اور مینسک کا معاہدہ ہے۔ ان دونوں ہی معاملوں میں پوری کی پوری ڈیل مغربی راجدھانیوں کی جانب سے بدنیتی سے کی گئي۔ جے سی پی او اے سے ٹرمپ کا باہر نکلنا اور بائيڈن کی لاتعلقی، اس بات کا ثبوت ہے کہ ان ملکوں میں نام نہاد داخلی جمہوریت صرف ایک فریب ہے۔ مینسک معاہدے کے معاملے میں، فرانس اور جرمنی کے حکام نے، جو اس معاہدے کے بنیادی محرک اور روح رواں تھے، باضابطہ طور پر یہ بات کہی کہ انھوں نے بدنیتی سے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اگر یہی ان کا عقیدہ ہے تو پھر وہ کس طرح سے یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ اوسلو معاہدے سے بہتری کا امکان ہے؟
یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ غاصب استعماری حکومت سفارت کاری پر یقین نہیں رکھتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو بھی مقبوضہ علاقہ، صیہونیوں کے چنگل سے آزاد ہوا ہے، وہ سفارت کاری سے نہیں بلکہ مسلحانہ مزاحمت سے ہی آزاد ہوا ہے۔ یہ چیز ہم نے یہ لبنان میں دیکھی ہے اور اس کے علاوہ غزہ میں دیکھ چکے ہیں۔ یہ چیز فلسطینیوں کو امید عطا کرتی ہے کہ اگر خطے کے رہنماؤں نے سفارتی محاذ پر فلسطین کے ساتھ غداری کی ہے تب بھی مزاحمتی محاذ، ان غدار رہنماؤں سے الگ اور آزاد ہے اور اس کی جڑیں اس انقلابی جذبے میں پیوست ہیں جو 1979 کے اسلامی انقلاب سے ملا ہے۔
اس مسئلے کا واحد قابل عمل حل، نہر سے بحر (دریائے اردن سے بحیرۂ روم کے درمیانی علاقے) تک ایک جمہوری ریاست کی تشکیل ہو جس میں تمام مذاہب کے پیروکار مقامی باشندوں کو مساوی حقوق اور مواقع حاصل ہوں جبکہ دنیا کے گوشہ و کنار سے یہاں لا کر  بسائے گئے لوگوں سے وہیں واپس جانے کا مطالبہ کیا جائے جہاں سے وہ آئے تھے۔ یہ حل دو مقاصد پورے کرتا ہے۔ اول یہ کہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے تمام فلسطینیوں کو اپنا ملک اور وسائل واپس مل جائیں گے۔ دوسرے یہ کہ تمام مغربی دارالحکومتوں کو جو باہر سے آ کر فلسطین میں آباد ہونے والے سیٹلرز کے لیے عوامی سطح پر اتنی محبت کا دعوی کرتی ہیں، اپنی محبت کا عملی ثبوت دینے کا موقع ملے گا۔ انھیں ان غاصبوں کو اپنی زمینوں میں دوبارہ بسانے اور ان کے 'ٹیلنٹ' سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔ حساب کتاب کا دن آنے والا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ موقع ملنے پر مغربی ممالک اپنی محبت کا عملی ثبوت پیش کریں گی۔
وہ دن لانے کے لئے مزاحمتی محاذ کو پہلے فلسطین کی مقبوضہ زمینوں سے غاصبوں کو باہر کرنا ہوگا۔ مزاحمتی فورسز کی آپریشنل اور اسٹریٹیجک کامیابی سے سراسیمہ صیہونی حکومت غزہ کے بچوں اور عورتوں پر اپنا غصہ نکال رہی ہے اور اپنی 'مشہور بہادری' کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس سے مغربی رہنماؤں کا اصلی چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوا جو اپنی اپنی حکومتوں میں صیہونیوں کے مفادات کی پاسبانی کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی اسلامی دنیا کے ان عمائدین کے چہرے سے بھی نقاب ہٹ گئی جو باتیں تو خوب کرتے ہیں لیکن عمل کی باری آئے تو ناپید ہو جاتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اسی طرح دوسروں نے بھی صیہونیوں کو قانون سے بے خوف ہوکر شہریوں کے قتل کی جو کھلی چھوٹ دی ہے وہ دنیا کی یادداشت میں درج ہو گئی ہے۔ جب حساب کتاب کا وقت آئے گا تب انہیں اپنے جرائم کا حساب دینا پڑے گا۔ 
مزاحمتی محاذ کے جانبازوں کا سامنا کرنے سے خوفزدہ قابض حکومت بڑی بے رحمی سے بچوں اور عورتوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ زمینی آپریشن کی بھی دھمکی دے رہی ہے۔ حالانکہ یہ بہت خونریز مرحلہ ہوگا لیکن جو بات اسے پتہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ مزاحمتی فورسز اس کا انتظار کر رہی ہیں اور نئے جوش کے ساتھ انتظار کر رہی ہیں۔
      (اس مضمون میں بیان کردہ خیالات مصنف کے اپنے ہیں، khamenei.ir کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)